متفرق مضامین

جلسہ سالانہ کی کچھ یادیں ،کچھ باتیں

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

خاکسار اپنے والدین اور دادا ،دادی کے ساتھ چنی گوٹھ ضلع بہاولپور میں رہائش پذیر تھا۔ پھر جب سکول کا زمانہ آیا تو احمدپور شرقیہ (ضلع بہاولپور)میں میرے دادا جان پیر سید امیر احمد شاہ صاحب مرحوم نے ایک پرائمری سکول میں داخل کروایا۔ خاکسار نے دسویں جماعت بھی اسی شہر سے کی۔

چنی گوٹھ میں بھی اور احمد پور شرقیہ میں دسویں تک میں کبھی ربوہ نہیں آیا اور نہ ہی کسی جلسےمیں شمولیت کی ۔ ہاں یہ ضرور یا د ہے کہ میرے ابا جان اور میری والدہ محترمہ مرحومہ ہر سال دسمبر کے دنوں میں بڑے التزام سے جلسہ پر جاتے تھے اور جب ربوہ سے واپس آتے تو ربوہ شریف کی کچھ سوغات ضرور لاتے۔ جس میں لنگر کی روٹیاں، سرمہ نور، الیس اللہ کی انگوٹھیاں وغیرہ شامل ہوتی تھیں۔ ان دنوں سفر کے لیے چناب ایکسپریس اختیار کی جاتی تھی۔ ایک تویہ کراچی سے چلتی تھی۔ اس میں احمدیوں کے لیے بوگیاں بھی لگتی تھیں۔ یہ دونوں شہروںمیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے (چنی گوٹھ اور احمد پور شرقیہ)بھی ٹھہرتی تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا سٹاپ ربوہ سٹیشن پر بھی تھا۔

چونکہ جلسہ سردیوں میں ماہ دسمبر کی آخری تاریخوں میں ہوتاتھا تو سفر کے لیے اباجان نے ایک بستر بند بھی خریدرکھا تھا۔ اس میں رضائی ،گدا اور تکیہ وغیرہ جلسہ کے دنوں میں استعمال کے لیے ڈالا جاتا تھا ۔ یہ کافی مضبوط ہوتا تھا اور ایک لمبا عرصہ ساتھ دیتا رہا۔

خاکسار 1966ء میں میٹرک کے بعد پہلی مرتبہ ربوہ آیا اور جامعہ میں داخلہ لیا۔ جامعہ کے پرنسپل حضرت سیدمیر داؤد احمد صاحب مرحوم تھے اور وہی افسر جلسہ سالانہ بھی ہوتے تھے۔

جلسہ کے دنوں میں ربوہ کی رونق پہلی مرتبہ دیکھی۔ تمام جماعتی عمارتوں اور ادارہ جات، سکول کالج وغیرہ میں مہمانوں کے لیے خیمے ہی خیمے لگ جاتے، مہمان نوازی کا جذبہ اہالیانِ ربوہ میں بھر پور انداز میں ابھر جاتا ۔

اس سے قبل والدین جب بھی جلسے پر آتے تو وہ میرے تایا جان سید منیر احمد شاہ صاحب کے ہاں ٹھہرتے، یا کبھی کسی اور عزیز کے گھر، مگر اس مرتبہ میں نے چاہا کہ وہ میرے ساتھ ہی ٹھہریں۔ اس کے لیے میں نے مکرم محترم افسر صاحب جلسہ سالانہ سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی خدمت میں درخواست دی اور مجھے بھی ایک چھولداری (خیمہ)الاٹ ہو گیا اور تھا بھی وہ مسجد مبارک کے سامنے والے پلاٹ میں۔ الحمدللہ
جامعہ احمدیہ کے تمام طلباء کی ڈیوٹیاں جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے لگتی تھیں۔ چنانچہ میری سب سے پہلی ڈیوٹی شعبہ استقبال میں لگی۔ اس کے ناظم محترم مولانا ابوالمنیرنورالحق صاحب مرحوم تھے۔ شعبہ استقبال کی ڈیوٹی ربوہ ریلوے سٹیشن پر اور ربوہ کے اڈہ پر ہوتی تھی۔ ہر دو جگہ پر خیمہ لگ جاتا اور آنے والے مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے انہیں اہلاً و سھلاً و مرحبا لاؤڈ سپیکر پر کہا جاتا ۔ ڈیوٹی دینے والوں کا کام ہوتا تھا کہ وہ دیکھیں کہ اگر کسی مہمان کو مدد کی ضرورت ہو تو مدد کریں اگر کسی کا سامان اٹھا کر گھر بھی لے جانا پڑے وہ بھی کرنا ڈیوٹی میں شامل تھا۔ ہر قسم کی مدد کو فوری اور یقینی بنانا ہوتا تھا۔ جب گاڑیاں ریلوے سٹیشن ربوہ پرپہنچتیںاور ان سے مہمان باہر نکلتے وہ منظر دل اور طبیعت پر ایک گہرا اثر چھوڑتا تھا۔ تلاوت ہو رہی ہے، نظمیں پڑھی جارہی ہیں، اہلاً و سھلاً و مرحباکہا جارہا ہے، مہمانوں کو خوش آمدید ہو رہا ہے، ہر ایک دوسرے سے مل کر اتنا خوش کہ جس کا حساب ہی نہیں۔ یہ منظر ایک روحانی کشش اور تاثیر لیے ہوتا تھا۔

