جنت کی خوشخبری پانے والے صحابہ اور صحابیات
جب ہم کتب احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو عشرہ مبشرہ کے علاوہ کم و بیش پچاس صحابہ و صحابیات کا ذکر ملتا ہے جنہیں آنحضرت ﷺ نے یا تو زندگی میں ہی جنت کی خوشخبری عطا فرمائی یا ان کی وفات کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر فرمایا
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ شروع کریں تو اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكهف:110) کہ کس کس بات کا شکر ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت پاک اور مطہر ساتھیوں اور دوستوں کی محفل ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی ہر عطاکردہ نعمت کا عکس انبیاء کی زندگی میں نظر آتا ہے اسی طرح اس نعمت الٰہی کا عکس بھی ہر نبی کی زندگی میں (جہاں تک ہمارے پاس تاریخ موجود ہے ) بھی نظر آتا ہے۔
پس جب اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم آنحضرتﷺ کی مطہر ذات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں بلا شبہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جس کمال کا نبی اس امت کو عطاکیا گیا اس کے صحابہ ؓبھی اسی لحاظ سے کمال مرتبہ کے لوگ تھے۔ انہی کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ وَاَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا…(التوبة:100)اور مہاجرىن اور انصار مىں سے سبقت لے جانے والے اوّلىن اور وہ لوگ جنہوں نے حُسنِ عمل کے ساتھ ان کى پىروى کى، اللہ ان سے راضى ہو گىا اور وہ اس سے راضى ہوگئے اور اس نے ان کے لئے اىسى جنتىں تىار کى ہىں جن کے دامن مىں نہرىں بہتى ہىں وہ ہمىشہ ان مىں رہنے والے ہىں۔اور آنحضرتﷺ نے فرمایا: أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے تو ہدایت کو پا جاؤگے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے:إِنَّ اللّٰهَ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلَى دِيْنِهِ۔(مسند احمد بن حنبل مسند عبد اللّٰہ بن مسعود)اللہ تعالیٰ نے نظر تمام بندوں کے دلوں کی طرف کی تو محمد مصطفیٰﷺ کا دل تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر پایا تو اسے اپنے لیے چن لیا اور انہیں اپنی رسالت کے لیے مبعوث فرمایا۔ پھر محمد مصطفیٰﷺ کے دل کو اپنے لیے منتخب کرنے کے بعد دوبارہ بندوں کی طرف نظر کی توآپؐ کے صحابہ کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبیﷺ کاوزیر بنا دیا جو ان کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک گروہ کا ذکر فرمایا جس کے لیے جنت کی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔مگر جب ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں تو ایک مشہور اصطلاح ’’عشرہ مبشرہ‘‘کی ملتی ہے۔ یعنی وہ دس صحابہ جن کو آنحضرتﷺ نے زندگی میں جنت کی خوشخبری دی۔
مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ صرف دس ہی تھے؟کیا ان کے علاوہ کسی اور فرد کو نام لے کر جنت کی خوشخبری نہ دی گئی؟ اگر دی گئی تو وہ کون تھے؟ اور اس کا ثبوت کیا احادیث میں صرف مورخین کی کتب سے ہی ملتا ہے۔
ان تمام سوالات کے جواب دینے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے کون سےدس صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ وَأَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ۔(ترمذی کتاب المناقب) حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابوبکرؓ جنت میں ہےاور عمرؓ جنت میں ہے اور عثمانؓ جنت میں ہےاور علیؓ جنت میں ہےاور طلحہؓ جنت میں ہے اور زبیر ؓ جنت میں ہےاور عبدالرحمٰن بن عوف ؓجنت میں ہےاور سعد بن ابی وقاصؓ جنت میں ہےاورسعید بن زیدؓ جنت میں ہےاور ابوعبیدہ بن جراحؓ جنت میں ہے۔
یہ حدیث مبارکہ صرف ترمذی میں ہی نہیں بلکہ سنن ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ میں بھی کچھ الفاظ کے فرق سے آئی ہے۔
یہ دس معروف صحابہ ہیں جن کا ذکر زبان زد عام ہے۔ اس لیے ان کی ذات پر مزید کچھ لکھنے کی بجائے ہم پہلے اٹھائے گئے سوال کو حل کرتے ہیں کہ کیا عشرہ مبشرہ کے علاوہ بھی کوئی اَور صحابی یا صحابیہ تھیں جن کو جنت کی خوشخبری دی گئی؟
جب ہم کتب احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو مزید ایسے کم و بیش پچاس صحابہ و صحابیات کا ذکر ملتا ہے جنہیں آنحضرت-ﷺ نے یا تو زندگی میں ہی جنت کی خوشخبری عطا فرمائی یا ان کی وفات کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر فرمایا۔ اب یہ سوال رہ گیا کہ وہ کون کون تھے اور کن الفاظ میں صحابہ کو آنحضرتﷺ نےجنت کی خوشخبری عطا فرمائی؟ اس سوال کے حل کے لیے ہم ایک ایک صحابی کو لیتے ہیں اور ان کا مختصراً ذکر کرتے ہیں۔
٭…حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ
