پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

مئی/جون2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

میڈیا سے

٭…ختم نبوت قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا: وزیراعظم(روزنامہ دنیا، فیصل آباد، 4؍مئی 2021ء)

٭…ریاست اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سپریم کورٹ کے 2014ء کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے: ایک تحقیقی رپورٹ “Justice Yet After” کے افتتاح کے موقع پر شرکاء کا نقطہ نظر(روزنامہ ڈان، لاہور، 5؍مئی 2021ء)

٭…لوگوں کو مذہب یا عقیدے کے مسائل پر تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف مشترکہ کوشش کرنا ہوگی: وزیراعظم(ٹی وی ایکسپریس، 9؍مئی کو 21:10 پر ہیڈ لائنز)

٭…پاکستان اقلیتوں کے لیے دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے: گورنر پنجاب(روزنامہ دنیا، فیصل آباد، 28؍مئی 2021ء)

٭…توہینِ رسالت کے قوانین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا: اشرفی۔(روزنامہ نیوز انٹرنیشنل، لاہور، 2؍مئی 2021ء)

٭…توہینِ رسالت کے قوانین کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرنا جاری رکھیں گے: AMTKN(روزنامہ مشرق، لاہور، 2؍مئی 2021ء)

٭…ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے قوانین ہمارے عقیدہ کا حصہ ہیں، کوئی دوسری رائے نہیں: پرویز الٰہی(روزنامہ انصاف، فیصل آباد، 5؍مئی 2021ء)

جعلی پولیس کیس میں دو احمدی گرفتار

راجن پور، 2؍جون 2021ء: یاد رہے کہ 23؍جولائی 2020ء کو راجن پور سٹی گاؤں الٰہ داد میں ایک چھوٹے سے سکول میں ایک بالکل ہی چھوٹے سے مسئلہ پرایک جعلی پولیس مقدمہ درج کیا گیا تھاجس میں غیر معمولی طور پر وسیع پیمانے پر چھ احمدیوں کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا جن میں کمیونٹی کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل تھے جو کہ براہ راست پرائمری سکول میں شامل نہیں تھے۔ مقدمہPPCs 295-B، 295-A، 298-A، 298-B، 298-C، 506-B کے تحت درج کیا گیا تھا۔ PPC 295-B کے تحت عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

نسیم احمد اور نصیر احمد قمر پر بھی اس تسلسل میں مقدمہ درج تھا۔دونوں نے 2؍ جون 2021ء کو ضمانت کی توثیق کے لیے درخواست دی، جج بخت فخر بہزاد نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دیا۔دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے راجن پور جیل منتقل کر دیا گیا۔

اوکاڑہ کیس مزید خراب

چک 3/S.P ضلع اوکاڑہ؛ جون 2021ء: 31؍مارچ 2021ءکو پولیس اسٹیشن حویلی لکھا ضلع اوکاڑہ میں، منصور احمد طاہر کے خلاف 16 ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کیا گیا (ایف آئی آر نمبر 217) اور انہیں گرفتار کر لیاگیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ طاہر نے ان کی مذہبی تقریب کے بارے میں منفی ریمارکس دیے تھے۔ مخالفین کے احتجاجی جلوس کے جواب میں، ایس ایچ او نے چارج شیٹ میں مزید خوفناک دفعہ 295-A کا اضافہ کردیا۔ اس دفعہ کے تحت دس سال قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔23؍اپریل 2021ءکو مجسٹریٹ نور عالم نے طاہر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے سیشن کورٹ میں درخواست دی۔14؍جون 2021ءکو ایڈیشنل سیشن جج محمد شفیق نے بھی ان کی ضمانت مسترد کر دی۔منصور احمد طاہر مذہبی تقریب سے متعلق ایک غلط بات کہنے کے غلط الزام پر پابندِ سلاسل ہیںاور انہیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ہائی کورٹ کے جج نے انتہائی بدنیتی پر مبنی احمدیہ مخالف پولیس کیس نمٹا دیا

