احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آپؑ کی سیرت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ بحیثیت ایک ماتحت کے جن اخلاق فاضلہ کااظہار کیاجانا ضروری تھا وہ تمام کے تمام موجودتھے
پنڈت سہج رام
جن دنوں آپ کچہری میں ملازم تھے وہاں کے دفاترکاسپرنٹنڈنٹ ایک متعصب ہندو پنڈت سہج رام تھا۔یہ سخت قسم کا متعصب دشمن اسلام توتھاہی لیکن جب دوسری طرف حضرت اقدسؑ کی امانت ودیانت اور ذہانت ولیاقت کی وجہ سے کچہری کے عملہ اور افسران کی نظر میں عزت وتوقیر کاسلوک دیکھا تو لگتاہے کہ اس کے تعصب اور عناد کی آگ مزیدبھڑک اٹھی۔اور اس کا اظہار وہ حضرت اقدسؑ کے ساتھ بحث کے ذریعہ اور مفوضہ کاموں میں سختی برتتے ہوئے کرتاجیساکہ بعض اوقات تنگ نظر اور حاسدومتعصب افسران کیاکرتے ہیں۔
آپؑ کی سیرت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ بحیثیت ایک ماتحت کے جن اخلاق فاضلہ کااظہار کیاجانا ضروری تھا وہ تمام کے تمام موجودتھے۔ آپؑ کمال سنجیدگی اورمتانت اورعجزوانکسار سے اپنے اس ظالم افسرکی اطاعت بھی کرتے اور اس کی پوری کوشش کے باوجوداپنے فرائض میں کمی وکوتاہی کی کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع ہی پیدانہ ہونے دیتے۔ اورجہاں تک اس کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا تعلق تھا اس کے جواب دینے میں ذرہ بھربھی مداہنت یا کمزوری کا اظہاربھی نہ ہونے دیتے۔اورباوجودایک اہلکار اور اس کے ماتحت ہونے کے اپنی عزت نفس اور وقار اور خودداری واستغنا کاایک قابل رشک وتقلید نمونہ رہے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں:’’جن دنوں آپؑ سیالکوٹ میں ملازم تھے۔ہر چند آپؑ معمولی درجہ کے اہلکاروں میں سے تھے مگر آپ سلف ریسپکٹ(خودداری) اور استغنا کا ایک نمونہ تھے۔ آپؑ کی قابلیت بہر حال ضلع بھر میں مسلم تھی یہاں تک کہ تلخ تر دشمن اور آپؑ کے حالات کو قصہ کا رنگ دینے والا دشمن بھی اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنی خدا داد قابلیت کی وجہ سے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی نظروں میں عزت رکھتے تھے۔اس وقت سیالکوٹ کے دفاتر کا سپر نٹنڈنٹ ایک شخص پنڈت سہج رام نام تھا۔وہ ایک متعصب دشمن اسلام تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ سے وہ ہمیشہ مذہبی مباحثہ کیا کرتا تھا۔اسے یہ دھوکا لگا ہوا تھا کہ حضرت مرزا صاحب میرے ماتحت ایک سر شتہ میں اہلکار ہیں۔اس لئے مذہبی مباحثات میں میری وجاہت اور اثر ان کو حق گوئی سے شائید روک دے گا۔لیکن حضرت مرزا صاحب جو اعلائے کلمۃالاسلام کے لئے مبعوث ہونے والے تھے جن کی فطرت میں یہ قوت اور جوش رکھا گیا تھا کہ
دلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے
ہوشیار ساری دنیا اک باولا یہی ہے
وہ بھلا کب خاطر میں لاسکتے تھے۔مذہب کے معاملہ میں جب اس سے گفتگو ہوتی نہایت آزادی دلیری اور جرأت سے ایسی گفتگو ئیں ہوتی تھیں۔اور جب اسے نادم اور لاجواب ہونا پڑتا تو اپنی لاجوابی اور کمزوری کا بخار سرشتہ کے کاموں میں تعصب کے اظہار سے نکالتا۔اسے فطرتاً دین اسلام سے ایک کینہ تھا اس لئے ناممکن تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اسے کچھ بھی تعلق یا لگاؤ ہو سکتا۔