آپؓ آنحضرتﷺ کی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں۔ آپ کی شادی چالیس سال کی عمر میں ہوئی۔ آنحضرتﷺ کی چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ آپؓ کی وفات پینسٹھ سال کی عمر میں ہوئی۔ صحیح بخاری میں آپؓ کے بارے میں حدیث ان الفاظ میں آتی ہے: قَالَ: بَشِّرُوا خَدِيْجَةَ بِبَيْتٍ مِّنَ الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ، لَا صَخَبَ فِيْهِ، وَلَا نَصَبَ (بخاری کتاب العمرہ)آپؐ نے فرمایا خدیجہؓ کو جنت میں ایک گھرکی بشارت دو جو خولدار موتی کا ہے۔نہ اس میں کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکان۔
پھرمسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ۔(مسند عبد اللہ بن عباسؓ)
یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا:جنت کی عورتوں میں سے افضل (یہ ) ہیں ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران۔
٭…حضرت فاطمہ بنت رسول اللہﷺ
حضرت فاطمہ ؓ بعثت کے پانچویں سال مکہ میں ہی پیدا ہوئیں۔ آپؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی اور آپ کے بطن سے حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓپیدا ہوئے۔ آپؓ نے جنگوں میں بھی حصہ لیا، مشہور روایات کے مطابق غزوہ احد میں آنحضرتﷺ اور حضرت علی کے زخموں کی مرہم پٹی آپؓ نے ہی کی۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت آپ کی عمر 29سال تھی۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے چند ماہ بعد آپ کی وفات ہو گئی۔آپ کی تاریخ وفات 3؍جمادی الثانی 11ہجری کتب میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری میں آپؓ کے بارے میں درج روایات میں ہے:
1)وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ۔کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔
2)فَقَالَتْ: أَسَرَّ إِلَيَّ: إِنَّ جِبْرِيْلَ كَانَ يُعَارِضُنِي القُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَنِي العَامَ مَرَّتَيْنِ، وَلَا أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي، وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي۔ فَبَكَيْتُ، فَقَالَأَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُوْنِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، أَوْ نِسَاءِ المُؤْمِنِينَ فَضَحِكْتُ لِذَا لِكَ۔(بخاری کتاب المناقب)کہ آپؐ نے مجھے یہ راز کی بات بتلائی تھی کہ جبرئیل ہر سال ایک دفعہ قرآن کا دَور مجھ سے کیا کرتے تھے اور اس سال انہوں نے مجھ سے دوبار دَور کیا۔ اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرا وقت آن پہنچا ہے اور میرے گھر والوں سے تم پہلے ہو جو مجھ سے ملو گی، یہ سن کر میں رو پڑی۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا تم یہ پسند نہیں کرتی کہ جنتی عورتوں کی تم سردار بنو یا فرمایا: مومن عورتوں کی سردار بنو۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی۔
٭…حضرت عائشہ صدیقہؓ
آپؓ حضرت ابو بکرؓ کی صاحبزادی تھیں، مکہ میں پیدا ہوئیں۔ مدینہ ہجرت کے بعد آنحضرتﷺ سے شادی ہوئی۔ غزوات میں شامل ہوئیں۔ آپؐ کی وفات کے بعد47 سال زندہ رہیں۔ 58 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا جنازہ حضرت ابو ہریرہؓ نے پڑھایا اور مدینہ میں ہی تدفین ہوئی۔ حضرت ابوہریرہؓ کے بعد سب سے زیادہ روایات آپؓ سے مروی ہیں۔ایک اندازہ کے مطابق آپ سے مروی روایات کی تعداد 2200 ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّهُ لَيُهَوِّنُ عَلَيَّ أَنِّي رَأَيْتُ بَيَاضَ كَفِّ عَائِشَةَ فِي الْجَنَّةِ۔(مسند عائشہ صدیقہ)اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ میرے لیے یہ امر آسان ہو گیا کہ میں نے حضرت عائشہ کی ہتھیلی کی سفیدی کو جنت میں دیکھا ہے۔
جبکہ ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل ؑنے آنحضرتﷺ کو ایک ریشم کے ٹکڑے پر حضرت عائشہؓ کی تصویر دکھائی اور فرمایا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی زوجہ ہیں۔
٭…حضرت حفصہ بنت عمرؓ
آپؓ حضرت عمرؓ بن خطاب کی بیٹی تھیں اور آنحضرتﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں۔ آپؓ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذیفہؓ سے ہوئی جو بدری صحابی تھے اور بدر کے زخموں کی وجہ سے ہی ان کی مدینہ میں وفات ہوئی تھی۔ آپؓ کی وفات 45 ہجری میں ہوئی۔ آپ کا جنازہ مروان نے پڑھایا جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا۔
آپؓ کے بارے میں طبرانی میں روایت ہے کہ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَقَالَ ……إِنَّهَا زَوْجَتُكَ فِي الْجَنَّةِ۔(معجم الکبیر باب القاف)کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا کہ …حضرت حفصہؓ آپ کی جنت میں زوجہ ہیں۔
