’’مجھے تو مرزا صاحب کا تیر لگ گیا ہے‘‘
بحث کے دوران مولوی میاں محمد عاشق صاحب نے جوش میں آکر ایک ایسی بات کردی جو اللہ کےحضور ناپسندیدہ ٹھہری اور میاں صاحب کو اس کا نتیجہ دیکھنا پڑا لیکن اس کے ساتھ ہی اس وجہ سے ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذہوا
خاکسار کو اپنے بزرگوں سے ایک ایمان افروز واقعہ روایت کے طور پر منتقل ہوا تھا جب ہمارے خاندان میں تقریباًایک صدی پہلے احمدیت کا نفوذ ہوااور جس کے طفیل ہم اس الٰہی نظام کا حصّہ بنے۔ الحمدللہ
اس سلسلہ میں مجھے کچھ تحقیق کرنے کی توفیق ملی جس میں ہمارا شجرۂ نسب جو میرے پڑدادا کے کاغذات میں مجھے ملا اور کچھ بزرگوں کی زبانی راوایات شامل ہیں۔
میرےآباءواجداد
میرا نسب: ارشد محمود خاں بن ناصر محمود خاں بن میاں عبدالواحد بن میاں محمد عاشق بن میاں سلام اللہ بن میاں عزیزاللہ بن میاں عبدالغفور بن میاں محمد حیات
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اُس زمانے میں حافظِ قرآن، خطیب اور گاؤں کے مفتی کو میاں کے نام سے لکھا اور بولا جاتا تھا۔ خاکسارکے پاس موجود پچھلی سات نسلوں (تقریباً دوسوسال) کے شجرہ نسب سے معلوم ہوتا ہے کہ خاکسار کے اجداد میں کئی حفاظِ قرآن، علماء اور سلوک وطریقت کے متلاشی پائے جاتے تھے جو اپنے علاقے میں عزت واکرام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
خاکسار کےوالد ناصر محمود خاں مرحوم ریٹائرڈ وارنٹ آفیسر پاکستان ایئر فورس، جنہوں نے دو ہندو پاک جنگوں میں حصہ لیا اور تقریباً اڑھائی سال تک ہندوستان میں جنگی قیدی بھی رہے۔ والد صاحب کا تعلق لاہور کے قریب اپنے آبائی گاؤں نانو ڈوگرضلع لاہورکے قریب سے تھا جہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ وہاں سے انٹرمیڈیٹ کے بعد پاک فضائیہ میں شامل ہوکر ایک قابل افسراوراسکول آف ایروناٹکس کورنگی کریک کراچی ایئر بیس سے1982ء میں بطور اُستاد ریٹائرڈہوکر ربوہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔
خاکسار کے دادا کا نام منشی عبدالواحدتھا جو 1935ء سے اسکول ہیڈ ٹیچر موضع مانگا اورموضع باٹھ ضلع لاہور میں رہے۔ دوران ملازمت ہی آپ شامکی بھٹیاں ضلع لاہور میں منتقل ہوگئے۔ میرے دادا پنج ہزاری مجاہدین تحریک جدید میں شامل ہیں اور ان کا نمبر 2336ہےاور میرے بڑے بھائی مکرم طارق محمود خاں حال مقیم کراچی نے یہ کھاتہ زندہ رکھاہوا ہے۔ الحمدللہ
میاں محمد عاشق آف شرقپور (سہجووال) ضلع شیخوپورہ
خاکسار کے پڑدادا کا نام میاں محمد عاشق (وفات 1910ء)آف سہجووال نزدشرقپور تھا جواپنے زمانے میں اہل حدیث کے معروف عالم دین بھی تھے اور اس دَور کے مشہور مخالف احمدیت مولانا ثناءاللہ امرتسری کی ہمراہی میں بھی رہے۔ میرے پڑدادا ایک الٰہی نشان کے نتیجے میں فوت ہوئے۔ قریب المرگ آپ نے احمدیت کو سچا جانا اوراپنی بیوی کو وصیت کی کہ میرے بعد میرے بچوں کو احمدی کرلینا اور اگر حق کرنا ہو تو کسی احمدی گھرانے میں جانا [شادی کر لینا]۔ چنانچہ میرے دادامنشی عبدالواحد(ولادت 1912ءبیعت 1924ء وفات 15؍اپریل 1974ء) اور دوسرے دو اور بھائیوں میاں عبدالرحمٰن(ولادت 1916ء بیعت 1930ءوفات 12؍دسمبر 1986ء)اور عبدالجبار(ولادت 1923ء بیعت 1934ءوفات 15؍جنوری 1992ء) کے ساتھ میری پردادی محترمہ چراغ بی بی احمدی ہوئیں۔ اس واقعہ کی تفصیلی روایت آگے آرہی ہے۔
ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذ
درج ذیل دو روایات میں نے اپنی دونوں پھوپھو جان سے زبانی بھی سنی ہیں اور میری بڑی پھوپھو حال مقیم لندن ہیں جو تقریباً نوے سال کی ہیں اور خوداپنے بچپن میں یہ واقعہ اپنے والدین اور دادا جان سے سن چکی ہیں۔ مزید میں نے اس واقعہ کی تحقیق اپنے دوسرے حیات بزرگوں سے بھی کی ہے جو کچھ الفاظ کی کمی بیشی سے ایسی ہی ہے جو یہاں بیان کی جاتی ہے۔
سیّد محمد اشرف صاحب رضی اللہ عنہ
روایت نمبر1: حضرت سیّد محمد اشرف صاحبؓ کی روایت بابت میاں محمد عاشق (میرے پڑدادا)
مولوی سیّد محمد اشرف صاحبؓ آف مغلپورہ لاہور صحابی حضرت مسیح موعودؑ تھے۔ مولوی صاحب نے بتاریخ9؍جنوری 1915ء ایک روایت بیان کی جو اُن کے الفاظ میں یہاں نقل کی جاتی ہے:
میرے ماموں حکیم شیر محمد صاحبؓ میرے زیرِتبلیغ تھے جو اخبار البدر اور براہین احمدیہ حصّہ چہارم بھی پڑھتے اور دوسرے رسائل جماعت سے بھی حضرت مسیحِ موعودؑ کے تازہ الہامات سے آپ کوآگاہی ہوتی گئی اور آپ کافی مائل تھے کہ بیعت کرلیتے۔ یہاں ایک روک یہ پیدا ہوگئی کہ ہمارے ایک رشتہ دار مولوی محمد عاشق صاحب اہل حدیث [خاکسار کے پڑدادا]تھے جن سے ماموں جان نے چند گرائمر عربی کی سیکھی تھی یعنی اُستاد بنا چکے ہوئے تھے اور وہ موضع نانوڈوگر کے قریب کے گاؤں رنگیلیاں والا میں رہتے تھے۔ مولوی اہل حدیث یعنی محمد عاشق صاحب سے ماموں جانؓ کا تبادلہ خیالات ہونے لگا اور آئے دن کچھ نہ کچھ اثر استاد کا آپ کے دل میں پڑنے لگا۔ مگر میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں اور اخبار البدر کے مطالعہ سے ایمان کی چنگاری آپ کے دل میں سلگ چکی تھی۔
میرے خیال میں 1907ء میں ماموں جانؓ کے ساتھ میں پھر ’’بھینی‘‘ [یہ شرقپور کے قریب ضلع شیخوپورہ کا ایک گاؤں ہے۔ ] گیا وہاں ماموں جانؓ قریباً بیعت میں داخل ہونے کو تیار ہوگئے مگر پھر کچھ مولوی محمد عاشق صاحب وغیرہ کی رات دن کی تبلیغ وغیرہ کے نتیجے میں بیعت سے پیچھے ہی رہے۔ خیر ماموں جانؓ عرصہ تک مولوی محمد عاشق صاحب کے زیر اثر رہے ادھر سلسلہ کی کتابوں اور البدر اخبار کا مطالعہ اور زیادہ ہوتا گیا۔ اندازاً مارچ یا اپریل 1908ء میں حضرت مسیحِ موعودؑ لاہور تشریف لائے تو میں نے چند ہمراہیوں کے ساتھ دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت
مولوی صاحبؓ فرماتے ہیں: میرے خیال میں انہیں دنوں میں مولوی محمد عاشق صاحب اور میرے ماموں حکیم شیر محمدؓ صاحب دونوں حضرت مسیحِ موعودؑ کی زیارت کےلیے لاہور گئےمگر دونوں کا مقصدحضورعلیہ السلام کی ذات اور تقریر وغیرہ میں اعتراض کرنا تھا۔ اُنہیں دنوں میں نے مولوی محمد عاشق صاحب کی زبانی سنا تھا کہ تمہارے مرزا صاحبؑ ہنستے تھے حالانکہ نبی ہونے کا دعوی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خیر میں نے اپنی تبلیغ اپنے ماموں جانؓ کو جاری رکھی اور اللہ کے فضل سے 1909ء میں آپ کا سینہ ہر ایک آلودگی سے صاف ہوگیا اور آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ الحمدللہ
