خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍نومبر2022ء
اے عائشہؓ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکر کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اَور کسی پر راضی نہیں ہوںگے
حدیث میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہ ؓآپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر کا ہی مقام ہے
آپؓ کتابِ نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے اور آپؓ اربابِ فضیلت اور جوانمردوں کے امام تھے اور نبیوں کی سرشت رکھنے والے چیدہ لوگوں میں سے تھے
نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابوبکرؓ کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے۔ وہ نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے (حضرت مصلح موعودؓ)
’’آپ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہؐ سے ایک ازلی مناسبت تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دُور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقبِ عالیہ کا ایمان افروز بیان
مکرم محمد داؤد ظفر صاحب مربی سلسلہ رقیم پریس یوکے کی نمازِ جنازہ حاضر نیز دو مرحومین محترمہ رقیہ شمیم بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم آف سپین اور محترمہ طاہرہ حنیف صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کی نماز جنازہ غائب، مرحومین کا ذکرِ خیر
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍نومبر2022ء بمطابق 18؍نبوت1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت اور زندگی کے واقعات
بیان ہو رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکا جو مرتبہ تھا اس بارے میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ مزید بھی بیان ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتے تھے بلکہ یہ اشارہ دیا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکرؓ ہی کو آپؐ کے بعد خلیفہ اور جانشین بنائے گا۔
چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں مجھ سے فرمایا کہ ابوبکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کوئی خواہش کرنے والا خواہش کرے یا کوئی کہنے والا کہے کہ مَیں زیادہ حق دار ہوں لیکن اللہ اور مومن تو سوائے ابوبکر کے کسی اَور کا انکار کریں گے۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی بکرؓ،حدیث نمبر6181)یعنی کوئی اَور اگر کہے تو اس کا انکار ہوگا۔ حضرت ابوبکرؓ ہی جانشین بنیں گے ۔
پھر حضرت حذیفہ بن یمان ؓکی بھی ایک روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے لیے تم میں باقی رہنا کب تک ہے۔ پس تم میری پیروی کرو اور ان کی جو میرے بعد ہیں۔ اور آپؐ کا اشارہ ابوبکرؓ اور عمر ؓکی طرف تھا۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ باب فی فضائل اصحاب رسول اللّٰہﷺ حدیث نمبر97)
حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ فرماتے تھے کہ ایک بار میں سویا ہوا تھا۔ میں نے اپنے تئیں ایک کنویں پر دیکھا جس پر ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں میں سے جتنا اللہ نے چاہا کھینچ کر پانی نکالا۔ پھر ابن ابی قحافہ نے وہ ڈول لے لیا اور اس سے پانی کا ایک ڈول یا دو ڈول کھینچ کر نکالے اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی اور اللہ ان کی اس کمزوری پر پردہ پوشی فرماتے ہوئے ان سے درگزر کرے گا۔ پھر وہ ڈول ایک چرسا ہو گیا یعنی چمڑے کا ایک بڑا ڈول بن گیا اور ابنِ خطاب نے اس کو لیا تو میں نے کبھی لوگوں میں ایسا شہ زور نہیں دیکھا جو اس طرح کھینچ کر پانی نکالتا ہو جس طرح عمر نکالتے تھے۔ اتنا نکالا کہ لوگ خوب سیر ہو کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں جابیٹھے۔(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیﷺ لو کنت متخذاحدیث نمبر3664)یعنی حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں کے بارے میں آپؐ نے بتایا کہ آپؐ کے بعد جانشین ہوں گے۔
واقعۂ اِفک میں حضرت ابوبکرؓ کا کردار اور آپؓ کے فضائل
جو ہیں اس کی تفصیل تو پہلے صحابہؓ میں بیان ہو چکی ہے۔ یہاں صرف ایک مختصر حصہ پیش کرتا ہوں جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ پر اتنا بڑا الزام لگایا گیا گویا ایک پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن حضرت عائشہؓ کے والدین کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بیٹی کے پیار سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ انہوں نے اس سارے عرصہ میں دیر تک اپنی بیٹی کو اسی حالت میں رہنے دیا کہ جس حالت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھنا مناسب سمجھا یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہؓ اپنے والدین کے گھر تشریف لائیں تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اسی وقت واپس ان کے گھر بھیج دیا۔ چنانچہ بخاری میں ہے کہ واقعۂ افک کے دوران حضرت عائشہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایک خادم کے ساتھ اپنے والدین کے گھر تشریف لے گئیں۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں داخل ہوئی اور میں نے اپنی والدہ امّ رومان کو مکان کے نچلے حصہ میں اور حضرت ابوبکرؓ کو گھر کے بالاخانے میں پایا۔ وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ میری ماں نے کہا اے میری پیاری بیٹی! کیسے آئی؟ میں نے انہیں بتایا اور وہ واقعہ ان سے بیان کیا۔ کہتی ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ اس سے انہیں وہ حیرت نہیں ہوئی جس قدر مجھے ہوئی تھی۔ میرا جو خیال تھاکہ واقعہ سن کر وہ پریشان ہوں گی لیکن ان کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓکی والدہ کہنے لگیں کہ اے میری پیاری بیٹی! اپنے خلاف ہونے والی اس بات کو معمولی سمجھو کیونکہ اللہ کی قسم !کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی خوبصورت عورت کسی شخص کے پاس ہو جس سے وہ محبت رکھتا ہو۔ اس کی سوتنیں ہوں مگر وہ اس سے حسد کرتی ہیں اور اس کے متعلق باتیں بنائی جاتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ اس کا ان پر وہ اثر نہیں جو مجھ پر ہے۔ مَیں نے کہا کہ میرے والد بھی یہ جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت عائشہؓ نے کہا، اپنی والدہ سے پوچھا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ انہوں نے کہاہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس بات پر میرے آنسو جاری ہو گئے اور میں رونے لگی۔ حضرت ابوبکرؓ نے میری آواز سنی اور وہ گھر کے بالا خانے میں قرآن پڑھ رہے تھے۔ وہ نیچے آئے اور میری ماں سے کہا اسے کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا اسے وہ بات پہنچی ہے جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہے تو حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کہنے لگے اے میری پیاری بیٹی! میں تمہیں قَسم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں واپس آ گئی۔
(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن، تفسیر سورۃ النور، باب ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ… روایت نمبر 4757)
واقعۂ افک کے تذکرہ میں اس گھناؤنی سازش اور حضرت ابوبکرؓ کے مناقب بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لیے یا ان کے سرداروں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ ایک ادنیٰ تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم او ر ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں۔ یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لیے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ورنہ خود حضرت عائشہؓ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آپؓ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا۔ یعنی دوسری بیویاں تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شائد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کے لیے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مدِ مقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب ؓتھیں۔ ان کے علاوہ اَور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینبؓ کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگا یا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کا انکار کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینبؓ ہی تھیں۔
پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو وہ ان کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے۔ مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں دخل ہی نہیں دیا یعنی دوسری بیویوں نے۔ اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت عائشہ ؓکی تعریف ہی کی۔ چنانچہ ایک اَور بیوی کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس معاملے کا ذکر کیا تو اس نے کہا میں نے تو سوائے خیر کے عائشہؓ میں کوئی چیز نہیں دیکھی۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی دشمنی نکالنے کا امکان اگر کسی کی طرف سے ہو سکتا تھا تو ان کی سوتوں کی طرف سے مگر ان کا اس معاملے میں کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔
اسی طرح مَردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس آپؓ پر الزام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا حضرت ابوبکرؓ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ اور وہ دیکھ رہے تھے کہ
آپؐ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے۔
پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگا دیاتا حضرت عائشہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گرجانے کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپؓ سے بدظن ہو کر یعنی حضرت ابوبکرؓ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپؓ سے تھی اور اس طرح رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہوجائے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں جس طرح حضرت خلیفہ اولؓ کی زندگی میں پیغامیوں کا گروہ مجھ پر اعتراض کرتا رہتا تھا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ پس یہی وجہ تھی کہ خداتعالیٰ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا۔