٭…حضرت اما م حسنؓ اور حضرت حسین ؓ
حضرت حسن ؓحضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے بڑے بیٹے تھے۔ ہجرت کے تیسرے سال آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی وفات مدینہ میں 50 ہجری میں ہوئی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
جبکہ حضرت حسین ؓ ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی چھ سال کے ہی تھے کہ آنحضرتﷺ کی وفات ہو گئی۔ 680 عیسوی میں جب امیر معاویہ کی وفات کے بعد مدینہ سے مکہ تشریف لے آئے اور وہاں سے کوفہ تشریف لے گئے۔ راستے میں کربلا کے مقام پر 10؍محرم 61؍ہجری میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
ترمذی میں روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ۔(کتاب المناقب)کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
٭…حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ
آپؓ حبشی نژاد غلام تھے اورمکہ میں ہی پیدا ہوئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے آپ کی قیمت ادا کر کے آزاد کروایا۔ ہجرت مدینہ کے بعد آپ کو مؤذن رسولﷺ کا اعزاز نصیب ہوا۔ حضرت عمر ؓکی خلافت میں اجازت لے کر ملک شام میں چلے گئے۔ 20 ہجری میں شام میں ہی وفات پائی۔ آپ کی شادی حضرت ابودرداء کے خاندان میں ہوئی تھی۔ مگر تاریخ کی کتب میں آپ کی کسی اولاد کا ذکر نہیں ملتا۔
صحیح مسلم میں آپؓ کے بارے روایت ہے کہأَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُرِيْتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ امْرَأَةَ أَبِي طَلْحَةَ، ثُمَّ سَمِعْتُ خَشْخَشَةً أَمَامِي فَإِذَا بِلَالٌ۔(کتاب فضائل الصحابہ)رسول اللہﷺنے فرمایا :مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے ابو طلحہ ؓکی بیوی کو دیکھا پھر میں نے اپنے آگے قدموں کی چاپ سنی تو وہ بلالؓ تھے۔
٭…حضرت ام سلیم بنت ملحان ؓ/ غمیصاء بنت ملحانؓ
آپؓ کی شادی زمانہ جاہلیت میں مالک بن نضر سے ہوئی ، انہی سے حضرت انس بن مالکؓ پیدا ہوئے۔ آپ انصار میں سے اولین اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھیں۔ ان کے شوہر کفر کی حالت میں ہی سفر شام کے دوران وفات پا گئے تھے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت ابو طلحہ ؓنے (جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے )ان سے شادی کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے اس پیغام کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو رشتہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنا بیٹا حضرت انسؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور انہی (یعنی حضرت انسؓ) کے لیے آپﷺ نے دعا دی کہ ’’اے اللہ! اس کو کثرت سے مال اور اولاد عطا فرما اور جو کچھ تو اسے عطا فرمائے اس میں برکت نصیب فرما۔‘‘(ترمذی)
صحیح مسلم میں آپؓ کے بارے میں روایت ہے کہعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْفَةً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذِهِ الْغُمَيْصَاءُ بِنْتُ مِلْحَانَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ۔(کتاب فضائل الصحابہ)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے قدموں کی چاپ سنی۔ میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ غمیصاء بنت ملحانؓ ہے انس بن مالکؓ کی ماں۔
٭…آل یاسر (حضرت عمار بن یاسرؓ اور ان کے والدین)
حضرت یاسرؓ ، یمن سے مکہ میں آ کر آباد ہوئے۔ مکہ میں انہوں نے ابو حذیفہ کی لونڈی سمیہ (حضرت سمیہؓ) سے شادی کر لی۔ حضرت یاسر ؓ خود، ان کی اہلیہ حضرت سمیہؓ اور ان کے بیٹے حضرت عمارؓ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ ابو جہل نے حضرت سمیہ ؓ کو قبولیت اسلام کی وجہ سے نیزہ مار کر شہید کر دیا۔ وہ اسلام کی پہلی شہید خاتون تھیں۔ حضرت یاسرؓ خود بھی ان تکالیف کو برداشت نہ کر سکے اور چند دنوں بعد شہید ہو گئے۔ حضرت عمارؓ جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی طرف سے شریک ہوئے اور اسی میں شہید ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر93سال تھی اور صفین میں ہی تدفین ہوئی۔
آپ کے بارے میں مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب ان کو اذیت دیے جاتے وقت دیکھا تو فرمایا کہ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَمَّارٍ وَأَهْلِهِ وَهُمْ يُعَذَّبُوْنَ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا آلَ عَمَّارٍ، وَآلَ يَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْجَنَّةُ ۔(مستدرک حاکم ، ذکر مناقب عمار بن یاسر)
٭…حضرت جعفر بن ابو طالبؓ
