خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30؍ مارچ 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
حضرت جابر بن عبد اللہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شفقت کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا سے ان کے باغ کے پھل میں غیرمعمولی برکت اور قرض کی ادائیگی کے لئے خصوصی اہتمام کی تاکید۔
مکرم بلال ادلبی صاحب آف سیریا اور مکرمہ سلیمہ میر صاحبہ سابق صدر لجنہ اماء اللہ کراچی کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت جابر بن عبداللہ تھے اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کے بیٹے تھے۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام وہی صحابی ہیں جن کے ذکر کے حوالے سے چند جمعہ پہلے میں نے بتایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا تھا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ بتاؤ میں پوری کروں۔ تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ میری خواہش ہے کہ دوبارہ زندہ کر کے دنیامیں بھیجا جاؤں اور پھر تیری راہ میں شہید ہو جاؤں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو نہیں ہو سکتا کیونکہ مرنے والے دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹائے جاتے۔ (سنن الترمذی ابواب تفسیرالقرآن باب ومن سورۃ آل عمران حدیث 3010) ۔ اس کے علاوہ بتاؤ کیا بات ہے۔ تو بہرحال اس سے ان کی قربانی کے معیار اور اللہ تعالیٰ کے ان سے غیر معمولی سلوک کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ اپنے عظیم المرتبت صحابی باپ کے بیٹے تھے اور بچپن میں ہی بیعت عقبہ ثانیہ کے دوران انہوں نے بیعت کی تھی۔ (اسد الغابہ جلد اوّل صفحہ 492 جابر بن عبد اللہ بن حرامؓ مطبوعہ دار العلمیۃ بیروت 1996ء)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کے واقعہ میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ یہودی سے لیا ہوا میرا جو قرض ہے میری شہادت کے بعد اس کو باغ کے پھل کو فروخت کر کے ادا کردینا۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ حدیث 1351) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 8 صفحہ 244 حدیث 1351 کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ مطبوعہ دار احیائ التراث العربی بیروت 2003ء)
روایت کے مطابق انہوں نے وہ قرض ادا کیا۔ اس کے علاوہ بھی اس زمانے میں رواج تھا کہ باغوںاور فصلوں کے مقابل پر قرض لیا جاتا تھا۔ حضرت جابر بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لیتے تھے۔ اس کا ایک تفصیلی واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح آپ نے قرض کی واپسی کے وقت یہودی سے کہا کہ باغ کی آمد کم ہوئی ہے یا امکان ہے کہ پھل تھوڑا ہے آمد کم ہو گی اس لئے قرض کی وصولی میں سہولت دے دو۔ کچھ حصہ لے لو، کچھ آئندہ سال لے لو۔ لیکن وہ یہودی کسی قسم کی سہولت دینے کو تیار نہ ہوا اور پھر اس پریشانی میں جابر بن عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پتہ چلا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو سفارش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے اس صحابی سے اس کے قرض اتارنے کے سلسلہ میں شفقت فرمائی۔ دعا کی۔ اور کس طرح پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اس کا ذکر روایات میں ملتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو یعنی حضرت جابر کے والد جو تھے ان کے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو قرض اتارنے کے سلسلہ میں نصیحت فرمائی تھی۔ بہرحال اس وقت پھل کم لگا تھا اور اس قرض کی ادائیگی مشکل تھی۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک معاملہ پہنچا لیکن صحیح بخاری میں جو روایت ملتی ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ بعد میں کسی وقت کا واقعہ ہے۔ بہرحال جو بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہ سے شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت دعا کا معجزہ جس طرح بھی یہ بیان کیا جائے اس سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا جو میرے کھجوروں کے باغ کا نیا پھل تیار ہونے تک مجھے قرض دیا کرتا تھا۔ میری یہ زمین رومہ نامی کنوئیں والے راستہ پر واقع تھی۔ ایک بار سال گزر گیا مگر پھل کم لگا اور پوری طرح تیار بھی نہ ہوا۔ پھل کی برداشت کے موسم میں وہ یہودی حسب معمول اپنا قرض وصول کرنے آ گیا جبکہ اس سال میں نے کوئی پھل نہ توڑا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے مزید ایک سال کی مہلت مانگی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس کی نیت یہ تھی کہ اس طرح شاید یہ پورے کا پورا باغ میرے قبضہ میں آ جائے۔ تو اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے صحابہ کو فرمایا کہ چلو ہم یہودی سے جابر کے لئے مہلت طلب کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع چند صحابہ کے میرے باغ میں تشریف لائے اور یہودی سے بات کی۔ مگر یہودی نے کہا۔ اے ابوالقاسم! میں اسے مہلت نہیں دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا۔ یہودی کا یہ رویّہ دیکھ کر آپ نے کھجور کے درختوں میں ایک چکر لگایا پھر آ کر یہودی سے دوبارہ بات کی۔ لیکن اس نے پھر انکار کر دیا۔ کہتے ہیں اس دوران مَیں نے باغ سے کچھ کھجوریں توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں جو آپ نے تناول فرمائیں۔ پھر فرمایا جابر یہاں تمہارا جو باغوں میں چھپّر سا ہوتا ہے آرام کرنے کی جگہ ہوتی ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے بتایا تو آپ نے فرمایا کہ میرے لئے وہاں چٹائی بچھا دو تا کہ میں کچھ دیر آرام کروں۔ کہتے ہیں میں نے تعمیل ارشاد کی۔ آپ وہاں سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں پھر مٹھی بھر کھجوریں لایا۔ آپ نے ان میں سے کچھ کھائیں۔ پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے دوبارہ بات کی مگر وہ نہ مانا۔ آپ نے دوبارہ باغ کا چکر لگایا اور مجھ سے فرمایا جابر کھجوروں سے پھل اتارنا شروع کرو اور یہودی کا قرض ادا کرو۔ میں نے پھل اتارنا شروع کیا۔ اس دوران آپ کھجوروں کے درختوں میں کھڑے رہے۔ کہتے ہیں میں نے پھل توڑ کر یہودی کا سارا قرضہ ادا کر دیا اور کچھ کھجوریں بچ گئیں۔ میں نے حضور کی خدمت میں یہ خوشخبری عرض کی تو آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب الأطعمہ باب الرطب والتمر … الخ حدیث 5443)
یعنی یہ جو معجزہ ہوا۔ یہ جو غیرمعمولی واقعہ ہوا اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ میری دعائیں سنتا ہے اور میرے کاموں میں برکت ڈالتا ہے۔ پس جہاں اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور قبولیت دعا کی وجہ سے پھل میں برکت کا ہم واقعہ دیکھتے ہیں وہاں قرض کی ادائیگی کے لئے صحابہ کی بے چینی بھی نظر آتی ہے۔ پس یہ روح ہے جو حقیقی مومن کا ایک خاص امتیاز ہونی چاہئے۔ بعض دفعہ ہمیں یہاں اپنے معاشرے میں نظر آتا ہے کہ احمدی کہلا کر پھر اس کی فکر نہیں کرتے اور قرض اتارنے کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ سالوں گزر جاتے ہیں مقدمے چل رہے ہوتے ہیں۔ پس ہمیں بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ میری بیعت میں آنے کے بعد پھر صحابہ کے نمونوں کو اپنے اوپر لاگو کرو۔ وہ اپناؤ۔ تبھی وہ خوبصورت معاشرہ قائم ہو سکتا ہے جو مہدی اور مسیح کے آنے کے بعد قائم ہونا تھا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 413)
