خلافت احمدیہ کے ذریعہ غیر مسلموں کے خوف کو امن میں بدلنے کے نظارے
خلیفہ وقت کے خطابات سن کے اسلام کے متعلق تحفظات رکھنے والوں کی رائے بدل جانا
یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادوکا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں
انسانی زندگی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس میں نشیب و فراز، دکھ سکھ، خوف اور امن کا دور دورہ رہتا ہی ہے۔ ایک قافلہ اگر راہ حیات پر قدم مارتا ہے تو اپنی منزل کے حصول میں کبھی پتھریلی چٹانیں اس کے قدموں کو اذیت سے ہمکنار کرتی ہیں تو کہیں سر سبز لہلہاتی کھیتیاں اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ کبھی وہ تشنہ لبی کا شکار ہوتا ہے تو کبھی ابلتے ہوئے چشمے اس کی پیاس کا مداوا کرتے ہیں اور جس طرح وہ قافلہ کبھی سکون و قرار سے راہ سفر طے کرتا ہے اسی طرح راہزنوں کا خوف بھی اسے بے چین کرتا رہتا ہے۔ مذہبی زندگی بھی فطرت کی انہی راہوں پر گامزن ہے۔ کبھی پے در پے ترقیات مومنین کی جماعت کی ہمت بلند کرتی ہیں تو کبھی منافقوں کا نفاق اور دشمنوں کی ریشہ دوانیاں ان کے دلوں میں خوف پیدا کردیتی ہیں۔ مگر خلافت ایسی نعمت ہے کہ اس کے ذریعے سے ہر خوف کی حالت امن میں، اطمینان میں تبدیل کر دی جاتی ہے۔
خداتعالیٰ نے سچی خلافت کے ساتھ خوف کو امن و آشتی میں تبدیل کرنے کو لازم قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور: 56)یعنی نظام خلافت کے ذریعہ ہر قسم کا خوف و ڈر نہ صرف جاتا رہےگابلکہ اِس کی جگہ پیارو محبت کی ہوا چلے گی۔ امن و آشتی کا راج ہو گا۔ خلافت کے سایہ کے نیچے آنے والے مطیع اِس طرح زندگی گزاریں گے کہ جس کو دیکھنے والے کہنے پر مجبور ہو جا ئیں گے کہ اگر کسی نے امن دیکھنا ہو تو وہاں جاکر دیکھو۔ اگر پیار و محبت کرنے والوں کےگروہ کادیدار کرنا مقصودہو تو وہاں جا کرکرو۔ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ کا عملی نظارہ کرنا ہو تو وہاں جاکر کرو۔ ایسے بےشمار لوگ ہیں جنہوں نے برملااظہار کیا اور آج بھی کرتےہیں کہ محبت بانٹی جاسکتی ہےتواس نظام کے ذریعہ۔ لوگوں کے خوف کو امن میں تبدیل کیا جا سکتاہےتواس خدائی نظام کے تابع۔
آج احیائے دین کے لیے، اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے لیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا ہے اس کے پیچھے چلنے سے اور اس کے دیے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اسلام کا جھنڈا پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرا رہا ہے۔ الحمدللہ
سورة النور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا جہاں وعدہ فرمایا وہیں: وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًامیں اس بات کی ضمانت بھی دی تھی کہ خدا کا یہ خلیفہ ہر خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کرنے کےلیے کوشاں رہے گا۔ اور جب کبھی بھی امت مسلمہ پر خوف کے آثار نمایاں ہونے لگیں گے، خدا کا یہ فرستادہ مسلمانوں کی راہنمائی کرے گا۔
خلافت احمدیہ پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجا تا ہے کہ کس طرح خلفائے مسیح موعودؑ مخلوقِ خدا کی دادرسی کرتے ہیں اور حقوق کی بابت کہیں وہ کسی بادشاہ یا حاکم وقت کو راہ نمائی فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں توکہیں پارلیمان میں خطاب کے ذریعہ اقوام عالم کو ظلم سے روکنے اور ہدایت کی طرف گامزن کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔ کبھی اپنے خطبات میں مسلمانوں کو اصلاح اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بابت آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے خطوط کے ذریعہ اسی امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے کوشاںہیں۔ الغرض ہر ایک موقع پر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