آپؓ جعفر طیار کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ حضرت علیؓ کے بھائی تھے اور ان سے دس سال بڑے تھے۔ مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تو آپ مہاجرین کے قائد تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جنگ موتہ 8؍ہجری میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد انہوں نے عَلَم سنبھالا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے اور ان کے بعد حضرت خالد ؓنے اسلامی لشکر کو سنبھالا۔ حضرت ابن عمرؓ کی روایت کے مطابق ان کو جسم کے سامنے کے حصہ میں 50 زخم آئے تھے۔
ان کے بارے میں سنن ترمذی میں روایت ہے کہقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ جَعْفَرًا يَطِيْرُ فِي الْجَنَّةِ مَعَ المَلَائِكَةِ ۔(کتاب المناقب)یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے۔
٭…حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ
آپؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا اور رضاعی بھائی تھے۔دونوں نے ثویبہ جو ابو لہب کی لونڈی تھی کا دودھ پیا تھا۔ بعثت کے چھ برس بعد آنحضرتﷺ کی حمایت کے جوش میں اسلام قبول کر لیا۔ بے حد جری اور دلیر تھے۔دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی۔ غزوہ بدر میں حصہ لیا اور غزوہ احد میں شہید ہو گئے۔
آپ کے بارے میں مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ الْبَارِحَةَ فَنَظَرْتُ فِيْهَا فَإِذَا جَعْفَرٌ يَطِيرُ مَعَ الْمَلَائِكَةِ، وَإِذَا حَمْزَةُ مُتَّكِئٌ عَلَى سَرِيرٍ۔(کتاب معرفة صحابہ)یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں گذشتہ شب جنت میں داخل ہوا تو دیکھا کہ جعفر فرشتوں کے ساتھ اڑ رہے ہیں اور حمزہ بستر پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔
٭…حضرت سعد بن معاذؓ
آپؓ کا تعلق مدینہ کے اوس قبیلہ سے تھا۔ بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کی تبلیغ سے اسلام لائے۔ غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوہ احد میں آنحضرتﷺ کے خیمہ کا پہرہ دیا اور جنگ میں ہر آن آنحضرتﷺ کے ساتھ رہے۔ اسی جنگ میں آپ کے بھائی عمرو بھی شہید ہوئے۔ غزوہ خندق میں ان کو ایک تیر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہحَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةُ سُنْدُسٍ، وَكَانَ يَنْهَى عَنِ الحَرِيْرِ، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْهَا، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا۔(کتاب الھبة)یعنی حضرت انسؓ نے بیان کیا نبیﷺ کو باریک ریشمی کپڑے کا ایک چوغہ تحفہ دیا گیا اور آپؐ ریشمی کپڑا (پہننے) سے منع فرمایا کرتے تھے۔ لوگوں نے اس (ریشمی کپڑے )پر تعجب کیا۔تو آپؐ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے سعد بن معاذؓ کے رومال جنت میں اس سے زیادہ خوبصورت ہیں۔
٭…حضرت سلیمان فارسی ؓ
آپؓ کا تعلق فارس سے تھا اور زرتشتی مذہب کے پیروکار تھے۔ حق کی تلاش میں نکلے تو ایک لمبا عرصہ مختلف عیسائی پادریوں کی خدمت میں رہے۔ اس دوران انہوں نے موصل، نصیبین اور عموریہ کا سفر کیا۔جب آپ کو عرب میں آنے والے ایک نبی کی پیشگوئی کا علم ہوا تو عرب کا سفر اختیار کیا۔ راستے میں آپ کو قید کر کے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ مدینہ میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبوت کی نشانیاں دیکھ کر اسلام قبول کیا۔ غزوہ خندق میں انہی کے مشورہ پر خندق کھودی گئی۔ حضرت علیؓ کی خلافت کے زمانہ میں ان کو مدائن کا گورنر بنایا گیا۔ وہاں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد 33 ہجری میں ان کی وفات ہو گئی۔
سنن ترمذی میں آپ کے بارے میں روایت ہےقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْجَنَّةَ تَشْتَاقُ إِلَى ثَلَاثَةٍ: عَلِيٍّ، وَعَمَّارٍ، وَسَلْمَانَ ۔(کتاب المناقب)یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا یقیناً جنت تین کی مشتاق ہے علیؓ ، عمارؓ اور سلمانؓ۔
٭…حضرت عکاشہ بن محصن الاسدی ؓ
آپؓ نے مکہ میں ہی اسلام قبول کیا ، ہجرت مدینہ کے بعد غزوات میں شامل ہوئے۔ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت میں طلیحہ کی سرکوبی کے لیے حضرت خالد ؓ کے لشکر میں شامل ہو کر گئے۔ مقدمة الجیش میں ہونے کی وجہ سے ان کی جھڑپ طلیحہ سے ہوئی جس میں حضرت عکاشہ شہید ہو گئے۔
