سریّہ قُرْطَاء کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍ دسمبر۲۰۲۴ء
٭… یہ سریّہ دس محرّم ۶؍ہجری میں ہوا اور آنحضرتؐ نے حضرت محمدبن مَسْلَمَہؓ کو تیس سواروں کے ہمراہ قُرْطا کی جانب بھیجا
٭… صحابہؓ یہ سمجھے ہوں گے کہ اب ثمامہ اپنے وطن کی طرف واپس لَوٹ جائے گا مگر آنحضرتؐ سمجھ چکے تھے کہ ثمامہ کا دل مفتوح ہو چکا ہے
٭…یا رسول اللہ(صلی الله علیہ وسلم)! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپؐ کی ذات سے اور آپؐ کے دین سے اور آپؐ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی لیکن اب مجھے آپؐ کی ذات اور آپؐ کا دین اور آپؐ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہیں (ثمامہ بن اثال)
٭…مکرم عبداللطیف خان صاحب آف یوکے ،مکرم طیّب احمد صاحب شہیدآف راجن پور حال راولپنڈی، عزیزم مھند مؤیّد ابو عواد صاحب آف غزہ، مولوی محمد ایوب بٹ صاحب درویش قادیان، مکرم ڈاکٹر مسعود احمد ملک صاحب آف امریکہ اور مکرم شبیر احمد لودھی صاحب آف کینیڈا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍ دسمبر۲۰۲۴ء بمطابق ۱۳؍فتح۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۳؍ دسمبر۲۰۲۴ء مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے
آج ایک سریّہ کا ذکر کروں گا، جو سریّہ قُرْطَاء کہلاتا ہے،
یہ سریّہ دس محرّم۶؍ ہجری میں ہوا اور آنحضرتؐ نے حضرت محمدبن مَسْلَمَؓہ کو تیس سواروں کے ہمراہ قُرْطا کی جانب بھیجا۔اِس مہم کے لیے آپؓ اُنیس راتیں مدینہ سے باہر رہے اور اُنتیس محرّم۶؍ ہجری کو مدینہ واپس آئے۔
اِس کی تفصیل میں مختلف کتب و تواریخ سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر فرمایا ہے، وہ اِس طرح ہے کہ ابھی ۶؍ہجری شروع ہی ہوا تھا اور قمری سال کے پہلے مہینہ یعنی محرّم کے ابتدا ہی کی تاریخیں تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ِنجد کی طرف سے خطرہ کی اطلاعات پہنچیں۔ یہ اندیشہ قبیلہ قُرْطَاء کی طرف سے تھا، جو قبیلہ بنو بکر کی ایک شاخ تھا اور نجد کے علاقہ میں بمقام ضریّہ آباد تھا، جو مدینہ سے سات یوم کی مسافت پر واقع تھا۔
حضورِ انور نے اِس کی بابت تصریح فرمائی کہ یہ وضاحت ہوگئی کہ یہ دشمن قوم تھی، مدینہ پر حملہ کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے،
اُس کے سدّباب کے لیے آنحضرتؐ نے بھیجا تھا اور وہاں بھی یہ نرمی دکھائی کہ عورتوں اور بچوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔
اِس موقع پر ثُمامہ بن اُثال کے قیدی بننے اور اسلام قبول کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اِس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیین ؐمیں لکھا ہے کہ اِس مہم یعنی سریہ قُرْطا کی واپسی پر ثُمامہ بن اُثال کے قید کیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ ایک دفعہ آنحضرتؐ کا ایک ایلچی اِس کے علاقہ میں گیا تو اُس نے تمام قوانینِ جنگ کو بالائے طاق رکھ کر اِس کے قتل کی سازش کی بلکہ ایک دفعہ اُس نے خود آنحضرتؐ کے قتل کا بھی ارادہ کیا۔ جب محمدبن مَسْلَمَؓہ کی پارٹی ثُمامہ کو قید کر کے لائی تو اُنہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ کون شخص ہے، بلکہ اُنہوں نے اِسے محض شبہ کی بنا پر قید کر لیا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ ثُمامہ نے بھی کمال ہوشیاری کے ساتھ اُن پر اپنی حقیقت ظاہر نہیں ہونے دی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مَیں اسلام کے خلاف خطرناک جرائم کا مرتکب ہو چکا ہوں اور اگر اسلام کے اِن غیرت مند سپاہیوں کو یہ پتا چل گیا کہ مَیں کون ہوں تو وہ شاید مجھ پرسختی کریں یا قتل ہی کر دیں مگر خود آنحضرتؐ سے وہ بہتر سلوک کی توقع رکھتا تھا۔ چنانچہ مدینہ کی واپسی تک محمدبن مَسْلَمَہؓ کی پارٹی پر ثُمامہ کی شخصیت مخفی رہی۔