’’…بیلجیم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر کی اہلیہ کہتی ہیں۔ مَیں عورتوں کے جلسے میں بھی گئی۔ وہاں مجھے جو پیار اور محبت ملا اس کی مثال میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ جب خلیفۃ المسیح عورتوں کے جلسہ گاہ میں آئے تو ایک عجیب ماحول تھا۔ اتنی کثیر تعداد میں عورتیں وہاں موجود تھیں لیکن ہر طرف خاموشی تھی۔ پھر جب خلیفۃ المسیح نے خطاب فرمایا تو ہزاروں کی تعداد میں موجود عورتوں نے مکمل خاموشی کے ساتھ خطاب سنا۔ عورتوں کے بارے میں اسلامی تعلیم کے حوالے سے جو سوالات میرے ذہن میں تھے خلیفۃ المسیح کے خطاب سے ان سوالوں کے جوابات مل گئے۔ پھر کہتی ہیں کہ مَیں شروع میں جب عورتوں کے جلسہ گاہ میں گئی تھی تو میرے دل میں ایک خوف سا تھا لیکن جب خلیفۃ المسیح کا خطاب سننا شروع کیا تو میرا سارا خوف دُور ہو گیا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ستمبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍ستمبر2014ءصفحہ7)
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے ساری دنیا میں امن کے پیغام کی اشاعت اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں اسلام کے عافیت بخش پیغام کی منادی کی ہے اس کا اتنا گہرا تاثر قائم ہوا ہے کہ اب اِن ملکوں میں حضورانور کو امن کے سفیر کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے سربراہان میں یہ فکری وحدت پختہ تر ہوتی جارہی ہے کہ اگر دنیا میں واقعی امن قائم کیا جاسکتا ہے تو اُن نظریات کو اپنانے سے ہی ممکن ہے جو حقیقی اسلام پیش کرتا ہےاور جن کی منادی حضرت امام جماعت احمدیہ کی زبان سے ہو رہی ہے۔ سربراہان مملکت اور دنیا کے دانشوروں پر یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روشن ترہوتی جارہی ہے اور اب تو وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں غیر مسلم عمائدین کے اعترافات کا باب بہت وسیع ہے۔ ان میں سے ایک مثال پیش کرتا ہوں جو اس بات پر شاہدِ ناطق ہے کہ خلیفۂ وقت کی زبانِ مبارک سے بیان کردہ نظریات دنیا کے دلوں کو فتح کرتے چلے جارہے ہیں۔
2012ء میں حضور انور نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطاب میں شمولیت کے لیے آئے تھے، موصوف انٹرفیتھ انٹرنیشنل کے نمائندہ اورایک رفاہی تنظیم Feed a Familyکے بانی صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادوکا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اِس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کے حوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دِنوں کے اندر برپا ہوسکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ اب حضور کے خطاب نے اسلام کے بارے میں میرے نقطۂ نظر کو کلیۃً تبدیل کر دیا ہے۔ ‘‘(احمدیہ گزٹ کینیڈامئی 2018ء صفحہ 20)
یہ سینکڑوں مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ جس سے پتا لگتا ہے کہ آج خلافت احمدیہ دنیا کو صحیح اسلامی نظر یات عطا کر کے ایک نظریاتی انقلاب پید ا کررہی ہے۔ خلافت کی برکت سے دلوں میں ایک وحدت اور یگانگت پیدا ہوتی جارہی ہے۔
پھرامام وقت کے خطبات اور دیگر پروگراموں سے صرف احمدی ہی فیض نہیں اٹھاتے بلکہ غیر از جماعت اور غیر مسلم حضرات بھی اس فیض عام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک غیر احمدی ملّا کا واقعہ سن لیجیے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ہندوستان کے ایک مبلغ نے مجھے بتایا کہ ان کے علاقہ کے ایک ملاں کے کان میں امامِ وقت کے خطبہ کی آواز پڑی تو انہیں بہت اچھا لگا۔ اتنی ہمت تو نہ تھی کہ کھلے بندوں خطبات سے استفادہ کرتے۔ انہوں نے ہر جمعہ کو اپنے کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرکے MTAپر خطبہ سننا شروع کیا۔ اتنا پسند آیا کہ نوٹس بھی لینے لگے اور اگلے جمعہ کے دن انہی نوٹس کی بنیاد پر اپنا خطبہ بیان کرنے لگے۔ دو تین ہفتوں کے بعد ان کا ایک مقتدی آیا اور کہنے لگا کہ مولانا! پہلے تو آپ کے خطبات بہت سادہ ہوتے تھے لیکن اب ان خطبات میں روحانیت کی باتیں ہوتی ہیں جو دلوں پر اثر کرتی ہیں۔ اس کی وجہ کیاہے؟ ملاں نے کہاکہ میں اس کایہ تبصرہ سن کرخوش توبہت ہوا لیکن اصل وجہ بتانے کی جرأت نہ کر سکا!(عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
خلافت کا نظام جو خوف کو امن میں بدلنے والا نظام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے تمکنت دین کا ذریعہ بننے والا ہے، اس کا تعلق اس ذریعہ سے قائم ہونے والی خلافت سے ہے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل میں آنا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورت جمعہ میں فرمایا کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے اور صحابہ کا درجہ رکھتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہ دیا۔ اس شخص نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریّا کے پاس بھی پہنچ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے کر آئیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب وآخرین منھم لما یلحقوا بھم الخ حدیث 4897)
