ہم مسجدیں بنارہے ہیں تاکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کے بعد اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو بہتر کریں
خلاصہ خطبہ جمعہ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ25؍اکتوبر2019ء کومہدی آباد، ہامبرگ، جرمنی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت محترم شاہد نواز صاحب( متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی ) کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ الحج کی آیت 42 کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس آیتِ کریمہ کا درج ذیل ترجمہ پیش فرمایا:
یعنی وہ لوگ کہ اگر ہم اُن کو دنیا میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بری باتوں سے روکیں گے، اور سب کاموں کا انجام خداکے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےاس طرف توجہ دلائی ہے کہ حقیقی مومن کم زوری اور بےچینی کے بعد امن ملنے کی صورت میں نمازوں اور مسجدوں کی آبادکاری اور انسانیت کی خدمت کرنےوالے ہوتے ہیں۔ جو کام اللہ تعالیٰ کی خشیت کو دل میں رکھ کر کیا جائے اس کا انجام بہتر ہی ہوگا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ اصولی بات اگرہم میں سے ہرایک سمجھ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنےوالے بنتے چلےجائیں گے۔
سو مساجد کی تحریک کے ذیل میں نَو تعمیر شدہ تین مساجد کے افتتاح کے متعلق سیّدنا امیر المؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جماعت جرمنی مالی قربانی کر رہی ہے،اس کے ساتھ ہم نے اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنےہیں۔ پاکستان سے ہجرت کے بعد مالی حالات کی بہتری ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اوراس کے گھر تعمیر کریں۔
پاکستان میں ہمیں مذہبی آزادی نہیں،وہاں کا قانون ہمیں مساجد بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں ہم مسجدیں بنارہے ہیں تاکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کے بعد اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو بہترکریں۔ یہ سوچ ہے جس پر یہاں رہتے ہوئے ہر احمدی کو بھرپور عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مقصد مسجدیں بنانے سے پورا نہیں ہوگا بلکہ اس وقت پورا ہوگا جب وہ خالص ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیں گے۔ اپنی نمازوں کو قائم کریں گے۔ باجماعت نمازوں کےلیے مسجد آئیں گے۔ اس بات کی حقیقت کو سمجھیں گے کہ نماز میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام متقی کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مومن نماز کھڑی کرتے ہیں یعنی کبھی نماز گِر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں۔ متقی خداتعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے۔ دلوں کے وسوسے اور خیالات جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ پھیرتے ہیں یہی نماز کا گِرنا ہے۔ تقویٰ یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوشش کرکے پھر نماز کو کھڑاکریں،اپنی توجہ دوبارہ نماز کی طرف لےکر آئیں۔
پھر حضرت مسیح موعودؑ ہدایت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب نماز کے کھڑی کرنے کی کوشش کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ ہدایت حاصل کرنے کےبعد نماز بمنزلہ غذا ہوجاتی ہے۔ حضورِ انور نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح مادی غذا کے بغیر زندگی نہیں رہتی اسی طرح نماز کےبغیربھی زندگی نہیں رہتی۔ نماز میں وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے۔حقیقی مومن کےلیے نماز ایک قسم کا نشہ ہوجاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب محسوس کرتا ہے۔ الفاظ میں وہ لذت بیان نہیں ہوسکتی جوحقیقی نماز پڑھنے والے کو لذت ملتی ہے۔نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس اگر ہماری مسجدیں بنیں تو ایسی بنیں ۔یہی وہ ذریعہ ہے جو خداتعالیٰ تک لےجاتا ہے۔مسلسل کوشش سے اللہ تعالیٰ یہ مقام دیتا ہے۔ نماز میں وساوس پیدا ہونے اور لذت و رقّت میسر نہ ہونے کہ متعلق ایک شخص کے سوال پرحضورؑ نے فرمایا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ انسان ایسے وساوس کامغلوب نہیں ہوتا۔نفسِ امّارہ والے کو تو خبر ہی نہیں ہوتی کہ بدی کیا شئے ہے،وہ تو بدیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ نفسِ لوّامہ ہے جو بدی کرتا ہے پر بدی پر ہمیشہ گھبراتا ہے اور شرمندہ ہوتا ہے، توبہ کرتا رہتاہے۔ایسا شخص نَفس کا غلام نہیں ہے۔ سجدے میں یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ بہت پڑھاکرو۔ جلد بازی خطرناک ہے، اسلام انسان کو بہادر بناتا ہے۔جو جلدبازی دکھاتا ہے وہ بہادر نہیں،بزدل ہے۔ حضورِ انورنے فرمایا کہ یہ اصولی بات ہمیشہ یاد رکھنے والی ہے کہ جلدبازی نہیں کرنی،مستقل اللہ تعالیٰ کو پکڑے رکھنا ہے۔ آخر ایک دن شیطان ہار مان کر بھاگ جائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے مانگنے کےکچھ طریقے اور اصول ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔نمازوں میں دعائیں اور دُرود عربی زبان میں ہیں۔