حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا انٹر ویو جوبی بی سی ریڈیو کی اردو سروس کے پروگرام ’سیر بین‘ میں 25مئی1984ء بروز جمعۃ المبارک نشر ہوا۔ یہ انٹرویو بی بی سی کے نمائندہ محمد غیور نے کیا۔
سوال حکومتِ پاکستان کے نئے Ordinance پر آپ کا کیا ردّ عمل ہے؟
حضور ؒ
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ میں آنہیں سکتی کہ اس قسم کے Ordinanceکو Legal Document یا قانون قرار دینا کس طرح ممکن ہے؟ کیونکہ بنیادی انسانی حقوق میں مداخلت اور اس قسم کی کھلی کھلی۔ اور پھر ایک ایسا انقلابی واقعہ ہوا ہے اس نئے دَور میں جس کا دنیا نے نوٹِس نہیں لیا۔ اور تعجب ہے کہ Human Rightsکی خاطر آواز دینے والے ایک ایک آدمی کو Sufferingہو تووہ شور مچا دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہوا ہے کہ پہلے سچائی نکلوانے کے لئے Tortureکرتے رہے ہیں لوگ ۔اس کے خلاف بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں لوگ۔ لیکن اب یہ Tortureہے جھوٹ نکلوانے کے لئے۔ یعنی اس بات کی سزا دی جائے گی کہ تم سچ کیوں بول رہے ہو۔ میرا مذہب جو ہے وہ تو مَیں بہتر جانتا ہوں۔ اگر مَیں اپنے مذہب کو اسلام سمجھتا ہوں توجب تک مجھے سمجھایا نہ جائے کہ تمہارا مذہب اسلام نہیں ہےاور مَیں سمجھ نہ جاؤں ،اگر مَیں کہوں گا کہ مَیں غیر مسلم ہوں تو جھوٹ بول رہا ہوں۔
سوال لیکن یہ کہ آپ کریں گے کیا؟
حضور ؒ
ہم نے جو کیا ہے وہ تو وہی ہے جو مذہبی جماعت کو کرنا چاہئے۔ ہم ایک سیاسی جماعت تو نہیں ہیں۔ اور ہم پورا یقین رکھتے ہیں ایک زندہ خدا میں جس نے ہمیں پہلےکبھی بھی نہیں چھوڑا۔ یہ پہلا واقعہ تو نہیں ہے۔ سو سال سے ہم مظالم بر داشت کر رہے ہیں اپنے ایمان کی خاطر اور نہیں ٹلے وہ بات سمجھنے سے اور یقین رکھنے سے جس پر ہم یقین رکھتے تھے۔ تو ہمارا ردّ عمل یہ ہوا کرتا ہے کہ ہم خدا کی طرف جھکتے ہیں۔ چنانچہ اس Ordinanceکے بعد ایک ردّ عمل تو یہ ہوا کہ ہر احمدی مسجد سےاس قدر گریہ و زاری کا شور بلند ہوا ہے کہ آذان کی کمی اس گریہ و زاری نے پوری کی۔
سوال لیکن عملی طور پر اگردیکھیں تو آپ نے مسجد میں آذان دینی بند کر دی ہے، مسجد کو مسجد کہنا بند کر دیا ہے۔
حضور ؒ
مسجد کہنا بند کر دیا اَور بات ہے ۔ مسجد پر مسجد لکھا ہونا یہ اَور بات ہے۔ یعنی واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے آقا و مولا ہیں اور آپ کی سنّت ہم نے پکڑنی ہے۔ آپ ؐ کے زمانہ میں ایسا دَور بھی آیا کہ بلند آواز سے اللہ اکبر نہیں کہہ سکتے تھے مسلمان۔ اور دار ارقم میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔تو عبادت نہیں چھوڑی، خدا کا نام بلند کرنا نہیں چھوڑا۔ مگر اُس حد تک کہ وہ آواز پھیلے اُس حد تک وہ بند کرنا پڑا۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے زمانہ میں ابتدامیں مسجدیں بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ صحن خانہ میںبھی نہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق کی مسجد کو داخل ہو کر اندر شہید کیا گیا کہ صحن میں بھی تم مسجد بناتے ہو؟ یہ دَور گزرے ہیں پہلے، یہ کوئی نیا واقعہ تو نہیں مذہب کی تاریخ میں ۔اور ہم نمونہ وہیں سے پکڑیں گے جو ہمارے بزرگ ،ہمارے مولا اور مرشد ہیں۔
سوال لیکن یہ جو پاکستا ن میں خاص طور سے اور دنیا میں اور بہت سے ملکوں میں یہ جو Islamizationکا دَور شروع ہوا ہے کیا اُس کا یہ ردّ عمل ہے ؟