اور آخرین کے مقام کے بارے میں ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمّت ایک مبارک اُمّت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو گا کہ اس کا اوّل زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ۔ (کنز العمال جلد 6 جزء 12 صفحہ 71حدیث 34446 باب فی فضائل ھذہ الامۃ المرحومۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت2004ء)
پس آخری زمانے کی بہتری کی خوشخبری بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
کیا یہ آخری زمانہ ان علماء اور بادشاہوں کے پیچھے چلنے سے پہلوں والی برکات حاصل کرنے کا حامل بنائے گا؟ یقیناً نہیں۔ یہ لوگ تو دنیادار ہیں۔ یہ اس شخص کے پیچھے چلنے سے ملے گا جو ایمان کو واپس دنیا میں لائے گا اور آج ایمان کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ جاری نظام کے علاوہ کون ہے جو کر رہا ہے۔ جو امن، پیار اور محبت کے ساتھ اسلام کا پیغام دنیامیں پھیلا رہا ہے۔ ایمانوں کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ کفر و الحاد کے اس دَور میں یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا کام ہے جسے ہمیں کرنا چاہیے اور کر رہے ہیں۔ بےشمار واقعات ہیں جو ہم لوگوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ پیس کانفرنسز ہوتی ہیں۔ جلسے ہوتے ہیں۔ ہمارے جلسوں میں آتے ہیں۔ جب ہم اپنا پیغام، اسلام کا حقیقی پیغام بتاتے ہیں تو غیر بھی، عیسائی بھی، لامذہب بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ وہ اصل پیغام ہے، یہ وہ اسلام ہے جس کی دنیا کو پہنچانے کی ضرورت ہے اور اگر یہ اسلام تم لوگ پھیلاؤ تو کسی کو قبول کرنے میں کوئی روک نہیں ہو گی۔ پس یہ کام ہے جو ہم نے کرنا ہے۔ تجدید دین اور ایمان کو قائم کرنے کے لیے اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے ساتھ ہی جڑنا ہو گا جو خاتم الخلفاء بھی ہے۔
حضورانورنے2016ءمیں کینیڈا کا کامیاب دورہ فرمایا۔ 18؍نومبر2016ء کےخطبہ جمعہ میں آپ نے غیرازجماعت مہمانوں کے تاثرات بیان فرمائے۔ جن میں غیر ازجماعت مہمانوں نے خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ دُنیا میں جو امن کی کاوشیں ہو رہی ہیں اُن کا اپنے اپنے انداز میں ذکر کیا۔ چند ایک پیش ہیں۔
’’Presbyterian Church کے پادری پیس سمپوزیم سن کے کہتے ہیں کہ آج امام جماعت کے خطاب سے مجھے بڑا اثر ہوا کیونکہ یہ پیغام امن، محبت اور امید کا پیغام تھا جس کا رنگ ونسل، شرق و غرب یا کسی خاص وقت یا جگہ سے تعلق نہیں بلکہ تمام دُنیا کے لئے تھا۔ اس خطاب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ دُنیا میں بہت سی غلط فہمیاں اور خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آج کے پیغام میں یہ بات واضح تھی کہ ہمارے درمیان مشترک چیزیں زیادہ ہیں اور اختلاف کی باتیں کم۔ یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے جسے لوگوں کو سننے کی ضرورت ہے۔
…محمد الحلاواجی (Muhammad al Halawaji) صاحب جو پارلیمنٹ میں تھے اور نائل ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ آج کا پیغام نہایت واضح تھا کہ ہم سب کو محبت کے ساتھ رہنا چاہئے اور ہمیں کسی سے نفرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے تو امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے پارلیمنٹ میں امام جماعت کا خطاب سنا تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ پارلیمنٹ میں اس طریق پر کوئی مسلمان رہنما اس طرح خطاب کر سکتا ہے۔ خوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی اور نہایت نڈر طریق پر اپنی تقریر کی اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہی اسلام کا صحیح اور سچا پیغام ہے۔ جو جنگیں ہو رہی ہیں ان کے پیچھے کچھ لوگ ہیں جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں آج کے خطاب میں بھی ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘‘کے حوالے سے بات کی اور یہی ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہئے اور یہی سچ ہے۔