اور یہی کچھ منظر ربوہ بس اڈہ پر ہوتا تھا۔ وہاں بھی بڑی تعداد میں کارکن موجود ہوتے تھے قریباً ہر بس سے ہی جلسہ کے ایام میں مسافر اترتے تھے جنہیں مدد کی ضرورت پڑتی تھی اور کارکن، معاون ہر خدمت کے لیے ہر وقت تیارہوتے!

خاکسار پورا جلسہ تو ڈیوٹیوں کی وجہ سے کبھی سن نہ پایا۔ البتہ اپنے ناظم صاحب کی اجازت سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تقاریر جلسہ میں ضرور سنی ہیں۔ پہلے جلسہ پر ہی جب ضلع بہاولپور کی جماعت کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات تھی اس میں بھی خاکسار شامل ہوا تھا۔ قصرِ خلافت میں اتنا ہجوم ملاقاتیوں کا خاکسار نے اس سے قبل کہیں نہیں دیکھا تھا۔

گول بازار کے پیچھے جہاں دفتر جلسہ سالانہ ہے پہلے اس کی کوئی خاص عمارت نہ ہوتی تھی ۔ یہ دو تین چھوٹے چھوٹے کمروں اور کھلی جگہ پر مشتمل ہوتا تھا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جلسہ سے ایک دو روز قبل تشریف لا کرمعائنہ فرماتے اور اپنی ہدایات سے نوازتے تھے۔ تمام ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کے نام اس کے شعبہ کے نیچے لکھے ہوتے تھے۔

جلسہ سالانہ 1967ءمیں خاکسار کی ڈیوٹی لنگر خانہ نمبر1 میں لگی۔ اس کے ناظم مکرم محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب مرحوم تھے۔ یہاں پر پہلی ڈیوٹی معاون روٹی پکوائی اور روٹیوں کی گنتی پر تھی اور اس کے بعد سے 1978ء تک سوائے ایک سال کے خداتعالیٰ کے فضل سے اسی لنگر خانہ نمبر1میں ڈیوٹی لگتی رہی۔ ‘‘ایں سعادت بزور بازو نیست۔’’

لنگر ایک کی من جملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ لنگر سب سے پہلے شروع ہوتا تھا اور سب سے آخر میں بند ہوتا تھا۔ جلسہ کے اختتام پر اس لنگر میں آخری دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شام کے وقت دعوت بھی ہوتی تھی جس میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب افسر رابطہ، مکرم میر داؤد احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ ، مکرم چوہدری حمیداللہ صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزاطاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ)مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظم لنگر، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرحوم، مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب مرحوم، مکرم چوہدری سمیع اللہ سیال صاحب، مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب مرحوم۔ مکرم صوفی بشارت الرحمٰن صاحب مرحوم، مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب سابق صدر عمومی، مکرم چوہدری محمد علی صاحب وغیرہم کا شامل ہونا یاد ہے۔

اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ مکرم رانا محمد دین صاحب کھانا بنایا کرتے تھے جس میں مغز پائے، آلو گوشت، دال، گُڑ والے چاول اور گرم گرم تنور کی روٹیاں ہوتی تھیں۔ مٹی کے برتنوں میں کھانا پیش ہوتا تھا۔
قارئین کے ازدیاد علم کے لیے یہ لکھنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت جتنے بھی لنگر چلتے تھے سب میں کھانا پکانے کے لیے آگ جلانے کے لیے لکڑیاں استعمال ہوتی تھیں۔ پھر حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم نے لنگرخانوں میں گیس کے تندور لگانے کا انتظام کروایا۔ یہ غالباً 1968-69ء کا واقعہ ہے۔ اس کی الگ تفصیل ہے۔ لیکن پہلے تندوروں کی جگہ نئے تندور ڈالنے تھے، ان کے لیے کھدائی کا کام کرنا تھا۔ ادھر جلسہ بھی نزدیک آگیا تھا اور انہی دنوں عیدالاضحی بھی قریب تھی یہ ساری باتیں اکٹھی ہو گئیں تو میر صاحب مرحوم نے جامعہ کے طلباء کی عید کی چھٹیاں منسوخ کر دیں اور سب طلباء کو لنگر ایک میں تندوروںکی کھدائی کے لیے وقار عمل پر لگایاگیا۔ عید کے دن بھی عید کی نماز پڑھ کر سب طلباء جامعہ لنگر ایک میں حاضر ہو گئے جن میں خاکسار بھی شامل تھا، سارا دن وقار عمل کیا، زمین کھودی گئی، دوپہر کو محترم میر صاحب مرحوم نے سب کے لیے عید کے موقع پر قورمہ، پلاؤ اور زردہ سے تواضع فرمائی۔ سوئی گیس کے تندوروں اور روٹی کی مشینوں پر ان دنوں مکرم مرزا لقمان صاحب حال پورٹ لینڈ اور مکرم ملک منور صاحب لاہوری اپنی ٹیم کے ساتھ بڑی تندہی کے ساتھ کام کرتے تھے۔

ربوہ میں جلسہ کے دنوں میں جلسہ کی تقاریر کے پروگراموں کے علاوہ مساجد میں اور خصوصاً مسجد مبارک میں نماز تہجد کا قیام اور درس اور ہر جگہ بروقت کھانے کی ترسیل ہر شخص کو متاثر کرتی تھی۔
ہر گھر میں کم از کم 25-20 مہمان تو ضرور ٹھہرے ہوتے تھے یہ کم سے کم تعداد ہے ورنہ اوسطاً یہ تعداد40-35سے زائد ہوتی، باقی مہمانان کرام کوجماعتی ادارہ جات کی عمارتوں میں اورربوہ کے میدانوں میں نصب خیمہ جات میں ٹھہرایا جاتا تھا اور پھر دسمبر کی شدید سردی میں ہر جگہ کھانا پہنچایا جاتا ۔جن گھروں میں مہمان ہوتے وہ اپنے مہمانوں کی پرچی بنوا کر نزدیکی لنگر خانہ سے کھانا لے کر آتے تھے۔

ایک اور واقعہ جو ذہن میں نقش ہے کہ جب جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا تو ربوہ کے در و دیوار پر جگہ جگہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، آیات قرآنی ، الہامات حضرت مسیح موعودؑ اور دینی تحریرات وغیرہ کوحکومتی کارندوں اور مولویوں نے مٹانا شروع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ غیرممالک سے نمائندگان جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آیا کریں۔ ان غیرملکی نمائندگان کے لیے جلسہ گاہ کے سٹیج پر بیٹھنے کا انتظام ہو تا تھا ۔ ایک جلسہ پر حضورؒ نے اپنی تقریرکے دوران بیرونی ممالک کے نمائندگان کو جو غالباً 18ممالک سے تشریف لائے ہوئے تھےکھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا اور بڑے جلالی انداز سے فرمایا کہ ‘دیواروں پر سے تو آپ کلمہ کو مٹاسکتے ہو، مگر ان لوگوں کے دلوں سے کلمہ کو اور اسلام کی صداقت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کو کیسے مٹاؤ گے۔’

اس عاجز نے 1966ء سے 1977ء تک 11 سال جلسہ ربوہ میں دیکھا اور مئی 1978ء میں خاکسار گھانا مغربی افریقہ خدمت دین کے لیے روانہ ہوا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں پر بھی جلسہ سالانہ بڑی باقاعدگی اور بڑی شان کے ساتھ اپنے پرانے ہیڈکوارٹر سالٹ پانڈ میں سمندر کے کنارے پام کے درختوں کے نیچے ہوتا ہے۔

