شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی کا بیان (حصہ دوم)
حضرت اماں جان کی بعض خصوصیات(حصہ دوم)
(بیان حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بابت حضرت ام المومنینؓ، گذشتہ سے پیوستہ)’’غریبوں کے لیے خاص طور پر دل سے تڑپ رکھتی ہیں۔ ہر وقت کسی کو مدد پہنچانے کا آپ کو خیال رہتا ہے۔ خیرات میں آپ کا ہاتھ کسی کی حالت سنتے ہی سب سے اول بڑھتا ہے۔ اپنے نوکروں پر خاص شفقت فرماتی ہیں۔ اگر کسی مزاج دار خادمہ کے تنگ کر دینے پر کبھی کچھ سخت کہتی بھی ہیں تو میں نے دیکھا کہ جب تک اس کو پھر خوش نہ کر لیں زبان سے بھی اور کچھ دے دلا کر بھی آپ کو خود آرام نہیں ملتا۔ ان کے آرام کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ ہم لوگ بھی اگر دو تین بار اوپر تلے کوئی کام کہہ دیں تو فرماتی ہیں کہ بس اب وہ تھک گئی ہے اس بیچاری میں اتنی طاقت کہاں وغیرہ۔
اس عمر میں اس وقت تک بھی کسی پر اپنا بار نہیں ڈالتیں۔ خادموں کو بھی تکلیف نہیں دیتیں۔ اپنے ہاتھ سے ہی زیادہ تر کام کرتی ہیں۔ بار بار اس حال میں کہ ضعف سے ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں خود کرسی پر چڑھ کر حجرہ (کمرےکا نام ہے) میں جا کر جو چیز نکالنی ہو، لاتیں۔ (خادمہ) چھوٹی لڑکیوں کو بیٹی کہہ کر پکارنا، ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خود ہی خیال رکھنا، دوسری عورتوں پر نہ چھوڑنا آپ کا طریق ہے۔ بلکہ اتنا پیار آپ ان سے فرماتی ہیں کہ وہ اکثر بہت سر چڑھ جاتی ہیں۔ آپ کا معیار عصمت عام نقطہ نظر سے بہت ہی بلند ہے۔ یہ ایک خصوصیت آپ کے اخلاق کی مد نظر رکھنے کے قابل ہے۔ عورت کی عزت کے بے حد نازک ہونے کے متعلق اکثر نصیحت فرماتی ہیں۔ عورتوں کا بھی آپس میں زیادہ بے تکلف ہونا یا فضول مذاق وغیرہ آپ کو بے حد گراں گزرتا اور ناپسند ہے۔ جو بیوی اپنے شوہر سے زیادہ محبت کرے۔ اس کے ذکر سے خوش ہوتیں۔ اور پسندیدگی کا اظہار فرماتی ہیں۔
شکوہ اور چغلی سے آپ کو از حد نفرت اور چڑ ہے۔ نہ سننا پسند کرتی ہیں نہ خود کبھی کسی کا شکوہ کرتی ہیں۔ اس معاملہ میں آپ کا وقار بہت بلند درجہ ہے کہ کبھی شکوہ کرنا یا کسی کی جانب سے تکلیف پہنچے تو اس کا اظہار کرنا پسند نہیں فرماتیں۔ نہ یہ پسند فرماتی ہیں کہ کوئی دوسرا اس کو محسوس کر کے آپ کے سامنے اس کے جاننے تک کا اظہار کرے۔
مرضی کے خلاف بات کو اکثر سنی ان سنی کر دیتی ہیں۔ اور یہ نہیں پسند فرماتیں کہ وہ ذکر زبانوں پر آئے یا کسی کی جانب سے گستاخانہ یا خلاف بات کا آپ کے علم میں آ جانا ہم لوگوں تک پر ظاہر ہو۔
کل احمدیہ جماعت سے آپ کی سچی مادرانہ محبت بھی ایک خصوصیت سے قابل ذکر چیز ہے آپ کو خدا نے یونہی ماں نہیں بنایا بلکہ میں دیکھتی ہوں کہ ایک ماں کی تڑپ بھی ہر فرد کے لئے آپ کے دل میں بے حد رکھ دی ہے۔ عام جماعت کے لئے، خاص افراد کے لئے خصوصاً مبلغین کے لئے بہت التزام سے دعائیں فرماتی ہیں اور تڑپ سے فرماتی ہیں۔ بعض دفعہ کسی کا ڈاک میں خط آتا ہے تو ایسی تڑپ سے بآواز بلند اس کے لئے دعا فرماتی ہیں کہ پاس بیٹھنے والوں کے دل میں بھی حرکت پیدا ہو جائے۔ میں نے بھی اکثر صرف حضرت والدہ صاحبہؓ کے نام خط پڑھ کر اور آپ کی تڑپ دیکھ کر بہت لوگوں کے لئے دعائیں کی ہیں کیونکہ اکثر خط آپ کو سنانے پڑتے ہیں۔ صرف لکھنے والوں پر موقوف نہیں۔ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ جنہوں نے کبھی خاص تعلق حضرت والدہ صاحبہ سے ظاہر نہیں رکھا۔ ان کے لئے بیٹھے بٹھائے خیال آ گیا ہے۔ اور آپ پھڑک پھڑک کر دعا فرما رہی ہیں۔ (اکثر پرائیویٹ مجالس میں ) بآواز بلند خدا کو پکارنے اور بآواز دعا کرنے کی آپ کی عادت ہے۔ استغفار بہت کثرت سے فرماتی ہیں …‘‘