…سابق منسٹر برائے امیگریشن اینڈ ڈیفینس Jason Kenney ان کے ہمارے پُرانے تعلقات ہیں۔ جماعت سے اور مجھ سے بھی ذاتی طور پر ان کا کافی تعلق ہے۔ وہ بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ایک چھوٹی جماعت ہے لیکن بہت بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دُنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ اس وقت جو دُنیا کے حالات ہیں اور انتہا پسندی کے بارے میں غلط تصورات ہیں کہ اسلام انتہا پسندی کی اجازت دیتا ہے ایسی صورتحال میں جماعت احمدیہ ایک اکسیر کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جو کینیڈا کی تہذیب کے عین مطابق ہے اور امن کا ضامن ہے اور کہتے ہیں میرے خیال میں مسجد کا افتتاح اور امام جماعت احمدیہ کا دورہ اس پورے علاقے کے لئے علم میں اضافے کا باعث ہو گا اور لوگوں کے سامنے اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کیا جائے گا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍نومبر2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍دسمبر2016ءصفحہ7تا8)
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
پانچ گُل ہائے خلافت باغ مہدی میں کھلے
ہے گلِ نایاب سے مہکی کیاری یہ صدی
نوردیں، محمود، ناصر، طاہر و مسرور کی
شکل میں اللہ کا ہے فیضان جاری یہ صدی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لئے کرتا ہے چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اس کے فتوحات دُور دراز تک پہنچے اس لئے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم ہے لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے (کہ)اسلام جبر سے نہیں پھیلا اللہ تعالیٰ نے خاتم الخلفا کو پیدا کیا اور اس کاکام یضع الحرب رکھ کر دوسری طرف لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ قرار دیا۔ یعنی وہ اسلام کا غلبہ ملل ہالکہ پر حجت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ وجدال کو اٹھا دے گا۔ وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خونی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں۔ ‘‘(الحکم جلد 6۔ نمبر24۔ مورخہ10؍جولائی 1902ء صفحہ3)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔ اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے۔ لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی، اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرمﷺ کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی۔ صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے۔ اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتدائے جنگ کرے۔ لڑائی کا کیا سبب تھا، اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظُلِمُوْا۔ خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو۔ یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے، تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ تم مظلوم ہو۔ اب مقابلہ کرو۔ مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے۔ ‘‘(البدر جلد2 نمبر 1تا2۔ مورخہ 23؍جنوری 1903ء)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے روح پرور خطبات اور خطابات آج عالم اسلام میں ایک انقلابِ عظیم برپا کررہے ہیں۔ یہ خطبات ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں سنے جاتے ہیں۔ MTAکے مختلف چینلز پر مختلف زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ نشر ہوتے ہیں۔ MTA افریقہ پر افریقہ کی مختلف زبانوں میں نشر ہوتے ہیں۔ افریقہ کے جماعتی اور دوسرے ریڈیو سٹیشنز پر بہت سی زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ نشر ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک نے اپنی اپنی ویب سائٹ بنائی ہوئی ہیں۔ ان پر ان ممالک کی زبانوں میں اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔ خلیفۃالمسیح کی آواز ساری دنیا تک پہنچانے کے لیے آج ایک ایسا نظام جاری ہے جس کی تاریخ عالم میں اور عالم اسلام میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ان خطبات سے جہاں افراد جماعت کی زندگیاں سنورتی ہیں اور ایمانوں کو جلا ملتی ہے اور ایک روحانی مائدہ کا سامان مہیّا کرتے ہیں وہاں غیر بھی اِن خطبات سے فیض پاتے ہیں اور جہاں اُن کے احمدیت میں داخل ہونے کا موجب بنتے ہیں وہاں ان کی زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوتا ہے۔
