کوٹلی شہر (آزاد کشمیر) میں جماعت احمدیہ کی مسجد پر حملے اور فائرنگ کے واقعہ میں مینار اور محراب کو شہید کر دیا گیا
عیدالاضحی پر پاکستان میں انتظامیہ کی ہٹ دھرمی برقرار، عید کی ادائیگی اور قربانی کرنے کی اجازت نہ دی
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مورخہ ۱۶ اور ۱۷؍جون ۲۰۲۴ء کی درمیانی شب قریباً پونے تین بجے آزاد کشمیر کے معروف شہر کوٹلی میں موجود جماعت احمدیہ کی مسجد پر اندازاً ڈیڑھ سوافراد پر مشتمل ایک ہجوم نے حملہ کر دیا۔ اس افسوس ناک واقعے میں پُرتشدّد ہجوم نے فائرنگ کی اور مسجد کے محراب اور مینار کو شہید کر دیا۔
واضح رہے کہ جماعت احمدیہ کو آج سے قریباً نصف صدی قبل پاکستان میں “ناٹ مسلم” قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ قانون میں کی جانے والی اس قابل مذمت ترمیم کے دس سال بعد بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے صدارتی آرڈیننس نمبر بیس بعنوان “امتناع قادیانیت آرڈیننس” متعارف کروایا جس کے مطابق احمدی مسلمان اپنے آپ کو مسلمان ظاہر بھی نہیں کر سکتے۔
جماعت احمدیہ خلافتِ احمدیہ کے بابرکت سائے میں اسلامی تعلیمات پر کاربند ایک پُرامن جماعت ہے جس کا وطیرہ ایسے پُرتشدّد واقعات کے جواب میں قانون کے دامن کو تھامے رکھنا، ہر حالت میں پُر امن رہنا اور اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرتے ہوئے معاملات اُسی پر چھوڑ دینا ہے۔
جمعۃ المبارک مورخہ ۱۴؍جون ۲۰۲۴ءکو امام جماعت احمدیہ عالم گیر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پاکستان میں احمدی مسلمانوں کے خلاف چلنے والی تشدّد کی حالیہ لہر کے پیش نظر دُعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:مَیں پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ ان پر آج کل پھر سختیاں وارد کی جارہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد پاکستانی احمدیوں کو بھی ان ظالموں سے نجات دلائے۔ اور وہاں بھی ہمارے حالات بہتر ہوں۔ (آمین) ذرا ذرا سی بات پر مقدمے اور تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے سے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے پُرتشدّد واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی اور محب وطن پاکستانی احمدیوں کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عبادات سے روکا گیا۔
پاکستان میں بالعموم اور پنجاب کے تقریباً ہر ضلع میں شرپسند عناصر کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروںنے احمدیوں کو ہراساں کیا۔ عید سے ایک روز قبل پنجاب میں پولیس نے سات احمدیوں کو بکروں سمیت حراست میں لے لیا۔ انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کو چاردیواری میں بھی مذہبی شعائر پر عمل کرنے کی اجازت نہ دے کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی واضح خلاف ورزی کی گئی۔
جماعت احمدیہ کے مرکزی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ عید الاضحی کے موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے زبردستی روکنے،احمدیوں کو ہراساں کرنے اور سرکاری انتظامیہ کی جانب سے ماورائے قانون اقدامات قابل افسوس اور شرمنا ک ہیں۔ سرکاری انتظامیہ کی جانب سے بلاجواز احمدیوں کی نظر بندی، زبردستی شورٹی بانڈز لینے اور قربانی کرنے سے روکنے کے اقدامات آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۰ اور جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ کے۱۲؍جنوری ۲۰۲۲ء کو دیے گئے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ سپریم کورٹ نے Cr1.P.916-L/2021میں قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔ تاہم اس سا ل احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکنے کے واقعات میں گذشتہ سال کی نسبت زیادہ شدت محسوس کی گئی۔
