مضامین

حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط سوم)

(ڈاکٹر عبد الرحمٰن بھٹہ۔جرمنی)

بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ

بائبل میں اس خاتون قطورہ کے بارے میں بھی اخفا سے کام لیا گیا ہے اور یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کون تھیں

Amazing views of the Sahara desert under the night starry sky

سارہ کے گھر میں لونڈی ہونا بہتر

حضرت ہاجرہ کے متعلق ایک اور اہم بات جو ان یہودی روایات کو دیکھتے ہوئےبار بار ہمارے سامنے آتی ہے وہ بادشاہ کا اپنی بیٹی ہاجرہ کے بارے میں یہ قول ہے جو اس نے حضرت سارہ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ

ہاجرہ کے لئے سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا۔ اپنےگھر میں مالکن بن کر رہنے سے بہتر ہے۔(جیوئش انسائیکلوپیڈیا۔ ہاجرہ۔ رابانی لٹریچر میں)

یہ روایت بنی اسرائیل کی مستند اور اہم ترین روایات میں سے ہے۔ یہی وہ روایت ہے جس کے حوالے سے ہاجرہ کو سارہ کی لونڈی کے طور پر مشہور کیا گیا ہے اور اس کا بار بار تکرار کیا جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہودی علماء اور عوام نے اس روایت کو یاد رکھا اور اسے کم و بیش درست انداز میں آگے پہنچایا ہے کیونکہ یہ روایت بہت معنی خیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے خداتعالیٰ کے کچھ معجزات دیکھے تھے جن سے متاثر ہو کر اس نے اپنی بیٹی کے بارے میں یہ الفاظ حضرت سارہ سے کہےتھے۔

ہمیں تسلیم ہے کہ محل میں کچھ معجزات ہوئےتھے اور ان سے متاثر ہو کر ہی بادشاہ نے اپنی بیٹی کے بارے میں ایک اہم فیصلہ کیا تھا اور سارہ سے وہ الفاظ کہےتھے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی واضح، ثقہ اور بنیادی روایت کو بائبل میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کتاب پیدائش کو مرتب کرنے والے کاہنوںنے ہاجرہ کے باپ کے اس مشہور اور مقبول قول کو چھپایا ہے۔ بائبل میں ہاجرہ کا ذکر پہلی بار پیدائش کے باب 16 میں آیا ہے۔ اور اس میں ہاجرہ کے تعارف کے طور پر صرف اتنا لکھا ہے کہ سارہ کی ایک لونڈی جس کا نام ہاجرہ تھااور بس۔ بادشاہ کے جس قول کی بنیاد پرہاجرہ کو سارہ کی لونڈی گردانا گیا وہ بنیاد بائبل میں غائب ہے۔ آخر کیوں؟

یہ بھی پڑھیے:

حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط دوم)

اس قول کو چھپانے کی وجوہات

بادشاہ کے اس قول کو چھپانے کی ایک وجہ تو یہ ہےکہ اس سے حضرت ہاجرہ کا شاہی پس منظر ظاہرہوتا تھا۔ اور یہ پس منظر اس کہانی کے خلاف جاتا تھا جو یہود کے کاہن ہاجرہ کے بارے میں کتاب پیدائش میں داخل کرنا چاہتےتھے۔ وہ اپنی کہانی میں ہاجرہ کو ایک حقیقی لونڈی ظاہرکرنا چاہتےتھے جبکہ بادشاہ کا یہ قول ہاجرہ کو ایک مصری شہزادی ظاہر کررہا تھا۔ لہٰذا انہوں نے ہاجرہ کا یہ شاہی پس منظرغائب کر کے کہانی میں صرف اتنا لکھا کہ ہاجرہ سارہ کی لونڈی اور بس۔ پھرعوام پر چھوڑ دیا کہ وہ خود اندازے لگاتے رہیں کہ وہ کون تھی۔ کہاں سے آئی اور کتنے سال سے سارہ کے پاس رہی وغیرہ۔ چنانچہ یہود میں ہاجرہ کے پس منظر کے بارے میں بہت سی کہانیاں گھڑی گئی ہیں۔ اور ایک تو یہی کہتی ہے کہ سارہ نے جب حضرت ابراہیمؑ سے شادی کی تو وہ اپنے جہیز میں ہاجرہ کو بطور لونڈی اپنے ساتھ لائی تھی۔(جیوئش ومن انسائیکلوپیڈیا۔ ہاجرہ۔ ایک مصری شہزادی )

