لفظ تَوَفِّی کے پہلے اور حقیقی معنی کیا ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’ازالہ اوہام ‘‘روحانی خزائن جلد سوم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا۔اسی تصنیف میں قرآن کریم کی 30آیات سے وفات مسیح ؑکو ثابت کرتے ہوئے ایک بنیادی لفظ تَوَفِّی کے حوالے سے تفصیلی بحث درج فرمائی۔لفظ تَوَفِّی کے متعلق درج ذیل چیلنج بھی پیش فرمایا:
’’جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہواہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یاجدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ تَوَفِّیکا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیاگیاہوبلکہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کوخدائےتعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیاہے نہ قبض جسم کے معنوں میں۔ کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں۔ کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ ؐ یااشعار وقصائد و نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ تَوَفِّی کا لفظ خداتعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجُز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پاگیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جلَّ شانُہٗ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتاہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرارکرلوں گا۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ،روحانی خزائن جلد3 صفحہ603)
غیر احمدی علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ چیلنج کے جواب میں کوئی ایک بھی مثال پیش نہیں کرسکے جس میں تَوَفِّی لفظ قبضِ جسم کے معنوں میں مستعمل ہوا ہو ۔بلکہ کئی ایک علماء تَوَفِّی لفظ کے وہی معنی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ۔مثلاً مفتی محمد تقی عثمانی(پیدائش: 27؍اکتوبر 1943ء) جن کا شمار مشہور شخصیات میں ہوتا ہے، 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمیٰ پاکستان کے شرعی بینچ کے جج رہے، بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی جدہ کے نائب صدر اور دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ہیں۔وہ لفظ تَوَفِّیکے متعلق لکھتے ہیں:
’’قرآن وسنت سے یہ بات وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ زندگی جسم اور روح کے مضبوط تعلق کا نام ہے اور موت اس تعلق کے ٹوٹ جانے کا ۔اس سلسلے میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہم اپنی بول چال میں موت کے لیے جو ’’وفات‘‘کا لفظ استعمال کرتے ہے وہ قرآن کریم کے ایک لفظ ’’تَوَفِّی‘‘سے ماخوذ ہے۔ قرآن کریم سے پہلے عربی زبان میں یہ لفظ موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تھا ،عربی زبان میں موت کے مفہوم کو ادا کے لیے تقریباً چوبیس الفاظ استعمال ہوتے تھے لیکن ’’وفاۃ ‘‘یا ’’ تَوَفِّی ‘‘کا اس معنی میں کوئی وجود نہ تھا ۔قرآن کریم نے پہلی بار یہ لفظ موت کے لیے استعمال کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے موت کے لیے جو الفاظ وضع کیے تھے کہ وہ سب ان کے اس عقیدے پر مبنی تھے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے تَوَفِّیکا لفظ استعمال کرکے لطیف انداز میں ان کے اس عقیدے کی تردید کی ’’تَوَفِّی‘‘ کے معنی ہیں کسی چیز کو پور ا پورا وصول کر لینا اور موت کے لیے اس لفظ کو استعمال کرنے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ موت کے وقت انسان کی روح کو اس کے جسم سے علیحدہ کر کے واپس بلا لیا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ’’سورۃ الزمر‘‘ میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو لوگ مرے نہیں ہوتے ان کی روحیں ان کی نیند کی حالت میں واپس لے لیتا ہے وہ پھر جن کی موت کافیصلہ کر لیتا ہے ان کی روحیں روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیان ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں ۔(سورۃ الزمر :42)‘‘
(دنیا کے اُس پار از مفتی محمد تقی عثمانی صفحہ 25تا26 ادارہ اسلامیات کراچی )
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے سورت الزمر کی جس آیت 42کا حوالہ دیاہے اور اس کی روشنی میں لفظ تَوَفِّی کے معنی ’موت‘کیے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفسیر مظہری مولانا محمد ثناء اللہ پانی پتی( ولادت: 1143ھ بمطابق 1731ء اور وفات : 1225ھ بمطابق 2؍اگست 1810ء) جو علمِ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور تصوف میں فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ 30 سے زائد کتب کے مصنف تھے تحریر کرتے ہیں:
’’اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ
کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ بدنوں سے جانوں کو قبض کرتا ہے ۔اس طرح کہ یا تو ان کا تعلق اپنے ابدان سے کلی طور پر منقطع ہوجاتا ہے اور اس کے لیے بدن کے ظاہر اور باطن دونوں میں تصرف کرنا ممکن نہیں رہے گا اور ایسا تب ہوتا ہے جب موت آجائے اور بدن سے جان کھینچ لی جائے یا پھر اللہ تعالیٰ من وجہ ظاہراً جان قبض کر لیتا ہے اس طرح کہ اس سے قوت حس اور حرکت اراد یہ سلب ہوجاتی ہے اور یہ ایسے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تعلق کو عالم شہادت سے معطل کرکے عالم مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کر دیتا ہے تاکہ وہ راحت وسکون حاصل کر لے اور یہ صورت حال نیند کی حالت میں ہوتی ہے ۔ تَوَفِّی سے پہلا معنی (موت اور کلی انقطاع)مراد لینا حقیقت ہے اور دوسرا معنی (نیند )مراد لینا مجاز ہے ۔‘‘
(تفسیر مظہری از محمد ثناء اللہ پانی پتی ؒ، ترجمہ : پیر محمد کرم شاہ ،جلد ہشتم صفحہ274،ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور )
گویا لفظ تَوَفِّی کے پہلے اور حقیقی معنی موت کے ہی ہیں اور مجازی معنی نیند کے ہیں ۔اور اس کے علاوہ کوئی اور معنی یعنی قبض جسم کی کوئی گنجائش نہیں ۔