1979ء کا پہلا جلسہ خاکسار نے وہاں دیکھا۔ ہزاروں کی تعداد میں مسیح موعود علیہ السلام کے پروانے جلسہ کے لیے وہاں پہنچ جاتے ۔ وہاں پر بھی جلسہ پر آنےو الوں کا ہجوم دیدنی ہوتا تھا۔ لوگ بسوں کے ذریعہ، گاڑیوں کے ذریعہ، ٹیکسی کے ذریعہ، نظمیں پڑھتے، درود شریف پڑھتے، اپنی مقامی زبان میں نغمے الاپتے، نعرے مارتے جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ۔

اس وقت وہاں پر لنگر خانے کا اس طرح انتظام تو نہیں تھا جس طرح قادیان یا ربوہ میں ہوتا ہے لیکن وہاں پر بھی بہت وسیع پیمانے پر کھانے کی تیاری کے انتظامات ہوتے تھے، مرد اور عورتیں دونوںکھانا پکانے میں شریک ہوتے تھے۔

ایک خاص بات جلسہ کے موقع پر ان دنوں کی یہ ہے کہ ان دنوں میں چندہ کی تحریک جلسہ کے دنوں میں کی جاتی تھی اور لوگ مالی قربانی دل کھول کر کرتے تھے بلکہ اس طور پر کہ بعض اوقات مالی قربانی کے جوش میں لوگ جو کچھ جیب میں ہوتا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیتے اور ان کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہ رہتا۔ پھر وہ کسی سے ادھار لے کر واپس جاتے اور قرض واپس کرتے ۔ اس اخلاص کا خاکسار خود گواہ ہے۔

جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے گھانا کا دورہ فرمایا تو آپ نے یہ ترغیب دی اور چندوں کے صحیح نظام کو یعنی چندہ عام جلسہ سالانہ وغیرہ شرح کے مطابق اور آمدن کے مطابق ماہ بماہ ادا کرنے کی تحریک فرمائی۔

1979ء سے 1982ء تک خاکسار نے یہاں گھانا مغربی افریقہ میں جلسوں میں شمولیت کی ۔ الحمدللہ
1982ء کے بعد خاکسار کو 2008ء میں امریکہ کے نمائندہ کے طور پر گھانا کے جلسہ سالانہ میں دوبارہ شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ خلافت جوبلی کا جلسہ تھا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کو برکت بخشنے کے لیے بنفس نفیس تشریف لائے تھے۔اس موقع پر خاکسار کو حضور انور کا اکرا ایئر پورٹ پر استقبال کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

اس جلسہ میں بے حد گرمی ،نہ کوئی درخت کا سایہ، نہ کوئی سائبان۔ باغ احمد (سویڈرو کے نزدیک جگہ جو جلسہ گاہ ہے)میں اس جلسہ کا اپنا ہی نظّارہ تھا۔ ایک لاکھ سے زائد حاضرین تھے، سب نے سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔

ایک تو جوبلی کا جلسہ تھا پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد نے تو گویا چار چاند لگا دیے تھے۔
جمعہ کے دن لوگ گرمی میں کھلے آسمان تلے، صبح 10بجے سے بھی پہلے آکر بیٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ حضور کا قریب سے دیدار کرے ۔ ان کا یہ شوق اور اشتیاق دیدنی تھا۔ جمعہ پڑھانے کے بعد جب حضور اپنی رہائش گاہ کی طرف واپس تشریف لے کر جا رہے تھےتو وہ منظر تو ایسا جذباتی تھا کہ الفاظ میں بھی بیان نہیں ہو سکتا۔ عورتیںاپنے بچوں کو کاندھوں پر بٹھا کربھاگ رہی تھیں کہ کسی طرح ان کے بچوں کی نظریںحضور پر پڑجائیں۔

1982ء میں خاکسار گھانا سے سیرالیون گیا۔ وہاں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال بو (Bo)شہرمیں احمدیہ سیکنڈری سکول کے وسیع و عریض احاطہ میںجلسہ ہوتا ہے۔