حضور ؒ
جی مَیں سمجھ گیا ہوں بہت اہم سوال ہے۔سوال یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے یہ بات نمایاں نظر آرہی ہے کہ سیاسی مقاصد کے لئےمذہب کو استعمال کر نےکا رجحان بڑھ رہا ہے اورجو نہایت خطرناک ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ چیز جس کو باہر کی دنیا Clergyکہتی ہے ۔ اسلام میں کوئی Institutionalized clergy نہیں ہے۔ یعنی ملّائیت کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ لیکن اُس کو وہ زور پکڑتی ہے پھر۔ جب Certificateاسلام کے، خدا کی بجائے مُلّاں سے لینے پڑیں گے تو اُس کی طاقت ابھرے گی۔ اور وہ طاقت ایک منفی صورت میں استعمال ہوتی ہے Stateکے اندر۔ جس کے نتیجہ میں مَیںتو یہ سمجھ رہا ہوں کہ یہ ایک انٹرنیشنل سازش ہے اسلام کے خلاف۔ جب اسلام کے نام پرایک مُلّائیت کو عروج ملے گا تو بظاہربعض لوگ سمجھتے ہیں کہ Communismکے خلاف ہمیں ایک Instrumentایک ذریعہ مل جائے گا۔ بدنامی اسلام کی اور فائدہ امریکہ کو۔ یہ ہماری ایک حیثیت ہےصرف خیالی مذہبی لوگوں کی نہیں بلکہ حقیقی۔ ہم خدا پر زندہ یقین رکھتے ہیں اور دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ اور ہرظلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑھایا ہےپہلے سے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے دنیا میں کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ اس لئے ہمیں کامل یقین ہے کہ آئندہ بھی یہی ہو گا۔ جہاں تک Suppressionیعنی دباؤ کا تعلق ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی زندہ قوم کو دبایا جاتا ہے تو وہ ابھرتی ہے ۔
سوال جب سے یہ نئے قانون پر عمل درآمد شروع ہوا ہے کوئی اطلاعات ایسی ہیں کہ تعداد آپ کی گھٹی ہو؟
حضور ؒ
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کبھی بھی نہیں ہوا۔ یہ نا ممکن ہے۔ ہر ایسے اقدام کے بعد غیر معمولی تعداد بڑھی ہے۔ چنانچہ 74ء کے بعدسب سے بڑی تکلیف تو یہی تھی بعض مخالفین کو کہ ہمیں Not Muslimکہہ دیا ،غیر مسلم قرار دے دیا اور اتنی اونچی دیوار کو پھلانگ کر لوگ احمدیت میں پہلے سے زیادہ آرہے ہیں؟ یہ اگر فکر نہ ہوتی اُن کو تو اِس اقدام کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تو اصل بات اُن کا یہ اقدام ثابت کر رہا ہے کہ ہر روک کے بعد ہم زیادہ قوت کے ساتھ پھیلے ہیں۔
سوال یہ 74ء میں سب سے پہلے آپ کے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور اِس وقت تو Ordinance جاری کیا ہے حکومت نے ،اُس وقت یہ پارلیمنٹ کی کارروائی تھی پارلیمنٹ نےمنظور کیا اسے ،جسے کہنا چاہئے کہ یہ عوام کا فیصلہ تھا۔اور وہ پارلیمنٹ منتخب تھی۔ تو اب آپ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ عوام کے فیصلہ کے خلاف جا رہے ہیں، خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
حضور ؒ
سوال یہ ہے کہ مذہب عوام بناتے ہیں یا خدا بناتا ہے؟یہ بنیادی سوال پہلے حل ہونا چاہئے۔ اگر مذہب میں عوام کے فیصلے چلیں تو دنیا کا ہر نبی اپنے وقت میں جھوٹا ثابت ہو جائے گا۔ کیونکہ ہر نبی کے وقت عوام کی اکثریت نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس لئے بالکل بے معنی اور لغو بات ہے۔
