متفرق مضامین

احمدیت کے علمبردار دو گروہوں کے صدی کے سفر کا تقابلی جائزہ (قسط نمبر 7)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

میدان میں فتح خدا تجھے دے گا

پیغام صلح کے شمارہ 24،23۔جلد نمبر100،ازیکم تا 31دسمبر 2013ء کے ٹائٹل پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک کے ساتھ مورخہ 29 فروری 1904ء کا یہ الہام درج کیا گیاہے:’’میدان میں فتح خدا تجھے دے گا‘‘۔اور اندرونی صفحے پر جماعت احمدیہ لاہور کے عقائد درج ہیں۔ نمبر 8پر لکھا ہے کہ‘‘حضرت مرزا صاحب کا ماننابنیاد دین میں سے نہیں،نہ جزو ایمانیات ہے۔اس لیے ان کونہ ماننے سے کوئی شخص کا فر نہیں ہو سکتا‘‘۔ اہل پیغام کا یہ عقیدہ عجیب تضادات کا مجموعہ ہے۔جس مامور کو ماننا ،یا نہ ماننا برابر ہے،جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،تو وہ کونسا میدان ہے جس میں خدا نے آپ کو فتح دینی ہے، اور وہ کونسی کامیابی ہے جس کے لیے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سرگرداں ہے؟؟؟۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا،اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا۔ یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں ، یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں‘‘۔

( تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17،صفحہ 182)

امارت کا پانچواں دور

سال 2002ء میں ڈاکٹر اصغر حمید صاحب کی وفات کے بعد ڈاکٹر عبد الکریم سعید پاشا صاحب مختلف بزرگان کی خوابوں اور کشوف کی بنا پر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے پانچویں امیر منتخب ہوئے،اور اسی سال دسمبر میں اپنے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کے دوران فرمایا:’’دنیا میں بہت سے پودے ہیں ۔ہماری جماعت کا یہ پودا بھی نہایت برکت والا پودا ہے۔ یہ اللہ کے امام کا لگایا ہوا پودا ہے اور اس نے بڑھنا ہے، اور اس حقیقت کی تشبیہ چین کے اس بانس کے درخت سے دیتا ہوں جس کوChinese Bamboo Treeکہتے ہیں۔اور وہ اس کو ایک معجزہ سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ جب اس کو لگایا جاتا ہے تو پہلے سال اس کا تنا جتنا زمین سے باہر نکلا ہوا ہوتا ہے ، اتنا ہی جڑوں کی شکل میں زمین کے اندر ہوتا ہے۔ دوسرے سال اس کا تنا باہر تو اتنا ہی رہتا ہے ، لیکن زمین کے اندر اس کی جڑیں زیادہ پھیل جاتی ہیں۔ تیسرے اور چوتھے سال بھی تنے کی کیفیت زمین کے اوپر یکساں رہتی ہے، یعنی تنا اُتنے کا اُتنا ہی رہتا ہے، لیکن زمین کے اندر اس کی جڑیں پھیلتی اور گہری ہوتی جاتی ہیں۔ لیکن پانچویں سال اس کا زمین کے اوپر والا تنا یک دم ایک سال میں 80فٹ لمبائی حاصل کر لیتا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ چھوٹا سا پودا جو موجودہ نامساعد حالات کی وجہ سے بظاہر اتنا ہی نظر آرہا ہے ، لیکن اب اس کو چین کے بانس کے درخت کی طرح 80گنا بڑھ کر دکھانا ہے ‘‘۔

(افتتاحی ارشادات حضرت امیر ڈاکٹر عبد الکریم سعید، دعائیہ اجتماع دسمبر 2002ء)

پھر 2005ء میں سالانہ دعائیہ کے موقع پر کہا:’’اب میں اس پودے کی طرف آپ کا دھیان دیتا ہوں جس کا ذکر میں پچھلے تین سال سے کرتا آیا ہوں۔ The Chinese Bamboo Tree وہ درخت جو لگا دینے کے بعد چار سال تک صرف اپنی جڑیں قائم کرتا ہے، اور گہرائیوں میں جاتا ہے ، اور اوپر سے اس کا سائز جوں کا توں رہتا ہے۔لیکن پانچویں سال وہ 80فٹ کا درخت بن جاتا ہے، یہ خدا کا ایک معجزہ ہے۔مارچ کی پہلی تاریخ کو میرے امیر بنے تین سال ہو جائیں گے۔اور کسی جماعت میں کوئی تبدیلی راتوں رات نہیں لائی جاسکتی۔آپ سب کو تجربہ ہوا ہو گا کہ کسی کی کار یا ٹرک راستے پہ رکا ہو ، اور آپ کو مدد کے لیے بلایا جائے کہ آئو اس ٹرک کو ہم آگے دھکیلیں،تو پانچ آدمی دس آدمی زور لگاتے رہتے ہیں اور وہ سینٹی میٹر بھر آگے نہیں جاتا،لیکن جب چلنے لگتا ہے تو پھر وہ سپیڈ پکڑتا ہے اور اپنی طاقت سے انجن کو بھی چلا لیتا ہے۔ یہی حال ترقی کے راستے پہ رکی ہوئی جماعتوں کا، قوموں کا اور ممالک کا ہوتا ہے۔ ہم سب جب تک مل کر اس ہیوی ٹرک کو دھکا نہیں دیں گے،اور یہ امید رکھیں گے کہ امیر ہے نا تو پھر وہ ٹرک نہیں چلے گا۔ لیکن اب وہ شروع کی حرکت جاری ہو چکی ہے ‘‘۔ ( افتتاحی خطاب 23دسمبر 2005ء،https://www.youtube.com/watch?v=vCDZr4QK_AU )

