حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓاور حضرت خلیفۃ المسیح الثاث ؒکے ساتھ چند یادیں
(ماسٹر عبد السمیع خان مرحوم )
مجھے دیکھتے ہی آپؒ نے فرمایا کہ یہ تو کاٹھ گڑھی ہیں۔ اور خاکسار کو یہ سن کر اپنے بزرگوں کی یاد آجاتی تھی کہ یہ سب ان کے ہی طفیل ہے کہ خلیفہ وقت کوہماری پہچان ہے
نومبر1965ء کے اوائل کی بات ہےتعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ کی بیت النور میں ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اس کے بعد مکرم مولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب نے ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی علالت کے بارے میں اعلان پڑھ کر سنایا۔
حیلے سب جاتے رہے اِک حضرتِ تَوّاب ہے
سن کر بہت تشویش ہوئی۔ خاکسار کی رہائش صدر انجمن احمدیہ کے کوارٹرز میں تھی۔ گھر سے آتے ہوئے اتنی تشویشناک علالت کا علم نہیں ہوا تھا۔ اسکول بند ہونے کے بعد خاکسار راقم الحروف اور مکرم عبدالرب صاحب قصر خلافت کی طرف دوڑے۔ مسجد مبارک میں مکرم چودھری محمد صدیق صاحب مرحوم انچارج خلافت لائبریری ربوہ نے اونٹ کا صدقہ دیا تھا۔ ہم قصرِ خلافت کی طرف گئے وہاں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو گھبراہٹ کی حالت میں دیکھا۔ اچکن کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔پرائیویٹ سیکرٹری مکرم مولوی عبدالرحمٰن انورصاحب کے دفتر میں اس وقت چودھری احمد مختار صاحب مرحوم امیر جماعت کراچی تشریف رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تشویشناک علالت کے پیش نظر مسجد مبارک میں مغرب کی نماز میں دعا کی گئی ۔
آپ کا 52 سالہ دورِ خلافت یاد آتا ہے۔ خاکسار نے اپریل 1946ء میں قادیان اپنے بھائی کے ساتھ مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پڑھی اور بعد نماز حضور ؓکی مجلس عرفان میں شامل ہوا۔ مسجدمبارک کی چھت پر ایک گدے پر تشریف رکھتے تھے اور لوگ اِردگرد بیٹھے تھے۔ ایک آدمی آپ کے شانے ہاتھوں سے دبا رہا تھا۔ میری عمر تقریباً نو(9) سال تھی۔ باقی حضور کا خطاب مجھے یاد نہیں۔ اسی طرح ایک نماز جمعہ بھی حضور ؓکی اقتدامیں ہی اپریل 1946ء میں ادا کی۔
چونکہ خاکسار نے تقسیم ملک سے پہلے کا عرصہ کاٹھ گڑھ تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور میں گزارا۔ قادیان میں میرے دو بہن بھائی دارالفضل میں اپنے مکان میں والد صاحب (چودھری عبدالرحیم خاں صاحب کاٹھگڑھی) کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ اس وقت بیت المال قادیان میں کارکن تھے۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت ناظر صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب(والد محترم پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب)کا دفتر مسجد مبارک کے نیچے تھا۔
خاکسار نے 1952ء میں جماعت نہم میں ربوہ میں داخلہ لیا۔ اس وقت سیّد محمود اللہ شاہ صاحب حیات تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ابھی موجودہ قصرِ خلافت میں منتقل نہیں ہوئے تھے اور جمعہ پڑھانے کچے قصرِ خلافت سے مسجد مبارک جایا کرتے تھے۔ مسجد مبارک کے پاس دارالضیافت بنایا گیا تھا مگر ابھی وہاں کام شروع نہیں ہوا تھا۔
