احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدسؑ کے بہن بھائیوں کا کچھ تعارف
آپؑ کے بہن بھائیوں کا مختصر تذکرہ
قبل اس کے کہ حضرت اقدسؑ کی ولادت باسعادت اوربچپن کا کچھ ذکر کیا جائے مناسب معلوم ہوتاہے کہ حضرت اقدسؑ کے بہن بھائیوں کا کچھ تعارف پیش کیاجائے۔
جیسا کہ بیان ہواہے کہ آپؑ کے علاوہ آپؑ کی صرف ایک بہن اور ایک بھائی نسبتاً لمبی عمر پانے والے ثابت ہوئے۔ ان دونوں کا کچھ تعارف درج ذیل ہے۔
حضرت مرادبیگم صاحبہؒ
جو آپؑ کی سب سے بڑی ہمشیرہ تھیں۔ ان کانام مراد بیگم صاحبہؒ تھا، جو مرزا غلام غوث ہوشیارپوری کے عقد زوجیت میں آئیں۔ (یہ محمدی بیگم صاحبہ کے والد احمدبیگ کے بھائی تھے ) لیکن جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔ یہ بڑی عابدہ اور صاحب روٴیا و کشف خاتون تھیں۔ سیرت المہدی میں ایک اور روایت یوں آئی ہے: ’’بیا ن کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولو ی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے، کہ والد صاحب کی ایک بہن ہوتی تھیں ان کو بہت خواب اور کشف ہوتے تھے۔ مگر دادا صاحب کی ان کے متعلق یہ رائے تھی کہ ان کے دماغ میں کو ئی نقص ہے۔ لیکن آخر انہوں نے بعض ایسی خوابیں دیکھیں کہ دادا صاحب کو یہ خیال بدلنا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کوئی سفید ریش بڈھا شخص ان کو ایک کاغذ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے بطور تعویذ کے دے گیا ہے۔ جب آنکھ کھلی تو ایک بھوج پتر کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا جس پر قرآن شریف کی بعض آیات لکھی ہو ئی تھیں۔ پھر انہوں نے ایک اور خواب دیکھا کہ وہ کسی دریا میں چل رہی ہیں جس پر انہوں نے ڈر کر پانی پانی کی آواز نکالی اور پھر آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو ان کی پنڈلیاں تر تھیں اور تازہ ریت کے نشان لگے ہو ئے تھے۔ داداصاحب کہتے تھے کہ ان باتوں سے خلل دماغ کو کوئی تعلق نہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر199)
سیرت المہدی میں حضرت ام المومنینؓ کی ایک روایت درج ہے کہ’’…حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا۔ بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پترپر لکھی ہوئی سورة مریم تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر46)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ یہ روایت درج کرنے کے بعد رقم فرماتے ہیں کہ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ بھوج پتر دیکھا ہے جو اب تک ہماری بڑی بھاوج صاحبہ یعنی والدہ مرزا رشید احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے‘‘
خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ بھوج پتر آج کل صاحبزادہ مرزا انوراحمد صاحب ابن سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے گھر میں ہے۔ اورخاکسار کو استاذی المحترم حضرت سیدمیرمحموداحمدناصر صاحب ابن حضرت سیدمیرمحمداسحاق صاحبؓ نے خودبتایا تھا کہ انہوں نے یہ بھوج پتر دیکھاہے۔ بلکہ محترم میرصاحب کی شفقت اورپیار کی بدولت خاکسارنے خودبھی دیکھا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ 21؍اپریل 2015ء کوعصرکی نمازپڑھ کرابھی گھرآیاہی ہوں کہ آپ کافون آیا کیمرہ لے کرفوری پہنچو۔ خاکسار عزیزم بلال طاہرصاحب اور عزیزم اثمارپراچہ صاحب کولے کرحاضرہوا تو میرصاحب محترم بے چینی سے گھرسے باہر سڑک پرٹہلتے ہوئے انتظارفرمارہے تھے۔ اسی وقت ہمیں لے کرایک گھرکی طرف روانہ ہوئے جووہاں پہنچ کرمعلوم ہواکہ محترم صاحبزادہ مرزاانوراحمدصاحب کا ہی گھرہے۔ اندرگئے تو بہت سے تبرکات بھی وہاں موجودتھے۔ اور وہ بھوج پتر بھی تھا۔ جس پراب پلاسٹک کورچڑھا ہواتھا۔ بہت سی عبارت تو مدھم ہوچکی تھی اورا س کوپڑھنا بہت دقت طلب تھا۔ اور کچھ الفاظ اتنے واضح تھے کہ بہت جلداندازہ ہوسکتاتھا کہ کون سی آیت ہے۔ سورۃ مریم کی ایک آیت وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًابہت حدتک اب بھی واضح ہے۔
حضرت مراد بیگم صاحبہؒ کے زہدو ورع کی نسبت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک ہمشیرہ آپ کی مسماة مراد بیگم نام تھی جو نہایت عبادت گزار اور زاہدہ تھیں۔ ان کے بہت سے عجائب حالات خاندان میں مشہور ہیں۔ اور ان واقعات کے دیکھنے والے ابھی تک موجود ہیں۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ وہ سو کر اٹھیں تو ان کے پائنچوں میں ریت موجود تھی اور وہ تازہ بتازہ بھیگے ہوئے تھے جیسے دریا کا سفر کرنے کے بعد حالت ہو انہوں نے اٹھ کر یہی واقعہ بیان کیا۔ اور ایسا ہی ایک مرتبہ سورة مریم لکھی ہوئی ان کو دی گئی۔ مرحومہ عین عنفوان شباب میں بیوہ ہو گئی تھیں اور جب تک زندہ رہیں عبادت و یاد اللہ میں اپنی زندگی گزار دی۔‘‘(حیات احمدؑ جلد ا ول صفحہ 79)
حضرت مراد بیگم صاحبہ بیوہ ہونے کے بعد اپنے گھر واپس آگئیں اور قادیان میں موجودہ آبائی گھر میں رہائش پذیر رہیں۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو اپنی اس بیٹی سے بہت پیار تھا۔ سیرت المہدی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب سے تمہاری دادی فوت ہوئیں تمہارے دادا نے اندر زنانہ میں آنا چھوڑ دیا تھا۔ دن میں صرف ایک دفعہ تمہاری پھوپھی کو ملنے آتے تھے اور پھوپھی کے فوت ہو نے کے بعد تو بالکل نہیں آتے تھے۔ باہر مردا نے میں رہتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر225)
