حکایت کا مقصد
حکایتِ مسیح الزماںؑ
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر آدمی تھا اس کا ایک بڑا لنگر تھا جس سے محتاج لوگ کثیر تعداد میں روزانہ کھانا کھاتے تھے لیکن بڑی خرابی یہ تھی کہ بدنظمی بہت زیادہ تھی۔ امیر آدمی تھا، خود اس شخص میں نگرانی کی رغبت نہیں تھی، اس طرف توجہ نہیں دیتا تھا اور ملازم خائن اور بددیانت تھے۔ کچھ تو سودا لانے والے بہت مہنگا سودا لاتے تھے اور کم مقدار میں لاتے تھے اور کچھ استعمال کرنے والے اپنے گھروں کو لے جاتے تھے اور پھر کھانا تیار کرنے والے کچھ خود کھا جاتے تھے کچھ اپنے رشتے داروں کو کھلا دیتے تھے اور کچھ ادھر ادھر ضائع کر دیتے تھے۔ اسی طرح سٹور روم کھلے رہتے اور ساری رات کتّے اور گیدڑ وغیرہ سامان خوراک کھاتے اور ضائع کرتے رہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت مقروض ہو گیا اور بیس سال کی بدنظمی کے بعد اسے بتایا گیا کہ تم مقروض ہو چکے ہو۔ اس شخص کی طبیعت میں سخاوت تھی اس لئے لنگر کا بند کرنا اس نے گوارا نہ کیا۔ لیکن ادھر قرض اتارنے کی بھی فکر اسے تھی۔ اس نے اپنے دوستوں کو بلایا۔ ان سب کو بتایا کہ اس طرح میں مقروض ہو گیا ہوں۔ اپنا نقص تو کوئی بتایا نہیں اور نہ کوئی بتاتا ہے۔ ان سب نے کہا کہ سٹور روم کا کوئی دروازہ نہیں ہے۔ ساری رات گیدڑ اور کتے وغیرہ سامان خوارک جو ہے وہ خراب کرتے رہتے ہیں اس لئے بہت سا سامان ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر سٹور کو دروازہ لگا دیا جائے تو بہت حد تک بچت ہو سکتی ہے۔ اس نے حکم دیا کہ دروازہ لگا دیا جائے چنانچہ وہ لگا دیا گیا۔ یہ کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے اور کہانیوں میں کتے اور گیدڑ، جانور بھی بولا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رات کو گیدڑوں اور کتوں نے سٹور روم کو دروازہ لگا ہوا دیکھا تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ اچانک کوئی بڈھا اور بڑا خرانٹ قسم کا گیدڑ یا کتا آیا۔ اس نے دریافت کیا تم شور کیوں مچاتے ہو۔ باقیوں نے کہا کہ سٹور روم کو دروازہ لگ گیا ہے ہم کھائیں گے کہاں سے۔ ہمارے تو علاقے کے سارے کتے اور گیدڑ یہیں سے کھایا کرتے تھے۔ اس نے کہا تم یونہی روتے ہو، شور مچا رہے ہو، اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ جس شخص نے بیس سال تک اپنا گھر لٹتے دیکھا اور اس کا کوئی انتظام نہ کیا اس کے سٹور کا دروازہ بھلا کس نے بند کرنا ہے۔ خود تو اس نے نگرانی نہیں کرنی۔ اس لئے گھبراؤ نہیں۔ تو اس کہانی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ‘‘اگر چاہیں’’ اور ‘‘چاہیں’’ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کتوں اور گیدڑوں نے شور مچایا کہ اگر اس نے چاہا اور دروازہ بند کر دیا تو ہم کھائیں گے کہاں سے اور ان کا جو تجربہ کار اور خرانٹ لیڈر تھا اس نے کہا کہ اس نے یعنی جو امیر آدمی ہے اس نے چاہنا ہی نہیں۔ اس نے توجہ ہی نہیں دینی تو پھر شور مچانے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اگر ہماری جماعت نے چاہنا ہی نہیں تو کچھ نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ چاہیں تو بڑے بڑے مشکل کام بھی دنوں میں کر سکتے ہیں۔ ’’(خطبہ جمعہ 12؍ فروری 2016ء)