حدیث میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہ ؓآپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکرؓ کا ہی مقام ہے۔
پھر حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! آپ میری فلاں حاجت پوری کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا اس وقت نہیں، پھر آنا۔ وہ بدوی تھا اور تہذیب و شائستگی کے اصول سے ناواقف تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ آخر آپؐ انسان ہیں۔ اگر میں پھر آؤں اور آپؐ اس وقت فوت ہو چکے ہوں تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں دنیا میں نہ ہوا تو ابوبکرؓ کے پاس چلے جانا، وہ تمہاری حاجت پوری کر دے گا۔ اسی طرح حدیثوں میںآتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔
اے عائشہؓ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکر کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اَور کسی پر راضی نہیں ہوںگے
اس لیے میں کچھ نہیں کہتا۔ غرض صحابہ یہ قدرتی طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان میں سے اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر کااور وہی آپؐ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔
مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے انتظام کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لیکن مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعا ًمنافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کیونکہ آپؐ کی مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امیدیں باطل ہو گئی تھیں۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گووہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا۔ اور چونکہ اب وہ اَور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن مسلمانوں میں جونہی بادشاہت قائم ہوئی اور ایک نیا نظام انہوں نے دیکھا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے؟ آپؐ کے بعد اسلام کا کیا حال ہو گا اور اس بارے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پید ا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ یعنی عبداللہ کا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا۔ اور اس کے لیے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکرؓ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظر اسی کی طرف اٹھتی یعنی حضرت ابوبکرؓ کی طرف اور وہ اسے سب دوسروں سے معزز سمجھتے ہیں۔ پس اس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کردیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے حضرت ابوبکرؓ کو گرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپؓ پر گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں اشارةً بیان کیا گیا ہے اور حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے۔
عبداللہ بن ابی بن سلول کی اس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپؓ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہو جائیںگے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑجائےگا جس کا قائم ہونا اسے لابدی نظر آتا تھا، نظر آ رہا تھا کہ لازمی یہ ہو گا۔ اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں تباہ ہو جاتی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبداللہ بن ابی بن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا بعض اَور لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لیے عبداللہ بن ابی بن سلول بھی اپنی موت کو دُور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا۔ وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں گا۔ لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابوبکر کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکر آپؐ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابوبکر سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی بن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امید لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے۔ چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہرت اور آپؓ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہ سے گرانے کے لیے اس نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابوبکرؓ کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا امکان نہ رہے چنانچہ اسی امر کااللہ تعالیٰ نےقرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے، فرماتا ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ الزام کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائےگا۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے لو اَب ہم خلافت کے متعلق بھی اصول بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ
یہ منافق زورمار کر دیکھ لیں۔ یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کرکے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الٰہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18صفحہ451تا455)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’اب دیکھو! سورۂ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذلیل کیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے جو تعلقات ہیں وہ بگڑ جائیں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میں بھی ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں ۔کیونکہ عبداللہ بن ابی بن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اٹھنی ہے تو وہ ابوبکرؓ ہی ہے اور اگر ابوبکرؓ کے ذریعہ سے خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی بن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہ ہوںگے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے ذکر کے معاً بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں ہے۔ وہ تو نورِ الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس کا ضائع ہونا تو نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے۔ پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور نبوت کے بعد بادشاہت ہرگز قائم نہیں ہونے دے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ایک نہیں متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کرکے نور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا۔یہ مضمون ایسا ہی ہے جیسے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے پی لے۔ اسی طرح فرمایا
تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابوبکرؓ کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے۔ وہ نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ اسی طرح خلافت کا یہ نور چند اَور گھروں میں بھی پایا جاتا ہے اور کوئی انسان اپنی کوششوں اور اپنے مکروں سے اس نور کے ظہور کو روک نہیں سکتا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 18صفحہ 457)
بہرحال یہ خلافت کے بارے میں ایک مضمون ہے۔ اس پہ آپؓ نے خطبہ دیا تھا۔ اس سے (پتہ چلتا ہے کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابوبکرؓ کا ایک مقام تھا اورپھر اللہ تعالیٰ کی جو فعلی شہادت تھی اس سے بھی ثابت ہو گیا کہ نبوت کے فوراً بعد جو خلافت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق جاری رہنا تھا وہ جاری رہااور اس کے بعد اگر بادشاہت آئی تو وہ بعد کی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ سے وہ نظام (اب)پھر قائم ہوا۔
پھر حضرت ابوبکرؓ کے انکسار اور تواضع کے بارے میں
آتا ہے۔ حضرت سعید بن مسیبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ہمراہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ جھگڑ پڑا اورآپؓ کو تکلیف پہنچائی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ خاموش رہے۔ اس نے دوسری مرتبہ تکلیف پہنچائی جس پر حضرت ابوبکرؓ پھر خاموش رہے۔ اس نے تیسری مرتبہ تکلیف دی تو حضرت ابوبکرؓ نے بدلہ لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے بدلہ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!کیا آپ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آسمان سے ایک فرشتہ اترا جو اس بات کی تکذیب کر رہا تھا جو وہ تیری نسبت بیان کر رہا تھا۔ جب تُو نے بدلہ لیا تو شیطان آ گیا اور میں اس مجلس میں نہیں بیٹھنے والا جس میں شیطان پڑ گیا ہو۔
(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی الانتصار حدیث نمبر 4896)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تین باتیں ہیں جو سب برحق ہیں۔ کسی بندے پر کسی چیز کے ذریعہ ظلم کیا جائے اور وہ محض اللہ عزوجل کی خاطر اس سے چشم پوشی کرے تو اللہ اسے اپنی نصرت کے ذریعہ سے معزز بنا دیتا ہے۔ وہ شخص جو کسی عطیے کا دروازہ کھولے جس کے ذریعہ اس کا ارادہ صلہ رحمی کرنے کا ہو تو اللہ اس کے ذریعہ اسے مال کی کثرت میں بڑھا دیتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ شخص جو سوال کا دروازہ کھولے جس کے ذریعہ اس کا ارادہ مال کی کثرت کا ہو تو اللہ اسے اس کے ذریعہ قلت اور کمی میں بڑھا دیتا ہے۔
(مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ247 کتاب البر و الصلۃ حدیث 13698 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام حضرت ابوبکرؓ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے عارف باللہ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے۔ بہت ہی عفو و درگزر کرنے والے اور مجسّم شفقت و رحمت تھے۔ آپؓ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے۔ آپؓ کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق تھا اور آپؓ کی روح خیر الوریٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح سے پیوست تھی اور جس نور نے آپؓ کے آقا و مقتدا محبوبِ خداؐ کو ڈھانپا تھا اسی نور نے آپؓ کو بھی ڈھانپا ہوا تھا اور آپؓ رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے نور کے لطیف سائے اور آپؐ کے عظیم فیوض کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ اور فہمِ قرآن اور سید الرسل، فخرِ بنی نوع انسانؐ کی محبت میں آپؓ تمام لوگوں سے ممتاز تھے۔ اور جب آپؓ پر اخروی حیات اور الٰہی اسرار منکشف ہوئے تو آپؓ نے تمام دنیوی تعلقات توڑ دئیے اور جسمانی وابستگیوں کو پرے پھینک دیا اور اپنے آپ اپنے محبوبؐ کے رنگ میں رنگین ہو گئے اور واحد مطلوب ہستی کی خاطر ہر مراد کو ترک کر دیا اور تمام جسمانی کدورتوں سے آپ کا نفس پاک ہو گیا۔ اور سچے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا اور رب العالمین کی رضا میں گم ہو گیا اور جب سچی الٰہی محبت آپؓ کے تمام رگ و پے اور دل کی انتہائی گہرائیوں میں اور وجود کے ہر ذرہ میں جاگزین ہو گئی۔ اور آپؓ کے افعال و اقوال میں اور برخاست و نشست میں اس کے انوار ظاہر ہو گئے تو آپؓ صدیق کے نام سے موسوم ہوئے اور آپ کو نہایت فراوانی سے تروتازہ اور گہرا علم تمام عطا کرنے والوں میں سے بہتر عطا کرنے والے خدا کی بارگاہ سے عطا کیا گیا۔ صدق آپؓ کا ایک راسخ ملکہ اور طبعی خاصہ تھا اور اس صدق کے آثار و انوار آپؓ میں اور آپؓ کے ہر قول و فعل، حرکت و سکون اور حواس و انفاس میں ظاہر ہوئے۔ آپؓ آسمانوں اور زمینوں کے ربّ کی طرف سے منعم علیہ گروہ میں شامل کئے گئے۔
آپؓ کتابِ نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے۔ اور آپؓ اربابِ فضیلت اور جوانمردوں کے امام تھے اور نبیوں کی سرشت رکھنے والے چیدہ لوگوں میں سے تھے۔‘‘
پھر آپؓ فرماتے ہیں ’’تُو ہمارے اس قول کو کسی قسم کا مبالغہ تصور نہ کر اور نہ ہی اسے نرم رویے اور چشم پوشی کی قسم سے محمول کر اور نہ ہی اسے چشمہ ٔمحبت سے پھوٹنے والا سمجھ بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو بارگاہ رب العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئی۔‘‘
آپؑ نے حضرت ابوبکرؓ کا جو مقام بیان کیا ہے، آپؓ کے خواص، آپؓ کے مناقب اورجو اتنی تعریفیں کی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پربراہ راست ظاہر فرمائی ہیں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اور آپ رضی اللہ عنہ کا مشرب ربّ الارباب پر توکل کرنا اور اسباب کی طرف کم توجہ کرنا تھا اور
آپ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہؐ سے ایک ازلی مناسبت تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دُور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا۔‘‘
(سرالخلافۃ ،اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ صفحہ101 تا 103)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ ساتھیوں میں شمولیت۔
اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت علی بن ابو طالبؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یقینا ًہر نبی کو سات نجیب ساتھی دیے گئے یا فرمایا ساتھی۔ صرف ساتھی کہا اور مجھے چودہ دیے گئے ہیں۔ ہم نے انہیں کہا وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا میں اور میرے دونوں بیٹے اور حضرت جعفر ؓاور حضرت حمزہؓ اور حضرت ابوبکرؓ یعنی حضرت علیؓ اور ان کے دونوں بیٹے حضرت جعفر ؓ،حضرت حمزہؓ ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت بلالؓ اور حضرت سلمانؓ اور حضرت عمارؓ اور حضرت مقدادؓ اور حضرت حذیفہؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین حدیث نمبر 3785)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےحضرت ابوبکر صدیق ؓکو
حج کی امارت
بھی دی گئی تھی ۔ اس بارے میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 9؍ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو امیر الحج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا۔ پھر آپؐ سے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں اور شرکیہ الفاظ ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال حج کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا۔
( الروض الانف جلد4صفحہ318 حج ابی بکر بالناس سنۃ تسع ، دارالکتب العلمیۃ بیروت)(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد9صفحہ384 حدیث1622 کتاب الحج باب لا یطوف بالبیت عریان مطبوعہ دار احیاء التراث2003ء)
حضرت ابوبکر صدیق ؓتین سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بیس قربانی کے جانور بھیجے جن کے گلے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے قربانی کی علامت کے طور پر گانیاں پہنائیں اور نشان لگائے۔ حضرت ابوبکرؓ خود اپنے ساتھ پانچ قربانی کے جانور لے کر گئے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحہ295۔باب سرایہ و بعوثہﷺ/سریہ اُسامہ بن زید بن حارثہؓ الی أبنی۔دار الکتب العلمیة بیروت لبنان)
