رمضان المبارک اور ہم
رمضان المبارک انسان کی روحانیت کو تیز کرنے کے لیے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لیے نہایت سازگار مہینہ ہے۔ کیونکہ ہر طرف نیکی کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ اس لیے اپنے بدن کے تمام اعضاء نیکیوں پر مامور کردینے چاہئیں۔ بکثرت قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے استغفار اور درود شریف اور دیگر دعاؤں سے اپنی زبانیں تر رکھنی چاہئیں۔ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اپنے مال بھی خدا کی راہ میں قربان کرنے چاہئیں اوراپنے اوقات بھی خدمت دین میں اور دعوت الی اللہ میں صرف کرنے چاہئیں اور بکثرت عبادت بجالانی چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے۔روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں… روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اورکشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دارکو یہ مدنظر رکھناچاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۱۰۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح افطاری میں تنوّع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہئیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پُرخوری کرلیں۔ رسول کریم ﷺکے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے، کوئی نمک سے ، بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ۲صفحہ ۳۹۶، ایڈیشن۲۰۰۴ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں قرآن پاک کی تلاوت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: اس مہینہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ اور بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کے دو دَور مکمل کئے جائیں ورنہ کم از کم ایک توضرورہو۔ اورہر رحمت کی آیت پر خدائی رحمت طلب کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیاجائے۔
افطار پارٹیوں کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’افطاریوں میں بھی بہتر یہی ہو کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، ارد گرد جگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف جو آپ کے دکھائی دیتے ہیں ان کو بھیجیں مگر صدقے کے رنگ میں نہیں۔ کیونکہ افطاری کا جو تعلق ہے وہ صدقے سے نہیں ہے۔ افطاری کا تعلق محبت بڑھانے سے ہے اوررمضان کے مہینے میں اگر آپ کچھ کھانا بنا کے بھیجتے ہیں تو طبعی طور پر محبت بھی بڑھتی ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگرآپ اس عزت اور احترام سے چیز دیں کسی غریب کو یا ایسے شخص کو جو نسبتاً غریب ہے کہ اس میں محبت کا پہلو غالب ہو اور صدقے کا کوئی دُور کا عنصر بھی شامل نہ ہو تویہ وہ افطاری ہے جو آپ کے لئے باعث ثواب بنے گی اور آپ کے حالات بھی سدھارے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍جنوری۱۹۹۷ء)
آپؒ مزید فرماتے ہیں : ’’ہر رمضان ہمارے لئے ایک نئی پیدائش کی خوشخبری لے کر آتا ہے۔ اگر ہم ان شرطوں کے ساتھ رمضان میں سے گزر جائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں تو گویا ہرسال ایک نئی روحانی پیدائش ہوگی اور گزشتہ تما م گناہوں کے داغ دھل جائیں گے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۶ء)
سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لیے تمھیں توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اس مہینے میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے، بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ اور یہی رمضان کا اور روزوں کا مقصد ہے اور جب انسان اس نیت اور اس مقصد کے حصول کے لیے روزے رکھے گا اور رمضان میں سے گزرے گا اور نیک نیت ہو کر گزرے گا تو پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہو گی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہو گی۔
پھر حقوق اللہ کی ادائیگیوں کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ عبادتوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ دنیا کی مصروفیات اور لغویات غلبہ نہیں کریں گی اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی عمومی توجہ رہے گی۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہم لوگوں کے حق مارنے والے نہیں ہوں گے۔ اگر ہم اس نیت سے اور اس ارادے سے روزوں کے مہینے میں داخل نہیں ہو رہے تو ہمارا رمضان میں داخل ہونا بے فائدہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الصوم فی سبیل اللّٰہ حدیث ۲۸۴۰)
یعنی خزاں یا سرما کا موسم ہے تو جو فاصلہ ایک موسم اور اگلے موسم کے درمیان ہے وہ اتنا فاصلہ ہے کہ ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے یعنی ایک خریف اور دوسرے خریف میں ایک سال کا فاصلہ ہے تو اتنا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے جو ستر سالوں کے برابر ہے۔ تو یہ ہیں روزے کی برکات اور یہ ہے وہ تقویٰ جو روزہ پیدا کرتا ہے۔ یعنی روزہ صرف تیس دن کے لیے تقویٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ حقیقی روزہ ستر سال تک اپنا اثر رکھتا ہے اور اس حساب سے اگر ہم دیکھیں تو روزے کی فرضیت ہونے کے بعد ایک انسان پہ، ایک بالغ مسلمان پہ جب روزہ فرض ہوتا ہے اس کے بعد جو روزے سے حقیقی فیض اٹھانے والا ہے اور اس کی روح کو سمجھ کر روزے رکھنے والا ہے وہ تمام عمر کے لیے ہی ان برکات سے فیض پاتا رہے گا جو روزے میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور تقویٰ کی راہوں کو تلاش کرتا رہے گا جو روزے کا مقصد ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے گا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے والا بنتا چلا جائے گا۔
اگر ہم تصور کریں کہ ایسے روزے دار ہمارے معاشرے میں پیدا ہو جائیں تو وہ کس قدر خوبصورت معاشرہ ہو گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور بندوں کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور یہی وہ حسین معاشرہ ہے جو ہر مومن قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے بلکہ ہر انسان اس معاشرے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا جہاں تک اس کے اپنے حقوق کا سوال ہے وہ عموماً اپنے لیے تو یہ پسند کرتا ہے چاہے دوسرے کے لیے اس کو خیال نہ آئے لیکن اسلام کہتا ہے کہ دوسروں کے لیے بھی تم نے یہ معاشرہ قائم کرنا ہے۔ صرف اپنی سہولیات نہیں دیکھنی، اپنے مفادات نہیں دیکھنے، اپنے حقوق نہیں دیکھنے بلکہ دوسروں کے حقوق کی بھی حفاظت کرنی ہے، ان کا بھی خیال کرنا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ اپریل ۲۰۲۰ء)