دوسری اور سب سے بڑی وجہ بادشاہ کے اس قول کو چھپانے کی یہ ہےکہ وہ کاہن اچھی طرح جانتےتھے کہ بادشاہ کا حضرت سارہ کو مخاطب کر کے اپنی بیٹی کے بارے میں وہ الفاظ کہنا بہت معنی خیز ہے۔ یہودی عوام تو اس قول میں ہاجرہ کے لیے لونڈی کا لفظ دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اور بڑے فخر سے اس کو بیان کرتے پھریں گے۔ اور شاید مغربی معاشرے کے لوگ بھی اس لفظ سے دھوکاکھا جائیں۔ لیکن ان کو یہ پورا احساس تھا کہ مشرقی معاشرے کے اہلِ فہم لوگ فوراً سمجھ جائیں گے کہ اگر ایک باپ اپنی بیٹی کے بارے میں ایسے الفاظ کسی مہمان خاتون سے کہے تو وہ خاتون اس کی بیٹی کی مجوزہ ساس یا سوکن ہی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ان کو خوف تھا کہ بادشاہ کا وہ قول ان کی اس سازش کو بے نقاب نہ کر دے جو وہ ہاجرہ کو سارہ کی چھوٹی سوکن کی بجائے اس کی لونڈی مشہور کرنے کے لئے کر رہےتھے۔ لہٰذا ہاجرہ کے باپ کے اس قول کوغائب کرنا ان کی مجبوری تھی۔

واضح رہے کہ سب مستند اسرائیلی روایات یہ کہتی ہیں کہ مصر میں قیام کے دوران محل میں کچھ معجزات ہوئےتھے جن سے بادشاہ اور اس کا خاندان بہت متاثر ہوا تھا۔ اور پھر بادشاہ نے اپنی بیٹی کے بارے میں سارہ سے یہ کہا تھا کہ ہاجرہ کا سارہ کے گھر میں لونڈی ہونا بہتر ہے۔ لیکن پیدائش کو مرتب کرنے والے یہودی علماء نے بادشاہ کا یہ قول غائب کر دیا۔ اور محل کے اندر ہونے والے معجزات کو سارہ سے جوڑنے کے لیے یہ بےہودہ قصہ گھڑا کہ حضرت ابراہیمؑ نے جھوٹ بولتےہوئے سارہ کو اپنی بہن ظاہر کیا تھا اور اس طرح سارہ کو بادشاہ کے قبضے میں دے دیا تھا۔ اور پھر بادشاہ نے معجزات سے متاثر ہو کر ابرہیم کوسارہ ہی واپس کر دی ۔ اور پھر تحائف بھی سارہ کی خاطر ابراہیم کودیےتھے ۔ (پیدائش باب 12)

اسرائیلی روایات اور بائبل کے بیان میں جو یہ تضاد ہے اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مصری سفر کے اس قصے کو گھڑنے کا مقصد مصر میں حضرت ہاجرہ کی حضرت ابراہیمؑ سے شادی کو غائب کرناہے۔ اور ان کے شاہانہ جہیز کو سارہ سے منسوب کرنا تھا۔ اس بارے میں مزید وضاحت اگلے حصے میں کی جائے گی۔

ہاجرہ کی تحقیر اور سارہ کی تشہیر

ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب پیدائش اور یہودی روایات میں حضرت ہاجرہ کی تحقیر کے لیےلونڈی کا لفظ بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ باب 16 میں چھ دفعہ لونڈی کا لفظ ان کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور باب 21 میں بھی یہی لفظ چارمرتبہ حضرت ہاجرہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ کئی دفعہ ہاجرہ کے نام کے ساتھ سارہ کی لونڈی کا لاحقہ لگایا گیا ہے۔ حتی ٰکہ جہاں فرشتہ ہاجرہ سے مخاطب ہے وہاں بھی فرشتے کے منہ میں بھی یہ الفاظ ڈالے گئے ہیں کہ اے سارہ کی لونڈی ہاجرہ تو کہاں سے آئی اور کدہر جاتی ہے۔ اسی طرح جب حضرت اسماعیلؑ کا نسب نامہ درج کیا تو وہاں لکھا کہ وہ ابراہیم سے سارہ کی لونڈی ہاجرہ مصری کے بطن سے پیدا ہوا۔(پیدائش، باب 16آیات 1سے 8 اور باب 25آیت 12)