روایت میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات کا اس حج کے موقع پر اعلان کیا تھا۔ اس کی تفصیل تو حضرت علیؓ کے ذکر میں اور پھر حضرت ابوبکرؓ کے ذکر میں شروع میں ایک دفعہ خطبہ میں مَیں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال مختصراً یہاں بیان کرتا ہوں کہ جب سورت براءت یعنی سورت توبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کو بطور امیر حج بھجوا چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ یہ سورت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیج دیں تا کہ وہاں پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو بلوایا اور انہیں فرمایا کہ سورت توبہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منیٰ میں اکٹھے ہوں تو ان میں اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی۔
حضرت علیؓ اس فرمان کے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت ابوبکرؓ سے جا ملے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علی ؓکو راستے میں دیکھا یا ملے تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپ میرے ماتحت ہوں گے؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ آپ کے ماتحت۔ پھر دونوں روانہ ہو گئے۔ آپ کے ماتحت ہوں گا لیکن یہ آیات جو ہیں وہ میں پڑھوں گا۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کی حج کے امور پر نگرانی کی اور اس سال اہل عرب نے اپنی انہی جگہوں پر پڑاؤ کیا ہوا تھا جہاں وہ زمانہ جاہلیت میں پڑاؤ کیا کرتے تھے۔ جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علی ؓکھڑے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لوگوں میں اس بات کا اعلان کیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔ جیساکہ میں نے کہا کہ اس کی تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔حج ابی بکر بالناس سنۃ تسع واختصاص النبیﷺ علی بن ابی طالب… صفحہ 832 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)
حضرت ابوبکرؓ کا یہ ذکر ان شاء اللہ آئندہ بھی ہو گا۔ اس وقت مَیں
بعض مرحومین کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں۔پہلا تو
مکرم محمد داؤد ظفر صاحب ابن چودھری محمد یوسف صاحب کا ہے۔ مربی سلسلہ
تھے۔ یہاں یوکے میں رقیم پریس میں تھے۔ 16؍نومبر کو ان کی وفات ہوئی۔ 48سال عمر تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا جنازہ حاضر ہے۔ ان شاء اللہ نمازوں کے بعد مَیں جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔
1998ء میں انہوں نے جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کا کورس مکمل کیا۔ پھر مربی سلسلہ کے طور پر مختلف جگہوں پر کام کرتے رہے۔ پھر 2001ء میں انگلستان آ گئے۔ یہاں رقیم پریس میں اسلام آباد میں ان کی تقرری ہوئی۔ بڑے شوق سے خدمت بجا لاتے رہے۔ خلافت سے بڑا گہرا عقیدت کا تعلق تھا۔ اسلام آباد میں رہائش کے دوران کچھ عرصہ یہ صدر جماعت اسلام آباد بھی رہے۔ عمرہ کرنے کی سعادت بھی ان کو ملی۔مرحوم موصی بھی تھے۔ ان کے پسماندگان میں والدین اور اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔
ان کے والد چودھری یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ داؤد کو میں نے جب مربی بننے کی تحریک کی تو انہوں نے میری اس خواہش کی مکمل تکمیل کی۔ بعض لوگوں نے ان کو کہا کہ اگر مربی بننے کی بجائے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں اتنی کوشش کریں تو وہ زیادہ اچھی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے گھر کے مالی حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن داؤد صاحب نے ایسے مشوروں کو یکسر مسترد کر دیا۔ جامعہ سے شاہد مربی بننے سے لے کر وفات تک مکمل وفا کے ساتھ اپنا وقف نبھایا۔ بہت اطاعت گزار بیٹے تھے۔ والد کہتے ہیں کہ میری ہر بات مانتے رہے ،کبھی انکار نہیں کیا۔ ہمیشہ مجھے سکھ پہنچانے کی کوشش کی۔ مالی مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنے وقف کو چھوڑنے کا نہیں سوچا۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران مالی مشکلات کی وجہ سے سائیکل کو پنکچر اگر ہو جاتا تھا تو اس کے پنکچر لگانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ کہتے ہیں گھر سے سائیکل میں ہوا بھر کے جامعہ پہنچ جاتے تھے اور واپسی پر اسی طرح کرتے تھے۔ کبھی گلہ شکوہ نہیں کیا۔ خلیفۂ وقت کی اطاعت کرنے والے اور منشا کو سمجھنے والے مربی تھے۔
ان کی اہلیہ مبارکہ صاحبہ کہتی ہیں کہ بائیس سال ہماری رفاقت رہی۔ بہت نرم دل، محنتی، خدا پر بے حد توکل اور ہر ایک کی بے لوث خدمت کرنے والا پایا۔ زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آئے جب کچھ چیزیں بظاہر ناممکن لگیں تو میں کہتی کہ یہ کیسے ہو گا؟ تو کہتے کہ اللہ پر توکل کرو سب ٹھیک ہو جائے گا اور اللہ کے فضل سے پھر ایسا ہی ہو جاتا۔ بچوں کو ہمیشہ نصیحت کرتے کہ اچھے انسان بننا۔ کبھی کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بننا۔ کہتی ہیں بچوں کو بٹھا کر اکثر یہ ذکر کرتے تھے کہ آج میں جو بھی ہوں خلافت کے تعلق کی وجہ سے ہوں اور جماعت کی وجہ سے ہوں۔ اللہ مجھے توفیق دے کہ میں اپنے وقف کو صحیح نبھا سکوں۔ ہمیشہ ان کی یہ خواہش ہوتی تھی۔ ان کی بڑی بیٹی درمانہ صاحبہ کہتی ہیں۔ وہ ہم سے صرف ایک ہی بات کا مطالبہ کیا کرتے تھے کہ ہم اچھے احمدی مسلمان بنیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھیں اور کبھی بھی کسی کو ہماری وجہ سے تکلیف نہ ہو۔