مدینہ پہنچ کر جب ثُمامہ کو آنحضرتؐ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپؐ نے اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور محمدبن مَسْلَمَؓہ اور اُن کے ساتھیوں سے فرمایا کہ جانتے ہو یہ کون شخص ہے؟ اُنہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، جس پر آپؐ نے اُن پر حقیقتِ حال ظاہر کی۔ اِس کے بعد آپؐ نے حسبِ عادت ثُمامہ کے ساتھ نیک سلوک کیےجانے کا حکم دیا اور پھر اندرونِ خانہ تشریف لے جا کر گھر میں ارشاد فرمایا کہ جو کچھ کھانے کے لیے تیار ہو ثُمامہ کے لیے باہر بھجوا دو۔ اِس کے ساتھ ہی آپؐ نے صحابہؓ سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ثُمامہ کو کسی دوسرے مکان میں رکھنے کی بجائے مسجدِ نبوی کے صحن میں ہی کسی ستون کے ساتھ باندھ کر قید رکھا جائے، جس سے آپؐ کی غرض یہ تھی کہ تا
آپؐ کی مجالس اور مسلمانوں کی نمازیں ثُمامہ کی آنکھوں کے سامنے منعقد ہوں اور اُس کا دل اِن روحانی نظاروں سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف مائل ہو جائے۔
اُن ایّام میں آنحضرتؐ ہر روز صبح کے وقت ثُمامہ کے قریب تشریف لے جاتے اور حال پوچھ کر دریافت فرماتے کہ ثُمامہ! بتاؤ اب کیا ارادہ ہے؟ ثُمامہ جواب دیتا! اے محمد ! (صلی اللہ وسلم ) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپؐ کو اِس کا حق ہے کیونکہ میرے خلاف خون کا الزام ہے لیکن اگر آپؐ احسان کریں تو آپؐ مجھے شکر گزار پائیں گے اور اگر آپؐ فدیہ لینا چاہیں تو میں فدیہ دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ تین دن تک یہی سوال و جواب ہوتا رہا۔ آخر تیسرے دن آنحضرتؐ نے از خود صحابہؓ سے ارشاد فرمایا کہ ثُمامہ کو کھول کر آزاد کر دو۔ صحابہ نے فوراً آزاد کر دیا اور ثُمامہ جلدی جلدی مسجد سے نکل کر باہر چلا گیا۔ غالباً صحابہؓ یہ سمجھے ہوں گے کہ اب وہ اپنے وطن کی طرف واپس لَوٹ جائے گا مگر
آنحضرتؐ سمجھ چکے تھے کہ ثُمامہ کا دل مفتوح ہو چکا ہے، اب اُس پر آنحضرتؐ کی قوتِ قدسیّہ کا اثر ہو چکا ہے
اور نتیجہ بھی یہی نکلا۔چنانچہ وہ ایک قریب کے باغ میں گیا اور وہاں سے نہا دھو کر واپس آیا اور آتے ہی آنحضرتؐ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ اِس کے بعد اُس نے آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ
یا رسول اللہ(صلی الله علیہ وسلم)! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپؐ کی ذات سے اور آپؐ کے دین سے اور آپؐ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی لیکن اب مجھے آپؐ کی ذات اور آپؐ کا دین اور آپؐ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
مسلمان ہونے کے باعث ثُمامہؓ نے آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! جب آپؐ کے آدمیوں نے مجھے قید کیا تھا تو اُس وقت مَیں خانہ کعبہ کے عُمرہ کے کے لیے جا رہا تھا، اب مجھے کیا ارشاد ہے؟ آپؐ نے اِس کی اجازت مرحمت فرمائی اور دُعا کی اور ثُمامہ مکّہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر ثُمامہ نے جوشِ ایمان میں قریش کے اندر بر ملا تبلیغ شروع کر دی۔ قریش نے یہ نظارہ دیکھا تو اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور انہوں نے ثُمامہ کو پکڑ کر ارادہ کیا کہ اُسے قتل کر دیں۔ مگر پھر یہ سوچ کر کہ وہ یمامہ کے علاقے کا رئیس ہے اور یمامہ کے ساتھ مکہ کے گہرے تجارتی تعلقات ہیں وہ اِس ارادہ سے باز آگئے اور ثُمامہ کو بُرا بھلا کہہ کر چھوڑ دیا ہے مگر ثُمامہؓ کی طبیعت میں سخت جوش تھا اور قریش کے وہ مظالم جو وہ آنحضرتؐ اور آپؐ کے صحابہ ؓپر کرتے رہے تھے وہ سب ثُمامہؓ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ اُس نے مکّہ سے رخصت ہوتے ہوئے قریش سے کہا کہ