قرض کی ادائیگی کی اہمیت کے بارے میں بھی حضرت جابر سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے لیکن اس سے پہلے ایک واقعہ بیان کر دوں کہ بعض روایت میں آتا ہے کہ جب یہ پتہ لگا قرض ادا ہو گیا ہے حضرت عمر بھی وہاں آئے۔ حضرت عمر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پوچھو کیا واقعہ ہوا۔ تو آپ نے کہا مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب آپ نے باغ کا ایک چکر لگایا تھا تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ پورے کا پورا قرض اس کا ادا ہو جائے گا۔ اور جب دوسرا چکر لگایا تو مزید پختہ یقین ہوگیا۔ (صحیح البخاری کتاب الاستقراض باب اذا قصا او جاذفہ فی الدین … الخ حدیث 2396، کتاب الھبۃ باب اذا وھب دینا علیٰ رجل حدیث 2601)
جیسا کہ میں نے کہا اس قرض کی ادائیگی کی اہمیت کے بارے میں حضرت جابر سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک صحابی پر دو دینار کا قرض تھا اور اس کی وفات ہو گئی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس پر دوسرے صحابی نے یہ ضمانت دی کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں قرض اتارنے کی تو اس بات پر پھر آپ نے جنازہ پڑھایا۔ اور اگلے دن پھر اس ذمہ لینے والے سے پوچھا کہ تم نے جو دو دینار اپنے ذمہ لئے تھے وہ ادا بھی کر دئیے ہیں کہ نہیں؟ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 104-105 حدیث 14590 مسند جابر بن عبد اللہؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہ اہمیت ہے قرض کی ادائیگی کی اور یہ فکر ہونی چاہئے۔ لیکن حضرت جابر سے یہ بھی روایت ملتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی مومن مال چھوڑ جائے تو یہ اس کے اہل و عیال کو ملتا ہے جو بھی جائیداد چھوڑے گا۔ اور اگر کوئی قرض چھوڑ جائے اور جائیداد بھی ہو اور ترکہ میں اس کی گنجائش نہ ہو کہ پورا قرض ادا ہو سکے یا بے سہارا اولاد چھوڑ جائے تو اس کی بے سہارا اولاد اور قرض کی ادائیگی کا انتظام کیا جائے گا۔(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والحظبۃ حدیث 2005) ۔ یعنی حکومت یہ کرے گی۔ ذمہ دار لوگ یہ کریں گے۔ یتیم کی پرورش اور اس کا اخراجات کا انتظام کرنا اس کی بہت زیادہ تلقین اسلام میں کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے یہ فرمایا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لگتا ہے کہ یہ دو جو مختلف روایتیں ہیں۔ ایک طرف تو آپ نے دو دینار قرض والے کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیا دوسری دفعہ آپ نے فرمایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ دو مختلف مواقع لگ رہے ہیں۔ پہلے تو بلا وجہ قرض لینے والوں کو یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ قرض کی بڑی اہمیت ہے اور اس کے لواحقین کو اور قریبیوں کو اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے۔ اور دوسرے موقع پر اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ یتیم بچوں کی پرورش اور مرنے والے کی اگر جائیداد قرض اتارنے کی کفیل نہ ہو سکے تو اس کی ادائیگی کرنی چاہئے۔ پس یہ ہے اسلامی حکومتوں کے لئے ایک سبق جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا کہ کس طرح اسلامی حکومتوں کو اپنی رعایا کا خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ رعایا کے حقوق جو مارے جا رہے ہیں وہ اسلامی حکومتوں میں ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جابر پر شفقت کا ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ مَیں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنی وہ بیان کریں۔ حضرت جابر نے کہا کہ میں ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھا۔ راوی کہتے تھے کہ میں نہیں جانتا سفر جنگ کا تھا یا عمرہ کا۔ بہرحال جب ہم مدینہ کی طرف لوٹے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے گھر والوں کے پاس جلدی جانا چاہتا ہو وہ جلدی چلا جائے۔ حضرت جابر کہتے تھے کہ یہ سن کر ہم جلدی جلدی چلے اور میں اپنے ایک اونٹ پر سوار تھا جس کا رنگ خاکی تھا۔ کوئی داغ نہ تھا۔ لوگ میرے پیچھے تھے۔ میں اسی طرح جارہا تھا کہ وہ اونٹ اَڑ گیا۔ چلنے سے انکار کر دیا۔ میرے چلانے سے بھی نہ چلا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو مجھے کہا کہ جابر ذرا مضبوطی سے اس کے اوپر بیٹھو اور یہ کہہ کر آپ نے اس کو اپنے کوڑے سے ایک ضرب لگائی تو اونٹ اپنی جگہ سے کود کر چل پڑا اور اس کے بعد بڑی تیزی سے چلنا شروع ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس اونٹ کو بیچتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں بیچتا ہوں۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی صحابہ کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ گیا اور اس اونٹ کو مسجد کے سامنے پتھر کے فرش کے ایک کونے میں باندھ دیا۔ میں نے آپ سے کہا یہ آپ کا اونٹ ہے۔ آپ باہر نکلے اور آپ نے اس اونٹ کے ارد گرد چکر لگایا۔فرمایا یہ اونٹ ہمارا اونٹ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے کئی اوقیے بھیجے اور فرمایا یہ جابر کو دے دو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قیمت پوری کی پوری لے لی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں لے لی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ قیمت اور یہ اونٹ تمہارا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من ضرب دابۃ غیرہ فی الغزو حدیث 2861)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت فرماتے ہوئے اس اونٹ کو بھی واپس کر دیا اور قیمت بھی ادا کردی۔ ہو سکتا ہے یہ بھی وجہ ہو کہ ایک روایت میںیہ بھی ملتا ہے کہ پانی لانے کے لئے یہ اونٹ استعمال ہوتا تھا اور حضرت جابر کے ماموں اور رشتہ دار بھی اس کو استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے اعتراض بھی کیا کہ کیوں تم نے بیچ دیا۔ اب ہم پانی کس طرح لائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب استئذان الرجل الامام حدیث 2967) تو بہرحال یہ شفقت تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اور ان صحابہ کو جنہوں نے خاص قربانیاں دی ہوں ان کے بچوں کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند کرے اور یہ مختلف واقعات جو میں بیان کرتا رہتا ہوں ہمیں بھی توفیق دے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں اپنے اوپر بھی لاگو کریں۔
اس مختصر خطبہ کے بعد اب میں دو مخلصین کا ذکر خیر کروں گا۔ پہلے ہیں مکرم بلال ادلبی صاحب سیریا کے گزشتہ دنوں کار کے حادثہ میں شدید زخمی ہوئے اور 17 ؍مارچ 2018ء کو رات ڈیڑھ بجے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بلال صاحب 1978ء میں پیدا ہوئے جب مرحوم کی عمر 17 سال تھی تو ان کے احمدی بھائی نے ان کو ڈاکٹر مسلّم الدروبی صاحب کی کمپنی میں ملازمت دلوائی جہاں انہیں جماعت اور احمدیوں سے تعارف حاصل ہوا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بیعت کر لی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ سیریا میں 2010ء سے ہم مختلف احمدیوں گھروں میں نمازیں ادا کرتے آ رہے ہیں۔ اس سال جب ہم قادیان سے لوٹے تو میں نے اس گروپ کے ساتھ نماز ادا کرنی شروع کی جو بلال صاحب کے گھر نماز ادا کرتا تھا۔ اس بات پر کہ انہوں نے میری وجہ سے بیعت کی تھی انہوں نے بڑے جوش سے میرا استقبال کیا۔ مہمان نوازی تو ان کی عادت تھی ہی لیکن اس بات کی شکرگزاری کرتے تھے کہ آپ کی وجہ سے مجھے احمدیت کا راستہ ملا اور بڑی آؤ بھگت کرتے تھے۔ صدر صاحب جماعت ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بلال صاحب کی سپورٹس گارمنٹس کی دوکان تھی۔ وہ کپڑوں میں سب محتاج بھائیوں کی مدد کرتے تھے یہاں تک کہ اگر ان کی دوکان پر کپڑا نہ ہوتا تو وہ کہیں سے خرید کر مہیا کر دیتے۔ بڑے غیرت مند تھے۔ کسی احمدی کو اس حال میں نہ دیکھ سکتے تھے کہ اس کے پاس پہننے کو کچھ نہ ہو۔ اور اگر اسے کوئی تنگی ہوتی تو ہر طرح کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ اپنے بچوں کا بھی بڑا خیال رکھنے والے تھے۔ انہیں بہترین سکولوں میں داخل کروایا۔ کہتے ہیں مرحوم کی وفات سے دو دن پہلے ہم ان کے گھر میں نماز پڑھ رہے تھے کہ سیکرٹری مال نے بتایا کہ انہوں نے وصیت اور تحریک جدید اور وقف جدید کے تمام واجب الادا چندے ادا کر دئیے ہیں بلکہ نئی زمین خریدی تھی اس کو بھی وصیت میں شامل کروایا۔ بڑی باقاعدگی سے چندوں کا حساب رکھنے والے، ان کی ادائیگی کرنے والے، خدمت خلق کرنے والے، نمازوں اور عبادت کا بڑا اہتمام کرنے والے، خلافت کے ساتھ انتہائی تعلق، ہر خطبہ کو سنتے تھے۔ بلکہ صدر صاحب لکھتے ہیں کہ جب میں خطبہ کا خلاصہ اگلے ہفتہ سناتا تو یہ منہ ڈھانپ کر رونے لگتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ لگتا ہے خلیفہ وقت میرے بارے میں یا مجھ سے بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے پسماندگان میں ایک بیٹا عمر گیارہ سال اور ایک بیٹی عمر بارہ سال چھوڑے ہیں۔ جرمنی میں ان کے بڑے بھائی احمدی ہیں۔ لیکن دو بھائی اور ایک بہن احمدی نہیں اور مخالفت بھی کافی تھی۔ جب ان کے جنازے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے خود یہ تصرف کیا کہ ان کے بھائی نے کہا کہ آپ لوگ یعنی احمدی جنازہ پڑھ لیں اور ہماری مسجد میں آ کے جنازہ پڑھ لیں۔ کوئی روک نہیں ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سارے لوگوں نے ہمارے پیچھے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔
دوسرا ذکر ہے سلیمہ میر صاحبہ سابق صدر لجنہ اماء اللہ کراچی کا جو عبدالقادر ڈار صاحب کی اہلیہ تھیں۔ یہ بھی 90 سال کی عمر میں 17؍مارچ 2018ء کو فوت ہوئی ہیں۔ آپ کے والد میر الٰہی بخش صاحب صحابی تھے جو شیخ پور ضلع گجرات کے تھے۔ انہوں نے 1904ء میں بیعت کی تھی۔ اور سلیمہ میر صاحبہ کی والدہ مریم بیگم صاحبہ مدرسۃالخواتین قادیان کی تعلیم یافتہ تھیں۔ قرآن کریم کی تدریس سے ان کو خاص شغف تھا۔ 1946ء میں سلیمہ میر صاحبہ کی شادی ہوئی اور تقسیم برصغیر کے بعد یہ کراچی آ گئے۔ اور 1961ء میں یہ لوگ ایران چلے گئے تو وہاں تین چار احمدی گھرانے تھے ان کے لئے نماز جمعہ اور اجلاس وغیرہ کا انتظام کیا۔ 1964ء میں ان کے شوہر فوت ہو گئے اور اس کے بعد یہ اپنے بھائی میر امان اللہ صاحب کے پاس کراچی آ گئیں۔ آٹھ بچوں کی پرورش کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انہوں نے پھر بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔ ساتھ ہی لجنہ کے دفتر میں کام کرنا شروع کر دیا۔ ڈاک کے جواب دینے کا کام کیا۔ پھر مختلف حیثیتوں سے ان کو کراچی میں لجنہ کا کام کرنے کی توفیق ملی۔ 1981ء میں جب منتظمہ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے آپ کو منتظمہ کمیٹی کی صدر نامزد کیا۔ کہتی ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے جب مجھے کمیٹی کا صدر مقرر کیا تو جب یہ اعلان کیا تو میری عجیب کیفیت تھی۔ مَیں سکتہ کے عالم میںتھی کہ یہ ذمہ داری کس طرح اٹھاؤں گی۔ کہتی ہیں ایک طرف اطاعت امام اور دوسری طرف میری کم مائیگی اور وسیع پیمانے پر کام کرنے کا تجربہ بھی نہ ہونے کا احساس تھا۔ کہتی ہیں میں دعاؤں میں لگ گئی۔ گڑگڑا کر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی۔ کام شروع کیا اور جلدی جلدی مجلس عاملہ کے اجلاس بلائے۔ قیادتوںکے دورے کئے اور ان سب کے سامنے اطاعت اور تنظیم سے وابستگی، اسلامی اخلاق اپنانے، بدعات کے خلاف جہاد کرنے، ناجائز اعتراضات سے بکلّی پرہیز کرنے، بعضوں کو عادت ہوتی ہے عورتوں کو خاص طور پہ، اب تو مردوں کو بھی بہت ہے کہ بلا وجہ نظام پہ اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مجلس میں کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور کثرت سے استغفار کی طرف بار بار توجہ دلائی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کو بھی خط لکھتی تھیں۔ کہتی ہیں اللہ تعالیٰ کا تصرف ہوا کہ کراچی کی جماعت کی لجنہ ترقی کرنے لگیں۔ 1961ء سے انہوں نے ایران میں لجنہ کا کام شروع کیا تھا پھر پاکستان میں اور پھر 1986ء میں جب لجنہ کراچی کا مرکزی لجنہ سے دوبارہ الحاق ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے آپ کو صدر لجنہ کراچی نامزد فرمایا اورانہوں نے 1986ء سے 1997ء تک صدر لجنہ کراچی کے فرائض سرانجام دئیے۔ لجنہ کراچی نے کتب کی اشاعت کے سلسلہ میں آپ کے دَور میں بڑا کام کیا جن میں ساٹھ کتب اور دو مجلّے آپ کے دور صدارت میں شائع ہوئے۔ آپ کے دَور میں داعیہ الی اللہ کی کلاس کا آغاز بھی ہوا۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ آپ بفضلہٖ تعالیٰ اچھا کام کر رہی ہیں کہ دل سے دعائیں اٹھتی ہیں۔ اللہ آپ کی عمر اور صحت اور خوشیوں میں برکت دے اور پھر آگے آپ کے مخلص ساتھیوں کو دنیا و آخرت میں بہترین جزا عطا فرمائے۔
ان کے کام کے بہت سارے واقعات ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے، خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ان کی خدمات کو بہت سراہا۔ ایک خط میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لکھا کہ آپ کی طرف سے لجنہ کراچی کی رپورٹ اور نہایت پُر خلوص جذبات عقیدت پہنچے۔ میں آپ سب کے جذبات عقیدت اور اخلاص کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتا ہوں اور اپنے رب سے ہمیشہ آپ کے لئے بھلائی کا طالب رہتا ہوں اور یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ دن پہلے سے بڑھ کر شان کے ساتھ لوٹا دے جن کی یادیں مجھے بہت عزیز ہیں۔
سلیمہ میر صاحبہ 36 سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ لیکن کبھی کسی قسم کی بے صبری اور ناشکری کا کلمہ ان کے منہ سے نہیں سنا۔ ہمیشہ ہر بات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں اور ہمیشہ مثبت سوچ رکھتی تھیں اور بچوں میں بھی یہ چیز دیکھنا چاہتی تھیں۔ ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ میرے شوہر بیمار ہو گئے اور ان کی آخری بیماری ہی تھی۔ کہتی ہیں میری امی یعنی سلیمہ میر صاحبہ میرے پاس آئی ہوئی تھیں۔ جو پہلی چیز مجھے انہوں نے دی وہ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھی اور کہا کہ میں نے بھی تمہارے ابّا کی وفات کے بعد ملفوظات کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور سب کچھ خدا کے حوالے کر دیا ہے۔ اور یہ کہا کرتی تھیں کہ سب محبتوں پر حاوی خداتعالیٰ کی محبت ہونی چاہئے۔بیٹی کہتی ہیں کہ جب شوہر کا آخری وقت تھا اور ڈاکٹر نے مجھے سائن(sign) کرنے کے لئے کہا تو میں ضبط نہ کر سکی اور رونے لگی اور روتے ہوئے میری آواز اونچی ہو گئی۔ میری والدہ نے بھی سن لی۔ کہتی ہیں اس وقت مَیں انتہائی تکلیف میںتھی۔ سلیمہ میر صاحبہ وہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ بیٹی کا خاوند فوت ہو رہا تھا۔ بیٹی انتہائی تکلیف میں تھی۔ کہتی ہیں جب میں ہسپتال سے جانے لگی تو اپنی امی سلیمہ میر صاحبہ کے پاس رکی۔ لیکن امی نے انتہائی سخت لہجے میں کہا کہ تم میری بیٹی ہو۔ میری بیٹی اتنی بے صبری نہیں ہو سکتی۔ اور تمہاری رونے کی اتنی اونچی آواز کیوں نکلی ہے۔ کہنے لگیں کہ جو صبر اوّل وقت میں ہوتا ہے وہی صبر ہوتا ہے۔ بعد میں تو سب کو صبر آ جاتا ہے۔ کہتی ہیں مجھے نصیحت کی کہ تمہارا شوہر خدا کی امانت تھی۔ اس نے دیا تھا، اس کی چیز تھی، اس نے واپس لے لی۔