(تحریراتِ مبارکہ از شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ پاکستان صفحہ5تا10)
احترام حضرت ام المومنینؓ
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس دالان میں عموماً سکونت رکھتے تھے جس کی ایک کھڑکی کوچہ بندی کی طرف کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر بیت الدعا کو جاتے ہیں۔ اس کمرے کی لمبائی کے برابر اس کے آگے جنوبی جانب میں ایک فراخ صحن تھا۔ (یہ وہی صحن ہے جس میں ایک شب 1897ء میں عاجز نے حضرت مسیح موعودؑ کے حضور میں ایک مضمون کے نقل کرنے میں گذاری تھی۔ یہ مضمون حضرت صاحبؑ ڈاکٹر کلارک والے مقدمہ میں بطور جواب دعویٰ کے لکھ رہے تھے۔ حضرت صاحب مضمون لکھتے تھے اور میں اس کی صاف نقل کرنے پر مامور تھا۔ برادرم مرحوم مرزا ایوب بیگ صاحب اس مسودہ کو پڑھتے تھے اور میں لکھتا تھا۔ اس طرح حضرتؑ کے حضور عشاء سے اذانِ فجر تک ہم اس صحن میں حاضر رہے)۔
گرمی کی راتیں تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کا اہل و عیال سب اسی صحن میں سوتے تھے لیکن موسم برسات میں یہ دقت ہوتی تھی کہ اگر رات کو بارش آ جائے تو چارپائیاں یا تو دالان کے اندر لے جانی پڑتی تھیں یا نیچے کے کمروں میں۔ اس واسطے حضرت ام المومنین نے یہ تجویز کی کہ اس صحن کے جنوبی حصہ پر چھت ڈال دی جائے تاکہ برسات کے واسطے چارپائیاں اس کے اندر کر لی جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تبدیلی کے واسطے حکم دیا اور راج مزدور کام کے واسطے آ گئے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کو جب اس تبدیلی کا حال معلوم ہوا تو وہ اس تجویز کی مخالفت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چند اَور خدام بھی ساتھ تھے۔ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا۔ ہوا نہ آئے گی۔ صحن کی خوبصورتی جاتی رہے گی وغیرہ وغیرہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں کا جواب دیا مگر آخری بات جو حضورؑ نے فرمائی اور جس پر سب خاموش ہوئے وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کیے ہیں جو شعائر اللہ میں سے ہیں۔ اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے۔
(ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ 133)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مزید فرماتی ہیں: ’’…اس لئے نہیں کہ اماں جانؓ غیر معمولی محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکرِ خیر کے طور پر آپ کا تعریفی پہلو لکھا جائے۔ اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی (اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں ان کی جدائی کو برداشت کر رہی ہوں ) بلکہ حق اور محض حق ہے کہ حضرت اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے۔ اور اس وجود کو اپنی خاص’’نعمت‘‘قرار دے کر اپنے مرسلؑ کو عطا فرمائے۔ آپ نہایت درجہ صابرہ اور شاکرہ تھیں۔ آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا۔ کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو آپ کے دل پر میل نہ آتاتھا۔ کان میں پڑی ہوئی رنج دہ بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی۔ اور ایسا برتاؤ کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دہرانے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ شکوہ، چغلی، غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی آپ نے کیا نہ اس کو پسند کیا۔ اس صفت کو اس اعلیٰ اور کامل رنگ میں کبھی کسی میں مَیں نے نہیں دیکھا آخر دنیا میں کبھی کوئی بات کوئی کسی کی کر ہی لیتا ہے مگر زبان پر کسی کے لئے کوئی لفظ نہیں آتے سنا تو حضرت اماں جان کے۔ جہاں کسی نے مجلس میں کسی کی بطور شکایت بات شروع کی اور آپ نے فوراً ٹوکا۔ حتیٰ کہ اپنے ملازموں کی شکایت جو خود آپ کے وجود کے ہی آرام کے سلسلہ میں تنگ آکر کبھی کی جاتی پیچھے سے سننا پسند نہ کرتی تھیں۔ اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں۔
