اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے
اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرےکہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ …خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھےافسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد4صفحہ99-100۔ایڈیشن1988ء)