یہاں کی بھی ایک خاص بات یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح سے اتوار کی صبح تک 3دن نمازتہجد اور فجر کی نماز میں اتنی ہی حاضری ہوتی ہے جتنی کہ جلسہ کی کارروائی کے وقت۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ

یہاں پر ابھی لنگر خانہ حضرت مسیح موعود ؑکا اس طرح انتظام نہیں ہوا تھا بلکہ ہر قبیلے کے لوگ یا جماعتوں کے لوگ اپنا اپنا کھانا خود پکاتے تھے۔ مالی قربانی کا یہاں بھی اسی طرح رواج تھا جس طرح خاکسار نے گھانا کے بارے میں ذکر کیا کہ جلسہ کے موقع پر ہی چندہ زیادہ تر اکٹھا کیا جاتا تھا۔ ماہانہ چندے بھی لیے جاتے تھے مگر چندہ جات کے حصول کے لیے زیادہ کوشش جلسہ کے ایام میں ہی کی جاتی تھی ۔
جلسہ پر آنے والوں کا یہا ں بھی اسی طرح استقبال ہوتا اوراسی طرح نظامتیں کام کرتیں۔

خاکسار کو 2013ء میں مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے سیرالیون کے جلسہ میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے ترقی کی نئی نئی راہیں کھل چکی ہیں، جلسہ کے انتظامات میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ کافی سالوں سے ہیڈ آف دی سٹیٹ صدر مملکت اپنی کابینہ کے ساتھ پورے سیشن میں شامل ہوتے ہیں۔ جماعتی خدمات کو سراہتے ہیں۔ جلسہ کے موقع پر احمدیہ سیکنڈری سکول میں صدر مملکت کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا جاتا ہے، سارے شہر کے لوگ اسے دیکھنے کے لیے امڈ پڑتے ہیں اور اس سے جماعت کی تبلیغ ہو جاتی ہے۔ شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہے جسے جماعت احمدیہ کا پتہ نہ ہو۔ شاملین جلسہ بھی خداتعالیٰ کے ان فضلوں سے پورا حظ اٹھاتے ہیں اور شکر خداوندی بجا لاتے ہیں، کہاں وہ وقت جبکہ ہمارے پرانے مبلغین کرام سروں پر سامان اٹھائے گاؤں گاؤں پھرتے تھے، بعض اوقات مہمان نوازی کرنے کا سوال ہی نہیں، لوگ اپنے گاؤں میں رہنے کی اجازت بھی دینا گوارا نہ کرتے تھے، مگر اب خداتعالیٰ کی شان کہ صدر مملکت کو وہاں گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے اور جماعت کا نام بار بار دہرایا جاتا ہے۔ نعرہ تکبیر بلند ہوتا ہے ‘غلام احمد کی جے ’کا نعرہ افریقن لوگوں کی زبان سے سن کر عجب وجد طاری ہوتا ہے۔ الحمد للہ ثم الحمدللہ

جلسہ سالانہ امریکہ

خاکسار کو 10؍ستمبر1987ء امریکہ خدمت دین کے لیے بھیجا گیا اور ڈیٹن میں متعین ہوا۔ اور پچھلی تین دہائیوں سے یہاں امریکہ کے جلسہ میں شمولیت کی توفیق مل رہی ہے۔ پہلے تو یہاں یہ جلسہ یونیورسٹیوں میں ہوتا تھا۔ حاضری بھی اس وقت کے لحاظ سے مناسب ہی ہوتی تھی۔ کھانے کا بندوبست یونیورسٹی کے کچن سے ہی ہوتا تھا جو کہ بہت مہنگا پڑتا تھا۔ پھر مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب مرحوم کی تگ و دو سے مکرم محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی امارت میں لنگرخانہ کا انتظام شروع ہوا جو اب تک خداتعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور اس انتظام میں ہر سال مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ الحمدللہ

خاکسار نے جیسا کہ بتایا ہے کہ ستمبر 1987ء میں آیا۔ پہلا جلسہ 1988ء میں مشاہدہ کیا۔ اس وقت امریکہ کے امیر و مشنری انچارج مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم تھے۔ ان ایام میں مکرم مبشر احمد صاحب جلسہ گاہ کے افسر تھے اور ان کے ساتھ ساتھ مکرم ملک مسعود احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ ہوتے تھے۔ ہر دو کو ایک لمبا عرصہ اس خدمت کا موقع ملا ہے۔