دوسری عرض۔ وہ مولوی محمد عاشق صاحب اہل حدیث جو تازندگی ہماری مخالفت میں یعنی مولوی ثناءاللہ امرتسری سے ملنے والے تھے اُن کی وفات کے بعد اُن کی بیوہ[محترمہ چراغ بی بی صاحبہ]ایک مخلص احمدی (میاں محمد ابراہیم ڈوگرآف نانوڈوگر) کے عقد میں آئیں اور مولوی محمد عاشق صاحب کے تین لڑکے(عبدالواحد، عبدالرحمٰن، عبد الجبار) جو چھوٹی عمر میں چھوڑ کر آپ مولوی صاحب دارفانی سے رحلت فرما گئے تھے احمدیوں کے زیرسایہ پرورش پائی اور تینوں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہر ایک تحریک میں حصہ لینے والے ہیں۔ شادی شدہ ہیں۔ صاحب اولاد ہیں برسراقتدار ہیں۔ بڑے صاحبزادے عزیزم منشی عبدالواحد صاحب ہیڈ ماسٹر سکول ہیں اور نانو ڈوگر کی جماعت کے خطیب ہیں۔ دوسرے صاحب عبدالرحمٰن تجارت کپڑے کا کام کرتے ہیں تیسرے (عبدالجبارصاحب)بھی آج کل تجارت کے کام پر شاہدرہ میں حکیم مختار احمد صاحب کے زیر سرپرستی کام کرتے ہیں۔ یہاں یہ روایت ختم ہوتی ہے۔
حوالہ جات: مولوی سیّد محمد اشرف صاحبؓ کا ذکر شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسلہ لاہور نے اپنی کتاب’’تاریخ احمدیت لاہور‘‘ کے صفحہ 344 میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان صحابی کا تفصیلی مضمون روزنامہ الفضل لندن آن لائن کے 26؍نومبر 2020ء کے پرچہ میں بھی شائع ہوا ہے۔
میاں محمد ابراہیم ڈوگرمرحوم
روایت نمبر 2: میاں محمد ابراہیم ڈوگرصاحب کی روایت بابت میاں محمد عاشق (میرے پڑدادا)
بیان کیا محمد ظفراللہ ڈوگر بن سردارنذیراحمد ڈوگر بن محمد ابراہیم ڈوگر بن جلال دین نےکہ انہوں نے اپنے دادا جان سے 1963ءمیں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سنا جو ان کے دادا جان کے الفاظ میں اس طرح مروی ہے:
جب میں 1907ءمیں تقریباً بیس سال کا تھا تو سنا کرتا تھا کہ امام مہدی قادیان میں آچکے ہیں اور اس وقت میرے دونوں چچا جان(مولوی محمد دین اور مولوی کرم دین) نانوڈوگر کی مساجد میں امام الصلوٰة اور مشہور عالم تھے اور ہمارے گاؤں میں بھی اس بات کا چرچا ہونے لگا تھا۔ یہ 1908ء کا ذکر ہے کہ نانوڈوگر کے ملک اللہ دتہ صاحب نمبردا ر جو بگا برادری سے تعلق رکھتے تھے نے احمدیت قبول کرلی جو ایک الگ دلچسپ کہانی ہے۔ اس طرح ہمارے گاؤں نانوڈوگر میں پہلے احمدی ہونے کا اعزاز بگا برادری کے پاس ہے۔
یہ غالباً 1910ء کی بات ہے کہ میں اپنے گاؤں نانوڈوگر سے کام کی غرض سے شرقپور ضلع شیخوپورہ کے قریب جایا کرتاتھا کہ سُنا کہ ساتھ والے گاؤں ’’بھینی‘‘ میں مرزا صاحب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ میں نے وہاں جاکر معلومات لیں، کچھ مطالعہ کتب اور تحقیق کے بعد اگلے جمعہ والے دن بیعت فارم پُر کرکے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کردیا۔