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم کل بھی جمود کا شکار تھی ، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔کیونکہ فرقان حمید شجر طیبہ کی مثال دے کر یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہوتی ہیں،اور اس کی شاخیں آسمان کی رفعتوں کو چھوتی ہیں اور وہ اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ تازہ بتازہ پھل دیتا ہے۔ اس لیے حقیقی ترقیات ان کے نصیب میں ہی نہیں ،کیونکہ اس درختِ وجود کی سرسبز شاخوں سے جدا ہوگئے جو شیریں پھل دینے کے لیے لگایا گیا تھا۔ دوسری طرف قدرت ثانیہ کے مظہر خامس حضرت مرزا مسرور احمد صاحب اپریل 2003ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ اور‘‘ اِنِّی مَعَکَ یا مَسْرُوْرُ’’کے وعدے کا مطابق یہ دور بھی الٰہی تائید و نصرت کے روشن نشانوں سے معمور عظیم الشان اور روز افزوں ترقیات کا دور ہے۔خلافت خامسہ کے اس بابرکت دور میں اب تک 35نئے ممالک میں جماعت کا نفوذ ہو چکا ہے۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں نو ہزار سے زائد نئی جماعتوں کا قیام ہوا،پانچ ہزار سے زائد مساجد کا اضافہ ہوا،اورانیس مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع ہوئے۔

( الفضل انٹرنیشنل 3اگست 2018ء صفحہ 17۔ جلد 25، شمارہ 31،32)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’پس فکر کرنی چاہیے ان لوگوں کو جو خلافت کے انعام کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ۔ یہ خلیفہ نہیں جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے۔ تباہ وہ لوگ ہونگے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کو نہیں سمجھتے، ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں۔ پس یہ وارننگ ہے ، تنبیہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ یا وارننگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے… اب احمدیت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے…جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے ، اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27مئی 2005ء۔ الفضل انٹر نیشنل 10جون 2005ء۔ جلد 12، شمارہ 23)

٭جمال و جلال کا حسین امتزاج

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار

جماعت احمدیہ ایک زندہ و جاوید جماعت ہے ۔ اِس کے بانی (خدا کی ہزاروں رحمتیں اور درود اُس پر)نے سیف کا کام قلم سے دکھایا ، اور عرش الٰہی سے اس کے حرف حرف اور لفظ لفظ کو برکت بخشی گئی۔ اُس کی تحریروں میں جمال بھی ہے اور جلال بھی ، ندرت و لطافت بھی ہے اور قدرت بھی ۔ اس کے نطق میں ایسی تاثیر تھی جو بیمار روحوں کی مسیحائی کرتی تھی ۔ وہ سلطانِ حرف و حکمت تھا ۔ اور اُس کے جانشین اُس کے خلیفہ بھی اُسی روحانی چشمے سے سیراب کیے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں بھی یہ خلعتِ فاخرہ آسمان سے پہنائی جاتی ہے،اور یہ منصب خلافت عاجز اور حقیر نہیں۔ خلافت کے زیر سایہ جماعت احمدیہ کی 130سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرے خلیفہ نے بلند نگاہ اور دلنواز سخن کے ساتھ اس درخت کی آبیاری کی۔ ایک کے بعد دو سرے خلیفہ ٔذات اقدس کی زندگی خدمتِ اسلام کی جہد ِمسلسل اور شبانہ روز عملی کوششوں ، جماعت کی تعلیم و تربیت، اشاعتِ قرآن اور سجود و قیام سے عبارت ہے۔ انہیں وہ حسن خطابت نصیب ہوا، جس کا لفظ لفظ آسمان سے اترا۔ دکھوں اور ابتلائوں کے وقت باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کے ساتھ ساتھ یہ وجود ہر ایسی مشکل کے وقت اپنی جماعت کو اپنے پروں کے نیچے دبائے ہوئے مرد میدان کی طرح سینہ سپر رہے۔ اور ان کی زبان سے ایسے پرشوکت اور پر جلال الفاظ نکلتے رہے جوصاحب شعور انسان کے ایمان کی حرارت کا موجب بنتے ہیں۔’’میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے‘‘ کا دلربا دعویٰ صرف اور صرف خلفائے احمدیت کا خاصہ ہے۔

تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سُنتے اس کو
آسماں کی ہے زباں یار طرح دار کے پاس

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’صادق تو ابتلائوں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں،اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا، اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے ، لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپناا پنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے ۔ اگر میں پیسا جائوں اور کچلا جائوں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جائوں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں ۔تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا ۔ مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہر گز ضائع نہیں ہو سکتا ۔ دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل ہیں۔
اے نادانواور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جائوں گا ۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا یقینا ًیاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں ۔ میں کسی کی پروا ہ نہیں رکھتا ۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں، کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا ، کیا وہ مجھے ضائع کر دے گاکبھی نہیں ضائع کرے گا۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ ، اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیںکہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو ۔ اُس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ا بتلا نہیںکروڑ ابتلا ہو۔ ابتلائوں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے

من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشتِ من
آں منم کاندر میان خاک و خوں بینی سرے ‘‘

( انوار الاسلام ، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 23۔ ایڈیشن 1984ء)

حضرت مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہاں کے بعض رہنے والے باہر کے آنے والوں کے کانوں میں باتیں بھرتے ہیں کہ ہماری جماعت میں اختلاف ہے۔کوئی موجودہ خلیفہ کے بعد کسی کو تجویز کرتا ہے ، اور کوئی کسی کو۔ان بے حیائوں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ ان کو کیا خبر ہے کون خلیفہ ہوگا، ممکن ہے ہمارے بعد بہتر خلیفہ ہو وہ ۔ اللہ تعالیٰ اس کی کیسی کیسی تائید کرے ۔ جب اس قدر بے علم ہو تو ایسی ایسی باتیں کیوں کیا کرتے ہو ۔ کیا تمہارا انتخاب کردہ منتخب ہوگا ، کیا موجودہ خلیفہ تمہارے انتخاب سے خلیفہ ہوا ہے؟ کہ وہ تمہا ر ے انتخاب سے ہوگا۔ یہ کام تمہارا نہیں ، خدا کا کام خدا کے سپرد کرو۔ یونہی نفاق ڈالنے کے لیے کانوں میں گُڑ گُڑ کرتے ہو ۔ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم کو اس کا وبال بھگتنا پڑے ۔ تم میں ایک امام ہے اس کا نام نور الدین ہے ۔ کیا تم اس کی حیاتی کے ذمہ دار ہو ؟ پیش از مرگ واویلا کرتے ہو ۔ اگر تم حیا دار ہو تو ایسی باتیں کبھی نہ کرو‘‘۔

( خطبہ جمعہ 7اکتوبر 1913ء الفضل قادیان 22اکتوبر 1913ء صفحہ 15۔ جلد 1،شمارہ 19)

’’دیکھو میری دعائیں عرش پر بھی سنی جاتی ہیں ۔ میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے پہلے کر دیتا ہے ، میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے۔ تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو، توبہ کرو‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد 3، صفحہ 401۔ ایڈیشن 2007ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں، ان شاء اللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ ان شاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑاآرہا ہے ، وہ میرے پاس ہے وہ مجھ میں ہے ۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے ۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو ۔ سلسلہ کا کام خدا خود سنبھالے گا‘‘۔ آگے فرماتے ہیں:’’میں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ جو فیصلہ آسمان پر ہو زمین اسے ردّ نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا ۔ سو تسلی پائو اور خوش ہو جائو ، اور دعائوں اور روزوں اور انکساری پر زور دواور بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دلوں میں پیدا کرو‘‘۔

(سوانح فضل عمر جلد چہارم صفحہ 353۔385،ایڈیشن 2006ء قادیان)

’’میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردے پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس کے مقابلے کے لیے تیار ہوں… وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر کچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی ان میں سے ایک ایڑی میری بھی ہوگی۔… یہ سچائی نہیں ٹلے گی، نہیں ٹلے گی اور نہیں ٹلے گی۔ اسلام دنیا میں غالب آکر رہے گا، مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی … میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔ یہ وہ آواز ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے ۔ یہ مشیت وہ ہے جو جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے‘‘۔

