الدِّیْنُ یُسْرٌ(اسلام آسانی کا دین ہے )
نبی کریمﷺ نے فرمایا تم آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو اور تم بشارت دینے والے بنو، نہ کہ نفرت پیدا کرنے والے
قرآن کریم کی ایک آیت ہےاِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ وَالۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَبَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّتَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ۔ (البقرة :165)ىقىناً آسمانوں اور زمىن کى پىدائش مىں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے مىں اور ان کشتىوں مىں جو سمندر مىں اُس (سامان) کے ساتھ چلتى ہىں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اس پانى مىں جو اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ذرىعہ سے زمىن کو اس کے مُردہ ہونے کے بعد زندہ کر دىا اور اُس مىں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جاندار پھىلائے اور اسى طرح ہواؤں کے رخ بدل بدل کر چلانے مىں اور بادلوں مىں جو آسمان اور زمىن کے درمىان مسخر ہىں، عقل کرنے والى قوم کے لیے نشانات ہىں۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے قوانین قدرت میں سے ایک اہم قانون کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ جوعروج و زوال یا دوسرے معنوں میں نیست و ہست ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاس آیت میں فرما یا کہ زمین و آسمان نہیں تھے اور اللہ نے ان کی تخلیق فرمائی۔پھر اگر دن ہے تو اس کے بالمقابل رات بھی بنائی۔آسمان سے پانی اتارا یعنی اگر دھوپ بنائی تو بارش کی بھی تخلیق فرما دی، زمین بنجر اور مردہ تھی تو اس کی روئیدگی کے سامان بھی بنا دیے۔ الغرض ایک زندگی کا ایسا چکر بنا دیا جس نے دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ پر بھی واضح کر دیا کہ نہ ہمیشہ عروج ہے اور نہ ہمیشہ زوال۔ دونوں حالتیں قانون قدرت کے تصرف میں ہیں اور یہ آپس میں اپنے وقت اور میعاد پر بدلتی رہتی ہیں۔
اب اگر اسی مفروضے کے تحت مذاہبِ عالم کو دیکھیں تو یقیناً ہر ذی شعور اس کو مانے گا کہ انبیا آتے رہے اور لوگوں کے دلوں کو خدا کے قریب کرتے رہے۔ اس تعلق کے قیام کے لیے وہ خدا سے الہاماً شریعتیں پاتے رہے۔مگر ہر نیکی کے دور کے بعد دوسرا دور آتا رہا۔ اور جب بھی نور کا دور ظلمت میں بدلا تو پھر سے نور کے دور کا آغاز ایک اور آنے والے نبی کے ذریعہ سے ہو گیا۔
یہ تسلسل چلتا رہا حتیٰ کے انبیا ء علیہم السلام نے قیامت کا ذکر فرما دیا کہ وہ وقت قریب آنے کو ہے جب یہ تمام دنیا لپیٹ دی جائےگی۔ مگر اس اختتام سے قبل اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو نجات کی آخری راہ بھی دکھا دی اور کامل تعلیم اسلام کی شکل میں نازل فرمائی۔ لیکن پھر وہی قانون قدرت غالب آیا جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ دنیا نے پھر سے ظلمت کی طرف سفر شروع کیا اور اس مقام تک آ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کامل مذہب کے احیا کے لیے اپنے مسیح و مہدی کو مبعوث فرمایا جس نے عوام کو ان طوقوں سے آزا د کروایاجس نے عوام کی کمر کو کچل دیا تھااور آپ علیہم السلام نے دین کا احیا نو اس رنگ میں کیا کہ خودساختہ رسومات کے بوجھ کو دور کر کے بندے اور خدا کی راہ کو آسان اور صاف کیا۔