چار بیٹیوں کے بعد پہلا بیٹا پیدا ہوا اور کچھ عرصہ بعد اس کی وفات ہو گئی تو بڑے صبر اور حوصلے سے کہتی تھیں کہ اللہ کی امانت تھی اس نے لے لی۔ ہر وقت دعائیں کرنے والی تھیں۔بچے کہتے ہیں کہ ہمیشہ یہ نصیحت کیا کرتی تھیں۔ پنجابی میں کہتی تھیں کہ’’ خلیفے دا لڑ نہیں چھڈنا‘‘۔ یعنی خلیفہ کا دامن کبھی نہ چھوڑنا۔ خلافت سے وابستہ رہنا۔ پردے کا انتہائی اہتمام کرنے والی تھیں۔ جہاں بھی پردے میں کمزوری دیکھتیں بڑے اچھے انداز میں سمجھا دیتیں تا کہ دوسروں کو بُرا بھی نہ لگے۔ ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ میری چھوٹی بہن کے لئے رشتہ آیا تو لڑکے نے کہا کہ پہلے مَیں لڑکی کو دیکھوں گا پھر بات آگے بڑھے گی۔ کہتی ہیں کہ ہم نے امّی سے کہا کہ بہن کو نقاب کی بجائے سکارف میں سامنے کر دیتے ہیں۔ اپنی بیٹی کا رشتہ تھا۔ کہتی ہیں اس پر امّی نے فوراً جواب دیا کہ رشتہ ہوتا ہے تو ہو لیکن نقاب کے بغیر یہ نہیں جائے گی۔ ایک بچی کا لندن میں ڈرائیونگ ٹیسٹ تھا اور انسٹرکٹر مرد تھا تو بیٹی کے ساتھ چل پڑیں کہ مرد کے ساتھ تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گی۔ لوگوں نے مذاق بھی اڑایا۔ لیکن انہوں نے دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ سر پر سکارف لینے کے لئے یا نقاب لینے کے لئے ہمیشہ کہا کرتی تھیں۔ لجنہ کی جو کتاب ہے جس میں سارے خلفاء کے ارشادات ہیں اس کا نام ہے ’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘۔ تو یہ کہا کرتی تھیں کہ اگر پھول لینا چاہتی ہو تو اوڑھنی لینی پڑے گی۔ پھول تو اسی کے لئے ہیں جو پردہ کرنے والی ہیں۔ ایک نواسی کہتی ہیں کہ جب میری شادی ہونے والی تھی تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی کتاب میں سے بچی کی رخصتی کے موقع پر کی گئی نصائح کو اَنڈر لائن کر کے مجھے دیا کہ اس کو بار بار پڑھو۔
کہتی ہیں رات دیر تک کنواری لڑکیوں کا فنکشن میں رہنا ان کو پسند نہیں تھا۔ کالج کے زمانے میں ہماری سہیلیوں کے گھر میں کوئی فنکشن ہوتا تو خود ساتھ جاتی تھیں۔ آج کل بھی بہت ساری لڑکیاں رات گزارنے یا Night Spend کے لئے لکھتی ہیں۔ یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔ ہماری بچیوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
کہتی ہیں ہماری فجر کی نماز چھوٹ جاتی تو سارا دن ہم سے بات نہیں کرتی تھیں۔ یہ ہمیں ان کی بہت بڑی سزا ہوتی تھی۔ ایک دفعہ یہاں شکاگو امریکہ میں آئی ہوئی تھیں تو ایک فنکشن میں کسی عورت نے میوزک لگایا اور رقص کرنے والے انداز میں اٹھی تو آپ نے پیچھے سے جا کر اس کو پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ یہ میوزک بند کر دو۔ تمہیں پتہ نہیں کہ ناچنے والیوں کو کیا کہا جاتا ہے؟
ایک عیسائی لڑکی کو پالا۔ اس کو دعائیں سکھلائیں۔ مختلف اخلاق کی باتیں سکھلائیں۔ بلکہ وہ کہتی تھی کہ میں تو آدھی احمدی ہو چکی ہوں۔
امۃ الباری ناصر صاحبہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپا سلیمہ میر صاحبہ سے لجنہ کراچی کی طویل خدمت لی۔ آپ اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن آپ کی تربیت یافتہ ممبرات دنیا کے کونے کونے میں لجنہ کے کام کرتی ہوئی آپ کا نام اور کام زندہ رکھیں گی۔ آپ کا نام حسن کارکردگی کی مثال بن گیا ہےاور کہتی ہیں ہمیشہ بڑی سرپرستی کیا کرتی تھیں۔ کام سکھایا کرتی تھیں۔ اپنے نام کی ان کو زیادہ خواہش نہیں تھی بلکہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ جتنی ان کے ساتھ کام کرنے والی ہیں ان کو کسی طرح کام آ جائے۔ اور جب کتابوں کی اشاعت ہوئی ہے اس میں بھی انہوں نے اپنی ٹیم کو بڑا Encourage کیا ۔ آخری عمر میں اکثر ملک سے باہر جانا پڑتا تھا۔ جماعت کا کام متاثر نہ ہو اس لئے خود ہی مرکز کو درخواست دے کر ایک دوسری صدر منظور کروا لیں اور بڑی خوبصورتی سے ایک میٹنگ بلائی اور ان کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ اور مسز بھٹی صاحبہ کو صدر کی کرسی پر بٹھا کر ان کی خدمات کے بارے میں دلنشین تقریر کی اور اطاعت کی تلقین کی اور بڑے وقار سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔ یہ لکھتی ہیں کہ انتقال اقتدار ایسے بھی ہوتا ہے۔