یکم جون 1952ء کو حضور موجودہ قصرِ خلافت میں منتقل ہوئے۔ اس دوران اسکول کا بورڈنگ ہاؤس اور ہمارے والد صاحب جو کہ اسکول میں بطور کلرک چنیوٹ سے آئے تھے، کچے قصرِ خلافت میں منتقل ہو گئے۔ وہاں سے والد صاحب کو تو 1956ء میں ریلوے اسٹیشن کے قریب کچے مکانوں میں رہائش ملی جبکہ بورڈنگ ہاؤس اپنے اصل بورڈنگ ہاؤس نزد تعلیم الاسلام ہائی اسکول شفٹ ہوگیا۔
ہمارے دادا جان مولوی عبدالسلام صاحب کاٹھگڑھی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے کلاس فیلو تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓسے پڑھتے تھے۔
1954ء میں جب میٹرک کے امتحان سے پہلے ربوہ میں الوداعی تقریب میں جوکہ بورڈنگ والے حصہ میں ہوئی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓتشریف لائےاور سب طلباء نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی ایس سی بی ٹی طلباء کا تعارف کروا رہے تھے۔ جب خاکسار کی باری آئی اور محترم صوفی صاحب نے میرے والد صاحب کا نام لیا تو حضورؓ نے فوراً میرے دادا جان کا نام لیا اور فرمایا کہ وہ تو میرے کلاس فیلو تھے۔
حضور ؓکاٹھگڑھ بھی تشریف لے جا چکے تھےاور اپنے جمعہ کے خطبات میں بھی اس کا ذکر فرمایا۔ کاٹھ گڑھ میں الحمدللہ ایک فعال جماعت تھی اور کافی تعداد میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ بھی موجود تھے۔ان میں سے جن احباب کے نام مجھے یاد ہیں ان میں چودھری عبدالسلام صاحب اور ان کے بھائی چودھری عبدالمنان صاحب، بابو عبدالحئی صاحب، دولت خاں صاحب اور ان کے بھائی رحمت خاں صاحب(والد مکرم عنایت اللہ خلیل صاحب مرحوم) ، ہدایت اللہ خاں صاحب، چودھری غلام احمد صاحب(والد ماجد چودھری عبدالرحیم خاں صاحب نمبردار)، چودھری غلام نبی صاحب، عبدالحمید خاں صاحب، چودھری عبدالحق خاں صاحب رضوان اللہ علیہم شامل ہیں۔
تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی تقریب میں خاکسار بھی شامل ہوا۔ اس وقت خاکسار فرسٹ ائیر میں زیر تعلیم تھا۔
10؍مارچ 1954ء کوبعد نماز عصر مسجد مبارک میں حضورؓ پر کسی بدبخت نے چاقو کا حملہ کردیا ۔ اس موقع پر سارا ربوہ امڈ کر مسجد مبارک کے پہلے گیٹ کی طرف آگیا۔ اس وقت وہی گیٹ استعمال ہوتا تھا۔
1956ء میں ایک فتنہ ’اللہ رکھا‘ اٹھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں حضور ؓکو سرخرو فرمایا۔ چنانچہ جلسہ سالانہ 1956ء کے موقع پر حضورؓ نے دو تقاریر اس فتنہ کے متعلق فرمائیں اور ساری تفصیل سے آگاہ کیا۔ ان دو تقاریر کا باقاعدہ امتحان لیا گیا جس کے انچارج مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب تھے۔ خاکسار نے بھی یہ امتحان دیا اور الحمدللہ کامیابی حاصل کی۔
خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ نخلہ سے ربوہ تک سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1957ء میں کچھ عرصے کے لیے خاکسار کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بطور Relieving Clerk کام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران حضور ؓکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی طرح 1955ءمیں جب حضورؓ یورپ سے علاج کے بعد واپس تشریف لائے تو مسجد مبارک میں آپ کا درس قرآن سننے کا موقع ملا۔ آپ نے سورت مریم کا درس دیا۔
1959ء میں جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہوسکا اور 1960ء میں منعقد ہوا۔ دوسرے دن حضور ؓبوجہ علالت تشریف نہ لا سکے تو اس موقع پر مکرم ثاقب زیروی صاحب نے بڑے سوز سے نظم پڑھی۔ جس کے چند اشعار پیش ہیں۔