جلسہ جو خاکسار نے شروع میں دیکھا وہ بالٹی مور کی ایک یونیورسٹی میں پھر ڈیٹرائٹ میں اور پھر نیویارک میں اور اس کے بعد مسجد واشنگٹن میں ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہمارے جلسوں کو برکت اور رونق بخشی۔ مسجد بیت الرحمان میں جلسے باہر پارکنگ لاٹ میں ٹینٹ لگا کر ہوتے تھے۔ شدید گرمی، جگہ تھوڑی بلکہ واش روم کی کمی بھی اس موقع پر بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ مگر مسیح موعود ؑکے یہ پروانےجماعت امریکہ کے احمدی ہر قسم کی تکلیف کو بالائے طاق رکھتے اور جلسہ میں شامل ہوتے، نہ صرف جلسہ میں شامل ہوتے بلکہ مغرب و عشاء کے وقت مجلس عرفان ہوتی اور حضور ؒاس میں احباب کے سوالوں کے جواب دیتے اور آمین کی تقاریب منعقد ہوتی تھیں۔

ورجینیا کے Expoسینٹر میں بھی کچھ عرصہ ہمارا جلسہ ہوا، ہر جگہ ہر سال جگہ کی قلت محسوس ہوتی رہی۔ جلسہ سالانہ کے افسران میں مکرم عبدالشکور احمد صاحب نے بھی کافی خدمت کی ہے۔ ان کے بعد مکرم وسیم حیدر صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بطور افسر جلسہ سالانہ ایک لمبے عرصہ تک خدمت کی توفیق ملی اور اب کئی سالوں سے مکرم ملک بشیر احمد صاحب یہ خدمات بجا لارہے ہیں۔

جیسا کہ خاکسار نے بتایا ہے کہ مکرم محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب 1989ء میں امریکہ کے امیر بنے اور ان کے دورِ امارت میں یہ جلسہ اکثر مسجد بیت الرحمان میں ہی ہوتا رہا۔ اس کے بعد مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب امیر بنے، ان کے دور امارت میں جلسہ ہیرس برگ کے Expo سینٹر میں ہونا شروع ہوا۔ اور اب مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب گذشتہ 3سالوں سے جماعت کے امیر ہیں اورجلسہ کی مناسب جگہ کی بھی تلاش ہو رہی ہے اورجلسہ فی الوقت یہیں پر ہو رہا ہے۔

گذشتہ 3دہائیوں میں جلسہ ترقیات کی منازل چھو رہا ہے۔ حاضری بڑھ رہی ہے انتظامات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔

دراصل جلسہ کی دو چیزیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک تو حضرت مسیح موعود ؑ کا قائم کردہ لنگرخانہ یعنی ضیافت جس کا دوسرا مطلب ہے کہ ہر مہمان کو اچھا کھانا بروقت مل جائے اور پھر تقاریر کا پروگرام۔ باقی ساری چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔

اس ضمن میں میں دوبارہ پہلے کی طرف جاتا ہوں۔1991ء میں ڈیٹرائٹ میں ہونے والے جلسہ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شرکت فرمائی تھی کے اختتام پر حضورؒ نے فرمایا تھاکہ آئندہ امریکہ میں لنگر چلنے چاہئیں۔

بس خلیفۂ وقت کی اس خواہش اور اظہار میں خداتعالیٰ نے ایسی برکت رکھی کہ صحیح مخلص خادم سلسلہ کارکن میسر آگیا اور ان کا نام تھا ڈاکٹر صلاح الدین (مرحوم)۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پی ایچ ڈی ڈاکٹرتھے ۔ اور آپ میں لنگر خانہ مسیح موعود کی خدمت کی ایک تڑپ، ایک لگن پائی جاتی تھی۔

پھر 1992ء میں لنگرخانہ اور جلسہ کے انتظامات کے لیے ایک میٹنگ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے گھر ہوئی جس میں لنگر خانہ کا انتظام چلانے کے لیے بڑی دیر تک مشورہ ہوا۔ بالآخر مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب مرحوم نے یہ کہہ کر سب کے دل جیت لیے کہ‘‘خداتعالیٰ کے فضل اور مدد کے ساتھ، انشاء اللہ ضرور۔’’چنانچہ امریکہ میں اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کے لنگر کا آغاز ہوا۔