(الموعود ۔ انوار العلوم جلد 17، صفحہ 647،648۔ایڈیشن جون 2008ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میری خلافت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا۔ یٰا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنٰک خَلِیۡفَۃً فِیۡ الۡأَرۡضِ۔ یہ بتانے کے لیے کہ میں تیرے ساتھ ہوں ۔ خدا تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا ہے اس کے پیار کو حاصل کریں… میرا یہ کام ہے کہ میں شریعت سے استہزانہ کرنے دوں ۔ تمہاری مرضی ہے کہ جماعت مبائعین میں رہو یا چھوڑ کر چلے جائو ۔ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں مَیں کسی کی مردہ کیڑے کی حیثیت بھی نہیں سمجھتا ۔ خدا تعالیٰ خود میری رہنمائی کرتا ہے ، میں نے تم سے دین نہیں سیکھنا ، تم نے مجھ سے دین سیکھنا ہے‘‘۔

(خطبات ناصر جلدہفتم صفحہ 383۔396۔ایڈیشن 2010ء قادیان)

پھر فرماتے ہیں: ’’ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ، ہم مسلمان ہیں ۔ ہم نے کبھی ارتداد کا سوچا بھی نہیں ۔ ہم اس بات کو لعنت سمجھتے ہیں کہ ہماری زبان یہ کہے کہ ہم مسلمان نہیں اور ہم نے خدا کو چھوڑ دیا ہے ، اور نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نہیں سمجھتے ۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ صداقت اور وہ نور جس سے ہم نے اپنی آنکھوں کا نور لیا اور اس نور سے دنیا کو منورپایا، اس نور سے ہم علیحدہ ہو جائیں ، اور ظلمات میں بھٹکتے رہیں ۔ یہ ہم ایک لحظہ کے لیے بھی بردا شت نہیں کر سکتے‘‘۔

(خطبات ناصر جلدہفتم صفحہ 534۔ایڈیشن 2010ء قادیان)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وقت کے امام کے متعلق جس کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا ہے ، اس کے متعلق زبانیں کھلتی چلی جا رہی ہیں ، اور کوئی کنارہ نہیں ہے ان کی بے حیائی کا۔جماعت احمدیہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے، ایک ولی رکھتی ہے ۔ جماعت احمدیہ کا ایک مولاہے ، اور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولا ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں ۔ خدا کی قسم جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام و نشان مٹا دیے جائیں گے۔ اور ہمیشہ دنیا تمہیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی۔اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عاشق محمد ﷺ کا نام ہمیشہ روز بروز زیادہ سے زیادہ عزت اور محبت اور عشق کے ساتھ یاد کیا جایا کرے گا‘‘۔

(خطبات طاہر جلد 3، صفحہ 733۔ ایڈیشن2007ء قادیان )

جو آرہی ہے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

’’جس نے ناکارہ سمجھتے ہوئے ناکارہ جانتے ہوئے مجھے اس منصب پر قائم فرمایا ہے وہ اس منصب کے لیے غیرت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے مسیح موعود کی غلامی کا منصب ہے ، اس کی نمائندگی کا منصب ہے ۔ اس مسیح موعود کی کی غلامی کا منصب ہے جس کو اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ کی غلامی کا منصب عطا فرمایا تھا۔ پس وہ غیرت ہے جو اپنا کام دکھاتی ہے اور سب کمزوریوں سے صرف نظر کرتی ہے ‘‘۔

(خطاب افتتاحی تقریب ایم ٹی اے یکم اپریل 1996ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ہم اپنے مخالفین سے کہتے ہیں کہ ہمیں اس کلمہ کی قسم جو قیامت کے دن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر کے بتائے گا کہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌرَسُوْلُ اللّٰہِ سے حقیقی وفا کرنے والے ہم ہیں کہ تم ؟ اس دنیا میں اپنی عارضی طاقت اور حکومتوں کی پشت پناہی کے زعم میں تم جو ظلم اور سفاکی ہم سے روا رکھ سکتے ہو ، رکھ لو۔ لیکن ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کلمہ کا یہی حقیقی فہم و ادراک آئندہ ہمیشہ کی زندگی میں جنت کی خوشخبریاں دیتا ہے ۔ اس کلمہ سے ہی ختم نبوت کا حقیقی فہم خدا تعالیٰ سے ہدایت پاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا ہے ۔ پس لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌرَسُوْلُ اللّٰہِ اس دنیا میں بھی ہمارے دل کی آواز ہے اور اگلے جہان میں بھی ہمارا گواہ بن کر دشمن کے گریبانوں کو پکڑے گا۔ان شا اللہ ۔ ہم ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مسیح محمدی ؐکی بعثت سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خا تمیت ِ نبوت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ آپ کے امتی کو یہ بلند مقام ملنا آپ کی اعلیٰ شان کا اظہار ہے۔اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں :

برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے۔‘‘

(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء الفضل انٹرنیشنل 30جولائی 2010ء، صفحہ 22۔ جلد 17،شمارہ 31،32)

’’اے دشمنان احمدیت جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر حضرت خاتم الانبیاء محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمینؐ کے نام پرظلم و بر بریت کی داستانیں رقم کر رہے ہو ، تمہیں آج میں واضح طور پر اور تحدّی سے یہ کہتا ہوں کہ تمہارے مقدر میں ناکامیاں ہیں ، تمہارا مقدر تباہی و بربادی ہے ، اور تمہارے مقدر میں ذلت و خواری ہے ۔ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم اپنے کسی بھی حربہ سے جماعت احمدیہ کو تباہ کر سکتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں ہر روز اپنے فضلوں کے وہ نظارے دکھا رہا ہے جو ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر ہیں‘‘۔

( اختتامی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ،الفضل انٹر نیشنل 30ستمبر 2011ء صفحہ 1۔جلد 18شمارہ 39)

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور اس نعمت سے یکسر محروم ہے ۔ اُن کی ایک سو چار سالہ تاریخ میں کسی امیر کے منہ سے ایسے پر شوکت الفاظ نکلے ہی نہیں جو مثال کے طور پر پیش کیے جاسکیں ۔ خدا ئے واحد و یگانہ سے زندہ تعلق کی ایسی کوئی مثال نہیں جو قابل بیان ہو ،قبولیت دعا کا ایسا کوئی روشن نشان جس کا زمانہ گواہ ہو ، یہ گروہ اس سے تہی دست اور تہی دامن ہے۔خدائے قادر پر کامل ایمان رکھتے ہوئے دشمن کو للکارنے اور نتیجہ دشمن کی ذلت و رسوائی پر منتج ہونے کا عملی مظاہرہ ان کے حصے میں کبھی نہیں آیا۔ ہَاتُواۡ بُرۡہَانَکُمۡ إِن کُنتُمۡ صَادِقِیۡن۔

(سورۃ البقرۃآیت:112)

دائمی مرکز

اہل پیغام یہ عجیب و غریب اور بھونڈا دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح لاہور سے تعلق رکھتی ہے اور جسم قادیان والوں کے پاس ہے۔ موجودہ امیر بیان کرتے ہیں: ’’حضرت صاحب کی پیدائش قادیان میں ہوئی ، جہاں ان کے جسمانی وجود نے جنم لیا، اور وفات کے بعد دفن بھی وہیں ہوئے میں سمجھتا ہوں جسمانی طور پر وہ قادیان سے اور روحانی طور پر لاہور سے تعلق رکھتے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا امام اپنی جان اس شہر میں دے ، جہاں خدا کو معلوم تھا کہ آئندہ یہ روحانی جماعت چلے گی۔لاہور میں ہی حضرت صاحب کا آخری دنوں میں قیام تھا، اور یہاں احمدیہ بلڈنگز لاہور میں ہی آپ کی روح جسم عنصری سے پرواز کر گئی اور اپنے خالق حقیقی کی طرف سفر کیا‘‘۔

(پیغام صلح یکم تا 30اپریل 2014ء، صفحہ 1۔ جلد101،شمارہ 7،8)

اس طرح کے بے بنیاد اور خوف خدا سے عاری دعوے ان کے لٹریچر میں کئی جگہ نظر آتے ہیں،مگر الٰہی نوشتے قادیان کی عظمت کا اعلان کرتے ہیں،اور حکم عدل نے قادیان کو ہی مرجع خواص قرار دیا، فرماتے ہیں:’’صحیح بخاری میں میرا تمام حلیہ لکھا ہے ، اور پہلے مسیح کی نسبت جو بڑا مرکز مشرق یعنی ہند قرار دیا گیا، اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود دمشق سے مشرق کی طرف ظاہر ہوگا ۔ سو قادیان دمشق سے مشرق کی طرف ہے ‘‘۔ ’’یاد رہے کہ قادیان جو میری سکونت کی جگہ ہے عین دمشق کی شرقی طرف ہے۔ سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی‘‘۔

(تذکرۃ الشہا دتین ، صفحہ 40۔ چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 377۔ایڈیشن 1984ء)

’’تیسری بات جو اِس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ خداتعالیٰ بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے ،گو ستر برس تک رہے قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا،کیونکہ یہ اس کے رسول کاتخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لیے نشان ہے‘‘۔

( ایک غلطی کا ازالہ،روحانی خزائن جلد 18،صفحہ 230۔ایڈیشن 1984ء )

