دادی جان کا آنگن

عید، قربانی اور حج

تو ہمارے محمود میاں نے اس بار اپنے بکرے کا کیا نام سوچا ہے؟ دادی جان بھی قربانی کے بکرے کو دیکھنے آگئیں جو ابا جان ابھی ابھی لائے تھے۔

دادی جان اس بار بھی ہم نے اس کا نام ببلو ہی رکھا ہے۔ محمود بولا

احمد: دادی جان اس کے ذبح ہونے کا سوچ کر ہمیں تو ابھی سے اداسی ہورہی ہے۔ آپ کو یاد ہے کہ محمود پچھلے سال پورا ہفتہ اداس رہا تھا؟

گڑیا: جی ہاں!لیکن محمود نے وعدہ کیا ہے کہ اس سال وہ اداس نہیں ہوگا۔

جی میں کوشش کروں گاکہ اداس نہ ہوں۔ محمود روہانسا ہوا تو سب کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔

شاباش ! دادی جان نے محمود کے سر پر ہاتھ پھیرا جو بکرے کی رسی پکڑے خوش ہورہا تھا۔

بچے شام تک بکرے سے خوب کھیلے۔ رات کو جب سونے کے لیے لیٹے تو دادی جان نے کہا:محمود بیٹا آپ نے اپنے ببلو کے کھانے پینے کا انتظام تو کیا تھا ناں!

محمود: جی دادی جان ہم نے چارہ رکھ دیا تھا۔ اباجان چارے میں لوسن لائے تھے۔ ببلو کو تازہ لوسن بہت پسند ہے۔

دادی جان آپ نے ہمیں حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیھم السلام کی کہانی تو سنائی ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم قربانی کیوں کرتے ہیں۔ اگر یہ قربانی کی عید ہے تو حج کیا الگ چیز ہے؟ گڑیا نے سوال پوچھا۔

دادی جان:ہمم! بہت اہم سوال ہے یہ۔ بیٹا اسلام کا پانچواں بنیادی رکن حج ہے۔رکن کا مطلب کیا ہے بھلاگڑیا؟

ستون۔ گڑیا نے سوچ کر جواب دیا۔

دادی جان: ستون جیسے ایک عمارت ستونوں پر یا پلرز (pillars)پر کھڑی ہوتی ہے اسی طرح گویا دینِ اسلام کی عمارت بھی جن ستونوں پر کھڑی ہے ان میں سے پانچواں حج ہے۔

دادی جان کھانستے ہوئے بولیں:حج کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ حج کی تین شرائط ہیں۔ حج کے لیے آپ کے پاس سفر خرچ ہو، آپ کی صحت اچھی ہو اور راستہ پُر امن ہو۔ جن کے پاس یہ شرائط پوری کرنے کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے اپنے مقام پر عید مناتے ہیں۔

احمد: اچھا تو جو حج پر نہیں جاتے ،وہ قربانی کرکے شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے قربانی کی عید کہتے ہیں۔ لیکن دادی جان جو حج کرنے کی خواہش رکھتے ہوں اور حج نہ کر سکیں تو وہ کیا کریں؟

دادی جان: ہمم! اچھا سوال ہے۔ چلیں مجھے ایک صوفی کا قصہ یاد آگیا۔

ایک صوفی بزرگ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ ایک سال حج کے لیے گئے۔ آپ ادائیگیٔ حج کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سو گئےتو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے باتیں کر رہے ہیں، ایک نے دوسرے سے پوچھا: اس سال کتنے لوگوں نے حج کیا؟ دوسرے نے جواب دیا: چھ لاکھ آدمی حج کے لیے آئے تھے۔ پہلے تو کسی کا حج قبول نہ ہوا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے دمشق کے ایک موچی کے طفیل جو اس سال حج میں شامل بھی نہ ہو سکا، سب کے حج قبول فرما لیے۔