آج کے مضمون کا عنوان بھی اسی بنا پر آنحضرتﷺ کی وہ حدیث مبارکہ ہے جس میں اسلام کا تعارف انتہائی مختصر اور جامع الفاظ میں کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی انتالیسویں روایت ہے:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، ولَنْ يُشَادَّ الدِّيْنَ اَحَدٌ إلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، واسْتَعِيْنُوا بِالْغَدْوَةِ والرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِن الدُّلْجةِِ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا دین آسان ہے اور جو کوئی بھی دین میں سختی کرے گا تو وہ (دین)اس پر غالب آجائے گا۔اس لیے سیدھے چلو اور(ایک دوسرے کے)قریب رہو اور بشارت دو۔اور (عبادت کے ذریعہ)صبح سے مدد چاہو اور رات سے اور کچھ پچھلی رات سے۔حضرت سید زین العابدین والی اللہ شاہ صاحبؓ اس روایت کی تشریح میں فرماتے ہیں:’’لَنْ يُشَادَّ الدِّينَ سے مراد اعمال میں تشدد و مبالغہ کرنا ہے۔ سَدِّدُوا سداد سے مشتق ہے۔ یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ قَارِبُواکے ایک تو معنے حدود کے قریب رہنا ہے اور دوسرے یہ معنی بھی ہیں کہ اعمال ایسے ہوں جو دن بدن اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوں۔ غَدْوَةِسے مراد دن کا پہلا حصہ۔ الرَّوْحَةِ دن کا پچھلا حصہ۔ الدُّلْجَةِ رات کا آخری حصہ۔ یعنی ان اوقات میں ذکرالٰہی و دعائوں سے مددلو۔ تا تمہیں قرب الٰہی کا مقام حاصل ہو۔ آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد قرآن مجید کے اس حکم کے ماتحت ہے۔ وَاذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ بُکۡرَۃً وَّاَصِیۡلًا۔ وَمِنَ الَّیۡلِ فَاسۡجُدۡ لَہٗ وَسَبِّحۡہُ لَیۡلًا طَوِیۡلًا( سورۃ الدھر :27،26)۔ امام بخاریؒ کا ان احادیث سے یہ سمجھا نامقصودہے کہ عقائد کوپیچیدہ در پیچیدہ بنا کر اعمال کی راہ میں مشکلات ڈال دینا یہ اسلام کی روح کے بالکل مخالف ہے۔ آنحضرتﷺ کا کبھی یہ مقصد نہیں ہوا۔‘‘(صحیح بخاری جلد اول صفحہ86)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ30؍جنوری 2015ء میں فرماتے ہیں:’’ پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لَا یُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’شریعت کا مدار نرمی پر ہے۔ سختی پر نہیں۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ404۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان) یعنی ہر ایک سے اس کی استعدادوں کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ شریعت نرمی اور آسانی دیتی ہے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍فروری 2015ء)اس زمانہ میں چونکہ اسلام کو چودہ سو برس سے زائد عرصہ گزر چکاہے اور دنیا میں ایک نیا نعرہ بلند ہو رہا ہے کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام کے احکامات میں کیا واقعی شدت پسندی ہے یا اس کے برعکس نرمی اور سہو لت کی تعلیم ہے۔
اسلام آسانی کا مذہب ہے
اس کو مختلف پیرائے سے دیکھتے ہیں: ارکان اسلام پانچ ہیں، اسلام نے ان تمام کو انتہائی آسان بنایا ہے۔
1:کلمہ طیبہ : اس کی بنیاد ایک ایسے جملہ پر رکھی جو ہر طرح سے کامل ہے جس میں ایک طرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت اور کامل خدا ہونے کا ذکر ہے تو دوسری طرف آنحضرتﷺ کو اس کامل خدا کا سچا نبی تسلیم کیا گیا ہےاور آنحضرتﷺ کو جو بھی انسان خداکا سچا اور کامل نبی مانے گا وہ اس سے قبل تمام انبیاء کی صداقت کا اقرار کرنے والا ہو گا۔ پس ایک جملہ میں ہی ہر چیز کو اپنے اندر جذب کر لیا۔صحیح بخاری کی ایک روایت میںہے:حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعَاذٌ رَدِيْفُهُ عَلَى الرَّحْلِ قَالَ: يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَسَعْدَيْكَ۔ قَالَ: يَا مُعَاذُ۔ قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا۔ قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَلَى النَّارِ۔حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ِ(بخاری کتاب العلم حدیث نمبر127)