آپ کے بارے میں صحیح بخاری میں روایت ہےأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي زُمْرَةٌ هِيَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا، تُضِيءُ وُجُوهُهُمْ إِضَاءَةَ القَمَرِ فَقَامَ عُكَاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ الأَسَدِيُّ، يَرْفَعُ نَمِرَةً عَلَيْهِ، قَالَ: ادْعُ اللّٰهَ لِي يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: اللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، ادْعُ اللّٰهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ سَبَقَكَ عُكَاشَةُ ۔(کتاب اللباس)یعنی حضرت ابوہریرہ ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے جنت میں ستر ہزار کی ایک جماعت داخل ہوگی ان کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ عکاشہ بن محصن اسدی ؓاپنی دھاری دار چادر سنبھالتے ہوئے اٹھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے لیے بھی دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے انہیں میں سے بنا دے۔ آپﷺنے فرمایا کہ اے اللہ ! عکاشہ کو بھی انہیں میں سے بنا دے۔ اس کے بعد قبیلہ انصار کے ایک صحابی سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہؐ ! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔
جبکہ بخاری کی ایک اور روایت میں فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ (کتاب الطب) یعنی حضرت عکاشہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔
٭…حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ
آپؓ مدینہ کے رہنے والے تھے۔اسلام لانے سے پہلے یہودی عالم تھے اور بنی اسرائیل میں سے حضرت یوسفؓ کی نسل میں سے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے سفر بیت المقدس میں آپؓ ان کے ہمراہ تھے۔ آپ کی وفات امیر معاویہ کے زمانہ خلافت میں 43ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
صحیح بخاری میں آپ کے بارے میں روایت ہے کہ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لِأَحَدٍ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، إِلَّا لِعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ سَلاَمٍ۔(کتاب مناقب الانصار)
عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے کہا: میں نے نبیﷺ کو کسی شخص کے متعلق جو اس زمین پر چلتا ہو یہ کہتے نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے سوائے حضرت عبداللہ بن سلام کے۔
٭…حضرت ثابت بن قیسؓ
آپؓ قبیلہ قیس سے تعلق رکھتے تھے اور ہجرت مدینہ سے قبل ہی اسلام لا چکے تھے۔جب آنحضرتﷺ مدینہ داخل ہوئے تو آپ استقبال کرنےوا لوں میں سے تھے۔ آپ خطیب رسول کہلاتے تھے اور کاتب وحی بھی تھے۔12؍ہجری میں مسیلمہ کذاب کے مقابل پرجنگ میں شہید ہوئے۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ، مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: شَرٌّ، كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى بْنُ أَنَسٍ: فَرَجَعَ المَرَّةَ الآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَلَكِنْ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ۔ (کتاب المناقب) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو غیر حاضر پایا۔ تو ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں اس کا پتاآپؐ کو لا کر دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ شخص ان کے پاس آیااور ان کو اپنے گھر میں اپنا سر اوندھا کیے ہوئے بیٹھے پایا۔ اس نے پوچھا: آپؓ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: بُرا حال ہے۔ اپنی آواز نبیﷺ کی آواز سے زیادہ بلند کیا کرتا تھا۔ اس کے تو عمل رائیگاں گئے اور اب وہ دوزخیوں میں سے ہے۔ یہ سن کے وہ شخص آیا اور اس نے آپؐ کو خبر دی کہ انہوں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ موسیٰ بن انس کہتے تھے: پھر وہ دوسری دفعہ بہت ہی بڑی بشارت لے کر واپس گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو : تم دوزخیوں میں سے نہیں ہو، بلکہ جنتیوں میں سے ہو۔
٭…حضرت حارثہ بن نعمان ؓ
آپؓ انصاری صحابی تھے۔امام نسائی کے نزدیک اصحاب الصفہ میں سے تھے۔ امام نسائی ہی کا بیان ہے کہ انہوں نے زندی میں دو بار حضرت جبرائیل کی زیارت کی۔ایک دفعہ دحیہ کلبی کی شکل میں اور ایک دفعہ غزوہ حنین کے موقع پر۔ آپؓ ان 80؍ صحابہ کرام میں ہیں جو غزوۂ حنین میں جمے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ نہیں چھوڑا۔ آپ نے امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں وفات پائی۔
مسند احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم میں ان کے بارے میں یوں روایت ملتی ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِمْتُ، فَرَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَسَمِعْتُ صَوْتَ قَارِئٍ يَقْرَأُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَاكَ الْبِرُّ، كَذَاكَ الْبِرُّ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّهِ ۔(مسند احمد بن حنبل، مسند عائشہ صدیقہ)یعنی حضرت عائشہؓ نے روایت کی کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں ) اپنے آپ کو جنت میں پایا۔ وہاں میں نے ایک قاری کو قراءت کرتے سنا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا اسی طرح نیکی کا صلہ ملتا ہے ، اسی طرح نیکی کا صلہ ملتا ہے۔ حارثہ اپنی ماں کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ حسن سلوک اور خدمت کرنے والا تھا۔