ڈاکٹر صلاح الدین صاحب نے اس کام کو تادم واپسیں جس محنت اور ان تھک کوششوں سے نبھایا ان کوالفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ آج بھی یہ لنگر مسیح موعود ؑبڑی کامیابی کے ساتھ اور اپنے نظام کی وسعتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اجر عظیم سے نوازے۔ لنگر کا کام چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ ہزاروں مہمانوں کے لیے کھانا رضاکارانہ طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب مرحوم نے بڑی سادگی، عاجزی ، دعاؤں اور اخلاص کے ساتھ اپنی ٹیم کے ساتھ یہ کام کیا اور اپنے بعد ایک تجربہ کار ٹیم چھوڑی جوآج اس سارے کام کو چلا رہی ہے۔
جب ہم عمومی جائزہ لیتے ہیں تو امریکہ میں جلسہ سالانہ کے انتظامات میں بہت وسعت اور تیزی پیدا ہوئی ہے۔ 1988ء کے جلسہ کا آج کے جلسہ سے مقابلہ کریں تو وسعت کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک تو یہی کہ یونیورسٹی کے محدود انتظامات اور جگہ سے نکل کر Expo سینٹر میں جلسہ ہو رہا ہے۔ Expo سینٹر رقبہ کے لحاظ سے بہت وسیع رقبہ ہے۔ ان میں کھانے کے انتظامات کے لیے بالکل الگ ایک جگہ بنائی جاتی ہے، جو جا بجا قرآنی آیات، احادیث نبویہؐ اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے سجائی جاتی ہے۔ بازار الگ طور پر لگتے ہیں۔ بک سٹور اور پھر جلسہ کی تقاریر کا سپینش اور اردو میں ترجمہ کا نظام بھی خداتعالیٰ کے فضل سے گذشتہ 3سالوں سے جاری ہو چکا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ آڈیو ویڈیو کے سسٹم میں تو بہت ہی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر اور ان کی ٹیم بڑی محنت سے یہ فریضہ گذشتہ کئی سالوں سے سرانجام دے رہی ہے۔
ہمارے پیارے امام اید ہ اللہ تعالیٰ بھی ہمارے جلسوں میں شریک ہوئے ہیں۔ حضور انورکی آمد سے جلسہ کی رونق ، جلسہ کی حاضری اور لنگرخانہ کے انتظامات میں مزید وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی سب کا مشاہدہ ہے۔

ستمبر 1987ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب امریکہ تشریف لائے تو ساری ملاقاتیں ساری مجالس عرفان واشنگٹن کی مسجد فضل میں ہو گئے تھے کیونکہ تعداد ہی اتنی تھی۔ اب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد پر مسجد بیت الرحمٰن بھی چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ ابھی گذشتہ اکتوبر 2018ء میں جب حضور یہاں تشریف لائے تو اگرچہ جلسہ نہ تھا مگر حضور کی آمد کی وجہ سے یہ بھی ایک جلسہ کا رنگ ہی رکھتا تھا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جماعت نے ترقی کرنی ہے اور کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خلافت کے سایہ تلے تقویٰ میں بڑھتے چلے جائیں ۔

21؍جولائی 2017ء کو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

‘‘ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مہمان نوازی ایک بہت اہم شعبہ ہے، مہمان نوازی صرف کھانا کھلانا یا پانی پلا دینا یا زیادہ سے زیادہ رہائش کا انتظام کر دینا نہیں بلکہ جلسہ سالانہ کا ہر شعبہ مہمان نوازی ہے۔ چاہے اسے کوئی بھی نام دیا گیا ہو۔’’

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اقتباس بھی سنایا:

‘‘میرا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لیے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جائے۔’’ فرمایا:‘‘مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اس بات کو یاد رکھنا چاہیے اور اپنی طبیعت پر جبر کر کے بھی اگر کوئی بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہوں ہمیں مہمان کو آرام اور سہولت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ’’

حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا:

‘‘جلسہ میں شامل ہونے والا ہر شخص حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان ہونے کی وجہ سے ہم نے ہر مہمان کو خاص مہمان سمجھنا ہے اور اس کی مہمان نوازی میں بھرپور کوشش کرنی ہے۔’’