لاہور، ننکانہ، 2020-2021:ء احمدی مخالفیننے مانگٹانوالہ ضلع ننکانہ صاحب میں 2؍مئی 2020ءکو تین احمدیوں کے خلاف احمدی مخالف شقوں PPC 298-B اور 298-C کے تحت پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروایا۔ اس کے بعد سے حالات مزید خراب ہوئے اور اب اس مقدمے میں PPC 295-C اور 295-B کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان شقوں کے تحت ملزمین کو سزائے ’موت‘ اور عمر قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک ملزم اکبر علی پہلے ہی ضمانت کے انتظار میں جیل میں ہی شہید ہو چکے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے معزز جسٹس فاروق حیدر نے حال ہی میں احمدیوں پر پابندی کے فیصلے کی توثیق کی ہے اور درج ذیل شقوں کو شامل رکھا ہے:

  1. کلمہ طیبہ، اسلامی عقیدہ سے کوئی تعلق رکھنا
  2. قرآن پاک کی تلاوت کرنا یا اس کا نسخہ رکھنا
  3. اپنے مقدس بانی کی کتابیں پاس رکھنا ۔

بصورت دیگر توہین رسالت کی دفعات PPC 295-C اور/یا PPC 295-B کے تحت الزامات کا سامنا کریں۔

اس مذموم فیصلے کے بعد پاکستان میں تمام احمدیوں اور بالعموم ان کے انسانی حقوق اور خاص طور پر آزادیٔ عقیدہ پر دُور رَس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے ظلم کا ایک اور دروازہ کھل سکتا ہے۔ اس طرح، اس کیس کا مختصر خاکہ معلومات اور ریکارڈ کے لیے ذیل میں درج کیا گیا ہے۔ تینوں مذکورہ احمدی ملزمان، شرافت احمد، اکبر علی اور طاہر نقاش کو 3؍اکتوبر 2020ء کو ہائی کورٹ میں ان کی درخواست برائے ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار کیا گیا۔ اکبر علی اس کے بعد 16؍فروری 2021ءکو انتقال کر گئے۔ اس کے سات دن بعد لاہور ہائی کورٹ کے جج نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی دو ملزمان کو ضمانت دے دی۔ ابتدائی طور پر پولیس مقدمہ درج کیا گیا تھا کیونکہ شکایت کنندہ کے مطابق درج ذیل امور اس کے پیش نظر تھے:

  1. احمدیہ مسجد میں لکھا ہوا اسلامی عقیدہ
  2. قرآن پاک کے نسخہ کا وہاں سے ملنا
  3. وہاں سے بانی جماعت احمدیہ کی تحریرات پر مشتمل ایک کتاب کا برآمد ہونا۔

احمدی مخالفین اس بات سے خوش نہیں تھے کہ ملزمان پر صرف احمدیہ مخالف دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ انہوں نے مجسٹریٹ عادل ریاض کو مزید (اور زیادہ تر) توہینِ رسالت کی شقیں PPC 295-C اور PPC 295-B شامل کرنے کی درخواست کی۔ مجسٹریٹ نے 4؍جنوری 2021ء کو ان کی درخواست منظور کی۔ الزامات میں اضافے کے معاملے کے ساتھ ساتھ گرفتاری کے بعد ضمانت کی توثیق کی درخواست بھی پیش کی گئی تھی جسے مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سیشن جج (ASJ) سہیل انجم دونوں نے مسترد کر دیا۔ تاہم، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، ہائی کورٹ نے ایک ملزم اکبر علی کی وفات کے بعد ضمانت منظور کی۔ مقدمہ میں مزید شامل کی جانے والی دفعات کے معاملہ کا فیصلہ سب سے پہلے مجسٹریٹ نے کیا تھا۔ اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج ابوبکر صدیق نے اس کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ اس کے بعد ملزمان اپنی درخواست ہائی کورٹ لاہور لے گئے جہاں جسٹس فاروق حیدر نے ان کی درخواست پر سماعت کی اور اے ایس جے کے فیصلے اور ان کے دلائل کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ جسٹس حیدر نے اے ایس جے کے فیصلے میں تھوڑا سا اضافہ کیا اور سیشن کے استدلال اور نتائج پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تائید کی۔ یہاں ہم مجسٹریٹ کے فیصلے اور ASJ کے فیصلے سے کچھ اقتباسات کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ اس کیس نمبرCrl مثل نمبر 31929-Mآف2021ء لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر شیٹ میں بنام طاہر نقاش اور ایک اور VS The State وغیرہ درج ہیں اور جنہیں جسٹس فاروق حیدر نے جاری کیا۔ مجسٹریٹ عادل ریاض نے اپنے فیصلے کی حمایت میں دو مخصوص فیصلوں کو نمونہ بنایا، ایک سپریم کورٹ 1993 SCMR 1787 (اکثریتی فیصلہ) کو اور دوسرا ہائی کورٹ PLD 1992 لاہور Iکو۔ اس نے حوالہ دیا اور لکھا (اقتباسات):