بڑے بیٹے روحان کہتے ہیں میرے والد صاحب کو ہماری روحانی تربیت کی بہت فکر رہتی تھی۔ جب بھی ہم کوئی سوال پوچھتے تو وہ ایک مربی ہونے کی وجہ سے قرآنی تعلیم کی روشنی میں اور دینی پہلو سے جواب دینے کی کوشش کرتے تھے۔ چھوٹے بیٹے فواد داؤد ہیں پندرہ سال ان کی عمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کو کینسر ہو گیا تھا اور آخری دنوں میں اس کی بہت شدت ہو گئی تھی تو آخری ایام میں مجھے کہا کہ میں تمہیں ایک خوبصورت زندگی جیتے دیکھنا چاہتا تھا تاہم میرے اللہ کی مشیت کچھ اَور ہے اور میں اس کی رضا پہ راضی ہوں۔بہرحال بچوں کو ہمیشہ نیکی کی ،جماعت سے تعلق کی، خلافت سے تعلق کی نصیحت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی نصیحتوں پر ان کو عمل کرنے کی توفیق بھی دے اور ان کے لیے ان کی دعائیں بھی قبول کرے۔
یہ بات تو ان کے واقف کاروں نے، مربیان نے عموماً ہر ایک نے لکھی ہے کہ بہت ہنس مکھ اور مجلس لگانے والے، دل موہ لینے والے،ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے اور اپنے پروفیشن میں کمپیوٹر اور آرٹ ورک میں مہارت رکھتے تھے۔ مربی تھے لیکن دماغ تھا کہ ٹیکنیکل کاموں میں بھی اور ایڈیٹنگ وغیرہ میں بھی بڑا اچھا چلتا تھا۔ رقیم پریس میں انہوں نے بڑا کام کیا۔ اپنے ہنر کو استعمال کرنے کا انہیں خوب موقع ملا۔ جماعتی خدمت کو ہمیشہ خدا کے فضل اور اپنے لیے سعادت تصور کرتے تھے۔
پھر ایک رشتے دار نے یہ بھی لکھا ہے کہ دوسروں کے کام بڑے خاموشی سے آتے تھے۔ بڑی خاموشی سے ضرورت مند لوگوں کو رشتہ داروں کو مالی مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ دے۔
دو جنازہ غائب
بھی ہیں ان میں سے پہلا
رقیہ شمیم بشریٰ صاحبہ کا ہے جو مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم سابق مبلغ سپین کی اہلیہ تھیں۔
گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ 1932ء میں قادیان میں پیدا ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ کئی سال تک ان کو صدر لجنہ سپین کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے ایک پوتے عطاء المنعم طارق واقف نو واقفِ زندگی ہیں۔ سینٹرل سپینش ڈیسک کے انچارج ہیں۔ ایک پوتی بھی مربی سلسلہ سے بیاہی ہوئی ہیں۔ بیٹے بھی دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کا کام کرنے والے ہیں۔ان کے ایک بڑے بیٹے نائب امیر بھی ہیں۔ رقیہ صاحبہ کے دادا مولوی فخر دین صاحب اور دادی صاحب بی بی صاحبہ تھیں جو بنیادی طور پر بھیرہ سے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بیعت کرنے کے بعد قادیان چلے گئے۔ ان کے نانا بھائی عبدالرحیم صاحبؓ تھے۔ ان کا تعلق اجمیر سے تھا۔ شروع میں سکھ مذہب سے تعلق تھا۔ پھر انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی اور وہ بھی بیعت کے بعد پڑھنے کے لئے قادیان آ گئے۔ اس لیے ننھیال ددھیال دونوں صحابہ میں سے تھا۔
رقیہ بیگم صاحبہ کے بارے میں ان کے بیٹے نے لکھا ہے کہ دعوت الامیر سے خاص لگاؤ تھا۔ کئی بار اسے پڑھا اور کہا کرتی تھیں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں موجودبہت سے شکوک و شبہات کے جوابات مل گئے۔ بارہ سال کی عمر سے ہی نماز کے لیے دل میں بہت زیادہ لگن تھی۔ اللہ تعالیٰ سے التجا کرتی تھیں کہ انہیں ایمان کے راستوں اور صراط مستقیم پر چلائے۔ پردے کا بہت خیال رکھنے والی تھیں۔ اس سلسلہ میں دوسری خواتین کے لیے مثال تھیں۔ مریضوں اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی تھیں۔ ہر ممکن طریق سے ان کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔
ابتدائی دَور میں جب مولانا صاحب کے ساتھ سپین آئی ہیں تو سپین میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر پولیس تبلیغ کی وجہ سے مولانا صاحب کو حراست میں لے لیتی تھی یا پھر گھر پہ چھاپے مارتی تھی۔ پولیس تبلیغی سرگرمیوں کے ثبوت کے لیے تلاشی کرتی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے میاں کی طرح اس یقین پر قائم تھیں کہ آخر کار اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرے گا اور تمام مشکلات کو دُور کر دے گا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مولانا صاحب کو قرطبہ میں مسجد بنانے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی تو اس سلسلہ میں انہوں نے بھی ہر طرح سے مدد کی۔ ان کے بیٹے نے لکھا ہے کہ جب مسجد بشارت کی تعمیر شروع ہوئی تو تقریباً ہر روز اپنے شوہر کے ساتھ بس وغیرہ کے ذریعہ قرطبہ سے پیدروآباد تک تعمیراتی کاموں کی پیشرفت، کاموں کی نگرانی کے لیے آتی تھیں۔ سارے اخراجات کا ریکارڈ ان کے پاس ہوتا تھا۔ باقاعدہ اکاؤنٹنٹ کے طور پر انہوں نے مسجد کی تعمیر میں کام کیا۔