٭…حضرت حارثہ بن سراقہ ؓ
آپؓ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ آنحضرتﷺ کی ہجرت سے قبل ان کے والد کی وفات ہو گئی تھی۔ البتہ ان کی والدہ ( ربیع بنت نضر ؓ، جو کہ حضرت انس بن مالکؓ کی پھوپھی تھیں) نے اسلام قبول کیا۔ ان کے ساتھ آپؓ نے بھی اسلام قبول کیا۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ایک چشمہ پر ان کو تیر لگا جس سے ان کی وفات ہو گئی۔ انہوں نے آنحضرتﷺ سے شہادت کی دعا کی درخواست کی تھی جس کی قبولیت غزوہ بدر کے موقع پر ظاہر ہوئی۔
صحیح بخاری (کتاب الرقاق) میں ان کے بارے میں روایت ہے کہ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ أُمَّ الرُّبَيِّعِ بِنْتَ البَرَاءِ وَهِيَ أُمُّ حَارِثَةَ بْنِ سُرَاقَةَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ، أَلاَ تُحَدِّثُنِي عَنْ حَارِثَةَ، وَكَانَ قُتِلَ يَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَهُ سَهْمٌ غَرْبٌ، فَإِنْ كَانَ فِي الجَنَّةِ صَبَرْتُ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَالِكَ، اجْتَهَدْتُ عَلَيْهِ فِي البُكَاءِ، قَالَ يَا أُمَّ حَارِثَةَ إِنَّهَا جِنَانٌ فِي الجَنَّةِ، وَإِنَّ ابْنَكِ أَصَابَ الفِرْدَوْسَ الأَعْلَى۔یعنی حضرت انس بن مالک نے ہم سے بیان کیا کہ ام رُبَیّع بنت براء جو حارثہ بن سراقہ کی والدہ تھیں نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: یا نبی اللہ! کیا آپ مجھے حارثہ کے متعلق کچھ بتائیں گے اور وہ بدر کی جنگ میں مارے گئے تھے۔ انہیں اچانک ایک تیر آلگا۔ اگر تو وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں گی اور اگر کچھ اور بات ہے تو پھر میں اس کے لیے خوب روؤں گی۔ آپ نے فرمایا: ام حارثہ! جنت میں تو درجہ بدرجہ کئی باغ ہیں اور تیرے بیٹے نے تو فردوسِ اعلیٰ کا مقام حاصل کیا ہے۔
٭…حضرت انس بن ابی مرثد غنویؓ
آپؓ کے والد کا نام ابو مرثد کناز بن حصین تھا۔ حضرت انس کی کنیت ابو یزید تھی۔ 20؍ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔
سنن ابو داؤد میں آپؓ کے بارے میں ان الفاظ میں روایت ملتی ہے:عَنْ زَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي السَّلُولِيُّ أَبُو كَبْشَةَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَأَطْنَبُوا السَّيْرَ، حَتَّى كَانَتْ عَشِيَّةً فَحَضَرْتُ الصَّلَاةَ، عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَارِسٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنِّي انْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ حَتَّى طَلَعْتُ جَبَلَ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا أَنَا بِهَوَازِنَ عَلَى بَكْرَةِ آبَائِهِمْ بِظُعُنِهِمْ، وَنَعَمِهِمْ، وَشَائِهِمْ، اجْتَمَعُوا إِلَى حُنَيْنٍ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: تِلْكَ غَنِيمَةُ الْمُسْلِمِينَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، ثُمَّ، قَالَ:مَنْ يَحْرُسُنَا اللَّيْلَةَ؟ ، قَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيُّ: أَنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَالَ: فَارْكَبْ ، فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَقْبِلْ هَذَا الشِّعْبَ حَتَّى تَكُونَ فِي أَعْلَاهُ، وَلَا نُغَرَّنَّ مِنْ قِبَلِكَ اللَّيْلَةَ ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا، خَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مُصَلَّاهُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ هَلْ أَحْسَسْتُمْ فَارِسَكُمْ ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، مَا أَحْسَسْنَاهُ فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ حَتَّى إِذَا قَضَى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ قَالَ: أَبْشِرُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ فَارِسُكُمْ ، فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَى خِلَالِ الشَّجَرِ فِي الشِّعْبِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي انْطَلَقْتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى هَذَا الشِّعْبِ حَيْثُ أَمَرَنِي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اطَّلَعْتُ الشِّعْبَيْنِ كِلَيْهِمَا فَنَظَرْتُ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ نَزَلْتَ اللَّيْلَةَ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا مُصَلِّيًا أَوْ قَاضِيًا حَاجَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَوْجَبْتَ فَلَا عَلَيْكَ أَنْ لَا تَعْمَلَ بَعْدَهَا (کتاب الجہاد)حضرت سہلؓ بن حنظلیہ نے بیان کیا کہ وہ (صحابہؓ) حنین کے دن رسول اللہﷺکے ساتھ چلے اور لمبی مسافت طے کی یہانتک کہ شام ہو گئی۔