الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ

(حصہ چہارم ۔ آخری)

مکرم راشد بلوچ صاحب کے ایک تحقیقی مضمون کا سلسلہ چند شماروں سے جاری ہے جس میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

بستی رنداں اور بستی سہرانی کے صحابہ کرامؓ

اس بستی سے 7؍افراد کے وفد کو 1901ء میں قادیان جانے کی توفیق ملی۔ لمبی مسافت طَے کرکے یہ وفد بٹالہ پہنچا تو مولوی محمد حسین بٹالوی وہاں بیٹھا ہو اتھا۔ اُس نے پوچھا کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان سے آئے ہیں اور امام مہدی کی زیارت کرنے قادیان جا رہے ہیں۔ اُس نے کہا کہ مرزا غلام احمد میرا ہم مکتب رہا ہے۔وہ جھوٹا مکار اور ٹھگ ہے(نعوذ باللہ)آپ وہاں جا کر کیا کریں گے، بہتر ہے کہ یہیں سے واپس ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ اُن سے مل کر ہی واپس جائیں گے۔ جب قادیان پہنچے تو ایک سکھ سے پوچھاکہ ہم نے مرزا صاحب سے ملنا ہے۔ اُس نے لباس سے سمجھا کہ یہ دیہاتی لوگ ہیں، زمین وغیرہ کا معاملہ ہوگا اور مرزا امام الدین وغیرہ کا پوچھ رہے ہیں، لہٰذا وہ اُن کے ڈیرے پر لے گیا۔ مرزا امام الدین کے ڈیرے پر نوکر چاکر بیٹھے بھنگ کا گھوٹا لگا رہے تھے اور انتہائی بری مجلس لگی ہوئی تھی۔ یہ احباب وہاں پہنچ کر بہت پریشان ہوئے کہ ہم نے یونہی اتنی مسافت طے کی۔ اس پر وہ سکھ سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ ایک اَور مرزا صاحب بھی ہیں۔ پھر اُس نے مسجد مبارک کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہاں مرزا صاحب مسجد میں آپ کو ملیں گے۔ یہ دوست سیڑھیاں چڑھ کر مسجد میں تشریف لے گئے تو نماز مغرب کا وقت تھا۔ دیکھا کہ کوئی نہایت ہی نیک و نرالا انسان سجدے میں پڑا ہوا ہے۔یہ انتہائی بےقرار تھے کہ حضور سجدہ سے سر اٹھائیں تاکہ ہم دیدار کریں۔ حضورؑ کے چہرے سے معصومیت ٹپک رہی تھی۔ حضورؑ نماز سے فارغ ہوئے تو سب نے السلام علیکم عرض کی۔ حضرت مولوی محمد عیسیٰ صاحبؓ نے امیر وفد کی حیثیت سے عرض کیا کہ حضورہم آپ کی تحریری بیعت کر چکے ہیں اور اب دستی بیعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ حضورؑ نے انتہائی پُرشوکت الفاظ میں وعلیکم السلام فرمایا۔ پوچھا:کہاں سے آئے ہیں؟ عرض کیا کہ ڈیرہ غازی خان سے۔ حضوؑر بہت خوش ہوئے کہ اتنے دُور افتادہ مقام پر بھی ہمارا پیغام پہنچ چکا ہے۔ پھر یہ وفد ایک ہفتہ تک قادیان میں مقیم رہا۔ اس وفد میں درج ذیل سات احباب شامل تھے:

1۔حضرت مولوی محمد عیسیٰ صاحب رندؓ بستی رنداں کے وہ مبارک وجود ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام سنتے ہی آمنا و صدقنا کہا۔ آپؓ رند قوم میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ رزق حلال اور صدق مقال آپؓ کی خصوصیات تھیں۔ بستی رنداں میں امام الصلوٰۃ تھے۔ تقویٰ و طہارت، عشق رسولؐ اور عشق قرآن کی نعمت سے مالامال تھے۔ قبول احمدیت سے قبل اکثر امام مہدی کی زیارت سے سرفراز ہونے کی دعا کرتے تھے۔ یہ دعا قبول ہوئی۔ خلافت کے عاشق تھے اور وفات سے قبل اپنی اولاد کو آخر دَم تک خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کی۔ آپؓ نے 1916ء میں نماز فجر کے دوران عین حالتِ سجدہ میں وفات پائی۔ اولاد میں 5بیٹے اور 3بیٹیاں چھوڑیں۔