تیری دہلیز پہ جھک جھک کر دعا مانگوں
اس سے بڑھ کر مجھے طاقت مجھے قدرت کیا ہے
ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یا ربّ
آج معلوم ہوا ہے کہ علالت کیا ہے
اس نظم کے دوران لوگوں کی چیخیں اور آہ و بکا قابلِ دید تھی۔ چنانچہ جلسہ کے تیسرے روز حضور ؓتشریف لائے تو حضورؓنے دوبارہ یہ نظم سنی۔
صدر جلسہ شیخ بشیر احمد صاحب نے 27؍دسمبر کو بڑے جذباتی رنگ میں تقریر کی اور حضورؓ کے لیے دعا کی تحریک کی۔خاکسار کو بھی اس جلسے میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
نومبر 1965ء میں خلافتِ ثالثہ کا انتخاب ہوا۔اس سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ستمبر 1965ءمیں مسجدمبارک میں درس القرآن دیا کرتے تھے۔ آپ کی رہائش کالج کے پرنسپل کوارٹرمیں تھی ۔وہاں سے خود گاڑی چلا کر مسجدمبارک میں آیا کرتے تھے۔ سکول اس وقت جماعت کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔بورڈنگ کے طلباء کے لیے وہاں درس میں شامل ہونا لازمی ہوا کرتا تھا۔ اور وہاں باقاعدہ حاضری ہوا کرتی تھی۔
انتخاب خلافت سے قبل حضرت نوّاب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی تحریر مسجد مبارک میں پڑھ کر سنائی گئی۔ احباب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات پر بہت افسردہ تھے۔
خلافتِ ثالثہ کا انتخاب رات کو بعد نماز عشاء مسجدمبارک میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ ناظرِ اعلیٰ کی زیر صدارت منعقد ہوا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کا انتخاب بطور خلیفۃالمسیح الثالثؒ ہوا۔تمام احباب نے بیعت کی سعادت حاصل کی۔
جب خاکسار تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوا تو 1954ء میں کالج لاہور سے ربوہ منتقل ہوا تھا۔ حضور ؒچونکہ والد صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے اس لیےمجھے بھی جانتے تھے۔ خاکسار جب اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے ملازم ہوا تو آپ میٹرک کی الوداعی تقریب میں شامل ہوتے رہے۔ اور مجھے فوراً پہچان کرکہا کرتے تھے کہ یہ تو کاٹھ گڑھی ہیں۔ اسی طرح 1966ءمیں دسویں جماعت کا امتحان دینے والے طلباء کو ملاقات کی غرض سے قصرِ خلافت لے جایا گیا تو مجھے ساتھ بھیجا گیا۔ اس موقع پر بھی مجھے دیکھتے ہی آپؒ نے فرمایا کہ یہ تو کاٹھ گڑھی ہیں۔ اور خاکسار کو یہ سن کر اپنے بزرگوں کی یاد آجاتی تھی کہ یہ سب ان کے ہی طفیل ہے کہ خلیفہ وقت کوہماری پہچان ہے۔
پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ متعدد مرتبہ دہم جماعت کی الوداعی تقریب میں آتے رہے۔ مارچ 1968ء میں اس وقت کے ہیڈ ماسٹر مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب نے خاکسار کو خاص طور پر حضور ؒکو قصرِ خلافت سے لانے کے لیے بھیجا۔ یہ محمد ابراہیم صاحب کی بھی خاص عنایت تھی کہ مجھے اس قابل سمجھا۔
1970ء میں حضورؒ سٹاف کے ساتھ گروپ فوٹو میں شامل ہوئے۔
آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں عظیم ہستیوں کے درجات بلند سے بلندتر کرتا چلا جائے اور ہمیں ان کی توقعات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ نظام خلافت کا سچا شیدائی بنائے۔ آمین
٭…٭…٭