پس وہ لوگ جنہیں بعض دفعہ جماعتی خدمات سے ہٹایا جائے یا ان کی منظوری نہ دی جائے تو اس پر بڑے اعتراض شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے یہ سبق ہے کہ اگر کام مل جائے تو الحمد للہ اور اگر نہیں ملتا تو تب بھی اللہ کا شکر ادا کریں اور کام کرنے کے، جماعت کی خدمت کرنے کے اَور دوسرے طریقے تلاش کریں۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ عہدہ ہی ملے تو کام ہو سکتا ہے۔
پھر یہ کہتے ہیں کہ سب کام معاملہ فہمی اور راز داری سے کرنے والی تھیں۔ دل کی بات کر کے کبھی یہ خدشہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ بات کہیں نکل جائے گی۔ بڑی راز رکھنے والی تھیں۔ امۃ الباری ناصر صاحبہ لکھتی ہیں کہ پتہ نہیں کیسے وہ سب کے راز اپنے سینے میں دفن رکھتی تھیں اور یہ بہت بڑی خصوصیت ہے جس کی کمی آج کل مردوں میںبھی ہے۔
امۃ النور صاحبہ کراچی سے لکھتی ہیں کہ سلیمہ میر صاحبہ انتہائی محبت کرنے والی، بے غرض، انتہائی منکسر المزاج، اپنی ذات کو پیچھے رکھ کر دوسروں کے کام کو بے انتہا سراہنے والی، ہنس مکھ خاتون تھیں۔ ایک خوبصورت چہرے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے انہیں خوبصورت اور نرم دل بھی عطا کیا تھا۔ کہتی ہیں مجھے صدر بنایا تو میں نے کہا یہ علاقہ بہت وسیع ہے اور مجھے تجربہ بھی نہیں ہے، سواری بھی میرے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں تمہارے قریب ہی میری بیٹی رہتی ہے۔ جب ضرورت پڑے، دورے کرنے ہوں تو اس کو کہہ دیا کرو وہ کار مہیا کر دے گی یا مجھے کہہ دیا کرو مَیں اپنی کار بھیج دیا کروں گی اور کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان میں انتہائی خاکساری تھی۔ کارکنات کے ساتھ بیٹھ کر خود کام کروایا کرتی تھیں۔
کراچی کی ایک سیکرٹری اشاعت لکھتی ہیں کہ آپا سلیمہ میر صاحبہ کے ساتھ 1986ء سے کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں انتہائی غریب پرور اور منکسر المزاج پایا۔ ایک موقع پر کراچی کی پُرجوش خدمت گزار خاتون جو کسی وجہ سے جماعت سے پیچھے ہٹ گئی تھیں ان کے بارے میں پتہ لگا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور ان کے پاس جماعت کے بعض نوادرات ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دعاؤں اور رہنمائی میں آپا سلیمہ صاحبہ کی سرپرستی میں بڑی حکمت سے ان سے رابطہ کیا گیا مگر کچھ حاصل ہونے سے پہلے وہ وفات پا گئیں۔ ان کی ایک رشتہ دار سے کہا کہ اگر ان کا اس طرح کا کوئی سامان آپ کے پاس ہے تو ہم قیمت دینے کے لئے تیار ہیں ہمیں دے دیں کیونکہ یہ جماعت کی تاریخ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات تھے۔ تو ہمیںا یک صندوق مل گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک سے لکھے ہوئے خطوط تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی تحریرات تھیں اور صندوق بھی تاریخی تھا۔ اس کو بڑی حکمت سے انہوں نے لیا۔ جو احمدی خاتون پیچھے ہٹ گئی تھیں ان کا علاج بھی انہوں نے کروایا۔
ہر لکھنے والے نے یہی لکھا ہے بڑی باوقار، باحوصلہ، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے والی اور اخلاق فاضلہ کا منہ بولتا ثبوت، خلافت سے وابستہ رہنے والی، خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرنے والی، نیکیوں پر قائم رہنے والی، نیکی کی تلقین کرنے والی، اپنے ہوں یا غیر سب کو ایک طرح نصیحت کرتی تھیں۔ اور یہ نہیں ہے کہ اپنے بچوں سے صَرفِ نظر کر لیا بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی نصیحت کی۔ اور توکّل علی اللہ بہت زیادہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہر وقت راضی ہونے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی، ان کی بیٹیوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابھی نماز جمعہ کے بعد یہ دونوں جنازہ غائب مَیں پڑھاؤں گا۔