الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

…………………………

دو احمدیوں مکرم بشیر احمد صاحب اور مکرم راجہ عبدالحمید خانصاحب کی شہادت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 23؍اکتوبر 2012ء کی رات کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں دو احمدیوں کو شہید کردیا گیا۔پہلے 40سالہ ہومیوپیتھ ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا یا گیا اور اس واقعہ کے دس منٹ بعد مکرم بشیر احمد صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم کو فائرنگ کرکے شہید کر دیاگیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26؍اکتوبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں ہر دو شہداء کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ شہید بشیر احمد بھٹی صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑنانا مکرم میاں محمد اکبر صاحب کے ذریعہ سے ہوا جن کے گاؤں سے ایک وفد نے قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور واپسی پر اُن احمدیوں کے ذریعہ گاؤں کے کئی لوگوں نے بیعت کی جن میں سے ایک شہید مرحوم کے پڑنانا تھے۔ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق باجوڑی چار کوٹ کشمیر کے ساتھ تھا۔ پھر بشیر صاحب سندھ میں ناصر آباد سٹیٹ میں بھی کچھ عرصہ آباد رہے۔ ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ اپنی دکان میں رات تقریباً 9بجے بیٹھے ہوئے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے جن میں سے ایک نے آپ پر تین گولیاں فائر کیں جن میں سے ایک گولی گردن اور دوسری گولی سینے میں لگی۔ اُن کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر آپ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی عمر تقریباً 67سال تھی۔ کشمیر میں ان کی پیدائش ہوئی۔ اَن پڑھ تھے، ناخواندہ تھے، محنت مزدوی کیا کرتے تھے۔ 1984ء میں کراچی شفٹ ہو گئے۔پھر فیکٹریوں میں کام کرتے رہے اور ساتھ اپنے گھر چھوٹی سی پرچون کی دوکان کھولی ہوئی تھی۔ اولاد کی تربیت بڑی احسن رنگ میں کی۔ ان کا ایک پوتا عزیزم عمران ناصر پچھلے سال جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے گیا تو آپ نے اُسے دین کی خدمت کی نصائح کیں۔ نظام جماعت سے مکمل تعاون کرتے تھے۔ خلافت کی محبت میں اُن کا دل گداز تھا۔ اہلیہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

شہید مرحوم کے والد مکرم شاہ محمد صاحب پاکستان بننے سے قبل کشمیر میں ہی وفات پاگئے تھے جبکہ والدہ نا صر آباد آکر فوت ہوئیں۔ آپ تین بہن بھائی تھے، بڑی بہن وفات پاچکی ہیں جبکہ چھوٹی بہن سرگودھا میں مقیم ہیں۔

دوسرے شہید مکرم راجہ عبدالحمید خانصاحب کے والد مکرم عبدالعزیز خان صاحب نے ممبئی سے ایم بی بی ایس کیا۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کراچی آگئے اور پولیس ہیڈکوارٹر کراچی میں بطور سرجن متعیّن رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بلدیہ ٹائون میں اپنا کلینک شروع کردیا۔

مکرم ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خانصاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا کہ 1994ء میں محترم سید محمد رضا بسمل صاحب جو کہ ضلع کراچی کے معروف داعی الی اللہ اور صاحب علم بزرگ ہیں اُن کا رابطہ ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خانصاحب شہید کے والد مکرم ڈاکٹر عبدالعزیز خان صاحب سے ہوا۔ سوال و جواب کی کئی محفلیں ہوئیں جن کے بعد ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خانصاحب شہید کو 1994ء میں بیعت کرکے جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ان کے والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کرلی۔ شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق افغان قبیلے یوسف زئی سے ہے۔ آپ کے دادا مکرم عبدالحمید خانصاحب (جن کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا) حیدرآباد دکن کے نواب کے چیف سیکرٹری تھے۔ شہید مرحوم 1972ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور آپ نے بلدیہ ٹاؤن سے ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر نیوی سے انٹرن شپ کر کے نیوی میں بطور سویلین فورمین بھرتی ہوگئے۔ چونکہ ڈیوٹی سے واپس آکر اپنے والد صاحب کے ساتھ اُن کے کلینک میں بیٹھا کرتے تھے اس لئے لوگ اِن کو ڈاکٹر کہتے تھے۔ 23؍ اکتوبر کی رات پونے نو بجے دو موٹرسائیکل سوار آئے۔ ایک شخص موٹرسائیکل پر ہی سوار رہا جبکہ دوسرا کلینک میں داخل ہوا اور اُس نے پستول سے آپ پر تین فائر کئے۔ ایک گولی آپ کے بائیں گال پر لگی اور دائیں جانب گال کے اوپر سے ہی باہر نکل گئی جبکہ دوسری گولی ٹھوڑی پر نیچے کی جانب لگی۔ ایک گولی بائیں کندھے پر لگی جو کمر سے باہر نکل گئی۔ ان گولیوں کے لگنے سے آپ موقع پر شہید ہوگئے۔