اور میں رسول اللہﷺکے ساتھ نماز کے لیے حاضر ہوا۔ اتنے میں ایک سوار آیا، اس نے کہا یا رسول اللہؐ! میں آپ لوگوں کے آگے آگے چلااور فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو کیا دیکھا کہ ہوازن ہیں، سارے کے سارے ، اپنی عورتوں کے ساتھ اور اونٹوں کے ساتھ اوربھیڑ بکریوں کے ساتھ ،وہ حنین میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ تو رسول اللہﷺنے تبسم فرمایا اور فرمایا کل انشاء اللہ یہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہو گا۔ پھر فرمایا آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا ؟ حضرت انس بن ابی مرثد غنوی نے کہا: میں! یا رسول اللہ۔فرمایا سوار ہو جاؤ۔ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور رسول اللہ کے پاس آئے۔رسول اللہﷺنے ان سے فرمایا اس گھاٹی کا رخ کرو یہاں تک کہ اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ اور تمہاری طرف سے ہمیں کوئی دھوکا نہ دے دے۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہﷺاپنی نماز کی جگہ کےلیے نکلے۔آپ نے دو رکعت پڑھیں۔ پھرفرمایا تمہیں اپنے گھڑسوار کا کچھ علم ہے ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمیں اس کی خبر نہیں۔ پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور رسول اللہﷺنماز پڑھنے لگے اور آپ گھاٹی کی طرف بھی توجہ فرماتے تھے۔یہاں تک کہ آپؐ نے نماز پوری کر لی اور سلام پھیرا۔ توفرمایا خوش ہو جاؤ تمہارا گھڑ سوار آگیا اورہم گھاٹی میں جو درخت ہیں ان کے درمیان دیکھنے لگے تو دیکھا کہ وہ آگیا۔ رسول اللہﷺکے قریب آ کر ٹھہر گیااور اس نے کہا میں گیا یہانتک کہ گھاٹی کی چوٹی پر پہنچا جہاں مجھے رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا تھا۔ پس جب صبح ہوئی تو میں نے دونوں گھاٹیوں کو اوپر سے دیکھا تو میں نے کسی کو نہ دیکھا۔ رسول اللہﷺ نے اس کو فرمایا کیا تم آج رات (گھڑے سے ) اترے تھے؟ اس نے کہا نہیں، سوائے نماز پڑھنےکے لیے یا قضائے حاجت کرنے کےلیے تو رسول اللہﷺ نےاسے فرمایا تم نے ( جنت )واجب کر لی ، اب تم پر (کچھ) لازم نہیں کہ تم اس کے بعد کچھ نہ کرو۔
٭…ورقہ بن نوفل
آپ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے۔آپ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت خدیجہؓ رسول اللہﷺ کو انہی کے پاس لے کر گئی تھیں۔ ان کی وفات تبلیغ اسلام سے قبل ہو گئی تھی۔ ان کے بارے میں مستدرک حاکم میں روایت ملتی ہے جو کہ ان الفاظ میں ہے:عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَسُبُّوا وَرَقَةَ فَإِنِّي رَأَيْتُ لَهُ جَنَّةً أَوْ جَنَّتَيْنِ۔(کتاب تواریخ المتقدمین)حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ورقہ (بن نوفل) کو برا بھلا مت کہو کیونکہ میں نے اس کے لیے ایک جنت یا دو جنتیں دیکھی ہیں۔
[نوٹ:گو کہ ورقہ بن نوفل کی وفات دعویٰ نبوت سے قبل ہو چکی تھی تاہم بعض علماء کے نزدیک ان کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے ۔تفصیل کے لیے دیکھیں:الاصابہ جلد 6صفحہ606]
٭…حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ
آپؓ حضرت ام سلیمؓ (جو کہ حضرت انس بن مالک ؓکی والدہ ہیں) کی بہن تھیں اور حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی اہلیہ تھیں۔ اور آنحضرتﷺ کی خالہ لگتی تھیں۔ آپﷺ دوپہر کو قیلولہ ان کے گھر فرماتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں روم کی جنگ میں شریک ہوئیں اور قبرص میں ان کی وفات ہوئی۔ وہیں پر آپ کی قبر ہے۔
آپؓ کے بارے میں صحیح بخاری میں روایت ہے:فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَنَا فِيهِمْ؟ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ لَا۔عمیر نے کہا: حضرت امّ حرام نے ہم سے بیان کیا کہ انہوں نے نبیﷺسے سنا۔ آپ فرماتے تھے: میری امت میں سے پہلا لشکر جو سمندر میں جنگ کے لیے نکلے گا وہ ضرور بہشت میں داخل کیا جائے گا۔ حضرت امّ حرام کہتی تھیں: میں نے پوچھا: یارسول اللہ! میں بھی ان میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: تم بھی ان میں سے ہو۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے پہلا لشکر جو قیصر کے ملک پر حملہ کرے گا ان کے تمام گناہ بخشے جائیں گے۔ میں نے پوچھا: یارسول اللہ! میں بھی ان میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔
٭…حضرت ام زفرؓ
آپؓ حبشہ کی رہنے والی تھیں۔ آپؓ کے بارے میں صحیح بخاری کی روایت ان الفاظ میں ملتی ہے:حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللّٰهَ لِي، قَالَ إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰهَ أَنْ يُعَافِيَكِ فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللّٰهَ لِي أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ أَنَّهُ رَأَى أُمَّ زُفَرَ تِلْكَ امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ، عَلَى سِتْرِ الكَعْبَةِ۔عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے کہا۔ کیا میں تمہیں ایسی عورت نہ دکھلاؤں جو جنتیوں میں سے ہے؟ میں نے کہا۔ کیوں نہیں ضرور۔ انہوں نے کہا۔ یہ وہ جو سانولی عورت ہے وہ نبیﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ مجھے مرگی پڑتی ہے اور میں ننگی ہوجاتی ہوں اس لئے آپ اللہ سے میرے لیے دعا کریں۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمہیں جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو اچھا کردے۔ وہ کہنے لگی۔ میں صبر کرتی ہوں۔ اس نے کہا۔ میں ننگی ہوجاتی ہوں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ میں ننگی نہ ہوا کرو۔ آپ نے اس کے لیے دعا کی۔
راوی عطاء نے ام ذفر کو کعبہ کے پردے کے پاس دیکھا۔ وہ ایک لمبی کالی عورت تھی۔
٭…حضرت ثابت بن دحداحؓ
آپؓ انصاری صحابی تھے۔ آنحضرتﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد اسلام قبول کیا۔غزوہ احد میں جب آنحضرتﷺ کی وفات کی خبر مشہور ہوئی تو انہوں نے کفار کو للکار کر جواب دیا اور فرمایا کہ خدا تو موجود ہے اس کے لیے ہمیں لڑنا چاہیے۔ اسی بنا پر کفار نے آپ پر حملہ کیا اور شدید زخمی کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق اسی زخم سے بعد میں آپ کی وفات ہو گئی۔آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔
صحیح مسلم میں آپ کی وفات کے موقع کی روایت ملتی ہے۔روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللّٰهِ عَلَى ابْنِ الدَّحْدَاحِ ثُمَّ أُتِيَ بِفَرَسٍ عُرْيٍ فَعَقَلَهُ رَجُلٌ فَرَكِبَهُ، فَجَعَلَ يَتَوَقَّصُ بِهِ، وَنَحْنُ نَتَّبِعُهُ، نَسْعَى خَلْفَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَمْ مِنْ عِذْقٍ مُعَلَّقٍ – أَوْ مُدَلًّى – فِي الْجَنَّةِ لِابْنِ الدَّحْدَاحِ أَوْ قَالَ شُعْبَةُ لِأَبِي الدَّحْدَاحِ ۔یعنی حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ابن دحداحؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر ایک گھوڑا لایا گیا جس پر(زین وغیرہ) کچھ نہ تھا۔ ایک شخص نے اسے روک رکھا آپؐ اس پر سوار ہوئے۔ وہ آپؐ کو لے کر تیز چلنے لگا۔ ہم آپ ؐ کے پیچھے دوڑتے ہوئے جارہے تھے۔ راوی کہتے ہیں لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کتنے ہی لٹکے ہوئے یا جھکے ہوئے خوشے جنت میں ابن دحداحؓ کے لیے ہیں۔ راوی کہتے ہیں یا شعبہ نے ابو دحداح کہا تھا۔
دیگر صحابہ: ان پچیس اصحاب کے علاوہ جن صحابہ اور صحابیات کے بارے میں روایات ملتی ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں:حضرت ام ایمن ؓ ، حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ ،حضرت فاطمہ بنت اسدؓ ، حضرت زید بن عمرو ؓ ، حضرت اصیرم بنی عبد الاشہلؓ ، حضرت عبد اللہ بن قیس انصاریؓ ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ، حضرت عکرمہ ؓ بن ابو جہل، حضرت انس بن ابی مرثد غنویؓ، حضرت ماعز بن مالکؓ، آنحضرتﷺ کے آزاد کردہ (غلام) حضرت ثوبانؓ، حضرت حنظلہ بن ابو عامرؓ، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمیؓ، حضرت ابو ذر غفاریؓ، حضرت مقداد بن اسودؓ کندی، حضرت ام ہانیؓ ، آنحضرتﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسمؓ ، آپؐ کی صاحبزادیاں حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت رقیہؓ۔
اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ صحابہ سارے ہی جنتی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ۔اس مضمون کا مقصدصرف قارئین کے سامنے صحابہؓ کی سیرت کو پیش کرناتھا، وہ صحابہ جن کا مطمع نظر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کا حصول تھا۔ وہی خدا جس نے اس زمانے میں خلافت کو دوبارہ قائم کیا اور ہمیں موقع میسر فرمایا کہ ہم ان صحابہ ؓکی سیرت کو پڑھیں اور ان کی سیرت کو اپنی عملی زندگی کا نمونہ بنائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بنیں۔ آمین
یہ شاخ قلم کرتا ہوں پیوند کی خاطر
اتنا تھا مرا کام ثمر تیرے حوالے
٭…٭…٭