پھر تحریر فرماتے ہیں:’’قادیان کو دارالسلام اور ملائکہ کے نزول کی جگہ قرار دیا گیا‘‘۔

( مواہب الرحمن،روحانی خزائن جلد 19،صفحہ 217)

’’تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ اس قدر لوگ ارادت اور اعتقاد سے قادیان آئیں گے کہ جن راہوں سے وہ آئیں گے وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی ۔۔۔ ساتویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے بہت سے لوگ اپنے اپنے وطنوں سے تیرے پاس قادیان میں ہجرت کر کے آئیں گے اور تمہارے گھروں کے کسی حصہ میں رہیں گے وہ اصحاب صفہ کہلائیں گے۔۔۔ اِس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی ، چنانچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان آچکے ہیں‘‘۔

( براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21،صفحہ 73۔75،مطبوعہ لندن)

’’اس مقام کو خدا نے امن والا بنایا ہے ، اور متواتر کشوف الہام سے ظاہر ہوا ہے کہ جو اس کے اندر داخل ہوتا ہے وہ امن میں ہوتا ہے‘‘۔

( ملفوظات جلد6صفحہ 22۔مطبوعہ لندن،ایڈیشن 1984ء )

پھر فرماتے ہیں ’’یہاں کا رہنا تو ایک قسم کا آستانہ ایزدی پر رہنا ہے ۔ اس حوض کوثر سے وہ آب حیات ملتا ہے کہ جس کے پینے سے حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابدالآباد تک موت ہرگز نہیں آسکتی۔۔۔ اپنے گھروں ،وطنوں اور املاک کو چھوڑ کر میری ہمسائیگی کے لیے قادیان میں بودو باش کرنا ’اصحاب الصفہ‘ کا مصدا ق بننا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد6صفحہ 185،186۔مطبوعہ لندن )

انجمن کی حاکمیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والی ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور‘‘ کا ایک صدی کا سفر امام الزمان کی قلم سے نکلے اِس ایک جملے کے سامنے رائیگاں اور بے ثمر ہو جاتا ہے : ’’یہ ضروری ہو گا کہ مقام اِس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے۔ کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے‘‘۔ کتنا واضح حکم ہے، کتنی کھلی نصیحت ہے ۔ مولوی محمد علی صاحب نے جب 21اپریل 1914ء کو اخبار پیغام صلح میں: ’’صدر انجمن احمدیہ قادیان ۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّـا إِلَیۡۡہِ رٰجِعُونَ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین انجمن پر وہ تبر چلایا گیا ، جس سے اس کی جڑیں کاٹ دینی تجویز ہوئی ہیں‘‘۔ کا اعلان شائع کروایا تو حقیقت میں انہوں نے اپنی جڑوں پر کلہاڑا چلایا، او ر ہمیشہ کے لیے اپنے گروہ کی ہزیمت کا سامان کیا۔ مگر اُس وقت وہ اور ان کے حواری اپنے علم کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، انہیں سرداری کی ہوس اور بھوک تھی، اور نمود و نمائش کا شوق۔ جماعت کے اموال ان کے قبضے میں تھے ، اور وہ اس دعویٰ کے ساتھ اس دار الامان سے جدا ہوئے تھے کہ جلد ان عمارات پر غیر قومیں قابض ہو جائیں گی۔

مورخہ 27اکتوبر 1945ء کو فضل عمر ہوسٹل قادیان کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر چوہدری محمد علی صاحب ایم اے سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل نے ابتدا ئی کلمات میں کہا:’’آج سے 31سال پہلے جب منکرین خلافت خدا کے رسول کی تخت گاہ چھوڑ رہے تھے تو اُن میں سے ایک نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سے دس سال بعد اس بلڈنگ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق مصلح موعود کے مبارک دور میں جماعت کو ترقی پر ترقی عطا فرمائی ،وہ بلڈنگ جس کے متعلق یہ بات کہی گئی تھی، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا، اور سکول کی بجائے اسے کالج کی بلڈنگ میں تبدیل کر دیا۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔ یہ جگہ جہاں موجودہ ہوسٹل کی عمارت تعمیر ہوئی ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں منکرین خلافت کے امیر رہا کرتے تھے ۔ لیکن آج ان کی کوٹھی ہوسٹل میں تبدیل ہو گئی یہ سب باتیں ہمارے لیے نشان ہیں ‘‘۔

