حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

لوگوں کے ساتھ نرمی اور اچھے طریق سے پیش آؤ

اخلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ: ۸۴) کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور اچھے طریق سے پیش آؤ۔ ان سے اچھے طریق سے بات کیا کرو۔ اب عام طور پر انسان دوسروں سے اکّھڑپن سے بات نہیں کرتا باوجود اس کے کہ بعض طبائع میں خشونت اور اکھڑپن ہوتا ہے لیکن وہ ہر وقت اس کا اظہار نہیں کرتے۔ تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے بات کرو تو ان سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آؤ تو ایسے ہی لوگوں کو کہتا ہے کہ اپنی اس خشونت اور اکھڑ پن کی طبیعت میں نرمی پیدا کرو اور کبھی بھی تمہارے سے ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو دوسرے کو تکلیف پہنچانے والی ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر مغلوب الغضب نہ ہو جایا کرو۔ لیکن بعض انسان اپنی طبیعت کی وجہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا طبائع ہوتی ہیں، یکدم بھڑک بھی جاتے ہیں تو ایسے لوگ اگر سخت بات کہنے کے بعد اپنی سختی پر افسوس کریں اور جو جذباتی یا کسی بھی قسم کی تکلیف ان سے دوسروں کو پہنچی ہو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں، توبہ اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے اور ان کی توبہ قبول بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر توجہ نہ دینے والے بےجا تشدد اور سختی کرتے چلے جانے والے اور کسی قسم کی بھی ندامت محسوس نہ کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اخلاق سے گر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی کر کے گنہگار بھی ہو رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عبادتیں بھی ان کے کسی کام نہیں آتیں۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی مغفرت کی امید دلاتا ہے جو کسی خاص جوش یا غصے کے ماتحت ایک فعل کردیں لیکن بعد میں ہوش آ جانے پر اپنے اس فعل پر نادم ہوں، شرمندہ ہوں اور اس کے ازالے کی کوشش کریں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اکتوبر۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button