کانگو سے ایک دوست اسماعیل صاحب بیان کرتے ہیں: میں کیتھولک عیسائی تھا اورمجھے چرچ میں عبادت کرنے سے سکون نہیں ملتاتھا۔ جب سے میں بیعت کرکے اسلام احمدیت میں داخل ہوا ہوں، میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ پہلے میں بہت جھگڑالو تھا اور کثرت سے شراب نوشی کیاکرتاتھا۔ اور سال میں ایک آدھ مرتبہ ہی عبادت کرتاتھا لیکن اب میں اللہ کے فضل سے دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتاہوں۔
فرنچ گیانا میں ایک عیسائی خاتون Linda Dilaire صاحبہ نے جب بیعت کی تو اپنے خیالات کا اظہاراس طرح کیاکہ میں متعدد چرچوں میں گئی ہوں، لیکن مجھے کہیں بھی دلی سکون نہیں ملا۔ مجھے ایک زندہ خدا کی تلاش تھی اور اب احمدیت قبول کرنے کے بعد مجھے میرا خدا مل گیاہے۔ مجھے ایک راحت اور سکون اور اطمینان حاصل ہواہے۔ میری زندگی میں ایک انقلاب آگیاہے۔ میں نماز اور قرآن کی تلاوت سے ایک لذت پاتی ہوں۔ میرا دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوگیاہے۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
یہ ہے وہ پاک تبدیلی جو آج خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ پیداہورہی ہے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے والے جنم لے رہیں۔
اپنے تو اپنے اب تو غیر بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ احمدیت لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپاکررہی ہے۔
شیانگاریجن تنزانیہ کے ریجنل کمشنر نے کہا: مجھے پتہ ہے کہ شیانگاکے لوگ زیادہ تر بے دین ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ احمدیت کے پیغام سے متاثر ہورہے ہیں اور میں نے دیکھاہے کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد ان میں ایک نیک روحانی تبدیلی آرہی ہے۔ اس لیے آپ لوگ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کہ شیانگا کے تمام لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائے۔ کیونکہ جو دین آپ سکھارہے ہیں اس سے لوگ مہذب بن رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جرائم کی شرح میں کمی آرہی ہے۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
یہی وہ مقصد تھا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لےکر آئے تھے کہ لوگ توحید کی طرف کھینچے جائیں اور بندوں کو دینِ واحد پر جمع کیاجائے۔
پس یہ ہے وہ انقلاب جو مخلوق خدا کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرکے اپنے رب سے ملارہاہے۔
بینن میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر جماعت ماکارا (Makara) کے صدرجماعت نے کہا: احمدیت ہی اصل اسلام ہے۔ ہم لوگ تو جاہل تھے۔ نمازتک نہ جانتے تھے۔ احمدیوں نے ہمیں اسلام سکھایا، ہمیں مساجد دیں، ہمارے بچوں کو دین سکھایا۔ اگر کوئی پوچھے کہ احمدیت نے ہمیں کیا دیاہے تو میں کہوں گاکہ خدا دیاہے۔ اور مرتے دم تک ہم اس پر قائم رہیں گے۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
پس آج خلافتِ احمدیہ کی برکت سے ان محروموں کو خدا تعالیٰ مل رہاہے اور نئی زندگی عطاہورہی ہے۔
آج ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کو ایک منفرد اور ممتاز عالمی تشخص حاصل ہے۔ آج عالم اسلام میں اس روئے زمین پر یہ واحد جماعت ہے جس میں آسمانی خلافت کا نظام جاری ہے۔ آج عالم اسلام میں چاروں طرف نظر دوڑائیں تو سوائے ایک وجود کے اور کوئی ایسا وجود نہیں ملتا جو عالم اسلام کے لیے اور بنی نوع انسان کے لیے راتوں کو اٹھ کر اپنے رب کے حضور تڑپتا ہو، آہ و بکا کرتا ہو اور ہرایک کے لیے خیر اور بھلائی مانگتا ہو۔
جاپان کے ایک پروگرام میں ایک مشہور وکیل نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہم نے اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اور اس یقین پر پہنچے ہیں کہ اگر دنیا کسی ایک معاملے پر جمع ہوسکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے امام کا ہاتھ ہی ہوسکتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی ایک تقریب میں شامل ہونے والے ایک بہائی دوست نے کہا آج تک میرا اسلام کے متعلق انتہائی بُرا تأثر تھا۔ میں جو کچھ میڈیا پر دیکھتا تھا اس پر یقین کرلیتا تھا۔ خلیفۃالمسیح کا خطاب سن کر اب میری رائے مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