ان کے بیٹے فضل الٰہی قمر کہتے ہیں کہ والدہ صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی نصیحت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ اپنی ڈیوٹی کو مدنظر رکھنا اور اپنے شوہر کو مشورے دینا۔ آپ ایک ایسے ملک جا رہی ہیں جہاں آپ نے اپنے میاں کو تبلیغ کے کاموں میں سست نہیں بنانا بلکہ زیادہ فعال کرنا ہے۔ مرنے کے بعد ساتھ رہنے کے لیے بہت سارا وقت ہو گا۔ اس بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو زندگی کے ان دنوں میں کام کرنے کے وقت کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور بہرحال وہ ان نصیحتوں پر عمل کرتی رہیں۔ جو بھی صورت حال ہوتی آپ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے صبر اور حوصلے سے کام کیا۔ ابتدائی دن بہت مشکل تھے لیکن آپ نے انہیں بھی ہمت سے برداشت کیا۔ دین کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے یورپ کے ایسے ملک میں اسلامی نمونہ قائم کیا جہاں ایک وقت میں اسلام کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ سپین میں تبلیغِ احمدیت کے کام کو پھیلانے میں آپ کا نمایاں کردار تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تیسرا ذکر
محترمہ طاہرہ حنیف صاحبہ
کا ہے جو سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی بیٹی تھیں اور مرزا حنیف احمد صاحب مرحوم جو حضرت خلیفة المسیح الثانی کے بیٹے تھے ان کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ جیساکہ میں نے بتایا حضرت مصلح موعود ؓکی بہو تھیں اور میری ممانی بھی تھیں۔1936ء میں یہ قادیان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تھے جیساکہ میں نے کہا جنہوں نے بخاری کی کافی جلدوں کی شرح بھی لکھی ہوئی ہے۔ بڑے عالم تھے۔ یہ عرب ممالک میں بھی رہے ہیں۔ طاہرہ بیگم صاحبہ کی والدہ کا نام سیدہ سیارہ صاحبہ تھا۔ ان کا تعلق دمشق سے تھا۔ یہ عرب تھیں۔ ان کے دادا حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے ذریعہ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ہوا جنہوں نے 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور اس کے لیے بھی پورے خاندان کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح راہنمائی کی کہ بچوں کو، بڑوں کو، خوابوں کے ذریعہ سے راہنمائی کرتا رہا اور ان کے ایمانوں کو مضبوط کرتا رہا۔ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نانا تھے۔ اس طرح یہ ان کی ماموںزاد تھیں۔ مکرمہ طاہرہ صاحبہ 1972ء سے 1990ء تک لجنہ اماء اللہ ربوہ میں سیکرٹری اصلاح و ارشاد کی خدمت کی توفیق بھی پاتی رہیں۔ پھر سیرالیون میں بھی اپنے وقفِ زندگی خاوند کے ساتھ انہوں نے کچھ سال، وقت گزارا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔
ان کی بڑی بیٹی امة المومن کہتی ہیں کہ ہم نے امی کو ہمیشہ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ نماز تہجد، روزوں اور قرآن مجید کی تلاوت میں باقاعدگی سے مصروف دیکھا۔ بلکہ اشراق وغیرہ کی نمازیں بھی پڑھا کرتی تھیں۔ کبھی بھی یہ روٹین سے نہیں ہٹتی دیکھیں۔سب کچھ آپ بہت محبت اور لگن سے کرتی تھیں۔ عبادت بھی بڑی محبت اور لگن سے ہوتی تھی۔ کہتی ہے مجھے بہت حیرت ہوتی تھی کہ اس کے ساتھ باقی دنیا داری کے کام کیسے نبھاتی ہیں۔ سسرال کے حقوق، ہمسائیگی کا حق ،میرے ابا کا خیال رکھنا، ہم سب کے کھانے پینے کی فکر ،مہمان نوازی کا بھی بےحد شوق تھا۔ جماعت کے ساتھ محبت، خلفاء جو آپ کی زندگی میں آئے ان سب کے ساتھ بہت اخلاص کا تعلق تھا اور خلافت کی وفا دار تھیں۔ وصیت کی ہمیشہ فکر رہتی تھی۔ خلیفۂ وقت کو خط لکھنے کی تلقین کرتی تھیں اور کہتی تھیں خط لکھ کر تسلی ہو جاتی ہے۔ مجھے بھی بڑی باقاعدگی سے یہ خط لکھا کرتی تھیں اور بلکہ ہر خطبہ کے بعد اکثر ان کے خط آتے تھے اور اس پر مختلف قسم کے تبصرے بھی ہوتے تھے۔ بعض باتیں جو ان کو اچھی لگتی تھیں ان میں خاص طور پہ ان کا ذکر ہوتا تھا۔ کبھی کوئی اعتراض والی بات نہیں کرتی تھیں بلکہ کبھی کوئی ایسی بات بھی ہوتی جس میں ہم شامل ہوتے تھے تو کہتی تھیں کہ اعتراضوں کی باتوں میں پڑنے کی ضرورت کوئی نہیں ہے۔ ہمیشہ میں نے ان باتوں کا نقصان ہی دیکھا ہے، فائدہ کبھی نہیں دیکھا۔
جیساکہ میں نے کہا خلافت سے غیر معمولی تعلق تھا۔ غریب پروری بہت زیادہ تھی۔ ایک صاحب اختر صاحب ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ ہمارے والد نے ہماری والدہ اورہمیں چھوڑ دیا تو انہوں نے اپنے گھر میں ہمیں جگہ دی اور اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا۔ کھانے پینے کا، لباس کا، پڑھائی کا اور کبھی ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔
اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ بزرگوں کے قدموں میں جگہ دے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 09؍دسمبر2022ءصفحہ 5تا10)