محمود: لیکن دادی جان بغیر عمل کے نیکی کیسے قبول ہوگئی؟

دادی جان: اس سوال کا جواب بھی آئے گا۔ بیدار ہونے کے بعد وہ صوفی بڑے حیران ہوئے۔ اور دمشق کی جانب روانہ ہو گئے تاکہ اس شخص سے حقیقت دریافت کریں۔ دمشق پہنچنے پر اس کو تلاش کیا۔ اسے تمام خواب سنایا اور اس سے اس کے عمل کے بارے میں پوچھا۔ وہ یہ تمام باتیں سن کر رونے لگا اور کہنے لگا: حضرت! میں تیس سال سے حج کی خواہش رکھتا تھا ، چنانچہ جوتیوں میں پیوند لگا لگا کر زادِ راہ جمع کرتا رہا۔ اس سال جب کہ میرے پاس تین سو درہم جمع ہوگئے تو میں نے حج پر جانے کا ارادہ کیا۔ ایک رات میری بیوی نے مجھ سے کہا:ہمسائے کے گھر سے سالن کی خوشبو آ رہی ہے اور میرا دل بھی کھانے کو چاہ رہا ہے۔ چنانچہ پڑوسی سے کچھ کھانا مانگ لاؤ۔ میں اپنے ہمسائے کے پاس پہنچا اور اس سے کھانا مانگا تو اس نے کہا: یہ کھانا ہمارے لیے تو حلال ہے لیکن آپ کے لیے نہیں۔

احمد: دادی جان یہ کون سا کھانا ہے جو ایک کے لیے حلال اور دوسرے کے لیے حرام ؟

دادی جان: آگے تو سنیںاحمد میاں!اس موچی نے اپنےپڑوسی سے سبب پوچھا تو اس نے بتایا:کئی دن ہو گئے ہمارے گھر کچھ کھانے کو نہیں۔ میرے بچے بھوکے تھے اس لیے میں جنگل کی جانب اکیلا نکل گیا۔ وہاں ایک مردار(مردہ جانور)پڑا ہوا تھا۔ میں اسی کا گوشت لے آیا اور وہی ہم پکا رہے ہیں۔ موچی نے کہا کہ جب میںنےیہ سنا تو میرے جسم کا رواں رواں کانپ اٹھا۔ اسی وقت گھرگیا اور 300 درہم لا کر اُسے دیے اور اُسے کہا کہ اِسے خرچ کر لو ،میں اِسی کو حج سمجھ لوں گا، بس میرا یہی عمل ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔

گڑیا: صدر صاحبہ لجنہ نے بھی بتایا تھاکہ بعض لوگ صرف دکھاوے کے لیے حج اور قربانی کرتے ہیں لیکن ان کا معاملہ اللہ کےساتھ ہوتا ہے۔

دادی جان: بیٹا اللہ تعالیٰ دلوں کے حال جانتا ہے۔ جیسا کہ ابھی بتایا کہ صرف نیت پر بھی حج کا ثواب مل جاتا ہے۔ اس بات سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک ہندوستانی نوجوان کو دورانِ حج دیکھا۔ احمدبیٹا کب حج کیا تھا حضرت مصلح موعودؓ نے ؟ کل پرسوں ہی آپ یاد کر رہے تھے۔

احمد: 1912ء میں۔

دادی جان: شاباش۔ تو ان کے ساتھ جو نوجوان تھا وہ تکبیرات کی بجائے عشقیہ اَشعار گُنگنا رہا تھا۔ واپسی کے سفر میں وہ حضور ؓکو جہاز میں نظر آیا۔ حضور نے اُس سے حج کرنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں جہاں ہماری دکان ہے اُس کے بالمقابل ایک اور شخص کی دکان بھی ہے۔ وہ حج کرکے گیا اور اُس نے اپنی دکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ تُو بھی حج کر آ۔ تاکہ واپس آکر تُو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دکان پر لگا سکے۔ تو بچو، اللہ تعالیٰ ایسے حج قبول نہیں فرماتا اور نیت پر ثواب دیتا ہے۔

دادی جان ہم تو ببلو کو قربان کر لیں گے، پاکستان کے احمدی اس سال بھی؟ محمود پریشان ہوتے ہوئے بولا۔

دادی جان: اُن کےلیے تو ہم سب دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کا اجر دے۔ کیونکہ قربانی صرف گوشت اور خون کا نام نہیں اور نہ یہ خدا کو پہنچتے ہیں۔ اصل نیت اور تقویٰ ہےجس کا ثواب اور اجر ملتا ہے۔

احمد: دادی جان آج صبح فجر سے تکبیرات بھی شروع ہوئی ہیں۔ ہم یہ کیوں پڑھتے ہیں؟

دادی جان: رسول اللہ ﷺ حج کے ایام میں گو وہ حج پر نہ بھی جاتے تو اللہ تعالیٰ کی توحید اور بڑائی بیان فرماتے۔ اس کا ایک اظہار یہ کلمات ہیں۔

محمود: دادی جان مجھے بھی یہ تکبیرات سکھائیں۔

دادی جان: چلیں ہم یہ تکبیرات پڑھتے ہیں اور پھر سوجاتے ہیں۔ صبح عید کی تیاری بھی کرنی ہے ناں! چلیں میرے پیچھے پیچھے دہرائیں۔

اَللّٰهُ أَكْبَرُ ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ

وَ اللّٰهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button