2009ء میں جب یورپ میں یہ تحریک چلی کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے میناروں پر پابندی لگائی جائے تو اس وقت خلافت احمدیہ ہی اس تحریک کی راہ میں عالم اسلام کے لیے ڈھال بن گئی اور جماعت کے اعلیٰ کردار اور نمونہ کی بنیاد پر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 18؍ دسمبر 2009ء میں فرمایا: ’’اسلام کی یہ روشنی پھیلانے کا کام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا ہی مقدر ہے اور اسی کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ چنانچہ صرف سوئٹزرلینڈ میں ہی نہیں، سپین کے ایک بہت بڑے سیٹلائٹ چینل نے یہ خبردی اورخبر کے ساتھ پیڈروآباد میں جو ہماری مسجد بشارت ہے اس کی تصویر دی اور مقامی لوگوں کے انٹرویو دئیے اور سب نے یہ کہا کہ اس قسم کے قوانین غلط ہیں اور یہ بتایا کہ ہمارے علاقہ میں مسلمانوں کی یہ مسجد ہے یہاں سے تو امن و محبت کا پیغام پھیلانے والی آواز اٹھتی ہے۔ بلکہ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ تم ان لوگوں سے Terrorismکی بات کرتے ہو، یا کسی قسم کی نفرت کی بات کرتے ہو، میں تو کہتا ہوں کہ اصل امن پسند یہ لوگ ہیں اور ہمیں بھی ان جیسا ہونا چاہئے۔ یہ ایک انقلاب ہے جو دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے آپؑ سے تربیت پاکر پیدا فرمایا ہے کہ وہ ملک جہاں چند دہائیاں پہلے مسلمان سے سلام کرنا بھی شاید ایک دوسرے کو خوفزدہ کردیتا تھا۔ آج ٹی وی پر کھل کر وہاں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر سپینش لوگ امن چاہتے ہیں تو ان مسلمانوں جیسے بنیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور وہ یہ لوگ ہیں جو امن اور محبت کا سمبل (Symbol) ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍دسمبر2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جنوری2010ءصفحہ6)
امام الزمان حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشتہار7؍جون1897ء سے آپؑ کاپیغام حقانی پیش ہے، فرماتے ہیں: ’’عقل مند اور ایماندار جانتے ہیں کہ ایسے شخص کے ساتھ جس کو خدا آسمانی خلافت دے کر ایک عظیم الشان کام کے لیے بھیجتا ہے …ایک ظاہر ی فرماں روا کی کیا حیثیت ہے… وہ خلافت جس کا آج سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ اور نیز ازالہ اوہام میں ذکر ہے حقیقی خلافت وہی ہے … ہاں ہماری خلافت روحانی ہے اور آسمانی ہے نہ زمینی ہے۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 423)
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے 22؍اکتوبر 2019ء کو برلن میں ایک تاریخی خطاب فرمایا جس میں بڑی تعداد میں ممبرانِ پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہوئے۔ اس موقع پر جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر Bettina Muller (بیٹینا مولر) نے کہا کہ ’’امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے بھی امن کی خوشبو آتی ہے اور آپ کے وجود میں بھی امن، سلامتی اور سچائی کی تاثیر تھی جو دورانِ پروگرام سارے ماحول میں مجھے محسوس ہوتی رہی۔ ‘‘(عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
پھر یونائیٹڈ نیشن کے ادارہ UNESCO میں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تاریخی خطاب فرمایا۔ وہاں مالی سے UNESCO کے ایمبیسڈر عمر کائتا صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ امام جماعت احمدیہ وسیع النظر شخصیت ہیں اور امن کے قیام کےلیے کوشاں ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی امتِ مسلمہ کو ضرورت ہے۔ عالمی انصاف، ہم آہنگی کا جو تصور امام جماعت احمدیہ پیش کرتے ہیں دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ اور آج امت مسلمہ کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔ آج میں ایک ایسے انسان کے قریب تھا جو امن و انصاف کا سپوت ہے۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
