محترم ماسٹرمولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب وفات پا گئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
سابق استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول و جامعہ احمدیہ قادیان و ربوہ، 50 سال تک بطور صدر محلہ دارالنصر غربی الف خدمات سلسلہ بجا لانے والے محترم ماسٹرمولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب وفات پا گئے
انا للہ وانا إلیہ راجعون
نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جا تی ہے کہ جماعت احمدیہ کے دیرینہ اور مخلص خادم، سابق استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول و جامعہ احمدیہ قادیان و ربوہ، مسلسل 50 سال تک بطور صدر محلہ دارالنصر غربی الف خدمات سلسلہ بجا لانے والے، کمال حافظہ کے مالک بہترین اور تاریخی یادوں کا خزانہ اور جماعت احمدیہ کے معمر ترین بزرگ واقف زندگی محترم ماسٹرمولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب، مولوی فاضل چند دن طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں زیر علاج رہ کر 109 سال کی عمر میں مورخہ 17؍دسمبر 2023ء بروز اتوار رات 9 بجکر 58 منٹ پر بقضائے الہیٰ طاہر ہارٹ میں بعمر 109 سال وفات پا گئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
عمر کے لحاظ سے آپ کی صحت آخر تک ٹھیک رہی۔ بغیر عینک کے لکھ اور پڑھ سکتے تھے۔ غیر معمولی حافظہ اور یادداشت کی وجہ سے آخری عمر تک بھی پرانے واقعات سناتے اور احباب کی دینی راہنمائی کرتے رہے۔ آپ محترم مولوی عبدالعزیز بھامبڑی صاحب سابق محتسب نظارت امور عامہ کے بڑے بھائی تھے۔ جن کی وفات 21؍اپریل 2001ء کو کینیڈا میں بعمر 83 سال ہوئی تھی۔
حالات زندگی
محترم ابراہیم بھامبڑی صاحب کی پیدائش جون 1914ء کو بھامبڑی گاؤں میں ہوئی جو کہ بھارت میں واقع ہے۔ان دنوں الفضل کو جاری ہوئے ٹھیک ایک سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔ آپ کا تعلق جٹ زمیندار قوم ریاڑ سے تھا۔ اسی مناسبت سے آپ کا گاؤں جس علاقہ میں واقع ہے وہ ریاڑکی کہلاتا تھا، آپ کا خاندان اپنے گاؤں میں بہت معزز سمجھا جاتا تھا۔ آپ کے والد صاحب کا نام محترم چوہدری عبد الکریم صاحب تھاجو 1918ء میں احمدی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل وہ اہلحدیث فرقہ سے منسلک تھے۔ آپ کی والدہ کا نام محترمہ کریم بی بی تھا۔ آپ موصیہ تھیں اور جالندھر سے تعلق رکھتی تھیں، بہت نیک اور مخلص احمدی خاتون تھیں۔ بھامبڑی صاحب کے والد کا اپنے خاندان اور گاؤں میں بہت اثر و رسوخ تھا، دینی ذوق رکھنے اور اس دور کے نامور علماء کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بہت معزز سمجھے جاتے تھے۔ ان کی باتوں کا کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ گاؤں کے تنا زعات کےبڑی سمجھداری اور سوجھ بوجھ سے اکثر فیصلے آپ ہی کرتے تھے اور وہ فیصلہ گاؤں کے سب مسلمان اور سکھ لوگ مانا کرتے تھے۔ اپنی برادری میں بھی بڑے معروف تھے۔ اسی مقام و مرتبہ کی وجہ سے آپ کو احمدیت قبول کرنے کے بعد زیادہ مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آپ کے والد صاحب کے احمدی ہونے کا واقعہ اس طرح ہے کہ ان کی بینائی کافی کمزور ہوگئی ، آنکھوں کے آپریشن کے لیے نور ہسپتال قادیان میں داخل ہوگئے ۔ آ پ معروف آدمی تھے جب محترم ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب (سابق مہر سنگھ)اور قادیان کے بزرگان کو علم ہوا تو آپ سے ملنے آئے اور انہوں نے آپ کو تبلیغ کی اور ان کے دل میں جو مسائل تھے ان کا مدلل اور مبسوط جواب دیا۔ جب ان کی سمجھ میں آگیا کہ وفات مسیح اور دیگر مسائل کی اصل حقیقت کیا ہے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت پر یقین کرلیااور بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ بعد میں آپ کے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ قادیان جا کر میری جسمانی اور روحانی دونوں آنکھوں کو نور مل گیا۔