اس افتتاح کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطاب میں فرمایا:’’اُس وقت یہ سوال جماعت کے سامنے آیا تھا کہ اپنے اصول پر قائم رہ کر اکابرین جماعت کا مقابلہ کریں، یا ان سے ڈر کر ہتھیار رکھ دیں ۔ اس وقت اس فیصلہ کا انحصار ایک ایسے شخص پر تھا جس کی عمر کالج کے بہت سے پروفیسروں سے کم تھی …صرف اُس ایک کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ان تمام ذمہ داریوں کے ہوتے ہوئے، آیا ان تمام بوجھوں کے ہوتے ہوئے اور آیا ان تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے جبکہ تمام اکابر خلاف کھڑے ہو گئے تھے ، جبکہ بہت سی بیرونی جماعتوں میں ابتلا آچکا تھا ، جبکہ جماعت کے لوگوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا تھا کہ قادیان کے لوگ سلسلہ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، اور بہت بڑے فتنہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں ، اس وقت ان کا مقابلہ کرنا چاہیے یا ان کے سامنے ہتھیار رکھ دینے چاہئیں ۔وہ اکابر جو سلسلہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے، ان کا اندازہ اس وقت کی حالت کی نسبت کیا تھا اس کی طرف سپر نٹنڈنٹ صاحب نے اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا ا ثر ورسوخ اتنا زیادہ ہے اور ہمارے مقابل پر کھڑے ہونے والے تعداد میں، علم میں، سازوسامان میں، اثر و رسوخ میں اتنے کمزور ہیں کہ اگر ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو گرتے پڑتے زیادہ سے زیادہ دس سال ٹھہریں گے، پھر یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا ، اور احمدیو ں کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ اُس وقت اس شخص کو جس کی عمر25سال تھی، خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات کا فیصلہ کرنے کی توفیق ملی کہ خواہ حالات کچھ بھی ہوں ، اس جھنڈے کو کھڑارکھے گا جس کو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کھڑا کیاہے‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد 9،صفحہ 67۔69۔ایڈیشن 2007ء)

مورخہ 19اکتوبر 1956ء کو خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے خطاب کے دوران فرمایا: ’’جب 1914ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی ۔جب میںخلیفہ ہوا تو خزانے میں صرف سترہ روپے تھے ۔ انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا ، لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ اب ہم اپنے کسی طالبعلم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو یہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے‘‘۔

(خطاب فرمودہ 19اکتوبر 1956ء ۔ مشعل راہ جلد اوّل صفحہ 766،ایڈیشن اکتوبر 2006ء قادیان)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیرنے کے لیےکافی ہے کہ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔ … اور ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے ‘‘۔

(دافع البلاء ،روحانی خزائن جلد 18،صفحہ 231۔ایڈیشن 1984ء)

پس خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گمنام بستی کی آواز اب سب جہان میں گونجتی ہے ، اور ہر سال خدا کا یہ قول رشیق ایک نئی شان کے ساتھ پورا ہوتاہے: ’’یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجّ عَمِیْق‘‘۔خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں ’’الدار‘‘،مقامات مقدسہ ، مساجد اور قادیان کی گلی کوچوں کے تحفظ تزئین آرائش اور وسعت پر بہت کام کیا گیا ہے، اور ان مقدس یادگاروں کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا گیا ہے ۔قدیم و جدید فن تعمیر کی شاہکار تمام سہولتوں سے آراستہ کثیر المنزلہ نئی عمارات ،دفاتر اور مہمان خانوں کی تعمیر ’’ وَسِّعْ مَکَا نَکَ ‘‘ کے الہام کی عظمت کی گواہی دیتے ہوئے اس مقدس بستی کی رونق میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پس قادیان ہمارا دائمی مرکز تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا،اس کا میخانہ مرجع اقوام عالم بن چکا ہے ،تاریکی اور ظلمت میں بھٹکنے والوں کے لیےیہی طور زندگی ہے۔ یہ داغ ہجرت عارضی ہے ، اور رب العزت وہ وقت ضرور لائے گا جب قادیان ایک عالمی مرکز کے طور پر دنیا کے منظر پر چھاجائے گا۔ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیان۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’مومن ہاں وہ سچا مومن جو محض سُن سنا کر خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا بلکہ جس کا ایمان پورے وثوق اور یقین پر مبنی ہے وہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ تغیر ایک عارضی تغیر ہے ، اسے خوب معلوم ہے کہ قادیان میری چیز ہے وہ میری ہے کیونکہ خدا نے وہ مجھے دی ہے ، گو آج ہم قادیان نہیں جا سکتے گو آج ہم اس سے محروم کر دیے گئے ہیں ،لیکن ہمارا ایمان اور ہمارا یقین ہمیں بار بار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے ، وہ احمدیت کا مرکز ہے ، اور ہمیشہ احمدیت کا مرکز رہے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ، بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کر سکتا۔ اگر زمین ہمیں قادیان لے کر نہ دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور ہمیں قادیان لے کر دیں گے ، اور جو بھی طاقت اس راہ میں حائل ہو گی وہ پارہ پارہ کر دی جائے گی، وہ نیست و نابود کر دی جائے گی ۔ قادیان خدا نے ہمارے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے اس لیے وہ ہمیں آپ قادیان لے کر دے گا‘‘۔

