ہمارا اجتماع
محمود: آج اجتماع ختم ہوا۔ یہ تین دن بہت مزہ آیا۔
دادی جان: تو محمود میاں نے کیا کیا وہاں۔
محمود: دادی جان میں نے مقابلےدیکھے۔ اور گیمز کھیلیں۔ ابو جان مجھے مختلف لوگوں سے ملواتے رہے۔
دادی جان: ماشاء اللہ! یعنی آپ کےدن مصروف گزرے۔ احمد آپ بہت تھکے ہوئے ہیں۔
جی ہاں دادی جان۔ احمد نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔ لیکن دادی جان آپ کو معلوم ہے کہ میں نے پانچ انعام حاصل کیے ہیں۔
گڑیا: چلیں ہم ان کو کھول کر دیکھیں ؟
احمد:جی ٹھیک ہے۔لیکن دادی جان ایک سوال پوچھنا ہے۔
دادی جان ! صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے اطفال اور خدام کو اپنے عہد پورے کرنے کا کہا ہے۔ لیکن ہم تو وعدہ اطفال دہراتے ہیں۔ عہد تو نہیں۔
دادی جان: بیٹا وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ ایک انسان جب وعدہ یا عہد کرتا ہے تو اس کے پورا کرنے کی ذمہ داری بھی اسی پر ہوتی ہے۔ لیکن انسان جس بات کا عہد کرے اور پھر اسے پورا نہ کر سکے تو یہ بات قابلِ مؤاخذہ ہوتی ہے۔
گڑیا: یہ مؤاخذہ کیا ہوتا ہے؟
دادی جان: مؤاخذہ کا مطلب ہے کہ اگر عہدپورانہیں کریں گے تو آپ کو اس کی سزا بھی مل سکتی ہے۔ لیکن وعدہ میں اگر آپ سے بھول چوک ہوجائے تو پھردوبارہ آپ ان باتوں پر عمل کرنے کا وعدہ کر سکتے ہیں۔ وعدہ اطفال تو سنائیں ذرا۔
محمود جلدی سے تشہد پڑھ کر پڑھنے لگاکہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ دین ِ اسلام اور احمدیت،قوم اور وطن کی خدمت کے لیے ہر دَم تیار رہوں گا، ہمیشہ سچ بولوں گا، کسی کو گالی نہیں دوں گا اور حضرت خلیفۃ المسیح کی تمام نصیحتوں پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
شاباش محمود! دادی جان نے زور سے کہا۔ دیکھیں اس میں پانچ باتیں ہیں۔ پہلی دو یوں ہیں کہ اپنے دین اور اپنے وطن کی خدمت کے لیے تیار رہنا۔ تیسری یہ کہ سچائی پر قائم رہنا۔ چوتھی یہ کہ گالی یا سخت بات نہیں کہنی۔ پانچویں اور آخری بات یہ کہ حضرت خلیفة المسیح کی تمام باتوں پر عمل کرنا ہے۔
گڑیا : اور ناصرات کے عہد میں بھی یہی باتیں ہیں۔ کہ میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی۔
احمد : دادی جان میرا ایک اور سوال ہے کہ ہم اجلاسات پر بھی جاتے ہیں جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہوتے ہیں تو اجتماع کی الگ سے کیا ضرورت ہے ؟
دادی جان: بچو!اللہ تعالیٰ مومنین کا یوں بار بار جمع ہونا پسند فرماتاہے۔ جلسہ سالانہ کا ایک بڑا مقصد اتحاد پیدا کرنا اور تعلیم و تربیت کرنا ہے۔ جماعت میں چونکہ ذیلی تنظیمیں قائم ہیں اس لیے تمام ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے ممبران کو بھی سال میںایک بار اکٹھا کرتی ہیں۔ جلسے میں تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے افرادِ جماعت کو جلسہ گاہ میں ایک جگہ بٹھاکر تقاریر اور خطابات سنائے جاتے ہیں جبکہ اجتماع میں تقاریرکے ساتھ ساتھ مختلف پروگرامز اورمقابلہ جات بھی ہوتے ہیں۔ علمی و ورزشی مقابلوں میں حصہ لے کر ہم اپنی عملی، ذہنی اور جسمانی استعدادوں کو بڑھاسکتےہیں۔ جلسہ بحیثیت مجموعی تربیت کے سامان کرتاہے وہاں اجتماع کا مقصد انفرادی سطح پر جانا ہوتاہے تاکہ تنظیم کے ممبران کو فعال کیا جا سکےاور جماعت کا کارآمد حصہ بنایا جا سکے۔
گڑیا: دادی جان! صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ نے اجتماع پر بتایا تھا کہ اجتماع جلسے کے لیے ریہرسل بھی ہوتی ہے۔ یہیںسے ہماری ڈیوٹیز کی عادت پڑتی ہے۔ تلاوت، نظم اور تقریر کی پریکٹس ہوتی ہے۔
دادی جان: بالکل ٹھیک بتایا آپ نے!
محمود: دادی جان تو کیا حضور بھی جب اَطفال میں تھے تو ڈیوٹی دیتے تھے؟
دادی جان:لوجی پہلی بات تو یہ کہ ’’اَطفال‘‘ طِفل کی جمع ہے۔ آپ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا حضور جب ’’طفل‘‘تھے تو ڈیوٹی دیتے تھے؟
دوسری بات یہ کہ آپ ہمیشہ حضور کے متعلق ہی سوال پوچھتے ہو۔ جی ہاں بیٹا! حضور بھی اجتماع میں شریک ہوتے تھے۔ حضور نے فرمایا تھاہم خود شامیانے لگاتے تھے۔ اپنی بیڈشیٹس سے ٹینٹ بناتے تھے اور جب بارش ہوجاتی تھی تو بارش اندر بھی آجاتی تھی کیونکہ وہ waterproof نہیں تھے۔ ہم اِن دنوں تو ہم اِن دنوں میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے اور کیمپنگ کا بھی مزہ لیتے تھے۔اگر بارش ہو جاتی تھی تو ہم پوری طرح بھیگ جاتے تھے۔ پھر وہیں کھانا پکتا تھا اور ہم بالٹی میں اپنا کھانا لاتے تھے۔ ایک ٹینٹ میں دس افراد ٹھہر سکتے تھے۔ تو یہ وہ دن ہیں جو مجھے یاد ہیں اور جن کو یاد کرکے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 29؍ستمبر 2021ء)
آپ کو یاد ہے ناں! 2021ءمیںکورونا کے دنوںمیں جرمنی کے خدام حضور انور سے ورچوئل ملاقات کے لیے موسم کی پروا نہ کرتے ہوئے اخلاص اور محبت سے بیٹھے رہے۔ پیارے آقا کو وہ نظارہ بہت ہی خوبصورت لگا تھا اور آپ نے خدام الاحمدیہ جرمنی کی تعریف بھی فرمائی تھی۔
محمود : دادی جان! اب محمود بھائی کے انعام دیکھ لیں!
دادی جان : جی! چلیں کھولتے ہیں۔
دادی جان: یہ ایک تو قرآن کریم ہے۔ ایک دینی معلومات، ایک سٹوری بک،ایک سیرت رسول اللہﷺ اور ایک میڈل ہے۔
دادی جان یہ سٹوری بک محمود کو دینا چاہتا ہوں اور گڑیا آپی کو جو بھی کتاب پسند آئے وہ لے لیں۔
جزاکم اللہ بھائی۔ گڑیا اور محمود نے کہا۔
دادی جان : شاباش بیٹا! چلیں اب دعا پڑھیں اور سو جائیں۔
(درثمین احمد۔ جرمنی)