اپنے گاؤں میں پرائمری کی چار کلاسیں پاس کرنے کے بعدمحترم ابراہیم بھامبڑی صاحب اور آپ کےچار سال چھوٹے بھائی عبدالعزیز بھامبڑی صاحب 1926ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوگئے۔آپ کا گاؤں قادیان سے مشرق کی جانب پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔دونوں بھائی روزانہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پانچ میل صبح اور پانچ میل شام کو پیدل سفر کرتے۔ پون گھنٹہ آنے اور پون گھنٹہ جانے میں لگتا۔ دونوں بھائی سات سال تک مدرسہ احمدیہ اور دو سال تک جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے روزانہ دس میل پیدل سفر کرتے رہے۔ آپ کے کپڑے کھدر کے اور ہاتھ سے سلے ہوتے تھے، کھانا بھی سادہ اور دیہاتی طرز کا ہوتا تھا۔ گرمی کے موسم میں آپ کی والدہ سحری کے وقت اٹھ کر کھانا پکاتیں اور آپ دونوں بھائیوں کو کھلا دیا کرتیں اورمدرسہ کے لیے کچھ ساتھ باندھ دیتیں، جو آپ دوپہر کو کھایا کرتے تھے۔ فجر کی نماز آپ اور آپ کے بھائی اپنے گاؤں سےایک میل کے فاصلے پر واقع گاؤں پہنچ کر باجماعت پڑھا کرتے تھے،اور سکول کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے آپ قادیان پہنچ جاتے تھے۔ اور دوپہر کو سخت گرمی میں تقریباً اڑھائی بجے تک گھر پہنچ جاتے اور۔ گھر آکر شکر کا شربت ستو اور لسی پی لیا کرتے تھے۔ آپ کی زندگی بہت مجاہدانہ گزری۔ بتایا کرتے تھے کہ سکول سے ہم کبھی غیر حاضر نہیں ہوئے، اس مجاہدانہ زندگی کاآپ کے اساتذہ کرام پر بھی بہت اثر تھا۔ وہ بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔جماعت چہارم میں آپ وظیفہ کے امتحان میں شامل ہوئے۔ آپ کے گاؤں سے بٹالہ 9 میل کے فاصلے پر تھا ، وہاں امتحان کے لیے آپ گئے۔ ان دنوں پڑھائی بہت اچھی تھی۔ آپ کوپہاڑے (tables)خوب یاد ہوتے تھے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ ان دنوں کھلے سر کوئی بچہ سکول نہیں آتا تھا، سب پگڑی پہنتے تھے۔جب کبھی انسپکٹر نے معائنہ کے لیے آنا ہوتا تھا تو استاد صاحب ہر کلاس کےلیے پگڑی کا رنگ علیحدہ علیحدہ مقرر کردیتے ، جب چاروں کلاسیں اپنے اپنے رنگ کی پگڑیوں میں اکٹھی ہوتیں تو بہت بھلی معلوم ہوتیں۔
ایک مرتبہ آ پ نے اپنے پرانے زمانہ کو یاد کرتے ہوئے بتایاکہ ہمارا دورآج کے مقابلے میں بہت سادہ اور سستا ہوا کرتاتھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک انسپکٹر صاحب جن کا نام نذیر احمد تھاوہ ہماری کلاس کے معائنہ کے لیے آگئے۔ معائنہ کے بعد ہماری پڑھائی کو خوب سراہا اور اپنے ہاتھ سے بچوں میں لڈو تقسیم کیے۔ ان دنوں مٹھائی دیسی گھی کی ہوا کرتی تھی اور ایک روپیہ کی چار کلو آجایا کرتی تھی۔ دیسی گھی ایک روپیہ کلو تھا۔ قربانی کا بکرا لوگ پندرہ روپے میں خریدتے تھے۔ گندم تین روپے فی من ملتی تھی۔بتایا کہ اپنی شادی پر میں نے گرگابی (جوتا) پانچ روپے میں خریدی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ بہت مہنگی خریدی ہے۔ سائیکل تیس روپے میں ہوا کرتی تھی۔ بناسپتی گھی کا نام و نشا ن نہیں تھا۔ چینی ایک روپے کی چار کلو مل جاتی تھی۔ مزدور کی ایک دن کی اُجرت چار آنے ہوا کرتی تھی۔ کلاس میں ہمارے ساتھ تھانیدار کا لڑکا پڑھا کرتا تھا، اس نے بتایا میرے ابا کی تنخواہ پچیس روپے ماہوار ہے۔ ہم یہ سن کر حیران رہ گئے کہ اتنی زیادہ تنخواہ! پرائمری کے استاد کی تنخواہ دس بارہ روپے ہوا کرتی تھی۔ وہ بڑی محنت سے پڑھایا کرتے تھے۔ ٹیوشن کا رواج نہیں تھا۔استاد مفت زائد وقت دیا کرتے تھے۔