پھر خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ نے اسلام کے حسین چہرہ پر جو دہشت گردی، انتہا پسندی اور شدت پسند مذہب ہونے کا داغ ہے اس کو دھویا ہے۔ اسلام کا خوبصورت چہرہ غیروں کے سامنے پیش کیا ہے۔ مختلف تقریبات کے ایڈریسز ہوں، خواہ پریس کانفرنسز ہوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے انٹرویوز ہوں، سرکردہ افراد سے ملاقاتیں ہوں۔ ہر جگہ حضورانور نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھایا ہے۔ اور غیروں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آج ہمیں علم ہوا ہے کہ اسلام کتنا پُر امن خوبصورت مذہب ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اپریل 2017ء میں فرماتے ہیں: ’’پس ہم جب قرآن کی تعلیم کی روشنی میں دنیا کو امن، بھائی چارے صلح اور آشتی کا راستہ دکھاتے ہیں تو بے اختیار اکثر شریف الطبع غیر مسلموں کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ چنانچہ اس بات کا اظہار میرے جرمنی کے اس دورے کے دوران بھی مختلف فنکشنز میں ہوا جو مسجدوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد کے موقع پر تھا۔
ایک شہر والڈ شُٹ (Waldshut) ہے وہاں مسجد تعمیر ہوئی ہے وہاں ایک مسجد کی افتتاحی تقریب میں ایک دوسرے شہر باسل (Basel) سے آئے ہوئے ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ وہ کہنے لگے کہ میری ساری زندگی یہ جستجو رہی کہ مجھے امن پسند مسلمان کہیں مل جائیں۔ آج آپ لوگوں نے میری اس خواہش کو پورا کر دیا۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں کہ آج مجھے یہ لوگ مل گئے ہیں۔ پھر وہاں اٹلی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بھی آئی ہوئی تھیں۔ اپنے دوست کے ساتھ پروگرام میں شامل ہوئیں۔ اس نے بتایا کہ میرا دوست اس پروگرام میں شامل ہونے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ اسلام کے بارے میں اس کے منفی جذبات تھے لیکن پروگرام میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کے بعد اس کا اسلام کے بارے میں نظریہ بالکل بدل گیا یہاں تک کہ اس نے فوراً اپنے موبائل سے اپنے کسی دوسرے مسلمان دوست کو میسج کیا کہ آج مجھے پتا لگا ہے کہ تمہارا مذہب کتنا خوبصورت ہے۔
پھر بوسنیا سے تعلق رکھنے والی تین بڑی تعلیم یافتہ خواتین اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کا پروگرام موجودہ مشکل حالات میں امن کے قیام کے لئے ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے اور امام جماعت احمدیہ کا جو خطاب تھا اس میں آپ نے محبت اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی۔
پھر ایک مہمان نے کہا: ’’یہاں آپ کی محفل سے مجھے بھی کچھ برکتوں کو سمیٹنے کا موقع ملا اور یہاں آنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ اگر آج میں یہاں نہ آتا تو یقیناً بہت بڑی چیز سے محروم رہ جاتا۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ مجھے حقیقی اسلام کا تعارف حاصل ہوا جو ٹی وی میں نفرت اور تشدد والے اسلام کے بالکل برعکس ہے اور یہاں سے مجھے امن اور محبت ملی ہے اور صرف یہ نہیں کہ لفظاً امن اور محبت ملی ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہاں ایسے انسان ملے ہیں جو نفرت نہیں چاہتے۔ ‘‘ پس ہر احمدی کا جو ذاتی فعل اور عمل ہے وہ بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔
پھر ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’آج تک میں سوچتا تھا کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں۔ مختلف مذاہب نے مختلف راستے دکھائے ہیں مگر آج یہاں آ کر معلوم ہوا ہے کہ مذہب نے تو بڑے مشترکہ راستے بتائے ہیں اور امام جماعت احمدیہ نے اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے‘‘۔ کہنے لگا ’’مجھے یہ بات پسند آئی کہ انہوں نے بڑے واضح طور پر باقی تشدد پسند مسلمانوں اور داعش وغیرہ سے دوری کا اظہار کیا اور ہمیں بتایا کہ ان کا اسلامی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جو افسوسناک اعمال دنیا میں ہو رہے ہیں اس میں آپ لوگوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ ان کا ہے جو اس تعلیم کو غلط بیان کرتے ہیں‘‘۔ پھر کہنے لگے کہ ’’یہ ہم سب کا کام ہے کہ محبت اور اخوت سے اس فتنے کے خلاف کھڑے ہوں ‘‘۔ کہنے لگے ’’مجھے آپ کی یہ بات بھی بڑی پسند آئی کہ کسی انسان کا خدا پر ایمان نہیں ہو سکتا اگر وہ قتل و غارت کرے کیونکہ ایک لحاظ سے کسی معصوم کو قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا پر ایمان کو بھی قتل کیا جا رہا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ28؍اپریل2017ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍مئی2017ءصفحہ6)