شہید مرحوم اپنے حلقہ کی جماعت میں بطور سیکرٹری تربیت نَومبائعین خدمت بجا لا رہے تھے اور شعبہ دعوت الی اللہ کے نگران تھے۔ بڑے ہمدرد، بااخلاق مزاج کے حامل تھے۔ چہرہ پر ہمیشہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ رہتی۔ بڑی دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ آپ ایک انتہائی خیال رکھنے والے اور محبت کرنے والے شوہر اور شفیق باپ تھے۔ دین کی خدمت اور اطاعت، خلافت سے محبت آپ کی خوبیوں میں سے نمایاں خوبیاں تھیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ نصرت حمید صاحبہ (بنت مکرم سید احمد علی شاہ صاحب) بتاتی ہیں کہ بلدیہ ٹاؤن میں ہونے والی شہادتوں کی وجہ سے علاقہ میں تناؤ تھا۔ شہید مرحوم شہادت سے ایک روز قبل مجھے کہنے لگے کہ کچھ احمدی گھرانے حالات کی وجہ سے یہاں سے شفٹ ہو رہے ہیں، اس طرح تو دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی آپ پر رقّت طاری ہوگئی اور کہنے لگے لیکن مَیں نہیں ڈرتا۔ میری خواہش ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاؤں۔ نیز کہا کہ کہیں آپ ڈر کا شکار تو نہیں ہیں؟ مَیں نے کہا کہ نہیں، مَیں بھی نہیں ڈرتی بلکہ مجھے بھی آپ کے لئے اور اپنے لئے شہادت کا شوق ہے۔

آپ کی اہلیہ نے بتایا کہ شہید مرحوم خاندان میں اکیلے احمدی تھے اِس لئے عید وغیرہ پر جب کوئی رشتہ دار ہمارے گھر نہ آتا تو مجھے گھبراہٹ ہوتی اُس پرکہتے کہ افسردہ کیوں ہو، ہراحمدی ہمارا رشتے دار ہے ۔
حضورانور نے فرمایا کہ شہید مرحوم کی تین چھوٹی عمر کی بچیاں ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے نیک نصیب کرے اور خود اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ مرحوم کے والدین وفات پاچکے ہیں۔ ان کی تین بہنیں ہیں مگر تینوں غیراحمدی ہیں۔

…*…*…*…

مکرم مستری محمد شریف صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ29ستمبر 2012ء میں مکرم مستری محمد شریف صاحب آف سرگودھا کا ذکرخیر مکرم چودھری حمید احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

ضلع سرگودھا کے چک نمبر 35 جنوبی میں احمدیت کا نفوذ (مضمون نگار کے پڑدادا) حضرت چودھری مولابخش صاحبؓ نمبردار کے ذریعہ ہوا جنہیں قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت ملی پھر اُن کی تبلیغ کے ذریعہ گاؤں کے چند گھر احمدی ہوگئے۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے محترم چودھری ہدایت اللہ صاحب نمبردار (مضمون نگار کے دادا) نے اس مشن کو جاری رکھا۔ اُن کو تبلیغ کا جنون تھا۔ اُن کی تبلیغ سے بھی کئی گھرانے احمدی ہوئے۔ محترم مستری محمد شریف صاحب بھی اُن کے زیرتبلیغ رہے نیز اپنے ایک احمدی رشتہ دار محترم مستری فقیر محمد صاحب کی بھی مسلسل تبلیغ کے زیراثر شدید مخالفت کرنے کے بعد آخرسچّی خوابوں کے ذریعہ راہنمائی پالی اور احمدیت قبول کرلی۔ اس پر آپ کی شدید مخالفت ہوئی حتٰی کہ بیوی بھی چھوڑ کر چلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد بیوی واپس گھر تو آگئی لیکن اُس نے کبھی احمدیت قبول نہ کی۔ ایک بیٹا تھا جو آپ کی خوبیوں کا تو معترف تھا لیکن اُس نے بھی ساری زندگی احمدیت قبول نہ کی۔ تاہم آپ نے ہر ابتلا کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور ہمیشہ نظام جماعت سے اپنا مضبوط تعلق برقرار رکھا۔ نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے اور اپنی زندگی میں ہی ادائیگی کردی۔

محترم مستری محمد شریف صاحب سخت محنت مزدوری کرنے کے باوجود پنجوقتہ نماز باجماعت اور تہجد کے عادی تھے۔ اکثر سچّے خواب دیکھتے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی تہجّد کے لئے اٹھنے میں تاخیر ہوجائے تو ایک غیبی آواز نام لے کر آپ کو اٹھادیتی ہے۔ آپ گو کہ مالی لحاظ سے کمزور تھے لیکن لازمی چندہ جات ہمیشہ اوّل وقت میں ادا کرتے اور دوسری مالی تحریکات میں بھی حصہ لیتے۔ اگرچہ معمولی تعلیم حاصل کی تھی لیکن دینی رسائل اور کتب کا بہت مطالعہ تھا اور اختلافی مسائل کا بہت علم تھا۔ احمدی اور غیراحمدی، سبھی آپ کی ایمانداری اور شرافت کے گواہ تھے اور آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔

آپ بہت سادہ طبیعت، ملنسار اور مخلص انسان تھے۔ وفات سے ڈیڑھ سال قبل کسی کیڑے کے کاٹنے کی وجہ سے پاؤں میں ورم ہوگیا جو پھر ناسور بن گیا اور ڈاکٹروں کو ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔ آپ نے علالت کا سارا عرصہ نہایت صبر و شکر اور ہمّت کے ساتھ گزارا، کبھی شکوہ کا کلمہ زبان پر نہیں لائے۔ جب تک صحت نے اجازت دی تو مسجد آکر نماز ادا کرتے رہے۔ 27؍مارچ 2012ء کو قریباً اسّی سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے قبل آپ نے اپنی بیوی کو وصیت کی کہ آپ کی نعش احمدیوں کے سپرد کردی جائے جو بوجہ موصی ہونے کے ربوہ میں آپ کی تدفین کریں گے۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے نے اپنے رشتہ داروں کے زیراثر کہا کہ ہم ہی جنازہ پڑھیں گے اور گاؤں میں ہی تدفین ہوگی۔ تاہم اس موقع پر آپ کی بیوی نے جرأت دکھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق عمل کروایا۔ چنانچہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

…*…*…*…

قطب شمالی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والے مختصر معلوماتی مضمون میں قطب شمالی کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ برف سے ڈھکے ہوئے اس خطّہ میں موسم سرما میں درجہ حرارت اگرچہ نقطہ انجماد سے بھی نیچے رہتا ہے تاہم قطب جنوبی کی نسبت سردی کم ہوتی ہے۔ موسم گرما میں معمولی سی بارش ہوجاتی ہے اور کچھ پرندے بھی نظر آتے ہیں، کہیں کہیں کچھ پودے بھی اُگ آتے ہیں تاہم درخت یہاں نہیں پائے جاتے۔ جانوروں میں رینڈیر، برفانی ریچھ، بحری بچھڑے اور والرس جیسے جانور پائے جاتے ہیں۔ نچلے حصوںمیں اسکیمو رہتے ہیں۔

19ویں صدی میں خاص قطبی علاقہ سَر کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ پھر انگلینڈ کے بادشاہ جارج سوم نے ایک بڑا نقد انعام اُس شخص کے لئے رکھا جو قطبی راستہ دریافت کرے گا۔ چنانچہ راسؔ اور پیریؔ اس مہم کے لئے 1898ء میں روانہ ہوئے۔ 1900ء میں کپتان پیریؔ قطب شمالی کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ پھر ستمبر 1909ء میں یہ خبر آئی کہ امریکی کپتان کُک بھی قطب شمالی پر پہنچ گیا ہے لیکن اس خبر کی تصدیق نہ ہوسکی۔ اس کے بعد جلد ہی کپتان پیریؔ نے قطب شمالی پر جھنڈا گاڑ دیا۔ بعدازاں ہوائی آمدورفت جاری ہونے کے بعد ایڈمرل رچرڈ بیرڈ ہوائی جہاز کے ذریعے قطب شمالی پر پہنچا۔ سب سے آخری مہم پرومیرشمڈٹ کی تھی جو 1937ء میں بذریعہ جہاز اپنے چار ساتھیوں کی معیت میں قطب شمالی کے ملحقہ برف کے میدان میں پہنچا تاکہ وہ موسمی حرارت اور مقناطیسی اثرات کا مطالعہ کرسکے۔

1952ء میں آٹھ ہزار میل کا ایک جزیرہ دریافت ہوا جو جزیرہ وکٹوریہ کے شمال مشرق میں قطب شمالی سے ایک ہزار میل دُور ہے اور اس کا نام سٹیفنسن ہے۔ 1954ء میں امریکہ اور روس کے تعاون سے یہاں کئی رصدگاہیں بنائی گئی ہیں۔

…*…*…*…

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 دسمبر2012ء میں مکرمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جو جلسہ سالانہ قادیان کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

سندر سندر رُوپ ہے جس کا پیارا پیارا ناؤں
سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کے چلئے اس کے گاؤں
ان کوچوں کی مٹّی مجھ کو سونے جیسی لاگے
جس مٹّی نے میرے پی کے چُوم لئے تھے پاؤں
سڑتی دھوپ میں جلنے والو! اس بستی میں آؤ
جلتے بلتے تن من کو یہ دیوے ٹھنڈی چھاؤں
مجھ جیسی کمزور بھی یاں تو بن جائے رندھیر
چلتے چلتے ان گلیوں میں تھکتے ناھیں پاؤں
اس نگری میں آکے سب کی تھکناں ہوویں دُور
چاہے چل کے آئیں وہ کتنے ہی کوس ، گھماؤں
جس نے پاک نبی جیؐ بھیجے پاک مسیحا بھیجا
کاش کہ میرا باقی جیون کرلے اپنے ناؤں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button