ہاجرہ کے لیے لفظ لونڈی کی یہ غیر ضروری تکرار صاف ظاہر کرتی ہے کہ اصل مقصد ہاجرہ کی تحقیر ہے۔ پہلے اپنی کہانی میں ہاجرہ کے لیے لونڈی کا غلط تصور پیدا کیا گیا اور پھر تکرار کے ذریعے اس تصور کوعوام میں پھیلانے اور ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت سارہ کی تشہیر کے لیے بھی یہی تکرار کا طریق استعمال کیا گیا ہے۔ روایات میں جہاں بھی معجزات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں یہ الفاظ ضرور ساتھ لگائے گئے ہیں ’جو سارہ کی خاطر دکھائے گئے‘۔اسی طرح فرعون کے محل میں جو بلائیں نازل ہوئیں وہ سارہ کے سبب سے تھیں۔ ابراہیمؑ کو جو تحائف دیے گئے تو وہ سا رہ کی خاطر دیے گئےتھے۔ اور فرشتے اگر ہاجرہ سے کلام کرتےتھے تو روایات کہتی ہیں کہ وہ ہاجرہ کی مالکن سارہ کے اعزاز کی وجہ سے کرتےتھے۔ غرض یہ کہ ہر جگہ سارہ کو نمایاں کرنے کی کوشش صاف نظر آتی ہے۔ اور اس کوشش میں ہاجرہ کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ کو بھی پس منظر میں دھکیل دیا گیا ہے۔

پس ہاجرہ کی تحقیر اور سارہ کی تشہیر کےلیے ان مخصوص الفاظ کا بار بار استعمال صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان دونوں خواتین کے بارے میں حقیقت کے برعکس ایک مخصوص تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اوراس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی۔

سارہ کے گھر میں لونڈی نہ کہ سارہ کی لونڈی

واضح رہے کہ بادشاہ نے حضرت سارہ سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کی بیٹی کے لیےسارہ کی لونڈی ہونا بہترہے بلکہ یہ کہا تھا کہ سارہ کے گھر میں لونڈی ہونا بہترہے۔ بادشاہ کے قول میں ’گھر میں‘ کے الفاظ بہت اہم ہیں۔ اصل گھر والے تو حضرت ابراہیم تھے۔ لہٰذا سارہ کے گھر میں لونڈی ہونے کے لیے ہاجرہ کے لیے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ سارہ کی لونڈی ہوتیں۔ وہ حضرت ابراہیم کی بیوی ہو کر بھی تو سارہ کے گھر میں لونڈی ہو سکتی تھیں۔ اس پہلو کی مزید وضاحت آگےکی جائے گی جہاں بادشاہ کے اس قول کا پس منظر بیان کیا جائے گا۔

قطورہ حضرت ہاجرہ کا صفاتی نام

مندرجہ بالا اسرائیلی روایات سے ایک اور اہم بات ہمارے علم میں یہ آتی ہے کہ حضرت ہاجرہ کا صفاتی نام قطورہ تھا۔ پیدائش کے باب 25 میں لکھا ہے کہ سارہ کی وفات کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے قطورہ نامی ایک خاتون سے شادی کی تھی۔ اور اس خاتون سے ان کے چھ بچے پیداہوئےتھے۔ آگے لکھا ہے کہ اسحاق کے سوا حضرت ابراہیمؑ کے سب بچے حرموں (کنکو بائنز) کے بچےتھے۔ اس طرح قطورہ کو بھی کنیز ظاہر کیا گیا ہے۔(پیدائش، باب 25آیات 1تا6)

بائبل میں اس خاتون قطورہ کے بارے میں بھی اخفا سے کام لیا گیا ہے اور یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کون تھیں۔ حالانکہ مندرجہ بالا مستند اسرائیلی روایات میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ خاتون ہاجرہ ہی تھیں جنہیں سارہ کی وفات کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے واپس کنعان بلا لیا تھا۔ حضرت اسحاق خود عرب کے علاقے فاران گئےتھے اور اپنی سوتیلی والدہ ہاجرہ کو واپس کنعان لے کر آئےتھے۔ اور اس طرح بالآخر حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ کے گھرانے میں ایک باعزت مقام حاصل ہو گیا تھا۔ اور اب وہ قطورہ کے اعزازی نام سے پکاری جانے لگی تھیں۔

