جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے والے کا روزہ نہیں (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جولائی ۲۰۱۲ء)
ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ شیطان جکڑا گیا بلکہ روزوں کے معیار بلند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ روزوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جھوٹ بولنے سے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے جو نہیں رُکتا اُس کا روزہ نہیں۔ ان الفاظ میں چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑی سے بڑی برائی تک کی طرف توجہ دلا دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے کا کہہ کر اُسے اُس کی تمام کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے پاک کروا دیا۔ یہ بھی مثالیں ملتی ہیں کہ جس کو یہ کہا کہ تم نے سچائی پر قائم رہنا ہے اس شخص کی تمام اخلاقی اور روحانی کمزوریاں سچائی پر قائم رہنے کے عہد سے دورہو گئیں۔ (التفسیر الکبیر لامام رازیؒ جلد8جزو 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت نمبر 119 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ(الحج: 31) اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو‘‘۔ (نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ403)
یہ اس کا ایک بامحاورہ ترجمہ ہے۔پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو‘‘۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا پر بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ361)
پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے والے کا روزہ نہیں تواس لئے کہ ایک طرف تو روزہ رکھنے والے کا دعویٰ ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے حکم سے روزہ رکھ رہا ہوں۔ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قرآنِ کریم میں آتا ہے جہاں روزوں کے فرائض کا حکم آیا ہے۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ(البقرہ: 184)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزوں کا رکھنا فرض کیا گیا ہے، اس لئے تم روزے رکھو۔ تو ایک طرف تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے رکھ رہا ہوں لیکن دوسری طرف یہ کہ جس کے حکم سے روزہ رکھا جا رہا ہے اُس کے مقابلے پر جھوٹ کو خدا بنا کر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پس یہ دو عملی نہیں ہو سکتی۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کے سب کام اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور مَیں خود اس کی جزا بنوں گا۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر 1904)
پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک کام خدا تعالیٰ کے حکم سے بھی کیا جا رہا ہو پھر خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کے پیار کو جذب کرنے کے لئے بھی کیا جا رہا ہو اور یہ بھی امید رکھی جا رہی ہو کہ میرے اس روزے کی جزا بھی خدا تعالیٰ خود ہے۔ یعنی اس جزا کی کوئی حدودنہیں۔ جب خدا تعالیٰ خود جزا بن جاتا ہے تو پھر اس کی حدود بھی کوئی نہیں رہتیں۔ اور پھر عام زندگی میں اپنی باتوں میں جھوٹ بھی شامل ہو جائے، عمل میں جھوٹ شامل ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ زبان سے جھوٹ نہیں بولنا، بلکہ عمل کے جھوٹ کو بھی ساتھ رکھا ہے اور عمل کا جھوٹ یہ ہے کہ انسان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں۔ روزے میں عبادتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں۔ نوافل کے معیار بلند ہونے چاہئیں۔ لیکن اُس کے لئے اگر ایک انسان کوشش نہیں کر رہا، عام زندگی جیسے پہلے گزر رہی تھی اُسی طرح گزر رہی ہے تو یہ بے عملی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار سے اگرکوئی لڑائی کرتا ہے تو وہ اُسے کہہ دے کہ مَیں روزہ دار ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر 1904)
اور جواب نہ دے تو یہ روزے کا حق ہے جو ادا کیا گیا ہے۔ لیکن اگر آگے سے بڑھ کر لڑائی کرنے والے کا جواب لڑائی سے دیا جائے تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ اپنے کاموں میں اگر حق ادا نہیں کیا جا رہا تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ دوسروں کے حق ادا نہیں کئے جا رہے تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ خاوند کی اور بیوی کی لڑائیاں جاری ہیں اور اپنی طبیعتوں میں رمضان میں اس نیت سے تبدیلی پیدا نہیں کی جا رہی کہ ہم نے اب اس مہینہ کی وجہ سے اپنے تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانا ہے اور آپس کے محبت پیار کے تعلق کو قائم کرنا ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ خود ہماری جزا بن جائے تو بیشک منہ سے یہ دعویٰ ہے کہ ہمارا روزہ ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہے لیکن عمل اسے جھوٹا ثابت کر رہا ہے۔ اور پھر عملی جھوٹ کی اَور بھی بہت ساری باتیں ہیں۔ انتہا اُس کی یہ بھی ہے کہ کاروباروں کو، اپنے دنیاوی مقاصد کو، اپنے دنیاوی مفادات کو روزے کے باوجود اپنی عبادات اور ذکرِ الٰہی اور نوافل کی ادائیگی اور قرآنِ کریم پڑھنے کی طرف توجہ پر فوقیت دی جائے۔ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض لوگ اپنے منافع کے لئے، دنیاوی فائدے کے لئے کاروباروں میں جھوٹ بولتے ہیں، گویا کہ خدا کے مقابلے پر جھوٹ کی اہمیت ہے۔ پس یہ عملی اور قولی جھوٹ شرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے روزے دار کا روزہ درحقیقت فاقہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پس یقیناً رمضان انقلاب لانے کا باعث بنتا ہے۔ شیطان بھی اس میں جکڑا جاتا ہے۔ جنت بھی قریب کر دی جاتی ہے لیکن اُس کے لئے جو اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیداکرنے کی کوشش کرے۔ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت کو اپنے پر قائم کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اور بخشش جو عام حالات کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائے اور اپنے نفس کے بتوں اور جھوٹے خداؤں کو جو لامحسوس طریق پر یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اُن کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اُڑا دے، جب یہ کوشش ہو تو پھر ایک انقلاب طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت کے لئے جہاں روزوں کے ساتھ عبادتوں کے معیار حاصل کرنا ضروری ہے، قرآنِ کریم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا، اُس کی تلاوت کرنا، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ وہاں ان عبادتوں کا اثر، قرآنِ کریم کے پڑھنے کا اثر، اپنی ظاہری حالتوں اور اخلاق پر ہونا بھی ضروری ہے تا کہ عملی سچائی ظاہر ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجُز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ ناانصافی پر ضد کرکے سچائی کا خون نہ کرو۔ حق کو قبو ل کرلو اگرچہ ایک بچہ سے۔ اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤتو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو‘‘۔ (یہ نہیں ہے کہ میرا کوئی مخالف ہے، وہ سچی بات بھی کہہ رہا ہے تو مَیں نے ضد میں آ کر قبول نہیں کرنا۔ پھر دلیلیں نہ دو، بحثیں نہ کرو بلکہ اس کو چھوڑ دو اور سچائی کو قبول کرو۔) پھر فرمایا ’’سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو۔ جیساکہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ(الحج: 31) یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بُت سے کم نہیں‘‘۔ فرمایا ’’جو چیز قبلہ حق سے تمہارا مُنہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بُت ہے۔ سچی گواہی دو۔ اگرچہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یادوستوں پر ہو۔ چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو‘‘۔ کسی بھی قسم کی دشمنی ہو، تمہارے سچ پر روک نہ ڈالے۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 550)
پھر آپ فرماتے ہیں:’’زبان کا زیان خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو، نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو’’۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 281۔ ایڈیشن 2003ء)