2۔حضرت اللہ بخش صاحب رندؓ

3۔حضرت مولوی جان محمد صاحبؓ (المعروف حاجی جندوڈا صاحب)صاحبِ کشف و رؤیا تھے۔ قرآن مجید میاںحسن صاحب سے پڑھا۔ والدین بچپن میںہی فوت ہوگئے تو بارہ چودہ سال کی عمر میں آپ گھرسے نکل کھڑے ہوئے اور پھرتے پھراتے موضع نانک پور ضلع مظفرگڑھ میں ایک پیر صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں ایک مولوی صاحب سے کچھ پڑھتے رہے اور بچوں کوقرآن مجید بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں امام مہدی کا ذکر آیا تو آپؓ کے استاد نے اپنے شاگردوں سے فرمایاکہ عین ممکن ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی امام مہدی کودیکھے۔

آپؓ آزادخیال آدمی تھے۔ جب وہاں دل نہ لگا تو وطن کی طرف مراجعت فرمائی۔ چونکہ عالم آدمی تھے اس لیے مقامی لوگوں کے اصرار پر بستی بزدار میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس تیس سال کی ہوگی۔ ایک بیوہ سے شادی کرلی مگرپچیس برس تک اس سے اولاد نہ ہوئی۔ اولاد کے حصول کے لیے دعاؤں میں لگے رہے تو بہت سے بزرگوںسے کشفی حالت میں ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایاکہ آپؓ کی اولاد نہ ہوگی۔ بالآخر ارادہ کیاکہ حضرت سلطان باہوؒ کی خانقاہ پرجاکردعا کریں۔ روانگی سے ایک رات پہلے رؤیا میں سلطان باہوؒ ملے اورفرمایاکہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں، اس بیوی سے اولاد نہ ہوگی۔ اس پر آپؓ نے نکاح ثانی کے لیے دعا شروع کی تو کچھ عرصے بعد چاروںخلفائے راشدین کو خواب میں دیکھا جن کی طرف سے ایک چھوٹا سا خوبصورت دوپٹہ آپ کوعطاہوا۔اسی رؤیاکی بِنا پرآپ نے اپنے ایک پرانے دوست کوپیغام دیا جن کی چھوٹی سی لڑکی تھی۔ دوست نے کہاکہ آپؓ کی عمر زیادہ ہے اورلڑکی چھوٹی ہے، دوسرے یہ کہ میرے پاس اس لڑکی کے سوا کوئی اولاد نہیں اس لیے میں اس لڑکی کواتنی مسافت پرنہیںدے سکتا۔آپؓ نے پوچھاکہ اگرآپ کی مزید اولاد ہوجائے تو پھر بھی مجھے لڑکی نہ دوگے؟ اُنہوں نے اس شرط پرلڑکی دینے پر آمادگی ظاہر کردی۔ خدا کی شان کہ کچھ عرصے میں اُن کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی اَور پیدا ہوگئے تو اُنہوں نے آپؓ کانکاح اپنی لڑکی سے کردیا۔ اس شادی سے مولوی صاحبؓ کے ہاں تین لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پھرآپؓ نے مستقل رہائش بستی بزدار میں اختیار کرلی اور درس و تدریس کے لیے اپنی ذاتی زمین پر ایک مسجد بھی بنوائی۔

ایک روز آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک اونچے مکان پرایک نہایت خوبصورت اور وجیہ شخص ٹہل رہاہے اورکہہ رہاہے کہ ایک شخص پہلے آیا اور اب مَیں آیا ہوں اور کہ اس بات کا اعلان کردو۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ تھے۔ چنانچہ آپؓ اور حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ نے اکٹھے تحریری بیعت کرلی۔ آپ دونوں کسی زمانے میںہم درس بھی رہے تھے۔ پھر آپؓ اور حضرت اللہ دتہ صاحبؓ دونوں بستی مندرانی جاکر حضرت شاہ محمد صاحبؓ سے ملے اور حضورؑ کے حالات معلوم کیے۔ اس کے بعد حضرت مولوی جندوڈا صاحبؓ اور حضرت اللہ بخش صاحبؓ قادیان گئے۔ کچھ سفر پیدل کیا اور کچھ سواری پر۔ جب واپس گاؤں آئے تو شدید مخالفت ہوئی۔ آپؓ کی مسجد کو گرانے کی دھمکی بھی دی گئی۔ جو لوگ آپ کی مالی امداد کرتے تھے انہوں نے امداد بند کردی تو آپؓ محنت مزدوری کرکے گزارہ کرنے لگے۔