خدا کی قسم! آئندہ یمامہ کے علاقہ سے تمہیں غلہ کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک کہ رسول اللہؐ اِس کی اجازت نہ دیں گے۔
اپنے وطن میں پہنچ کرثُمامہؓ نے واقعی مکّہ کی طرف یمامہ کے قافلوں کی آمد ورفت روک دی اور چونکہ مکّہ کی خوراک کا بڑا حصّہ یمامہ کی طرف سے آتا تھا، اِس لیےاِس تجارت کے بند ہو جانے سے
قریش مکّہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئے اور ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُنہوں نے گھبرا کر آنحضرتؐ کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ ہمیشہ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور ہم آپؐ کے بھائی بند ہیں، ہمیں اِس مصیبت سے نجات دلائیں۔
اُس وقت قریشِ مکّہ اس قدر گھبرائے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے صرف اِس خط پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے رئیس ابوسفیان بن حرب کو بھی آنحضرتؐ کے پاس بھجوایا، جس نے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی بھی بہت آہ و پکار کی اور اپنی مصیبت کا اظہار کر کے رحم کا طالب ہوا۔ جس پر آنحضرتؐ نےثُمامہ بن اُثال کو ہدایت بھجوادی کہ قریش کے اِن قافلوں کی جن میں اہل مکّہ کی خوراک کا سامان ہو، روک تھام، نہ کی جاوے۔
چنانچہ اِس تجارت کا سلسلہ پھر جاری ہو گیا اور مکّہ والوں کو اِس مصیبت سے نجات ملی۔
بعد ازاں خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے مکرم عبداللطیف صاحب آف یوکےکی نمازِ جنازہ حاضر اور باقی پانچ مرحومین کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا، جن میں مکرم طیّب احمد شہیدابن مکرم منظور احمد صاحب آف راجن پور حال راولپنڈی، عزیزم مھند مؤیّد ابو عواد صاحب آف غزہ فلسطین، مولوی محمد ایّوب بٹ صاحب درویش قادیان، مکرم ڈاکٹر مسعود احمد ملک صاحب سابق نائب امیر امریکہ اور مکرم شبیر احمد لودھی صاحب ابن میاں محمد شفیع صاحب مرحوم شامل تھے۔ حضورِ انور نے ان چھ مرحومین کا ذکر خیر فرمایا اور ان کے بلندیٔ درجات و مغفرت کے لیے دعا کی۔
۱۔ مکرم عبداللطیف خان صاحب آف یوکے:۱۱؍ ستمبر کو پچاسی سال کی عمر میں وفات پانے والے مڈل سیکس (Middlesex) کے ریجنل امیر بھی رہے ہیں۔آپ حضرت مسیحِ موعودؑ کے صحابہ حضرت محمد ظہور خان صاحب پٹیالویؓ کے بیٹے اور حضرت ڈاکٹر حشمت الله صاحبؓ معالج حضرت مصلح موعودؓ کے بھتیجے تھے۔ یوکے جماعت کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ پچپن سال تک مقامی اور مرکز ی سطح پر اِن کو خدمت کی توفیق ملی۔ Hounslow جماعت کے پہلے صدر بھی رہے۔ مرحوم موصی تھے اور پسماندگان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ الله تعالیٰ اِن سے مغفرت و رحم کا سلوک فرمائے اور بچوں اور اِن کی نسل کو بھی وفا کے ساتھ خلافت اور جماعت سے وابستہ رکھے۔
۲۔ مکرم طیّب احمد شہیدابن مکرم منظور احمد صاحب آف راجن پور حال راولپنڈی : آپ کو راولپنڈی میں ایک معاندِ احمدیت نے پانچ دسمبر کو کلہاڑی کے وار کر کے شہید کر دیا تھا۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کےپڑدادا عمر دین صاحب آف قادیان کے ذریعے ہوا۔ شہید کے دادا احمد دین صاحب کو منارۃ المسیح کی تعمیر اور فرقان بٹالین میں خدمت کا اعزاز حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے وقت آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے قافلے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور بستی قندھارا؍سندھ میں جماعت قائم کی۔مرحوم کی اولاد نہیں تھی۔