ابھی آپ مدرسہ میں ہی تعلیم حاصل کررہے تھے کہ 1931ء میں آپ کے والد صاحب فوت ہوگئے۔ آپ کے والد صاحب نے قرآن کریم کی لمبی لمبی سورتیں مثلاً سورۃ یوسف، سورۃ یٰسین، سورۃ القمر، سورۃ الرحمٰن اور آخری پارہ حفظ کیا ہوا تھا۔ اور یہ حفظ کیا ہوا حصہ اپنے بچوں کو سنایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی بہت اچھے رنگ میں تربیت کی۔ پرائمری کے زمانہ میں ہی آپ دونوں کو انہوں نے کشتی نوح اور درثمین اردو دے دی تھی ۔ اور روزانہ نظم ’وہ پیشوا ہمارا‘ آپ دونوں سے سنتے اور خوش ہوتے۔
آپ کے اساتذہ میں اکثریت صحابہ ؓحضرت مسیح موعود ؑ کی تھی۔ دوسرے اساتذہ بھی بہت بزرگ ، نیک، مہربان اور شفیق تھے۔ جن کا جماعت میں بہت مقام تھا۔ آپ کے سارے اساتذہ بہت خیال رکھنے والے ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔ آپ دونوں بھائیوں کو ان سب کا شاگرد ہونے پر بہت فخر تھا، آپ دونوں نے اپنے اساتذہ سے بہت کچھ حاصل کیا۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓ جامعہ احمدیہ میں آپ کے حدیث کے استاد تھے۔ ان کی شخصیت آپ کے لیے بہت پُر کشش تھی۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ؓ کی پیاری اور بزرگ شخصیت بھی آپ کو یاد تھی۔ بہت سی دیگر نظموں کے ساتھ ساتھ آپ کو ان کی نظم اور قصیدہ ’بدرگاہ ذی شان خیر الانام‘ یاد تھا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے پاس آپ کو 1941ء تا 1944ء بطور P.A. خدمت کرنے کی سعادت حاص ہوئی۔ روزانہ کی ڈاک لاتے ، حضرت میاں صاحب جو لکھواتے اس کا جواب آپ لکھتے۔ اس کے علاوہ جو کام بھی آپ کے سپرد ہوتا وہ مکمل کیا کرتے۔ آپ کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کی توفیق ملی۔دفتری کام کرنے کا طریقہ اور سلیقہ آپ نے حضرت میاں صاحبؓ سے ہی سیکھا۔
آپ 1944ء تا 1947ء دفتر بیت المال میں بطور امپریسٹ کلرک خدمت کرتے رہے۔ 1947ء میں تعلیم الاسلام سکول قادیان میں بطور ٹیچر تقرری ہوئی۔آپ نے اسی دور میں وقف کردیاتھا۔ جب پاکستان بنا تو آپ چنیوٹ آگئے۔ پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں خدمت کا موقع ملا۔ 1974ء میں آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے ریٹائر ہوئے، سکول میں آپ کو امام الصلٰو ۃ کی ڈیوٹی بھی سپرد کی گئی ، آپ کو مسلسل 28 سال تک تعلیم الا سلام ہائی سکول میں بطور ٹیچر خدمت کا موقع ملا۔ لیکن بعد میں بھی خدمات دینیہ کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ کے شاگرد سینکڑوں میں پوری دنیا میں موجود ہیں۔ آپ کو سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1997ء میں ایک انٹرویومیں آپ نے اس شرف کا اس طرح ذکر کیا۔”محترم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب میرے بہت پیارے شاگردوں میں سے ہیں۔ اور آج کل اللہ کے فضل سے ناظر تعلیم ہیں۔“
جب آپ چھوٹے تھے تو اپنےوالد صاحب کے ساتھ اپنے گاؤں سے مسجد اقصیٰ قادیان میں جمعہ پڑھنے کے لیے جایا کرتے تھے۔جمعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ دو رویہ کھڑے احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے والد صاحب آپ دونوں بھائیوں کو اپنے دائیں اور بائیں کھڑا کرتے اور ایک ایک چاندی کا سکہ ان کے ہاتھ میں دے کر سمجھایا کرتے کہ حضور کو نذرانہ دے دینا۔ جب حضور قریب پہنچتے تو وہ سکےآپ حضورؓ کی خدمت میں پیش کرتے ، حضورآپ کے والد صاحب سے احوال پوچھتے کہ چوہدری صاحب کیا حال ہے؟ آپ کےوالد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے صرف یہ ہی عرض کرتے کہ حضور میں بوڑھا ہورہا ہوں مجھے ڈر ہے کہ یہ میرے بچے مخالفوں کے قابو میں نہ آ جائیں تو حضرت صاحبؓ ہمیشہ تسلی دیتے اور یہ فرمایا کرتے کہ اللہ اپنا فضل فرمائے گا۔ آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کروں گا۔ یہ حضور ؓ کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں بھائیوں کو ا حمدیت پر ثابت قدم رکھا۔ اور آپ نے مولوی فاضل کیا ۔آپ کو 1926ء سے ہی ہر سال جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے کی توفیق ملتی رہی۔ پہلے قادیان میں اور پھر 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد جلسہ سالانہ ربوہ میں ڈیوٹی دیتے رہے۔ ربوہ میں جلسہ پر ڈیوٹیوں کا یہ سلسلہ 1983ء تک جاری رہا۔
1951ء سے 2001ء تک مسلسل پچاس سال(نصف صدی) محلہ دارالنصر غربی الف کے صدر کے طور پر آپ کو خدمت کی توفیق ملتی رہی ۔ جب محلہ جات کی اندرونی تقسیم نہیں تھی اس وقت محترم ابراہیم بھامبڑی صاحب کو دارالیمن،باب الابواب اوردارالنصرکے مشترکہ صدر محلہ کے طور پر بھی خدمت سلسلہ کی توفیق ملی۔ بعد ازاں دارالیمن اور باب الابواب اور دارالنصر الگ الگ ہو جانے کے بعد پورے دارالنصر کے صدر اور پھر دارالنصر غربی اقبال کے صدر محلہ رہے۔ وقف جدید میں آپ کا تقرر بطور انسپکٹر ارشاد 1976ء میں ہوا۔ 1995ء تک خدمت کی یہ سعادت ملتی رہی۔وقف جدید میں آ پ معلمین کلاس بھی لیتے رہے۔ اسی لیے آپ کے بیسیوں شاگرد نگر پارکر سے لے کر پاکستان کے ہر شہر اور گاؤں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ نے پانچ سال تک حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب(خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ) ناظم ارشاد وقف جدید کے زیر سایہ خدمت کی ۔ آپ کو فرقان فورس کے محاذ پر بھی رہنے کی توفیق ملی جس کی بنا پر آپ کو خدمت پاکستان کے تمغہ سے بھی نوازا گیا۔
آپ کی خدمات سلسلہ کا جائزہ لیا جائے توکچھ اس طرح بنتا ہے ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پی اے3سال، امپریسٹ کلرک 3سال، تعلیم الاسلام ہائی سکول 28سال اور وقف جدید 20سال۔اس طرح آپ کی خدمات کا کل 54سال کا طویل عرصہ بنتا ہے اور ان خدمات کے ساتھ ساتھ بطور صدر محلہ خدمات کے 50سال بھی ہیں۔ صر ف یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ مختلف حیثیتوں میں بھی اس وقت تک خدمات جاری رکھیں جب تک صحت نے ساتھ دیا۔ ان سب خدا داد صلاحیتوں اور خوبیوں کا مرقع ہونے کے باوجود آپ انتہائی عاجز اور سادہ طبع شخصیت کے مالک تھے۔ اپنی کسی صلاحیت پر غرور نہ کیا ۔ طبیعت میں انتہا کی خاکساری اور درویشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہمیشہ خلیفۃ المسیح کی اطاعت ، فرمانبرداری اور ہر حکم کی تعمیل کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ آپ نے چار خلفاء سلسلہ کا زمانہ پایا۔ ان کو قریب سے دیکھا ، ساتھ خدمت بھی بجا لاتے رہے۔ خود بھی اطاعت خلافت کے پیکر تھے اور دوسروں کو بھی خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین و نصیحت کرتے تھے۔دینی لحاظ سے آپ نے ایک کامیاب اور قابل رشک زندگی گزاری ۔