وجہ تسمیہ

ان روایات میں قطورہ کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ خاتون جو اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔ اپنا عہد وفا نبھائے اور جس کے اعمال خوشبو کی طرح پسندیدہ ہوں۔ چونکہ حضرت ہاجرہ نے عرب کے بیابان میں قیام کے دوران حضرت ابراہیمؑ سے اپنا عہد وفا اور بندھن قائم رکھا تھا، اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کی تھی، اور خداتعالیٰ پر کامل ایمان اور توکل کا اظہار کرتے ہوئے راضی برضا رہی تھیں۔ لہٰذا انہیں اب کنعان واپسی کے بعد حضرت ابراہیمؑ کے گھرانے اور گرد ونواح میں قطورہ کے اعزازی نام سے پکارا جانے لگا تھا۔

شاہانہ آغاز اور فاتحانہ انجام

اسرائیلی اور اسلامی روایات میں یہ واضح ذکر ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو فاران کے بیابان میں چھوڑ آنے کے بعد ان سے رابطہ رکھا تھا۔ اور وہ ان سے ملنے فاران جایا کرتےتھے۔ لہٰذا پہلی بیوی سارہ کی وفات کے بعد اپنی دوسری بیوی هاجره کو واپس گھر لے آنا بالکل ایک قدرتی اور قرین قیاس بات ہے۔ معتبر اسرائیلی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کے گھر واپس آنے پر وہ قطورہ کے اعزازی نام سے مشہور ہو گئی تھیں۔

لیکن صدیوں بعد جب بنی اسماعیل کے خلاف یہود کی رقابت اور حقارت بڑھی تو ان کو ہاجرہ کا شہزادی کے طور پر شاہانہ آغاز اور قطورہ کے نام سے فاتحانہ انجام تکلیف دینے لگا۔ چنانچہ ان کے علماء نے کتاب پیدائش میں تحریف کر کے ہاجرہ اور قطورہ دونوں کا ماضی غائب کر دیا اور دونوں کو لونڈی/ کنیز ظاہر کر دیا۔ اور اس طرح انہوں نے اپنی قوم کو یہ جھوٹی تسلی دلا دی کہ حضرت ابراہیمؑ کا اصل بیٹا تو صرف اسحاق ہی تھا۔ اس ایک اسحاق کے سوا باقی ان کے ساتوں بیٹے لونڈیوں کی اولادتھے۔ تاہم یہود کے وہ علماء اپنی قوم کی صدیوں پرانی ان روایات کو تو نہیں مٹا سکتےتھے جو مختلف ملکوں میں پھیل چکی تھیں۔ اور جن سے یہ اصل حقائق سامنے آتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ مصر کے بادشاہ کی بیٹی تھیں اور قطورہ انہی کا اعزازی نام تھا۔ (جہاں تک بادشاہ کا اپنی بیٹی کو سارہ کے گھر میں لونڈی کہنے کا تعلق ہے اس کی وضاحت آگےکی جائے گی)

ہاجرہ اور اسماعیلؑ کا اخراج۔ باب 21

پیدائش کے باب 16 کے بعد حضرت ہاجرہ کا ذکر باب 21 میں ملتا ہے۔ اس باب میں ہاجرہ کو کئی بار لونڈی اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو لونڈی کا بیٹا کہا گیا ہے۔ اور آگے پھر ان دونوں ماں بیٹے کو حضرت سارہ کے کہنے پر گھر سے بے دخل کرنے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

یہی وہ باب ہے جس کی بنیاد پر یہود ونصاریٰ حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کے نہ تو حقیقی بیٹےتھے اور نہ ہی ان کے وارث۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بائبل کا یہ بیان بالکل غلط اور حقائق کے منافی ہے۔ لہٰذا اس باب کا تنقیدی جائزہ لیناہمارے لئے بہت ضروری ہے تا کہ معلوم کر سکیں کہ اصل حقائق کیا ہیں اور کس طرح ان کو مسخ کر کے ایک غلط تاثر پیدا کیا گیا ہے۔

