جنگ کے حالات
خوف میں غرق، یہ دن رات نظر آتے ہیں
پھر سے اب جنگ کے حالات نظر آتے ہیں
بستیاں چاہے اجڑ جائیں، بلا سے اُن کی
کِبر میں چُور، مَحلّات نظر آتے ہیں
ہمنوائی کے جو دعوے ہیں، سبھی جھوٹے ہیں
اُن کو بس اپنے مفادات نظر آتے ہیں
یہ جو کہتے ہیں لڑو شوق سے، ہم ہیں پیچھے
ان کی باتوں میں تضادات نظر آتے ہیں
خیر اُمّت کا عطا درجہ ہوا ہے جن کو
وہ بھی خود مَحوِ فسادات نظر آتے ہیں
متحد ہوتے، اگر ہوتے خلافت کے مطیع
بکھرے بکھرے سبھی ذرّات نظر آتے ہیں
موت ہی موت نظر آئے گی ہر سُو یارو!
آج کل ایسے ہی خدشات نظر آتے ہیں
مُلک مِٹ جائیں گے وہ بھی جو بنے حاکم ہیں
جیسے افعال ہیں، مافات نظر آتے ہیں
جن کی مسموم ہوائوں میں ہلاکت کا دھواں
ہر طرف ایسے بُخارات نظر آتے ہیں
ہولناکی کے تصوّر سے جِن و اِنس تو کیا
دیکھو! مبہوت جمادات نظر آتے ہیں
تو کرے فضل نہ تو میرے خدایا! حق ہے
امن کے خواب، محالات نظر آتے ہیں
اِک دعا ہی کا بچا چارہ، وگرنہ سرورؔ
آخری زیست کے لمحات نظر آتے ہیں
(محمد ابراہیم سرور۔واقف زندگی)