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی احمدی کسی کارڈ، بیج یا پوسٹر کو عوام کے سامنے آویزاں کرتے ہیں یا دیواروں پر یا دروازوں یا جھنڈے پر کلمہ لکھتے ہیں یا کسی شعائرِ اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں تو وہ سرعام حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کی ناموس کی بے حرمتی کرتے ہیں اور مرزا صاحب کے نام کو بلند کرتے ہیں، اس طرح مسلمانوں کو مشتعل کرنا اور اکسانا امن عامہ میں خلل ڈالنے کا سنگین سبب بن سکتا ہے جو جان و مال کے نقصان کا بھی سبب بن سکتا ہے…غیر مسلم احمدیوں کی طرف سے کلمہ طیبہ کا استعمال 295-C PPC (PLD 1987 Lahore, 458) کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ PLD 1992 لاہور 1 کے فیصلے کی روشنی میں، معزز عدالت نے پیراگراف نمبر 35 میں بیان کیا کہ 35… مرزا غلام احمد (علیہ السلام)کے مخصوص دعوے کے پیش نظر احمدیوں کا بظاہر یہ عقیدہ ہے کہ مرزا صاحب پیغمبرِ اسلام ہیں اور کسی احمدی کے پہنے ہوئے بینروں یا بیجوں میں (محمد رسول اللہ) کے الفاظ اس کی اپنی ذمہ داری پر ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ حضورﷺ کے نام کی ہتک کرنے کا موجب بنے گا اور ایسی حرکتیں یقیناً دفعہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295 ج کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق، کافر قرار دیے گئے ان ملزمان کے پاس سے قرآن پاک کے نسخے ناپاک جگہوں سے برآمد ہوئے ہیں جو کہ ان ملزمان کے کردار سے مطابقت رکھتا ہے اور غیر قانونی اور نامناسب ہے جو شق تعزیراتِ پاکستان دفعہ 298 ب کے تحت آتا ہے یعنی قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرآن پاک کی متعدد آیات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آیا ہے جس میں قادیانیوں کی طرف سے قرآن پاک کی تلاوت تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295 ج کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ PLD 1991 10 اور PLD 2014 FSC 18 کے مطابق دیگر مقدس انبیاء کے نام تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295 ج کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ان کے پاس سے قادیانیوں کی کتاب ملفوظات جلد ۲ بھی برآمد ہوئی ہے جس میں وہ اللہ کے مقدس ناموں کی بے حرمتی کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، دیگر انبیاء کرام علیہم السلام، قرآن مجید اور دیگر مقدس کتابوں کی بھی بے حرمتی کرتے ہیں جو کہ صفحہ نمبر 1، 65، 99، 200، 217، 278، 422، 437، 477، 488، 489، 504 وغیرہ میں درج ہیں اور ایسی کارروائیاں یقینی طور پر تعزیراتِ پاکستان دفعہ 298ب اور 295 ج کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button