2:نماز: اللہ تعالیٰ نے ہر بالغ پر پانچ وقت نماز فرض فرمائی۔ نیز یہ بھی فرما دیا کہ مرنے کے بعد جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ مگر کیا اس میں نرمی نہ دی؟ یقیناً دی۔ سب سے پہلے چھوٹے بچوں کو چھوٹ دی اس وقت تک کے لیے کہ جب ان میں یہ شعور پیدا ہو کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ بلا وجہ کے رٹے رٹائے الفاظ سے ہٹ کر مفہوم اور سمجھ کی خاطر ان معصوموں کو چھوٹ دی گئی۔ پھر عورتوں کو تکلیف کے ایام میں نماز سے رخصت دی۔ اور ایسی رخصت دی کہ ان پر ان تمام نمازوں کی قضا ادا کرنے کا بھی کوئی بوجھ نہ ڈالا گیا۔ مسافروں کو نصف نماز کی رخصت دی۔ سنن نسائی کی روایت ہے کہ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللّٰهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ نِصْفَ الصَّلَاةِ وَالصَّوْمَ، وَعَنِ الْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایایقیناً اللہ نے مسافر سے نصف نماز اور روزہ کو موقوف کر دیاہے اورحاملہ اور دودھ پلانے والی سے بھی۔
مشکل صورتحال میں نمازیں جمع کرنے کی سہولت دی۔ بیماروں اور عمر رسیدہ کے لیے بیٹھ کر حتیٰ کہ لیٹ کر نماز پڑھنے کی رخصت دی۔صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ۔حضرت عمران بن حصینؓ نے بیان کیا کہ مجھے بواسیر تھی تو میں نے رسول اللہﷺ سے نماز کے بارےمیں پوچھاتوآپؐ نے فرمایا کھڑے ہوکر نماز پڑھو اور اگر تم طاقت نہ رکھو تو بیٹھ کر اور اگر تم طاقت نہ رکھو تو پہلو پر ہی لیٹے ہوئے نماز پڑھ لو۔
نماز کے لیے وضو ضروری تھا مگر اس میں بھی تیمم والی رخصت رکھ دی کہ اگر پانی میسر نہیں یا بیماری عار بن رہی ہے تو تیمم کر لیا جائے۔
نماز کا ایک اَور پہلو جائے نماز ہے۔ اس میں بھی رخصت دی اور فرما دیا کہ الأرض كُلُّها مسجد (زمین ساری کی ساری نماز کی جگہ ہے)نماز کا ایک اور پہلو قبلہ کی تعیین ہے۔ اس میں بھی رخصت عطا فرمائی اور دو طرح رخصت فرمائی۔ ایک یہ کہ مسافر اگر گاڑی میں ہے تو کسی بھی جہت میں رخ کر کے نماز پڑھنا جائز فرمایا، اور دوسری رخصت ان لوگوں کو دی جن کو علم نہ ہو سکے کہ قبلہ کس طرف ہے ان کے لیے بھی یہی رخصت دی کہ کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھ لیں۔ سنن ابن ماجہ میں روایت ہےعن عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيْعَةَ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَتَغَيَّمَتِ السَّمَآءُ وَأَشْكَلَتْ عَلَيْنَا الْقِبْلَةُ، فَصَلَّيْنَا، وَأَعْلَمْنَا، فَلَمَّا طَلَعَتِ الشَّمْسُ إِذَا نَحْنُ قَدْ صَلَّيْنَا لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ، فَذَكَرْنَا ذَالِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ:فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ۔عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آسمان ابر آلود ہوگیا اور قبلہ کا معلوم کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگیا۔ ہم نے نماز پڑھ لی اور ہم نے (اس جگہ )علامت رکھ دی۔ جب سورج نکلا، تو کیا دیکھاہم نے قبلہ کے علاوہ کسی اورطرف نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے اس کا ذکر نبیﷺ سے کیا تواللہ نے یہ آیت نازل کی فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ(پس جس طرف بھی تم منہ پھیرو وہیں خدا کا جلوہ پاؤ گے)
نماز فرض ہے مگر اس کے ساتھ انسانی مجبوریاں بھی ہیں۔ مثلاً ایک شخص سو گیا اور مقررہ وقت پر نماز ادا نہ کر سکا تو اس کو بھی اجازت دی کہ جب آنکھ کھلے یا جب یاد آئے تب پڑھ لے۔صحیح بخاری کی روایت ہےعنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَالِكَیعنی حضرت انسؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا جو ایک نماز بھول گیا تو چاہیے کہ جب اسے یاد آئے پڑھ لے۔ اس کا کفارہ صرف یہی ہے۔ (بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ 27؍جنوری مارچ2017ء میں فرمایا کہ’’رکوع میں بعض لوگ شامل ہوتے ہیں۔ سوال پوچھتے ہیں کہ رکعت ہو جاتی ہے؟ عموماً تو ہر ایک کو پتا ہے،بچپن سے ہی بتایا جاتا ہے یعنی کوئی لیٹ آیا ہے۔ رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی رکعت ہو گئی۔ ‘‘اس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آ کر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو دوسرے علماء بیٹھے تھے ان سے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب نے اس امر کے متعلق کیا بیان کیا ہے وہ پتا کیا۔) آخر حضرت صاحب نے فیصلہ دیا اور فرمایا کہ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَا صَلوٰۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابکہ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو، ہرحالت میں اس کو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے مگر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا (امام کے بارے میں ہدایت کر رہے ہیں کہ) ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے۔ بہرحال مقتدی کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُمّ الکتاب ہے۔ لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے آخر رکوع میں آ کر ملتا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہو گئی اگرچہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پا لیا اس کی رکعت ہو گئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں وہ اُمّ الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آ کر ملا ہے تو چونکہ دین کی بناء آسانی اور نرمی پر ہے۔ (دوسرا یہ بھی حکم ہے کہ دین میں آسانی اور نرمی ہے) اس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔ گو سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے۔ (یعنی دل رکتا ہے) اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پا لیا اور ایک حصہ میں بسبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے۔ ہاں جو شخص عمداً سستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اس کی نماز ہی فاسد ہے۔(الحکم 24؍فروری 1901ء صفحہ 9 جلد 5 نمبر 7)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2017ء)
3۔ روزہ : ارکان اسلام کا تیسرا رکن روزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی نماز کی طرح فرض قرار دیاہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس میں بھی حالات کے مطابق رخصت عطافرمائی۔ جس آیت میں روزہ کی فرضیت فرمائی اس سے اگلی ہی آیت میں مسافر اور مریض کو رخصت عنائیت فرما دی کہ وہ دیگر ایام میں روزہ رکھ لیں۔جیسا کہ نماز کے حصہ میں سنن نسائی کی روایت درج کی جا چکی ہے کہ مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی ماں ) کو روزہ سے رخصت دی۔ اسی طرح عورتوں کے مخصوص ایام میں بھی عورتوں کو رخصت دی اور فرمایا کہ پورے سال میں کسی بھی وقت میں یہ روزہ پورے کر لیں۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ عَنْ مُعَاذَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْحَائِضِ تَقْضِي الصَّوْمَ، وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ۔ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ، وَلَكِنِّي أَسْأَلُ۔ قَالَتْ: كَانَ يُصِيبُنَا ذَالِكَ، فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ۔
معاذہ عدویہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت پر روزہ کی قضا واجب ہے،مگر نماز کی قضا واجب نہیں؟ حضرت عائشہ ؓنے پوچھا کہ کیا تم ’حروریہّ ‘ہو؟میں نے عرض کیا میں ’حروریہ‘ نہیں صرف پوچھنا چاہتی ہوں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جب ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم کی سختی کے ساتھ نہیںاور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں اور بہت سی باتیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے۔ پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دو تو چھوڑ دو جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو۔ پس فرمایا مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا جو بیمار ہو اَوْ عَلٰی سَفَرٍ یا سفر پر ہو فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَتو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا۔ یُرِیْدُاللّٰهُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ سختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا۔ اپنی جان کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے۔ اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا…پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔جو اللہ چاہے جس حد تک سختی ڈالےاسی حد تک قبول کریں اس سے آگے بڑھ کر زبردستی آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍جنوری 1996ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ3؍جون 2016ءمیں فرمایا:’’سفر اور بیماری میں روزہ جائز نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں ’’مجھے خوب یاد ہے کہ غالباً مرزا یعقوب بیگ صاحب جو آج کل غیر مبائع ہیں اور ان کے لیڈروں میں سے ہیں ایک دفعہ باہر سے آئےعصر کا وقت تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زور دیا کہ روزہ کھول دیں اور فرمایا سفر میں روزہ جائز نہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ بیماریوں کا ذکر ہوا تو فرمایا۔ ہمارا یہی مذہب ہے کہ رخصتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دین سختی نہیں بلکہ آسانی سکھاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بیمار اور مسافر اگر روزہ رکھ سکے تو رکھ لے، ہم اس کو درست نہیں سمجھتے۔ اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محی الدین ابن عربی کا قول بیان کیا کہ سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک ایسی حالت میں رکھا ہوا روزہ دوبارہ رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا ہاں ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ (خطباتِ محمود جلد 13 صفحہ 37)‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍جون2016ء)
4:زکوٰۃ:اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ جس کے بارےمیں فرمایا کہ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ۔یعنی نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جو بھلائی بھی تم خود اپنی خاطر آگے بھیجتے ہو اسے تم اللہ کے حضور موجود پاؤ گے۔ (البقرہ :111)
اس میں بھی سہولت دی کہ زکوٰۃ فرض تو ہے مگر صاحب نصاب پر یعنی جس کے پاس ایک خاص حد تک مال و دولت پورا سال پڑی رہے اور وہ پورا سال اس کو استعمال نہ کرے تو اس پر 2.5% زکوٰۃ سال میں صرف ایک مرتبہ ادا کرے۔
اور اس کا نصاب یہ ہے کہ جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی ساڑھے سات تولے سونا یا اس کے برابر رقم ہو اور اس کا مالک اس کو پورا سال استعمال نہ کرے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔یہی حکم عورتوں کے زیور پر بھی ہے لیکن اس میں بھی رخصت دی کہ اگر کوئی عورت اپنے ساتھی یا کسی بھی دوسرے کو وہ زیور پہننے کے لیے دیتی ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی۔
5: حج : پانچواں رکن حج ہےیعنی بیت اللہ کی زیارت اور اس کے مفوضہ امور بجا لانا۔ جب تک اسلام صرف بلاد عرب میں تھا تب تک تو ہر مسلمان سال میں ایک مرتبہ حج کی توفیق پا سکتا تھا مگر جوں جوں اسلام اطراف عالم میں پھیلا تو ہر کسی کے لیے ہر سال حج کرناممکن نہ تھا اور لاکھوں ایسے تھے جن کے پاس ساری عمر میں بھی اتنا روپیہ پیسہ اکٹھا نہ ہو سکتا تھا کہ وہ حج بیت اللہ کر سکیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب حج کے احکام نازل فرمائے یعنی وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ (آل عمران:98) تو ساتھ ہی یہ فرما دیا مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل عمران:98) کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو اسی کے لیے یہ واجب ہے۔ سنن ابن ماجہ میں ایک روایت ہے جو اس کی وضاحت کر دیتی ہےعَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟ قَالَ: الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ فَمَا الْحَاجُّ؟ قَالَ: الشَّعِثُ، التَّفِلُ وَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا الْحَجُّ؟ قَالَ: الْعَجُّ، وَالثَّجُّ قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي بِالْعَجِّ: الْعَجِيجَ بِالتَّلْبِيَةِ، وَالثَّجُّ: نَحْرُ الْبُدْنِ۔یعنی حضرت ابن عمر ؓنے بیان کیا کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس گیا اور عرض کیا یارسولؐ اللہ! کیا چیزحج واجب کرتی ہے؟ آپ ؐنے فرمایا زادراہ اور سواری۔ اس نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! حج کرنے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس کے سر کے بال کھلے ہوں اور خوشبو نہ لگی ہو۔ ایک اورشخص کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسولؐ اللہ! حج کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’عَجْ ‘‘ اور’’ ثَجْ ‘‘۔راوی وکیع کہتے ہیں یعنی تلبیہ کے الفاظ کو بلند آواز سے ادا کرنا عَجْ اور قربانی کے جانور ذبح کرنا ثَجْ ہے۔ (سنن ابن ماجه کتاب المناسک)پھر ساتھ ہی اگلی روایت میں مزید وضاحت فرما دی حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایااللہ کے اس قول مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل عمران:98) (یعنی) جو بھی اس (گھر) تک جانے کی استطاعت رکھتاہواس سے مرادزادِ راہ اور سواری ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب المناسک)اب جہاں یہ آسانی تو فرما دی کہ سفر کا خرچ اور سواری ہے تو حج کرو۔ وہاں ایسا بھی تو ممکن تھا کہ سواری اور زادراہ ہو مگر صحت نہ ہو تو وہاں کیا کیا جائے۔اس معاملہ میں بھی سہولت فرما دیفَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَشْعَمَ …… فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللّٰهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ یعنی کہ خثعم(قبیلہ) کی ایک عورت آئی اس (خاتون) نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! اللہ کا اپنے بندوں پر فرض کیا ہواحج نے میرے والد کو پایا ہے جبکہ وہ بوڑھا شیخ ہے وہ سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔(بخاری کتاب الحج)پھر جو لوگ سفر کر کے آ تو گئے مگر طواف کعبہ اور سعی کی طاقت نہیں رکھتے ان کو سواری پر بیٹھ کر طواف اور سعی کی اجازت عنایت فرمائی۔ پھر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو اپنی زندگی میں تو مالی فراخی یا موقع نہ مل سکاکہ وہ حج بیت اللہ کو جاتے مگر ان کی اولاد کو یہ سہولیات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ تو ایسی صورتحال میں بھی اجازت دی کہ اگر کوئی اپنے وفات شدہ افراد کی طرف سے حج کرنا چاہے تو وہ ان کی طرف سے حج کر سکتا ہے۔
سنن ترمذی میں روایت ہےجَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا ( ترمذی کتاب الحج)کہ ایک عورت نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے عرض کیا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور انہوں نے حج نہیں کیا ۔کیا میں ان کی طرف سے حج کروں ؟آپؐ نے فرمایا: ہاں اس کی طرف سے حج کر لو۔
آنحضرتﷺ کی سیرت
جس نبی پر بھی کوئی شریعت نازل ہوتی ہے وہ اس کی عملی تصویر ہوتا ہے۔ اب مختصراً آنحضرتﷺ کی سیرت کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کیا آپؐ کی ذات اور آپؐ کے ارشادات شدت پسندی کی تعلیم پر مبنی تھے یا نہیں۔اس ضمن میں صحیح بخاری کے آغاز میں ہی ایک روایت ملتی ہےعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلَا تُنَفِّرُوا (بخاری کتاب العلم حدیث نمبر 69)حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو اور تم بشارت دینے والے بنو نہ کہ نفرت پیدا کرنے والے۔