باب21کی پہلی دس آیات کا خلاصہ

فرشتے کی بشارت کے مطابق حضرت سارہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت ابراہیمؑ نے اسحاق رکھا۔ حضرت ابراہیمؑ کی عمر اس وقت 100 سال تھی۔ (باب 16 کے مطابق جب اسماعیلؑ پیداہوئے تو حضرت ابراہیمؑ کی عمر 86 سال تھی۔ گویا جب اسحاقؑ پیدا ہوئے تو اس وقت اسماعیلؑ 14 سال کےتھے)

جب اسحاقؑ دو تین سال کےہوئے تو حضرت ابراہیمؑ نے ان کی دودھ چھڑانے کی تقریب کی۔ (اس وقت اسماعیلؑ سولہ سترہ سال کے ہوںگے )۔ اس تقریب کے دوران حضرت سارہ نے اسماعیل کو کھیلتے دیکھا تو حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ اس لونڈی اور اس کے بیٹے کو نکال دو کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔

مندرجہ بالا بیان کا تجزیہ

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سارہ نے اسماعیل کو کھیلتے دیکھا۔ عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ سترہ سالہ جوان اسماعیل دو تین سالہ اسحاق کے ساتھ کھیل رہا تھا ( یا مذاق کر رہاتھا)۔ اس پر سارہ کو پریشانی ہوئی اور اس نے ابراہیمؑ سے کہا کہ اس لونڈی اور اس کے بیٹے کو نکال دو کیونکہ لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا ۔ آئیں پہلے حضرت اسماعیل کے اس کھیلنے کا جائزہ لیتے ہیں۔

کیا اسماعیل اسحاق کے ساتھ کھیل رہا تھا؟

اسماعیل کے اسحاق کے ساتھ کھیلنے کو یہودی روایات میں بہت اچھالگایا ہے اور آہستہ آہستہ اس کو بہت ظالمانہ رنگ دے دیا گیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ اسماعیل تیر کمان سے اسحاق کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا جس پر سارہ پریشان ہو گئیں۔ بعض روایات کہتی ہیں کہ اسماعیل باہر جھاڑیوں سے ٹڈے پکڑ کر ان کو بتوں پر چڑھا رہا تھا۔ اوراس طرح اسحاق کو بت پرستی کی طرف راغب کر رہا تھا۔ اور بعض روایات تو غیر اخلاقی حرکات کا الزام بھی لگاتی ہیں۔ تاہم ایسے یہودی علماء بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد اسماعیل کو اتنا بدنام کرنا ہے کہ وہ شرعی لحاظ سے ایک قابلِ نفرت وجود ظاہر ہونے لگے ورنہ اصل وجہ نکالنے کی تو وراثت کی تقسیم تھی۔(جیوئش ویمن انسائیکلوپیڈیا۔ ہاجرہ: ہاجرہ کا بیٹا اور سارہ کا بیٹا)

عیسائی بھی یہود کی طرح بائبل کے اسی بیان کی بنیاد پر اسماعیلؑ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اسحاقؑ کو دکھ دیتےتھے۔ چنانچہ سینٹ پال نے لکھا ہے:…ہم اضحاق کی طرح وعدہ کے فرزند ہیں۔ اور جیسے اس وقت جسمانی پیدائش والا روحانی پیدائش والے کو ستاتا تھا۔ ویسے ہی اب بھی ہوتا ہے۔ مگر کتاب مقدس کیا کہتی ہے؟ یہ کہ لونڈی اور اس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ لونڈی کا بیٹا آزاد کے بیٹےکے ساتھ ہرگز وارث نہ ہوگا۔(گلتیوں، باب4آیات 28تا30)

سب الزامات بے بنیاد ہیں

اب اگر بائبل کے مختلف تراجم کو دیکھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اسحاق کے ساتھ کھیلنے کے حوالے سے ا سماعیل پر لگائے گئے سب الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ بائبل کے اکثر تراجم میں جہاں اسماعیل کو کھیلنےدکھایا گیا ہے وہاں اسحاق کا تو نام ہی نہیں ہے۔ وہاں تو اسماعیل کو اکیلے ہی کھیلتےدکھایا گیا ہے۔

