حاصل مطالعہ
٭…تحریکِ جدید کے آغاز پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے بھائیوں سے صلح کرنے اور یک جان ہونے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ اس حکم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں :
’’جس وقت میں نے جماعت کے لیے یہ حکم تجویز کیا، اس وقت سب سے پہلے میں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا میرا دل صاف ہے اور مجھے کسی سے بغض و کینہ یا رنجش نہیں سوائے ان کے جن سے ناراضگی کا تو نے حکم دیا ہے لیکن اگر میرے علم کے بغیر کسی شخص کا بغض یا اس کی نفرت میرے دل کے کسی گوشہ میں ہو، تو الٰہی میں اسے اپنے دل سے نکالتا ہوں اور تجھ سے معافی اور مدد طلب کرتا ہوں۔ مگر میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میں نے کبھی کسی شخص سے بغض نہیں رکھا بلکہ شدید دشمنوں کے متعلق بھی میرے دل میں کبھی کینہ پیدا نہیں ہوا۔ ہاں ایک قوم ہے جس کو میں مستثنیٰ کرتا ہوں اور وہ منافقین کی جماعت ہے۔ مگر منافقین کا قطع کرنا یا انہیں جماعت سے نکالنا یہ میرا کام ہے تمہارا نہیں۔ جس کو میں منافق قرار دوں اس کے متعلق جماعت کا فرض ہے کہ اس سے بچے لیکن جب تک میں کسی کو جماعت سے نہیں نکالتا، تمہیں ہر ایک شخص سے صلح اور محبت رکھنی چاہیے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍نومبر1934ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 15صفحہ 372)
فرمایا:’’خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آج تک کسی ایک شخص کا بھی میرے دل میں بغض پیدا نہیں ہوا۔ ہاں ان افعال سے بغض ضرور ہوتا ہے جو سلسلہ احمدیہ اور دینِ اسلام کے خلاف کیے جاتے ہیں۔ لیکن افعال سے بغض، بغض نہیں کہلاتا بلکہ وہ اصلاح کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ ہم چوری کو بے شک برا کہتے ہیں لیکن چور سے ہمیں کوئی بغض نہیں ہوتا وہ اگر چوری چھوڑ دے تو ہم ہر وقت اس سے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ پس اصلاح محبت کے جذبات کے ماتحت کرنی چاہیے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ محض دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خواہش میں دوسرے کی شکایت کر دیتے ہیں۔ ان کے مدِنظر یہ نہیں ہوتا کہ اس کی اصلاح ہو جائے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اسے نقصان پہنچے۔ ایسے لوگ جب میرے پاس کسی کے متعلق شکایت کرتے ہیں اور میں محبت اور پیار سے اسے سمجھاتا ہوں اور وہ سمجھ جاتا ہے تو شکایت کرنے والے کہنے لگ جاتے ہیں بھلا اصلاح کس طرح ہو، ہم نے فلاں کی شکایت خلیفۃالمسیح تک بھی پہنچائی مگر انہوں نے کچھ نہ کیا۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کی شکایت کی جائے اس کے خلاف ضرور کوئی قدم اٹھایا جائے، حالانکہ یہ اصلاح کا آخری طریق ہے اس سے پہلے ہمیں محبت اور پیار سے دوسروں کو سمجھانا چاہیئے اور اگر وہ سمجھ جائیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیئےکہ ہمارے ایک بھائی کی اصلاح ہوگئی۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍اگست 1934ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 15 صفحہ 240)
(مرسلہ:نذیراحمد خادم۔ ربوہ)
٭…جدّہ (سعودی عرب) سے آن لائن شائع ہونے والے اخبار’’ اَلبِلاد ڈیلی انگلش ‘‘ نے معروف سماجی لیڈر، مفکر، بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی، اور مصنف ڈاکٹرمائیک غوث(Dr.Mike Ghouse) کا ایک کالم شائع کیا ہے، جس میں آپ نے کوروناوائرس کی وبا کے حوالے سے مذہبی دنیا کے ردعمل اور رویوں کی نشاندہی کی ہے۔ مسلمانوں کا ذکرکرتے ہوئےآپ لکھتے ہیں کہ