آپ کے ساتھ وہ برتاؤ کرنے میں اپنے تمام اخلاق اور شریفانہ تعلقات کو نظر انداز کر دیتا مگر اس کا نتیجہ عموماً یہ ہوتا کہ اگر وہ صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے بھی کوئی اعتراض کرتا تو اس کا دندان شکن جواب وہیں پاتا۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کبھی اس سے دبتے نہیں تھےیہاں تک کہ بعض اوقات آپ کے دوست اور مخلص دوست لالہ بھیم سین صاحب نے مشورہ دیا کہ ترقی و کامیابی بظاہر اس شخص کے ہاتھ میں ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑایسا موحّد اور خدا پرست انسان اس قسم کی باتوں پر کب توجہ کر سکتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ہی ذات سے ہر قسم کی بہتری اور بھلائی وابستہ ہے یہ مردہ کیڑے کیا کر سکتے ہیں؟ اس لئے آپؑ اپنے فرض منصبی کو تو دیانتداری سے ادا کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے اور خوشامد اور دربارداری کو اپنی وضع اور مومنانہ غیرت کے سراسر خلاف جانتے تھے۔اس بات نے اس کو اور بھی آپؑ کے ساتھ بَدکُن بنادیا تھا مگر وہ بھی آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکا کیونکہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر آپ کی لیاقت اور دیانت سے خوب واقف اور اثر پذیر تھا۔‘‘(حیات احمدؑ،جلداول صفحہ274،273)
اسی پنڈت سہج رام کی اسی اسلام دشمنی اورکینہ فطرت کا ذکر حضرت اقدسؑ نے بھی کیاہے۔آپؑ فرماتے ہیں :’’ایک شخص سہج رام نام…ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کاسررشتہ دار تھا اوروہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث کیاکرتاتھا اوردین اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا…‘‘ (حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ309)لیکن ظلم کرنے والایہی افسر بعدمیں تنزلی کاشکارہوکروہاں سے تبدیل ہوکر کمشنری امرتسر میں سرشتہ دار ہو گیا تھا۔اور مرنے سے پہلے ہاتھ جوڑکراپنے ظلموں کی معافی کاطلبگاربھی ہوا۔جس کانظارہ کشفی طور پرآپ کودکھایاگیا۔حضرت مسیح موعودؑ کو اس کی وفات کی خبراوریہ سارانظارہ کشفی رنگ میں دکھایاگیا تھا۔گویاجو ساری عمر آپؑ سے اسلام کی سچائی پر اعتراض کرتارہا اس کی موت بھی اسلام اورحضرت اقدسؑ کی سچائی کاایک روشن نشان بن گئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی وفات کی خبرکو ایک نشان قراردیتے ہوئے بیان فرمایا:نشان نمبر127:’’میرے ایک بڑے بھائی تھے انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہو گئے تھے اور وہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ الٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہواجیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرا دو۔ میں نے اس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہو گیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اترا۔ اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی نوکری کے بارہ میں باتیں کر رہے تھے میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہو جائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مار کر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مارتے ہو۔ دوسرے دن یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اس دنیا سے گذر گیا۔(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ309)
دیگر احباب