پھر صحیح مسلم کی روایت ہے:عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: أُتِيَ اللّٰهُ بِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِهِ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا، فَقَالَ لَهُ: مَاذَا عَمِلْتَ فِي الدُّنْيَا؟ قَالَ: وَلَا يَكْتُمُونَ اللّٰهَ حَدِيثًا، قَالَ: يَا رَبِّ آتَيْتَنِي مَالَكَ، فَكُنْتُ أُبَايِعُ النَّاسَ، وَكَانَ مِنْ خُلُقِي الْجَوَازُ، فَكُنْتُ أَتَيَسَّرُ عَلَى الْمُوسِرِ، وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ، فَقَالَ اللّٰهُ: أَنَا أَحَقُّ بِذَا مِنْكَ، تَجَاوَزُوا عَنْ عَبْدِي (مسلم کتاب المساقاۃ حدیث3887)حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایسا بندہ لایا جائے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، تم نے دنیا میں کیا عمل کیا؟ ….وہ جواب دے گا کہ…… اے میرے ربّ! تو نے مجھے اپنا مال دیا میں لوگوں سے خرید و فروخت اور لین دین کرتا تھا اور درگزر کرنا اور نرم سلوک کرنا میری عادت تھی۔ مَیں خوشحال اور صاحب استطاعت سے آسانی اور سہولت کا رویہ اختیار کرتا اور تنگدست کو مہلت دیا کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھے اس بات کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ مَیں اپنے بندے سے درگزر سے کام لوں، میرے بندے سے درگزر کرو۔پھر اسی پیرائے میں ایک کامل ارشاد فرما دیا اور یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُوْنُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُیعنی حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:نرمی جس کسی کام میں بھی ہو تو وہ اسے خوبصورت کر دیا کرتی ہے اور جس چیز میں سے نرمی نکال لی جائے تو وہ اسے خراب کر دیتی ہے۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب حدیث:6497) ایک اور روایت میں فرمایا:عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ، عَلَى كُلِّ قَرِيْبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ (سنن ترمذی، صفۃ القیامۃ۔حدیث نمبر 2488)حضرت ابن مسعود ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کیا مَیں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے، ان کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے اور ان کو سہولت دینے والا ہے۔
پس ان سب روایا ت کو بیان کرنے کا مقصد صرف اس بات کا ازالہ کرنا تھا کہ اسلام کبھی بھی شدت پسندی کا مذہب نہیں تھااور نہ ہی ہے۔ لوگوں نے جب اپنی آراءکو مذہب کا رنگ دے کر اس کی اصل اور پاک تعلیم کو زنگ آلود کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کو مبعوث فرما کر اس دین کی حفاظت فرمائی۔ اور آپ علیہ السلام کے ذریعہ دین کی اصل غرض کو واضح فرمایا کہ اسلام دراصل خدا سے ملانے کا ذریعہ ہے، ولی پرست نہیں بلکہ ولی بنانے والا ہے۔
ایسی ہی ایک مثال ہمیں آنحضرتﷺ کی احادیث مبارکہ میں بھی ملتی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ نرمی ہی سے تعلق بنتا ہے سختی ہمیشہ تعلق کو توڑتی ہے جوڑتی نہیں۔ حضرت مُعاویہ بن حکم اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نماز میں رسول کریمﷺ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسی اثنا میں ایک شخص نے چھینک ماری تو مَیں نے بلند آواز سے یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہہ دیا۔ اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے جو مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ مَیں نے کہا تم مجھے کیوں تیز نظروں سے گھورتے ہو۔ اس پر لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیے۔ جب مَیں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو مَیں خاموش ہو گیا۔ جب رسول کریمﷺ نماز سے فارغ ہوئے توکہتے ہیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مَیں نے آپؐ سے پہلے اور آپ کے بعد ایسا معلم نہیں دیکھا جو اتنے اچھے انداز میں سکھانے والا ہو۔ خدا کی قسم !نہ تو آپؐ نے مجھے تیوری چڑھا کر دیکھا اور نہ سرزنش کی اور نہ ہی ڈانٹا بس اتنا کہاکہ نماز میں لوگوں سے کسی قسم کی بات چیت مناسب نہیں۔ نماز تو صرف تسبیح اور تکبیر اور قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے ہوتی ہے۔(صحیح مسلم،کتاب المساجد، روایت نمبر 1087)پس کیا ہی خوب نرم اور محبانہ انداز میں سمجھایا جس سے سمجھنے والا بھی سمجھ گیا اور اس کا دلی تعلق نماز سے اور بھی بڑھ گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ30؍جنوری 2015ءمیں فرماتے ہیں:’’پس اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو اعضاء دئیے ہوئے ہیں، جو طاقتیں دی ہوئی ہیں اس کے قویٰ کی برداشت اور طاقت کے مطابق اپنے احکامات پر عمل کرنے کی انسان سے توقع کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی ہماری طرح نہیں ہے کہ اپنا رعب قائم کرنے کے لئے حکم دے دئیے۔ ان افسروں کی طرح جو اپنے ماتحتوں کو تنگ کرنے کے لئے بعض حکم دیتے ہیں اور نہ عمل کرنے کی وجہ سے ان کو ذلیل و رسوا کرتے رہتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمت تو اپنے بندوں پر بیشمار ہے۔ انسان عمل کرے جن باتوں کے عمل کرنے کا حکم دیا ہے تو کئی گنا اجر دیتا ہے اور ہر ایک کی صلاحیت کے مطابق اس سے عمل کی توقع رکھتا ہے اور بیشمار اجر دیتا ہے۔ پس کیا ایسا خدا جو اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہو اس کی باتوں پر عمل کرنے کی انسان کو اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ یقیناً ایک حقیقی مومن اس کے لئے کوشش کرے گا اور کرنی چاہئے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍فروری 2015ء)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ 9؍اگست 2013ءمیں فرماتے ہیں:’’آج اسلام پر اعتراض ہوتے ہیں کہ نعوذ باللہ اس کی تعلیم میں سختی ہے۔ دہشتگردی اور فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ……آج یہ جماعت احمدیہ کا ہی کام ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف اسلام پر کئے گئے حملوں کا دفاع کریں بلکہ دلائل و براہین سے دشمن کا منہ بھی بند کریں۔ یہ ہمارا کام تو بہرحال ہے لیکن خدا تعالیٰ نے خود بھی ایسے انتظام کئے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے انصاف پسند غیرمسلموں کو بھی کھڑا کر دیتا ہے جو اسلام کی خوبیوں کو بتانے لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک کیتھولک عیسائی ہیں، پروفیسر ہیں، سکالر ہیں۔ انہوں نے ڈیلی ٹیلیگراف (Daily Telegraph) میں گزشتہ دنوں مضمون لکھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی تعریف کی اور ایتھی ازم (Atheism) کے خلاف اور یہاں جو قومیت پسند تنظیمیں ہیں اُن کے خلاف باتیں کیں اور یہ لکھا کہ مسلمانوں کی جو اعلیٰ روایات ہیں، اعلیٰ تعلیمات ہیں ان کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔آجکل مذہب اور اسلام پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر یہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا یہ کام تو آج ہمارا ہے کہ دین کی ضرورت اور زندہ خدا کے وجود کو دنیا پر ثابت کریں۔ کیونکہ ایک حقیقی مسلمان ہی اس کام کو سرانجام دے سکتا ہے اور زمانے کے امام سے جڑ کر احمدی ہی اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھنے والے اور اُسے دنیا میں پھیلانے والے ہیں اور ہونے چاہئیں۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍اگست2013ء)
اسی دعا کے ساتھ مضمون کو ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم بھی حقیقی اسلام کو سمجھ کر خدا سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں اور دوسروں کو بھی حقیقی تعلیم سے آگاہ کرنے والے ہوں تا نہ صرف ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے والے ہوں بلکہ دوسروں کے لیے بھی خیر کا باعث ہوں۔
٭…٭…٭