میں شرقپور شریف میں میاں شیر محمد شرقپوری صاحب کادرس سننے بھی جایا کرتا تھا جو اپنے دَور کے مشہور گدی نشین اور بزرگ مانے جاتے تھے۔ اگلی دفعہ میں نے وہاں بھی اپنے دوستوں کو امام مہدی کے ظہور کے متعلق بتانا شروع کردیا اور کچھ رسائل بھی مریدین میں تقسیم کیےاور اعلان کیا کہ میں بیعت کرچکا ہوں اور آپ دوست بھی اس بارے میں سوچو۔ بہت سے دوستوں نے بات سنی ان سنی کردی مگر میرے ایک دوست مولوی میاں محمد عاشق (خاکسار کے پڑدادا) جو اپنے علاقہ کے ایک معزز اور معروف اہلحدیث عالم تھے نے کچھ دلچسپی دکھائی اور مجھ سے کتا ب ’’کشتی نوح‘‘ لےکر پڑھی مگر دل پر اثر نہ ہوا اور مخالفت شروع کردی۔ میں نے کہا کہ میرے بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ امام مہدی کے متعلق بشارت دے دی ہے اور یہ کتب حضرت مسیح موعودؑ آپ کے سامنے ہیں۔ ہماری اس بحث کو جب میاں شیر محمدصاحب شرقپوری کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے پنجابی میں کہا: ’’بیلیا اوناں نوں (حضرت مرزا صاحب) نوں اپنا کم کرن دے تے اسیں اپنا کم کردے آں ‘‘ یعنی مرزا صاحب کو اپنا کام کرنے دو اور ہم اپنا کام کرتے ہیں (یعنی مقصد دونوں کا نیک ہی ہے۔ ناقل) اور مخالفت کے کوئی الفاظ نہ بولے۔ محمد ابراہیم ڈوگر صاحب کی روایت اُنہیں کے الفاظ میں ابھی جاری ہے اور درج ذیل اہم واقعہ بھی اسی روایت کا حصہ ہے۔
مجھے تو مرزا صاحب کا تیر لگ گیا ہے
اسی بحث کے دوران مولوی میاں محمد عاشق صاحب نے جوش میں آکر ایک ایسی بات کردی جو اللہ کےحضور ناپسندیدہ ٹھہری اور میاں صاحب کو اس کا نتیجہ دیکھنا پڑا لیکن اس کے ساتھ ہی اس وجہ سے ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذہوا۔ میاں صاحب نےکہا کہ’’مرزے نے آکھیا اے کہ جیڑامینوں نہیں منے گا اونوں طاعون ہوجائے گی، مینوں کیوں نہیں ہوندی‘‘ یعنی مرزاصاحب نے کہا ہے کہ جوآپ کونہیں مانے گا اسے طاعون ہوجائےگی، میں نے نہیں مانا تو مجھے کیوں طاعون نہیں ہوتی؟
حضرت مسیحِ موعودؑ کی صداقت میں اللہ نے جلد ہی میاں محمد عاشق صاحب کو(1910ءمیں ) طاعون میں مبتلا کردیا اور اس وقت تک حضرت مرزا صاحبؑ کی وفات ہوچکی تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کا دَور تھا۔ جب میاں محمد عاشق صاحب کو اپنی موت کا یقین ہوگیا اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہوگئی تو آپ نے اپنی بیوی چراغ بی بی صاحبہ کو کہا کہ’’مجھے تو مرزا صاحب کا تیر لگ گیا ہے‘‘ اور میرا بچنا مشکل ہے۔ میری وصیت ہے کہ جب محمد ابراہیم ڈوگر آئے تو اس کے ذریعہ تم امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرلینا۔ تیرے تین بیٹے ہیں (عبدالواحد، عبدالرحمٰن، عبدالجبار) جو تیرے لیے کافی سہارا ہیں۔ گیارہ ایکڑ زمین شرقپور کے پاس ہے چار ایکڑ زمین رنگیلیاں والا (نانو ڈوگر) میں ہے، گھر میں آدھا سیر سونا اور پانچ سیر چاندی بھی موجود ہے اور تو بچوں کے ساتھ بھوکی نہیں رہے گی۔ مگر تو ابھی جوان ہے اگر حق کرنے کا ارادہ ہو تو ابراہیم ڈوگر کے ذریعہ کسی احمدی گھرانے میں جانا اور اسی طرح بیٹوں کو ساتھ رکھنا۔ اس طرح مولوی محمد عاشق صاحب کی وفات بوجہ طاعون ہوگئی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ اپنے مسیح و مہدیؑ کے ساتھ پورا ہوا۔