ایک مہمان آئے تو ان کے امن کے حوالے سے اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بعض تحفظات تھے اور یہ بھی ان کا سوال تھا کہ آپ کا خلیفہ امن کے لئے کیا کوششیں کرتا ہے؟ اور جب خطاب سن لیا تو کہنے لگے کہ ’’ان سب باتوں کا جو میرے ذہن میں تھیں، خطاب میں ذکر کر دیا اور میرے سب تحفظات دور ہو گئے ہیں ‘‘۔ اور کہنے لگے کہ ’’آپ لوگ تو امن کے سفیر ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے‘‘۔ اور پھر یہ بھی انہوں نے کہا کہ ’’اب میں اپنے دائرہ کار میں، جو بھی میرا حلقہ ہے اس میں آپ کا یہ پیغام پھیلانے میں پوری پوری کوشش کروں گا‘‘۔
ایک سیرین دوست نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ غیر مسلم احباب یہاں آ کر خطرہ پیدا نہ کریں ‘‘ اور پھر کہنے لگے کہ ’’لیکن آپ نے دوسرے مسلمانوں سے بہت بہتر رنگ میں اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں ‘‘۔ اور پھر یہ کہنے لگے کہ ’’امام جماعت احمدیہ نے آج اصل اسلامی تعلیم پیش کی۔ احمدیوں کا یہ پہلا پروگرام تھا جس میں مَیں شامل ہوا ہوں۔ اب میں مزید معلومات حاصل کروں گا اور شاید ایک دن میں خود بھی بیعت کر کے اس جماعت میں شامل ہو جاؤں ‘‘۔ کہتے ہیں ’’یہاں آنے سے پہلے میں نے سنا تھا کہ احمدیوں کا قرآن اَور ہے لیکن آج یہ بات بھی میرے سامنے غلط ثابت ہو گئی‘‘۔
ایک مہمان کہتے ہیں کہ ’’ایک احمدی تقریب میں شامل ہونے کا یہ پہلا موقع ہے۔ اس سے قبل جماعت کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا مگر اب میں بہت متأثر ہوں۔ مساجد کا اکثر اوقات دہشت گردی سے تعلق بیان کیا جاتا ہے مگر آج معلوم ہوا ہے کہ یہ حقیقت نہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ یہاں پہ ایک مسجد بننے والی ہے اور یہ مسجد امن کا گہوارہ ہو گی‘‘۔
ایک خاتون نے کہا کہ ’’پہلی دفعہ جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہو رہی ہوں۔ بہت پرسکون ماحول ہے اور جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے محبت اور رواداری کے بارے میں ہے۔ امن کے بارے میں ہے اور میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہوں ‘‘۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سالیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ …
دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جون 2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍جون2014ءصفحہ7)
پس آج ہم لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہر روز اپنی آنکھوں سے اپنے پیارے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عظیم قیادت میں اسلام کی ترقی اور فتوحات کے نظارے دیکھ رہے ہیں اور روز دیکھتے ہیں۔
پس ہمیں اپنی ہر مادی و روحانی ترقی کے لیے خلافت کے قدموں میں اپنا سر رکھ دینا چاہیے کہ اسی میں ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ کرے کہ دنیا عموماًاور مسلمان خصوصاًاپنے مقام کو گردانیں اور خدا کے بھیجے ہوئے فرستادےکو پہچاننے میں اب مزید تاخیر نہ کریں تا عافیت کا یہ حصار ان کو شش جہت سے ڈھانپ لے اور ان کی دائمی نجات کا موجب ہوسکے۔ آمین
آج ہراحمدی کا یہ فرض بنتاہے کہ اسلام کی جو تصویرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھینچی ہے اس کو لے کر اسلام کے امن اورآشتی، صلح اور صفائی کے پیغام کو ہر جگہ پہنچا دیں اور دنیا میں یہ منادی کریں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اپنی حسین تعلیم سے دنیا میں پھیلا ہے۔ اوراپنوں کوجو آنحضرتﷺ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کررہے ہیں یہ پیغام دیں کہ تم کس غلط راستے پر چل رہے ہو۔ ان کو سمجھائیں ان کے لیے دعائیں کریں کیونکہ یہ لوگ بھی اِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْن کے زمرے میں ہیں۔ دنیا کوباور کرانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی ترقی آپﷺ کے زمانے میں بھی اس فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی اور اس زمانے میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور اسلام کے صحیح تصور کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے نتیجے میں ہوگی۔ انشاء اللہ
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف، میں عافیت کا ہوں حصار
٭…٭…٭