۱۶؍ جون کومزید سات احمدیوں کو بکروں سمیت پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ندیم آباد ڈسکہ سیالکوٹ میں ایک احمدی اور کھوکھرکی ضلع گوجرانوالہ میں ایک احمدی، نیز تھانہ موترہ ضلع سیالکوٹ میں پانچ احمدیوں کو بکروں سمیت پولیس نے حراست میں لے لیا۔پولیس کے یہ اقدامات سراسر غیرقانونی ہیں ۔ ریلوے کالونی لاہور میں پولیس ایک احمدی کے گھرمیں زبردستی داخل ہوئی اور ان کے اہل خانہ کو روایتی انداز میں ہراساں کیا۔ لودھی ننگل فیصل آباد میں پولیس ایک احمدی کے گھر زبردستی داخل ہوئی اور بکرے سمیت اسے حراست میں لے کرپولیس چوکی لے گئی اور وہاں اس احمدی کو مجبور کیا گیا کہ وہ پچاس ہزا کا بکرا پچیس ہزار میں انتہاپسندوں کو فروخت کرے۔اس میں سے بھی چھ ہزارپولیس اہلکاروں نے خود رکھ لیے۔ گوجرانوالہ میں ایک احمدی کے گھر میں دو ماہ کا بکرا تھا جو انہوں نے پالنے کی غرض سے رکھا تھا اس احمدی کو بکرے سمیت پولیس نے حراست میں لے لیا۔قبل ازیں چکوال میں ڈپٹی کمشنر نے بلا جواز تین احمدیوں کے ایک ماہ کے لیے نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔ گذشتہ روزسیالکوٹ میں ایک احمدی کو سات یوم کے لیے نظر بند کیا گیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر قائدآباد نے گذشتہ سال ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے خط کی بنیاد پر اس سال احمدیوں کے قربانی کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔نیزآزاد کشمیر میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ میر پور کی جانب سے سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ عید کے تین روز احمدی کسی قسم کا ذبیحہ یا قربانی وغیر ہ نہیں کریں گے۔اسی طرح کا حکم نامہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ کوٹلی کی جانب سے بھی جاری کیا گیا ہے جس میں یہ بھی درج ہے کہ احمدیوں پر عید الاضحی کے دوران جانوروں کی قربانی کرنے اور گوشت تقسیم کرنے پر پابندی ہے۔
انتہا پسندوں کے دباؤ پر پنجاب پولیس عید قربان کے موقع پر احمدیوں کو مسلسل ہراساں کیا گیا اور محب وطن اور پر امن احمدیوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ نہ تو نماز عید ادا کریں اور نہ ہی چاردیوار ی کے اندر قربانی کا فریضہ ادا کریں۔مختلف اضلاع میں احمدیوں کو تھانوں میں بلا کر دھمکایا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے چار دیواری کے اندر بھی قربانی کی تو تحریک لبیک کے شر پسند عناصر انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔لہٰذا احمدی اپنی سلامتی کی خاطر نماز اور قربانی کا فرض ادا نہ کریں۔
عیدِ قربان کے موقع پر احمدیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے امکان پر مبنی ایک تھریٹ الرٹ سرکاری اداروں کی جانب سے جاری ہونے کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے۔ قانون کے مطابق احمدی اپنی چاردیواری میں مذہب پر عمل کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کرے۔ اس وقت پاکستان بھر میں احمدیوں نے عید کے پرمسرت موقع پر عدم تحفظ محسوس کیا اور انہیں اپنی جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے سنگین خدشات رہے۔کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی بجائے مذہبی انتہا پسندوں کی خوشنودی کو ترجیح دی گئی۔
ترجمان جماعت احمدیہ پاکستان نے کہا ہے کہ مذہب کے مقدس نام کو استعمال کرتے ہوئے انتہا پسند عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والی پولیس کی جانب سے احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا موجب بن رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ شرارت کرنے والی متعصبانہ سوچ کو مسترد کیا جائے ۔ترجمان نے مطالبہ کیا کہ حراست میں لیے گئے احمدیوں کو فوری رہا کیا جائے اور احمدیوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