دوسرے یہ کہ عوام کو یہ حق تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو کچھ سمجھیں اور اپنے قانون میں لکھ دیں۔ لیکن یہ کیسے حق ہو سکتا ہے کہ کسی سےیہ حق چھین لیں کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھے؟یہ دو بالکل مختلف چیزیںہیں۔ یعنی اگر کوئی کسی کو کتّا کہہ دے تو آپ کہہ دیں گے کہ حق ہے اُس کو کہہ دے کتّا۔ لیکن اِس کے بعد اُس کو یہ کہیں کہ تم کتّوں کی طرح زندگی بسر کرو، یہ کیسے حق مل گیا؟ یا ساتھ کہیں کہ بھونکو بھی اب۔ تو وہ تو نہیں بھونکے گا انسان۔ اس لئے عوام کا حق اپنی جگہ ہے اور فرد کاحق اپنی جگہ ہے اور ان دونوں کی حدیں ہیں جن کو قرآن بھی قائم کرتا ہے ،ہر دنیا کامذہب اور ہر انسانیت کی بنیادی قدریں ان کی حفاظت کرتی ہیں۔
سوالآپ کے فرقہ پرمرزا صاحب !یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ فوج میں اپنی جڑیں بنا رہے ہیں اور بیوروکریسی میں جڑیں بنا رہے ہیں اور اس طرح سے پاکستان کی بنیاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟
حضور ؒ
اس سے بڑاجھوٹا الزام تو ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ پاکستان کی جو جنگیں ہوئی ہیں پچھلی ، یہ موجودہ فوجی حکومت اس کا انکار نہیں کر سکتی۔ رن کچھ میں بریگیڈئر افتخار تھے وہ احمدی تھے۔ اور ادھر چھمب جوڑیاں سیکشن میں جنرل اختر ملک تھے وہ احمدی تھے۔ چونڈہ کا ہیروآج بھی زندہ ہےجنرل عبد العلی ،وہ احمدی۔ اور ممتاز فاضلکاسیکٹر میں تھے غالباً ،وہ احمدی۔ تو جو نمایاں ہیںدفاع کے واقعات اُن میں احمدی وابستہ ہیں۔ اور کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ احمدی نے نعوذ باللہ من ذالک پاکستان سے بے وفائی کی ہو۔ پاکستان تحریک میں احمدی سب سے اوّل صف میں تھے۔ اور تبھی قائد اعظم، آخر اُن کو علم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے اُس وقت احمدیوں کو کیوں منہ لگایا؟ کیوں ظفر اللہ خان صاحب کو وزیر بنایا؟اس لئے کہ جانتے تھےوہ۔ اور وہ جو ہمارے دشمن ہیںاور پاکستان کے دشمن تھے، اب وہ صفِ اوّل کے شہری ہیں اور ہم ایکThird-rateشہریوں میں تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ تو یہ تو زمانہ میں چلتی رہتی ہیں سیاسی چالیں، اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیںہے۔
سوال جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ صرف پاکستان میں ہی آپ کا فرقہ نہیں ہے، پاکستان سے باہر بڑی تعداد ہے۔ ان میں مسلمان ملکوں میں بھی ہوں گے؟
حضورؒ
جی ۔ مگر کم۔
سوال تو ان مسلمان ملکوں کا آ پ کے ساتھ رویّہ کیا ہے؟
حضور ؒ
مسلمان ملکوں کا رویّہ جوہےاس میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے جو علماء ہیں وہ بذات خود نہایت شریف لوگ ہیں۔ اور وہ اُس قسم کا مُلّاں نہیں ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوا ہے۔ لیکن بد قسمتی سےپاکستان اور ہندوستان سے ایک خاص قسم کے علماء نے جا کراُن کو یک طرفہ اتنا زہر ناک کر دیا ہے کہ ہمیں کیونکہ جواب کا موقع نہیں اور وہ یکطرفہ باتیں سنتے ہیںاس لئے رفتہ رفتہ ان میںمنافرت بڑھتی چلی گئی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ ہمیں کیا سمجھتے ہیں ؟یہ تو ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذہب میںتو یہ اہمیت ہے کہ اللہ کیا سمجھتا ہے جس کے حضور جان دینی ہے۔ خدا کے دربار میں تو کوئی مولوی نہیں بیٹھا ہو گا فتویٰ دینےکے لئے کہ مَیں اس کو یہ سمجھتا تھا۔
٭…٭…٭