میری پڑدادی کی بیعت اور نکاحِ ثانی
محمد ابراہیم ڈوگر صاحب اپنی جاری روایت بواسطہ محمدظفراللہ ڈوگر میں بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے اپنے دوست کی وفات کا 1910ء میں علم ہوا تو میں تعزیت کےلیے شرقپور گیا کیونکہ میاں محمد عاشق کے بھائی وغیرہ وہیں رہتے تھے [غالباً میرے پڑدادازمین داری کی وجہ سے سہجووال جو سات کلومیٹرشمال شرقپور ہےرہتے تھے مگر مستقل گھرانہ شروع سے ہی شرقپور سے تعلق رکھتا تھا]اس دوران میں تعزیت کےلیے اپنے دوست کی بیوہ چراغ بی بی سے ملا اور انہوں نے اپنے مرحوم خاوند کی وصیت مجھے بتادی اور احمدیت میں شامل ہونے کی خواہش کی۔ چنانچہ بمطابق وصیت میں نے چراغ بی بی کی بیعت کروادی جس پر اُس کے سُسرال میں بہت ہنگامہ ہوا اوراُس کے گھر والوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں عورت ذات ہے کچھ عرصے میں سمجھ جائے گی اور احمدیت سے توبہ کرلے گی اور کون سا ابراہیم نے ادھر ہی بیٹھے رہنا ہے جس کا اثر ہوگا۔
چھ سات ماہ بعد اللہ نے مجھے پہلا بیٹا محمد اسماعیل ڈوگر دیا اور دو ماہ بعد میری بیوی کی وفات ہوگئی۔ میں نے جب چراغ بی بی سے رابطہ کیا اور اپنی بیوی کی وفات کا ذکر کیا تو اُس نے کہا کہ اگر تم پسند کرو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور اسی طرح میں احمدیت پر بھی قائم رہ سکوں گی۔ چنانچہ جب میری طرف سے چراغ بی بی کے گھر رشتہ بھجوایا گیا تو اُس کے سُسرال نے پھر ہنگامہ کھڑا کردیا اور اسی طرح دو تین ماہ معاملات چلتے رہےمگر چراغ بی بی احمدیت پر ڈٹی رہی اور میرے ساتھ نکاح کےلیے رضامندی دے دی۔ آخر اس جھگڑے کا فیصلہ اس طرح ہوا کہ سُسرالیوں نے کہا کہ تم اس صورت میں نکاح ثانی محمد ابراہیم ڈوگرسے کر سکتی ہو کہ کوئی مال ودولت، زمین اور گھر کا سامان لےکر نہ جاؤگی۔ چراغ بی بی نے کہا مجھے کوئی زمین اور دولت نہیں چاہیے اور تم مجھ سے تمام کاغذات پر انگوٹھے لگوالو اورگھر کی چابیاں اور دولت سُسرال کے حوالے کرکے اس طرح وہ صرف چند کپڑوں کے ساتھ اپنے تین بیٹوں کو ساتھ لےکر میرے نکاح میں آئی۔
یہ روایت یہاں ختم ہوتی ہے جس میں ہمارے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کا ایمان افروز ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی مناسب ہے کہ میرے دوسرے پڑدادا محمد ابراہیم ڈوگراور اُن کے تینوں سوتیلے بیٹے (عبدالواحد، عبدالرحمٰن، عبدالجبارابن میاں محمد عاشق) بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں اوراُن کی ساری اولاد اللہ کے فضل سے پوری دُنیا میں پھیل چکی ہے اورمخلص احمدی اور جماعت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ اسلام احمدیت زندہ باد!
٭…٭…٭