’’Muslim rightists are ignoring the safety precautions and have chosen to pray in congregations. In contrast, almost all Mosques in the world have been shut down, including the holiest of the Mosques in Mecca, Medina, Najaf, Karbala, and other ‘sacred’ places of worship. The Sunni, Shia, Ahmadiyya, and Sufi Muslim leaders have offered the right guidance to their congregations.‘‘
ترجمہ: رجعت پسند مسلمان حفظ ماتقدم کے تقاضوں کو نظراندازکررہے ہیں اورانہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اجتماعی طورپر ہی عبادات بجالائیں گے۔ حالانکہ دنیا کی تقریباًسبھی مساجدکو بندکردیا گیا ہے، جن میں مکہ، مدینہ، نجف، کربلا کی مقدس ترین مساجد اور دیگرعبادت گاہیں شامل ہیں۔ سنی، شیعہ، احمدیہ اور صوفی مسلم سربراہان نے اپنی اپنی جماعتوں کے لیے درست رہ نمائی فراہم کی ہے۔
(http://www.albiladdailyeng.com/corona-blind-faith/)
( اشاعت 26؍ مارچ 2020ء۔ تاریخ اخذ 8؍اپریل2020ء )
٭…بنگلہ دیش سے شائع ہونے والے اخبار ’’ڈیلی سَن‘‘ نے 23؍ مارچ 2020ء کو مندرجہ ذیل خبر شائع کی :
’’ ‘Follow rules to prevent corona’
Incumbent caliph and leader of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community Mirza Masroor Ahmad called upon the Muslim community to follow health related advice set by the governments to check the spread of COVID-19.
He said coronavirus turns pandemic and it is spreading quickly.
In his speech at a Mosque in the United Kingdom, he gave a total of 13 instructions including staying at home and abiding by advice of the governments and health experts to prevent the coronavirus.‘‘
ترجمہ:
قواعد کی پابندی کریں، کوروناسے بچیں
عالمگیراحمدیہ مسلم جماعت کے رہ نما اور موجودہ خلیفہ مرزامسروراحمدنے مسلم کمیونٹی کو کووِڈ19کےپھیلاؤپرقابو پانے کے لیے حکومتوں کی جاری کردہ صحت سے متعلق ہدایت پر عمل کرنے کی نصیحت کی۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس اب ایک عالمی وبا کی صورت اختیارکرچکا ہے اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔
برطانیہ کی ایک مسجد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کُل 13 ہدایات جاری فرمائیں، جن میں گھرپر رہنے، حکومتوں اور ماہرین صحت کی ہدایت پرعمل کرناشامل ہے۔
(https://www.daily-sun.com/post/471478/%E2%80%98Follow-rules-to-prevent-corona%E2%80%99-)
٭…یاسرپیرزادہ صاحب کا ایک کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ہے جس میں آپ لکھتے ہیں:
“باقی دنیا کا تو پتا نہیں، ہمیں البتہ مذہب کے بارے میں پانچ غلط فہمیاں ہیں۔
پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم چاہے جتنے بھی گناہ کر لیں، لوگو ں کے گردے نکال کر بیچ دیں، بچوں کے ساتھ مدرسوں میں زیادتی کریں، غیر مسلموں کی بستیوں کو آگ لگا دیں، ملاوٹ کریں، دھوکا دیں، امانت میں خیانت کریں، بالآخر سزا پانے کے بعد ہم نے جنت میں ہی جانا ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ ضروری نہیں اِن تمام گناہوں کی ہمیں سزا بھی ملے کیونکہ ہمارے خیال میں کچھ وظائف اور سورتیں اگر ایک مخصوص طریقے سے پڑھ لی جائیں تو اِن کا اس قدر ثواب ملتا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے، اس سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں اور مسلمان بالکل نومولود کی طرح قلقاریاں مارتا ہوا جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔
تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ دنیاوی مسائل تعویذ، ٹوٹکوں، عملیات، وظیفوں اور روحانی کشف کی مدد سے حل کیے جا سکتے ہیں۔