آپؓ نے مجذوبانہ زندگی بسر کی۔ اکثر مسجد میں زمین پر ہی سوجاتے۔ رات کاآخری حصہ اکثر خدا تعالیٰ کی یاد میں گزارتے۔ ابتدا سے ہی اوّل وقت پر نماز کے عادی تھے۔ اذان دیتے، اگر کوئی آجاتا تو باجماعت نمازپڑھتے وگرنہ اکیلے پڑھ لیا کرتے۔ غرضیکہ آپ نے تقویٰ سے عمربسرکی۔

4۔حضرت محمد عظیم صاحب سہرانیؓ

5۔حضرت اللہ دتہ صاحب سہرانیؓ

6۔حضرت حاجی فتح محمد صاحبؓ

7۔حضر ت مہر خان صاحب رندؓ

………٭………٭………٭………

رائل جیلی کے فوائد اور احتیاط

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍دسمبر 2014ء میں مکرم ڈاکٹر نذیر احمد مظہر صاحب کے قلم سے رائل جیلی کے فوائد اور اس کے استعمال میں احتیاط ملحوظ رکھنے کے حوالے سے ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

رائل جیلی سفید یا پیلی رنگت میں گاڑھے دودھ کی طرح ہوتی ہے۔ یہ بدذائقہ اور اس کی بُو پنیر کی طرح ہوتی ہے۔ چھتے سے حصول کے بعد جلد ٹھنڈی خشک جگہ محفوظ نہ کیا جائے تو خراب ہو جاتی ہے۔ رائل جیلی کا استعمال تھوڑی مقدار سے شروع کرنا چاہیے، بعد میں بڑھالیں۔ شوگر کا مریض جو شہد میں ملی ہوئی رائل جیلی استعمال نہ کرسکتا ہو تو خالص مائع رائل جیلی یا سافٹ جِل گولیوں کی شکل میں استعمال کرلے۔

شہد کے چھتے میں شہد اوررائل جیلی کے علاوہ Bee pollen بھی ہوتی ہے جوکہ کارکن مکھیوں کی خوراک ہے۔ اس کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالخصوص مَردوں میںسپرم میں بہتری پیدا کرتی ہے۔ اس میں وٹامنز، معدنیات،نیوکلک ایسڈاور سٹیرائیڈ ہارمونز پائے جاتے ہیں اور یہ صحت و طاقت اور مدافعتی نظام میں بہتری پیدا کرتی ہے۔

اگر کسی کو شہد کی مکھی کی تیار کردہ اشیاء یعنی شہد یا Bee Pollenسے الرجی ہو، نیز پاپولر یا صنوبر کے درختوں سے الرجی ہو تو وہ رائل جیلی کا استعمال مت کریں۔

جو لوگ کولیسٹرول لیول کم کرنے کی یا خون کو جمنے سے روکنے والی یا خون کو پتلا کرنے والی ادویات استعمال کرتے ہیں تو چونکہ رائل جیلی ان ادویات کے اثرات کو اَور زیادہ بڑھا دیتی ہے لہٰذا نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔ اسی طرح چھاتی کے کینسر میں رائل جیلی کا استعمال نہ کریں۔ بیمار افراد کو طبّی راہنمائی کے بغیر رائل جیلی استعمال نہیں کرنی چاہیے۔

رائل جیلی سے جسمانی طاقت اور مدافعتی نظام میں اضافہ ہوتاہے۔ اس کے علاوہ یہ بہت سی بیماریوں جیسا کہ ذیابیطس، جوڑوں میں درد، ہائی بلڈپریشر، ڈیپریشن اور کولیسٹرول کی زیادتی کے خلاف جدوجہد کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے استعمال کا بھرپورفائدہ تب ہی ہوگا جب ساتھ باقاعدہ ورزش کریں، کوئی کھیل کھیلیں، یوگا کریں اور ایسے کھانے کھائیں جن میں چکنائی کم ہو۔ نیز پانی کا بکثرت استعمال کریں۔ اسی طرح ٹِن پیک اور سوڈا جوس وغیرہ سے پرہیز کریں، رات کو جلدی سوئیں اور صبح جلدی اٹھیں۔ اس طرح ہی رائل جیلی کے استعمال سے زندگی کو ایک نیا رُخ مل سکتا ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button