سیالکوٹ کے زمانہ میں آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے اورہمنشین خوش نصیبوں کے جو اسماء ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:حضرت میرحسام الدین صاحبؓ، مولوی محبوب عالم صاحب نقشبندی سیالکوٹ کے ایک صوفی بزرگ، شمس العلماء علامہ سیدمیرحسن صاحب[علامہ اقبال کے استاد]، لالہ بھیم سین صاحب ایک معروف پلیڈر،حضرت میاں فضل دین صاحب،ڈاکٹرامیرشاہ صاحب، مرادبیگ آف جالندھر المعروف مرزامؤحد، شیخ الٰہ دادصاحب کچہری میں ایک منشی، حکیم منصب علی صاحب، شیخ فضل دین صاحب دوکاندار،پادری ریورنڈ جان ٹیلر ایم اے،پادری الیشع سوفٹ، نصر اللہ عیسائی ہیڈماسٹر مشن سکول،مسٹرایچ۔ای۔پرکنس،پنڈت سہج رام وغیرہ کچھ احباب کا ذکر توہوچکاکچھ کاذکراب کیاجاتاہے۔
حضرت میرحسام الدین صاحب
آپ1839ء کو سیالکوٹ میں پیداہوئے۔علامہ اقبال کے استاد سیدمیرحسن صاحب ان کے چچازادبھائی تھے۔حضرت میرحسام الدین صاحب سیالکوٹ کے معروف حکیم تھے۔ایک مصنف لکھتے ہیں:’’حسام الدین (صاحب) کا برصغیر کے چوٹی کے حکما میں شمارہوتاتھا۔خاص طورپر سیالکوٹ اوراس کے گردونواح میں حسام الدین کا وجودعلاج ومعالجے کے لحاظ سے باعث افتخارتھا…فن حکمت اپنے والدماجدسے سیکھا اوراس فن میں اتنے ماہرہوئے کہ جس بیمار کا علاج کرتے وہ اکثر شفایاب ہوجاتا۔اپنے پیشے میں بہت دیانتداراور مخلص تھے۔اکثرقلیل المعاش مریضوں کاعلاج بغیر کسی اجرومعاوضہ کے کرتے۔راستبازاوربات کے کھرے تھے۔‘‘(علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء مولوی سید میر حسن۔ حیات و افکار مصنفہ ڈاکٹر سیدسلطان محمود صفحہ 21)
حضرت اقدسؑ جب سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے تو حکیم صاحب دواسازی اور مطب کیاکرتے تھے۔اس زمانے میں حضرت اقدس ؑکی رہائش ان کے مکان کے ایک حصہ میں بھی رہی ہے۔اور 1877ء میں حضرت اقدسؑ سیالکوٹ تشریف لائے توحکیم صاحب کے مکان پربتقریب دعوت تشریف لے گئے تھے۔حضرت اقدسؑ کی وہ پاکیزہ جوانی اور نمونہ تھا کہ جب حضرت اقدسؑ نے دعویٰ کیا تو وہ لوگ جو نیک اورسعیدفطرت تھے اور فہم وفراست کے نورسے حصہ پائے جانے والوں میں سے تھے انہوں نے آپؑ کو قبول کرلیا۔سیالکوٹ کے جن احباب نے آپ کوقبول کیا ان میں سے اخلاص ووفا میں یہ گھرانہ بھی سرِ فہرست تھا۔
آپ کے چاربیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔میرحامدشاہ صاحب، رشیدشاہ صاحب،سعیدشاہ صاحب،محمودشاہ صاحب، حمیدہ بیگم صاحبہ،سعیدہ بیگم صاحبہ، محمودہ بیگم صاحبہ۔
آپ کی وفات 15؍اگست 1913ء کو 74 برس کی عمرمیں ہوئی۔اورسیالکوٹ میں ہی تدفین ہوئی۔
مولوی محبوب عالم صاحب
علامہ میرحسن بیان فرماتے ہیں:’’مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مر تاض شخص تھے۔ مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے۔اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے۔کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو۔چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے۔جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا۔تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے۔کہ انسان کو خود سعی اور محنت کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)۔ مولوی محبوب علی صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے۔کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 280)
ایک روایت میں انہوں نے بیان کیاکہ’’شہرکے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جوعزلت گزین اوربڑے عابداورپارسا اورنقشبندی طریق کے صوفی تھے۔ مرزاصاحب کودلی محبت تھی۔‘‘ (حیات احمدؑ جلد اول صفحہ94)
٭…٭…٭