چنانچہ اردو بائبل (مطبوعہ بائبل سوسائٹی آف انڈیا۔ بنگلور۔ انڈیا) میں لکھاہے کہ سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اس کے ابراہام سے ہوا تھا۔ ٹھٹھے مارتا ہے۔ تب اس نے ابراہام سے کہا کہ اس لونڈی کواور اس کے بیٹے کو نکال دے…(پیدائش، باب21 آیات 9تا10)

اس اردو ترجمہ میں یہ ذکر نہیں کہ اسماعیل کس پر ٹھٹھے مار رہا تھا۔ اسحاق کا نام آیت میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اسحاق کے ساتھ نہیں بلکہ اکیلا ہی ہنس کھیل رہا تھا۔

اکثر انگریزی تراجم میں بھی اسحاق کا نام نہیں ہے۔لیکن ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن میں اسحاق کا نام ہے اوروہاں نیچے یہ نوٹ ہے کہ اسحاق کا نام یونانی اورلاطینی والگیٹ نسخوں میں نہیں ہے۔ اور یہی نسخے پرانے اور معتبر ہیں۔

اسی طرح درج ذیل انگریزی اور جرمن تراجم میں بھی اسحاق کا نام نہیں ہے۔ ان سب تراجم میں اسماعیل کو اسحاق کے ساتھ نہیں بلکہ اکیلے ہی کھیلتےدکھایا گیا ہے۔

  1. Authorised King James version.
  2. New World Translation of the Holy Scriptures.
  3. Die Bibel, translated by Martin Luther.
  4. Die Bibel, Einheitsübersetzung (“unified translation”) by Herder.

سب سے بہتر ترجمہ

مندرجہ بالا تراجم میں سے سب سے بہتر، معقول اور دیانتدارانہ ترجمہ جرمن یونائٹیڈ ترجمہ ہے جس کا نام اوپر آخر میں درج کیا گیا ہے۔ اس ترجمہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل اکیلا کھیل رہا تھا بلکہ اسماعیل کی عمر اور کھیل کی نوعیت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ

Eines Tages beobachtete Sara, wie der Sohn, den die Agypterin Hagar Abraham geboren hatte, umhertollte. Da sagte sie zu Abraham: Verstoss diese Magd und Ihren Sohn… .(Gen 21:9-10)

One day Sarah saw how the son of Hagar, whom the Egyptian slave girl had born to Abraham, was toddling around. So she told Abraham to drive away that slave girl and her son ….۔

ایک دن سارہ نے دیکھا کہ مصری لونڈی ہاجرہ کا بیٹا جسے اس نے ابراہیم کے لئے جنا تھا۔ ’کیسے سنبھل سنبھل کر‘۔ چھوٹےچھوٹےقدم اٹھا کر گھوم پھر رہا ہے۔ اس پر اس نے ابراہیم سے کہا کہ اس لونڈی اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو…

اخراج کے وقت اسماعیل بچہ تھا

اس جرمن حوالے سے یہ اصل حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ جب سارہ نے ہاجرہ کے بیٹے کو دیکھا اور اس کو ماں کے ساتھ گھر سے نکالا تو اس وقت وہ چند ماہ کا بچہ تھا۔ اور جیسا کہ آگے ذکر کیا جائے گا۔ اسی باب 21کی آیات 20۔ 21سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اخراج کے وقت اسماعیل چھوٹا سا بچہ تھا جو فاران کے بیابان میں پلا بڑھا تھا۔ اور اسلامی روایات بھی یہی بتاتی ہیں کہ وہ اس وقت دودھ پیتا بچہ تھا۔

مندرجہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ صدیوں بعد جب کہانی کو مرتب کرتے وقت اس میں ردّ و بدل کیا گیا۔ اور اسماعیل کے اخراج کی وجوہات میں اسحاق کے ساتھ کھیلنا اور وراثت میں شراکت داخل کر دی گئیں۔ اس تحریف کے نتیجے میں کہانی میں تضاد پیدا ہو گیا اور چند ماہ کا بچہ اسماعیل خود بخود سولہ سترہ سال کا نوجوان نظر آنے لگا۔ اور پھر اس تصوراتی اسماعیل پر طرح طرح کے الزام تھوپ دئیے گئے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ اصل کہانی کیا ہے اور یہ تحریف کیوں اور کیسے کی گئی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button