مگر تم پر یہ حرام نہیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگا کرو۔ نماز وہ ہے جس میں تضرع اور حضورِ قلب ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں جن میں تضرع ہو چنانچہ فرمایا اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَات یعنی نیکیاں بدیوں کو دُور کرتی ہیں۔ یہاں حسنات کےمعنی نماز کےہیں اور حضور اور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے دعائیں سکھائی ہیں وہ بڑی ضروری ہیں۔ ان میں سے بہترین اور جامع دعا سورۃ فاتحہ ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے اھدنا الصراط المستقیم اس کے معنی بہت وسیع ہیں ۔ خداتعالیٰ کے صراطِ مستقیم کی تلاش کرو۔ادنیٰ اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خداسے مانگو کہ اصلی معطی وہی ہے۔ نمازکا دوسرا نام ہی دعاہے جیسا کہ فرمایا مجھے پکارو مَیں تمہاری دعائیں سنوں گا۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر شک کرتے ہیں، وہ فرماتا ہے کہ میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو،مجھ سے دعامانگو، مَیں تمہیں پکاروں گا،جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔ پس خدا کی ہستی کا سب سے زبردست ثبوت یہی ہے کہ ہم اس کی آواز سن لیں یا دیدار یا گُفتار ۔جب تک خدا کے اور سائل کے درمیان حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔حضورِ انور نے فرمایا پس یہ درمیانی پردے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تو مَیں اس کی طرف دوقدم آتاہوں۔ بندہ چل کر آتا ہے تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں۔ پس اگر نقص ہے تو ہمارے میں ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے کے بعد صرف آپؑ کی ایک بات پر عمل کرنا کہ مساجد بناؤ تاکہ اسلام کا تعارف ہو یہ کافی نہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیداہوتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگالے تو ترقی ہوتی ہے۔ مگر یہ مقدّم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امدادِ الٰہی کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں،انجام کار رہ نمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بِدوں کوشش اور آب پاشی کے بے برکت رہتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے تو فضلِ الٰہی وارد نہیں ہوگا۔ بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی ناممکن ہے۔ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے لیکن اس کےلیے امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے۔ اسی کےلیے ایاک نعبد اور ایاک نستعین کی دعا سکھائی گئی ہے۔ یہ اشارہ ہے نعبد کی طرف کہ جو شخص نری دعا کرتا ہے اور جدوجہد نہیں کرتا وہ بہریاب نہیں ہوتا۔ اگر بیج بوکر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے۔
بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امدادِ الٰہی نہیں ملتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں۔ نماز کی حقیقت بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ نماز اصل میں دعا ہے۔ اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کےلیے تیار رہے کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جب یہ حالت ہم اپنے اندر پیداکرلیں کہ ہماری نمازیں اور ہمارے عمل بھی خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنےکےلیے ہوجائیں تو پھر خداتعالیٰ بھی ہمارے خوفوں کو ہمیشہ امن میں بدلتا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترکِ نماز ہے۔ نماز باجماعت پڑھنے والے کا ثواب پچیس گنا اور بعض جگہ ستائیس گنا بیان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر بغیر کسی عذر کے اس طرف ہم توجہ نہ دیں تو پھر ہماری کس قدر بدقسمتی ہے۔ پس اگر ہم نے مساجد بنائی ہیں تو مسجدوں کے حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہاں کے ماحول میں برائیوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارا عہدِ بیعت صرف لفظی عہدِ بیعت ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ مَیں کثرتِ جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہوسکتی ہے جب بیعت کی حقیقت پر کاربند ہو۔
اللہ تعالیٰ بڑا ستّار ہے وہ انسانوں کے عیوب پر ہرایک کو اطلاع نہیں دیتا۔ پس انسان کو چاہیے کہ نیکی میں کوشش کرے اور ہروقت دعا میں لگا رہے۔
خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے اس مسجد کے بعض کوائف پیش فرمائے۔ یہ زرعی زمین جماعت نے 1989ء میں خریدی تھی۔ یہاں قائم ہونے والی مسجد دو منزلہ ہے جس کا مسقّف حصہ 385مربع میٹر ہے اور اس میں 210نمازیوں کی گنجائش ہے اور یہ تقریباً پانچ لاکھ ستّر ہزار یورو میں تعمیر ہوئی ہے۔
آخر میں حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں برکت عطافرمائے اور اس مسجد کی تعمیر کےبعد عبادت کا حق پہلے سے بڑھ کر ادا کرنے والے ہوں۔ آمین
٭…٭…٭