چوتھی غلط فہمی یہ ہے کہ وبائیں، قدرتی آفات سب خدا کی ناراضی کی نشانیاں ہیں، یہ ہمارے گناہو ں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں، اِن سے بچاؤ کا طریقہ یہی ہے کہ خدا کے آگے دعا کی جائے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے۔
پانچویں غلط فہمی یہ ہے کہ چونکہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے، اِس کی حیثیت ایک امتحان گاہ سے زیادہ نہیں، لہٰذا دنیا کمانے کے بجائے آخرت کمانی چاہیے۔
میں نہیں جانتا کہ یہ غلط فہمیاں ہمارے دماغوں میں کیسے راسخ ہو گئیں، میں خود دین کا ادنیٰ سا طالبعلم ہوں، قرآن کی تفاسیر اور سیرت کی کتابوں سے استفادہ کرتا رہتا ہوں، مختلف علمائے کرام کو بھی سنتا رہتا ہوں اور جہاں کوئی بات سمجھ نہ آئے تو قرآن مجید کے اصل متن سے رہ نمائی لے کر اپنی رائے قائم کرتا ہوں۔
اپنی تمام تر کم علمی کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس قسم کا تصور مذہب ہم نے اپنے دماغوں میں بٹھا رکھا ہے اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ خلاصہ ہے اسی تصورِ دین کا جو ہمارے دماغ میں بچپن سے بٹھا دیا گیا، اِس تصور میں بھلے کتنے ہی تضادات کیوں نہ ہوں، اسے پذیرائی ملتی ہے اور عام مسلمان اِس کی طرف کھنچتا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا آسان حل چاہتے ہیں، جیسے کوئی پاور ڈوز جو سب کچھ ٹھیک کر دے، کوئی معجزہ، کوئی کرشمہ، جنت میں جانے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ!
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں، اسلام چند وظائف پڑھ کر جنت کمانے کا نام نہیں اور نہ ہی یہ چار پیسے خیرات کرکے جنت میں حور سے ملاقات کروانے کا اہتمام کرتا ہے، اسلام تو ظلم کے خلاف لڑنے کا نام ہے، اِس کے راستے میں تو غاصب کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا پڑتا ہے، مظلوم کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ دینا پڑتا ہے، امرا اور طاقتور طبقات کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے یہی کیا، آپﷺ نے مکہ کی اُس وقت کی اشرافیہ اور Ruling Elite کے خلاف ایسی جدوجہد کی جو رہتی دنیا تک امر ہو گئی، ایک حبشی غلام کو وہ درجہ دیا جو مکہ کے سردار کو حاصل تھا، رنگ و نسل کی تمیز مٹا دی اور ایسا انقلاب برپا کیا جو کسی معجزے سے کم نہیں مگر اِس کے لیے آپﷺ نے عملاً خود جدوجہد کی…۔ ‘‘
’’سردارِ دو جہاںؐ نے خود تکالیف کاٹیں اور مصائب برداشت کیے … یہ ہے وہ راستہ جس پر ہمیں چلنا تھا مگر افسوس کہ ہم نے بھلا دیا اور اس کی جگہ دین کی بگڑی ہوئی شکل کو اپنا لیا۔
اب ہمارے عالم دین مبہم دعائیں کرتے ہیں، حوروں کی تصویر کشی کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں اور جن طبقات کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے، الٹا انہی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔
اس تصورِ دین کو بڑھاوا دینے میں صرف اِن مبلغو ں کا قصور نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات نے اِن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، ہر دور کے حکمرانوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے، تاجر برادری کی یہ آنکھ کا تارا ہیں، سرکاری افسران اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بیان کی دعوت دیتے ہیں اور رہے عام مسلمان تو ان بیچاروں کی داد رسی جب ریاست نہیں کرتی تو یہ مجبور ہو کر اِن کے در پر پہنچ جاتے ہیں اور مولانا سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ جیسی عوام ہوں گے ویسی دعا ہو گی۔ ‘‘
(بحوالہ روزنامہ جنگ۔ آن لائن اشاعت 26؍ اپریل 2020ء)
(اس کالم میں درج تمام امور سے ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا متفق ہونا لازمی نہیں۔ )
(مرسلہ:طارق احمد مرزا، آسٹریلیا)
٭…٭…٭