(انوار العلوم جلد 19،صفحہ 364 alislam.org)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے3 جنوری1992ء کومسجد اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا: ’’کھلے دل کے ساتھ خوب منصوبے بنائیں اور بالکل پروا نہ کریں کہ ان پر کیا خرچ آتا ہے۔عالمگیر جماعت احمدیہ خدا کے فضل سے غریب نہیں ہے ۔ اور ساری عالمگیر جماعت احمدیہ آپ کی پُشت پر کھڑی ہے۔ تمام عالمگیر جماعت احمدیہ ہمیشہ قادیان کی ممنونِ احسان رہے گی اور ان درویشوں کی ممنون ِاحسان رہے گی جنہوں نے بڑی عظمت کے ساتھ ، بڑے صبر کے ساتھ ،بڑی وفا کے ساتھ اس امانت کا حق ادا کیا جو اُن کے سپرد کی گئی تھی، اور لمبی قربانیاں پیش کیں۔ اس لیے آپ کو کوئی خوف نہیں،آپ کو کوئی کمی نہیں‘‘۔ (خطبہ جمعہ 3جنوری 1992ء۔خطبات طاہر جلد11،صفحہ نمبر8۔ایڈیشن اپریل 2013ء)

پھر دسمبر 1994ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے اختتامی خطاب کے دوران فرمایا:’’پس یہ عالمگیر جماعت اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ کا جو سلوک اُس زمانے میں تھا ، وہ آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری و ساری ہے، اور تمام دنیا میں اُسی طرح جماعت کی جیبیں برکت پا رہی ہیں … یہ سلسلہ جب جاری و ساری ہوتا ہم نے دیکھا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تجربوں کی یاد پھر تازہ ہوجاتی ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ وہی نیک تمنائیں تھیں، وہی دعائیں تھیں ، وہی تجربے تھے جو اب عالمگیر ہو چکے ہیں ، اور’’وَسِّعْ مَکَا نَک‘‘ کی خوشخبری جو قادیان میں تین چھپروں کے ذریعہ ابتداء میں پوری کی گئی ، اب عالمگیر عظیم احمدی عمارتوں کی صورت میں ظاہر ہو چکی ہے ، اور ہوتی چلی جارہی ہے‘‘۔

(خطاب 26دسمبر 1994ء۔الفضل انٹر نیشنل 8دسمبر 1995ء صفحہ 4۔جلد 2شمارہ49)

جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حضرت امیر نے 23دسمبر 2005ء کو سالانہ دعائیہ کے افتتاح کے موقعہ پر کہا:’’احمدیہ بلڈنگز جو نہایت خستہ حالی میں ہے، اس میں ہمارے بزرگوں کی سجدوں کی جگہ ہے، ان کے بیٹھنے کے مقام ہیں ،ان کی عبادتوں کی جگہ ہے۔اس کی جو خستہ حالی ہے تو میں یہ نہیں چاہوں گا کہ ہم سڈنی ،برلن اور انڈیا کو تو فنڈز دیتے جائیں ، اور اپنے ہاں ہمارا وہ سنٹر ہماری وہ پہچان جہاں پہ مولانا محمد علی صاحب آئے ، جس مقام پر حضرت مسیح موعود 1908ء میں فوت ہوئے …اس کی قدر جانیں اور اس کے لیے بھی ہمیں چاہیے کہ فنڈہوں تاکہ ہم اس کو اس قابل بنا سکیں۔ہماری احمدیہ بلڈنگ میں ایک نور ہے جس کو اگر ہم نے اینٹوں کے ملبے کے نیچے دبا دیا تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔

( افتتاحی تقریر سالانہ دعائیہ دسمبر 2005ء۔

https://www.youtube.com/watch?v=vCDZr4QK_AU)

اس وقت تک سڈنی میں نئے سینٹر کا افتتاح ہو چکا ہے۔

(پیغام صلح یکم تا 31مئی 2014ء صفحہ 1۔جلد 101، شمارہ9،10)

برلن میں بھی کام جاری ہے، مگر احمدیہ بلڈنگز کے تحفظ،بحالی اور دیکھ بھال کے لیے کیا عملی اقدامات کیے گئے اس حوالے سے مکمل سکوت طاری ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button