کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے

قرآن شریف کی اصطلاح کی روسے خداتعالیٰ کانام رحمٰن اس وجہ سے ہےکہ اُس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کےمناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھراس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کےلئے مہیا کیں۔ پرندوں کےلئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کےلئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کےلئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں۔ پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی۔ ہاں انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہےکیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہورہی ہے اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمٰن ہے۔

(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۴۹،۲۴۸)

مَیں جس کوچاہتا ہوں عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے سو میں اُن کے لیے جو ہر یک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور نیز اُن کیلئے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۵۶۴)

قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَرَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (الاعراف: 157) پس اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے۔ اور غضب یعنی صفت عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے یعنی یہ صفت قانون الٰہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اِس کے لئے ضرور ہے کہ اوّل قانون الٰہی ہو۔ اور قانون الٰہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرناچاہتی ہے۔

(جنگ مقدس، روحانی خذائن جلد ۶ صفحہ ۲۰۷)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button