آخری ایام میں جب آواز نکلنا محال تھا مائی عائشہ (والدہ مجید احمد مرحوم درویش قادیان) کی آواز کسی سے جھگڑنے کی کان میں آئی بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقّت فرمایا’’مائی کیوں روئی؟‘‘ میں نے کہا نہیں اماں جان! روئی تو نہیں یونہی کسی سے بات کر رہی تھیں۔ مگر جو درد حضرت اماں جان کی آواز میں اس وقت مائی کے لئے تھا وہ آج تک مجھے بے چین کر دیتا ہے۔ آپ نے کئی لڑکیوں اور لڑکوں کو پرورش کیا۔ اور سب سے بہت ہی شفقت و محبت کا برتاؤ تھا۔ خود اپنے ہاتھ سے ان کا کام کیا کرتی تھیں۔ اور کھلانے پلانے آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ مگر تربیت کا بھی بہت خیال رکھتیں۔ اور زبانی نصیحت اکثر فرماتیں۔ ایک لڑکی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں ان دنوں حضرت اماں جان کے پاس تھی۔ وہ رات کو تہجد کے وقت سے اٹھ بیٹھتی۔ اور حضرت اماں جان سے سوالات کرنے اور لفظوں کے معنے پوچھنا شروع کرتی۔ اور آپ اس کی ہر بات کا جواب صبر اور خندہ پیشانی سے دیا کرتیں۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ اس وقت نہ ستایا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ نے بہت زیادہ صبر و تحمل کا نمونہ دکھایا۔ مگر آپ کی جدائی کو جس طرح آپ محسوس کرتی رہیں اس کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس صبر کو اور بھی حیرت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
آپ اکثر سفر پر بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتی تھیں۔ باغ وغیرہ یا باہر گاؤں میں پھرنے کو بھی عورتوں کو لے کر جانا یا گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا کھانا پکوانا اور اکثر غرباء میں تقسیم کرنا (جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا) لوگوں کا آنا جانا اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے۔ ایک سفر ہے جس کو طے کرنا ہے۔ کچھ کام ہیں جو جلدی جلدی کرنے ہیں۔ غرض بظاہر ایک صبر کی چٹان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی۔ جو آپ پر طاری رہتی تھی۔ مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہو گئی تھیں۔ دل میں طوفان اس درد جدائی کے اٹھتے اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامان کرتیں۔ مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہو جاتا۔ اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کرتیں۔
میں اپنے لئے ہی دیکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ایک چشمہ ہے بے حد محبت کا۔ جو اماں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے۔ اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے۔ اور میرے اعتراض کرنے پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ’’لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں۔ یہ کیا یاد کرے گی۔ جو یہ کہتی ہے وہی کرو‘‘ غرض یہ محبت بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی۔ ‘‘
(تحریراتِ مبارکہ از شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ پاکستان صفحہ 14تا 17)
(باقی آئندہ)