1997ء کے بعد آپ اپنے محلہ دارالنصر غربی الف میں صدارت کے علاوہ ہر طرح کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہے۔روزانہ صبح ایک پارہ کم ازکم ضرور تلاوت کرتے ۔ آٹھ ، نو پارے تو آ پ کو زبانی یاد تھےجو اکثر راستے میں چلتے وقت اور اٹھتے بیٹھتے پڑھتے رہتے۔ محلہ میں قرآن کریم کی کلاس بھی آپ لیتے علمی و روحانی علوم سے بھرپور زبانی درس بھی دیتے جس میں علم و معرفت کے دریا بہا دیتے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے علم کلام میں سے زبانی حوالہ جات کے علاوہ عربی ، فارسی اور اردو کے درثمین ، کلام محموداور درعدن وغیرہ سے موضوع کی مناسبت سے اشعار بھی سنا تے جاتے تھے۔ بغیر وقفے کےروانی کے ساتھ آپ کی زبان سے جاری رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر یاد کرنے کا زبردست ملکہ رکھا ہوا تھا ۔ آپ کی یادداشت بھی بہت زیادہ غیر معمولی تھی۔آپ کو مطالعہ کا بے انتہا شوق تھا ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی 82 کتابیں یعنی 23جلدوں پر مشتمل روحانی خزائن کے سیٹ کا ایک ایک حرف کرکے چار مرتبہ مطالعہ کیا تھا۔ حدیث کی چھ معروف کتب یعنی صحاح ستہ آپ نے مکمل پڑھی تھیں۔ آپ کوحضرت مسیح موعود ؑ ، حضرت مصلح موعودؓ ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کے عربی ،فارسی اور اردو کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔آنحضرت ﷺ کی شان میں حضرت مسیح موعود ؑ کا عربی قصیدہ یا عین فیض اللہ والعرفان آپ کو مکمل ازبر یاد تھا۔ اور صرف یہ ہی نہیں آپ یہ عربی قصیدہ روزانہ رات کومکمل پڑھ کر سوتے تھے۔ یہ معمول آپ کا ساری زندگی جاری رہا۔حضرت مسیح موعود ؑ کے کم از کم ایک ہزار اشعار زبانی یاد تھے۔کلام محمود کی آٹھ نو لمبی نظمیں زبانی یاد تھیں۔
سکول اور دفتر میں پہنچنے سے متعلق انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ : ”میں آج تک لیٹ نہیں ہوا ،بلکہ ہمیشہ سکول میں اور دفتر میں نصف گھنٹہ یا بیس منٹ تک دفتر کھلنے کے وقت سے پہلے جانے کی کوشش کرتا رہا ہوں“۔ آپ پگڑی زمانہ اطفال سے آخری عمر تک پہنتے رہے۔کھیلوں میں کبڈی اور ہاکی کھیلا کرتے تھے۔ زیادہ پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ پانچ میل تک روزانہ صبح کی سیر بھی کرتے تھے۔ خوراک میں سادہ کھانا اور صبح کے وقت لسی پسند کرتے تھےاور بچپن سے گڑ کا استعمال کرتے رہے۔ آپ نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں ایک ویڈیو پیغام میں فرمایا تھا: ”ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مسیح موعودؑ اور خلیفۃ المسیح کا نمائندہ سمجھے ۔ وہ سمجھےکہ میں احمدیہ سفیر ہوں اور مجھے دیکھ کر لوگوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کا اندازہ لگانا ہے۔ ہمارے کیریکٹر اور اخلاق کو دیکھ کر ایسے متاثر ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچیں کہ جس مسیح موعود کے یہ غلام اور مرید ہیں وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا، کیونکہ جھوٹے ایسےباکمال مرید پیدا نہیں کرسکتے۔ آپ قابل رشک بنیں اور آپ کے لباس ، آپ کے چہرے اور باتوں سے لوگ فوراً سمجھ جائیں کہ یہ احمدی لوگ ہیں۔ ہماری باتوں اور بلند اخلاق سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ یہ مسیح موعود کے غلام ہیں۔
آپ کی اہلیہ محترمہ عالم بی بی صاحبہ کی وفات نومبر 2008ء میں ہوگئی تھی۔ اولاد میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
٭محترمہ امینہ بیگم صاحبہ مرحومہ ۔ ان کی وفات مئی 2023ء میں ہوئی۔
٭ مکرم ڈاکٹر منیر احمد صاحب، پی ایچ ڈی۔ نیویارک امریکہ ،حال ربوہ
٭مکرم محمد انور صاحب جرمنی۔ حال ربوہ
٭مکرمہ طاہرہ نسیم صاحبہ مرحومہ۔ ان کی وفات 12جنوری 2017ء میں ایک حادثہ میں ہوئی
٭مکرمہ امتہ القیوم صاحبہ۔ ٹورانٹو ،کینیڈا
اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اس مخلص اور دیرینہ خادم کی مغفرت فرماتے ہوئے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے نیز جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
(ابو سدید)