۳۔ عزیزم مھند مؤیّد ابو عواد صاحب آف غزہ فلسطین : یہ بھی ایک ڈرون حملہ میں بیس سال کی عمر میں شہید ہو گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔شریف عودہ صاحب امیر کبابیر لکھتے ہیں کہ شہید بیس سال کاشریف اور کم گو اور جنگی حالات کے باوجود ہمیشہ خوش پوشاک رہنے والا نوجوان تھا۔ خاندان میں احمدیت اِن کے والد مؤیّد صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی جنہوں نے غالباً ۲۰۰۹ء یا ۲۰۱۰ء میں اپنے خاندان سمیت بیعت کی تھی۔ شہید کو ہیومینٹی فرسٹ کی ٹیم میں بطور رضاکار خدمت کی توفیق ملی، بہت سرگرم رکن تھے۔
۴۔ مولوی محمد ایّوب بٹ صاحب درویش قادیان: گذشتہ دنوں سَو سال کی عمر میں قادیان میں وفات پا گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ان کی والدہ مکرمہ کریم بی بی صاحبہ کے ذریعہ اِن کے خاندان میں احمدیت آئی تھی۔ مرحوم کی تحریر کے مطابق آپ نے عین جوانی میں خواب میں آنحضرتؐ کو گھوڑے پر سوار دیکھا۔اِس خواب کی تعبیر آپ کی والدہ صاحبہ نے یہ بتائی کہ اِن کو الله تعالیٰ دین کا کام کرنے کی توفیق دے گا۔ ۱۹۳۹ء میں مولوی صاحب نے اپنی زندگی وقف کر دی اور انتظامیہ کی طرف سے آپ کو ایران جانے کا حکم ہوا، وہاں پانچ سال تک خدمتِ دین بجا لاتے رہے۔ اِس کے بعد کابل افغانستان جانے کا حکم ہوا، کابل جانے کے لیے کوئٹہ میں تھے تو امیر صاحب جماعت ِ احمدیہ کوئٹہ نے کہا کہ آپ کو قادیان بلایا گیا ہے۔ تقسیمِ ملک کا زمانہ تھا، حضرت مصلح موعودؓ ہجرت فرما کر لاہور میں مقیم تھے، جب مولوی صاحب لاہور پہنچے تو اِن کو بتایا گیا کہ قادیان جانے کے لیے یہ آخری ٹرک جا رہا ہے اور اِس کے بعد شاید کوئی اور ٹرک نہ جاسکے، اِس لیے آپ قادیان چلے جائیں۔وہاں پہنچ کر آپ کو مختلف حفاظتی مقامات پر ڈیوٹیاں دینے کا موقع ملا، پھر اِن کو حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر ہندوستان میں بطور تبلیغی معلّم جھانسی صوبہ یوپی میں بھجوا دیا گیا، بڑے احسن رنگ میں وہاں انہوں نے تبلیغ کی۔
۵۔ مکرم ڈاکٹر مسعود احمد ملک صاحب۔سابق نائب امیر جماعت احمدیہ امریکہ: گذشتہ دنوں چھیاسی سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔آپ الحاج حضرت محمد عبدالله صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے پڑپوتے اور ملک عبدالرحمٰن صاحب کے پوتے تھے۔ الله تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور سنہ ۲۰۰۰ءمیں آپ کو فریضۂ حج ادا کرنے کی بھی توفیق ملی۔ پاکستان سے تعلیم مکمل کر کے پھر امریکہ چلے گئے، وہاں سے یونیورسٹی آف Nebraskaسے Animal Nutritionمیں پی ایچ ڈی کی، پھر مختلف جگہوں پر ملازمت کرتے رہے۔ جماعتی خدمات میں مرحوم کو ۲۰۱۳ء سے تا وفات بطور نائب امیر جماعت امریکہ اور ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۳ء بطور جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ امریکہ خدمت کی توفیق ملی۔اِس کے علاوہ مختلف جماعتوں میں جہاں یہ مقیم رہے بشمول واشنگٹن صدر جماعت بھی رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله کی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truthکے لیے مختلف سائنسی جرائد سےحوالہ جات ڈھونڈنے کے کام میں اِنہیں اپنی ٹیم کے ساتھ خدمت کی توفیق ملی اور یہ کام سالوں کے عرصہ پر محیط تھا۔
۶۔ مکرم شبیر احمد لودھی صاحب ابن میاں محمد شفیع صاحب مرحوم : اِن کی گذشتہ دنوں باسٹھ سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔آپ کےخاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا میاں شہاب الدین صاحب آف لودھی ننگل کے ذریعہ ہوا، جن کو اوائلِ زمانہ خلافتِ ثانیہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ مرحوم موصی تھے۔سب سے بڑے بیٹے فرخ شبیر لودھی مبلغ سلسلہ لائبیریا ہیں اور گذشتہ کئی سال سے وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازہ اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔
٭…٭…٭