ان کی تاریخ وفات کامعلوم نہیں ہوسکی۔ البتہ ان کی قبرآبائی قبرستان میں موجودہے۔
صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب
حضرت مراد بیگم صاحبہؒ کے بعد آپؑ کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھےجو کہ 1828ء میں پیداہوئے۔
صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب اپنے والد ماجد کے زیر سرپرستی جائیداد کو سنبھالنے کے کاموں میں مصروف رہے۔ اور گورنمنٹ کے مختلف عہدوں پر مختلف وقتوں میں کام کیا۔ آپ تحصیلدار کے عہدے پر بھی فائز رہے، ڈپٹی انسپکٹر بھی رہے۔ ضلع کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔ پولیس میں بھی کام کیا۔ محکمہ نہر میں بھی کام کیا۔ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی۔
ذیل میں دوروایات پیش کی جاتی ہیں جن میں ان کے محکمہ جات اور ان کی خودداری اور جرأت کاذکربھی موجودہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں مہتمم بندوبست تھا اور ان کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا۔ قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھا اور محکمہ بندوبست مذکور میں کام کرتا تھا۔ تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا۔ تایا صاحب نے وہیں اس کی مرمت کر دی۔ ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی۔ اُس نے تایا صاحب پر ایک سو روپیہ جر مانہ کر دیا۔ دادا صاحب اُس وقت امرتسر میں تھے ان کو اطلاع ہوئی تو فوراً ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی اس نے دادا صاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر218)
’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے کہ ایک دفعہ تایا صاحب پولیس میں ملازم تھے نسبت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع نے کسی بات پر اُن کو معطل کر دیا اس کے بعد جب نسبت صا حب قادیان آیا تو خود دادا صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لڑکے کو معطل کر دیا ہے دادا صاحب نے کہا کہ اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہیے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں۔ صاحب نے کہا جس کا باپ ایسا ادب سکھانے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں۔ اور تایا صاحب کو بحال کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے بھی بہت سے محکموں میں کام کیا ہے۔ پولیس میں بھی کام کیا ہے۔ ضلع کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے ہیں۔ اور سُنا ہے نہر میں بھی کام کیا تھا اور بعض کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی ہے۔ چنانچہ میں نے 1860ء کے بعض کاغذات دیکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے چھینہ کے پاس کسی پل کا بھی ٹھیکہ لیا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر219)
انہوں نے مختلف مواقع پر حکومت وقت کی حمایت میں فوجی خدمات ادا کرتے ہوئے جرأت اوربہادری کے کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور گورنمنٹ سے تعریفی اسناد اور سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔
صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب شعربھی کہتے تھےاور ان کا تخلص مفتون تھا۔ (بحوالہ سیرت المہدی جلداول روایت نمبر215)
آپ کوورزش اور پہلوانی کاشوق بھی تھا۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں: ’’ہمارے بھائی صاحب کوورزش کاشوق تھا۔ ان کے پاس ایک پہلوان آیاتھا۔ جاتے ہوئے اس نے ہمارے بھائی صاحب کوالگ لے جاکرکہاکہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتاہوں جوبہت ہی قیمتی ہے۔ یہ کہہ کراس نے ایک منترپڑھ کران کوسنایا اورکہاکہ یہ منترایساپرتاثیر ہے کہ اگرایک دفعہ صبح کے وقت اس کوپڑھ لیاجاوے توپھرسارادن نہ نمازکی ضرورت باقی رہتی ہے اورنہ وضوکی ضرورت۔ ایسے لو گ خداتعالیٰ کے کلام کی ہتک کرتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد9صفحہ 322)
آپ کی شادی مرزا غلام محی الدین صاحب کی بیٹی اورمرزا امام الدین صاحب کی بہن محترمہ حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ جو سلسلہ احمدیہ میں ’’تائی صاحبہ‘‘کے نام سے معروف ہیں۔ صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کے دوبچے پیداہوئے۔ عبدالقادر اور عصمت، لیکن یہ دونوں بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ اور اس کے بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اور لاولد فوت ہوئے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اپنے بھائی کے ان بچوں سے بہت محبت تھی اور محبت کا یہی جذبہ تھا کہ حضرت اقدسؑ نے دوسری شادی سے پیداہونے والی اپنی سب سے پہلی بچی کانام ’عصمت ‘ ہی رکھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ تمہارے تایا کے ہاں ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے تھے مگر دونوں بچپن میں فوت ہوگئے۔ لڑکی کا نام عصمت اور لڑکے کا نام عبدالقادر تھا۔ حضرت صاحب کو اپنے بھائی کی اولاد سے بہت محبت تھی چنانچہ آپ نے اپنی بڑی لڑکی کا نام اسی واسطے عصمت رکھا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر58)
مرزاغلام قادرصاحب کی وفات 1883ء میں 55 برس کی عمر میں ہوئی۔
٭…٭…٭