(ماخوذ از احمدیہ گزٹ النور مئی جون 2018ء مضمون امتیاز راجیکی )

محترم مرزا مغفور احمد صاحب خداتعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی انہی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کارکنان جلسہ کو خدمت اور مہمان نوازی کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔

یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا افضال اور تحدیث نعمت کا ذکر ہوا ہے، جلسہ کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خاکسار کو جون 2014ء میں برازیل کے جلسہ میں بھی مکرم فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر امریکہ کے ساتھ بطور نمائندہ امریکہ شامل ہونے کی سعادت ملی اور وہاں کی پہلی مسجد احمدیہ (بیت الاوّل) کے سنگِ بنیاد میں اینٹ رکھنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ یہاں کا جلسہ بھی خاکسار نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ وہاں پر جماعت کے لحاظ سے تو ابھی اتنی وسعت نہیں ہوئی تاہم برازیل کے لوکل حکومتی اداروں سے مہمانان کرام تشریف لائے تھے۔ جن میں میئر، کونسل کے ممبران اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے غیرازجماعت، پادری صاحبان، بینک مینیجرز، پروفیسرز، ڈائریکٹرز وغیرہ شامل تھے۔

یہاں پر امیر و مشنری انچارج مکرم وسیم ظفر صاحب کے ساتھ خاکسار کا اور کریم شریف صاحب کا برازیل کے TVچینل پر Liveانٹرویو بھی نشر ہوا۔ جس میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیمات کا پرچار کیا گیا۔
خاکسار کو خداتعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کے ایک جلسہ میں بھی بطور مرکزی نمائندہ شامل ہونے کی توفیق ملی۔ ڈھاکہ بخشی بازار میں ہماری 6منزلہ عمارت خداتعالیٰ کے فضل سے بہت سارے اہم اداروں کو سموئے ہوئے ہے۔ احاطہ میں جلسہ ہوتا ہے۔ مخالفت کی وجہ سے ابھی تک باہر جلسہ نہیں ہو رہا۔ لیکن عاشقان احمدیت یہاں پر بھی ہر تکلیف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شامل ہو رہے ہیں اور دُور دراز علاقوں سے مخلصین جماعت جلسہ میں شامل ہونے آتے ہیں۔ یہاں ہی کھانا پکتا ہے، لنگر چلتا ہے، صبح کے وقت ناشتہ میں یہاں کھچڑی کھلائی جاتی ہے۔ اس کھچڑی میں چاول کے ساتھ بعض اوقات دال،چکن اور بعض اوقات مچھلی بھی ڈالی جاتی ہے۔ چائے اور قہوہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔

چھوٹی جگہ پر ہونے کے باوجود بھی ان کے دل بڑے کشادہ اور مہمان نواز ہیں۔ جیسا کہ خاکسار نے بتایا کہ جگہ چھوٹی ہے پھربھی 4ہزار سے زائد احباب جلسہ میں شامل ہو جاتے ہیں، پھر ریجنل جلسہ جات بھی ہوتے ہیں، اس مرکزی جلسہ کے فوراً بعد ایک ریجنل جلسہ سندر بن میں بھی ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو آسان فرمائے تا آسانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ اور دقت کے سب ایک جگہ جلسہ کے لیے اکٹھے ہو سکیں۔
جلسہ خواہ گھانا میں ہو ،سیرالیون میں ہو، امریکہ میں ہو، بنگلہ دیش میں ہویا دنیا کے کسی خطہ کے کسی بھی ملک میں ہو، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کی روایات، جلسہ کے انتظامات سب ایک ہی طرز پر ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ضرورتیں تبدیل ہونے کے ساتھ بھی روایات ایک ہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ صداقت حضرت مسیح موعود ؑپر دلالت کرتی ہیں۔ ایک جماعت ہونے پر دلالت کرتی ہیں، للّٰہی جماعت ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اور ایک ہاتھ پر جمع ہو کر ایک ہی نظام میں پروئے جانا اور ایک ہی قسم کے خیالات اور ایک ہی قسم کا اوڑھنا بچھونا ہماری جماعت کی صداقت کی دلیل بن جاتا ہے۔ الحمد للّٰہ و ذلک فضل اللّٰہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button