حضرت ایوبؑ کا صبر
گڑیا: دادی جان۔ آج مسجد میں ایک سیمینار تھا۔ فوزان کی امی جان اور دادی جان آپ کو سلام دے رہی تھیں اور آپ کا حال بھی پوچھ رہی تھیں۔
دادی جان: و علیکم السلام ورحمة اللہ ! آج میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔
گڑیا: جی میں نے بتایاتھا۔آج صدر صاحبہ نےبتایا کہ پاکستان میں ہماری کئی مساجد کو توڑ دیا۔ کسی کے منارے، کسی کی محراب اور آگ بھی لگا دی۔
احمد: جی دادی جان! جمعہ کے خطبہ میں مربی صاحب نے قبرستان کا بھی بتایا تھا کہ کتبے بھی توڑ دیے ہیں۔
دادی جان کھانستے ہوئے: احمد بیٹا مجھے پانی کا گلاس لا دو۔
محمود: دادی جان جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو ان کو مسجد توڑنے نہیں دوں گا اور بھگا دوں گا!
دادی جان پانی پی کر گلاس ایک طرف رکھتے ہوئے بولیں: بیٹا ہم احمدی مسلمان ہیں۔ ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق صبر کی تعلیم دی ہے۔
گڑیا: دادی جان ہماری ٹیچر نے بتایا تھا کہ سب نبیوں نے مخالفت پر صبر کیا ہے۔ لیکن حضرت ایوبؑ کے صبر کا قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔ ان کو کیا ہوا تھا کہ انہوں نے اتنا صبر کیا؟
دادی جان: چلیں میں آپ کو حضرت ایوبؑ کی کہانی سناتی ہوں۔ یہ آج سے قریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل کاواقعہ ہے۔ بحر مردار یعنی فلسطین اور عرب کے درمیان میں ادوم نامی ایک بستی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے حضرت ایوبؑ رہتے تھے۔آپ حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں سے تھے۔ آپؑ مالدار، صاحبِ عزت اور تندرست آدمی تھے۔ مساکین، غرباءاور بیواؤں کی مدد کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کے مطابق آپ نبی تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی اتاری تھی۔
خدا تعالیٰ نے ان کے لیے ایک آزمائش رکھی۔ چنانچہ حضرت ایوبؑ کے حالات خراب ہوگئے۔ مال و دولت اور روپیہ پیسہ جاتا رہا۔ جسمانی طور پر بھی بعض بیماریاں آپ کو لاحق ہوگئیں۔ لوگوں نے اور آپ کے اپنے گھر والوں نے بھی آپ کو بیماری میں چھوڑ دیا۔ بادشاہ اور شیطان صفت لوگوں نے بھی انہیں دکھ دینا اور سخت مخالفت کرنا شروع کر دیا۔ یہ آزمائش خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف اس لیے تھی کہ دنیا جان لے کہ ایوب ایک صابر اور وفادار انسان ہیں۔یہ تکلیفیں آپ کی کسی غلطی یا گناہ کی وجہ سے نہیں تھیں۔ یہ حقیقت آپؑ کو معلوم تھی اس لیے آپ نے تمام مصائب پر صبر کیا اور کوئی شکوہ نہ کیا۔ اتنا صبر کیا کہ آج ’’صبر ایوب‘‘ ایک مثال اور محاورہ بن چکاہے۔ آپ نے تمام مصائب اور مشکلات پر بس دعا کی کہ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ (الانبیاء: 84) یعنی (اے میرے رب) مجھے سخت اذیت پہنچی ہے اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور انہیں ہجرت کا حکم دیا کہ فلاں علاقہ میں چلے جائیںجہاں اس بیماری کا علاج ہو جائےگا اوروہاں پینےکے لیے چشموں کا ٹھنڈا پانی اور نہانے کا پانی بھی میسر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ وہاں اور اچھے لوگ بھی مل جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کامل صحت عطا کی اور انہیں وہاں تبلیغ سے ایک سعید فطرت جماعت بھی عطا ہو گئی۔
احمد: دادی جان ! اللہ تعالیٰ کو ان کا صبر پسند آیا؟
دادی جان: اللہ تعالیٰ نے انہیں محسنین میں شمار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یقیناً ہم نے اسے بہت صبر کرنے والا پایا۔ کیا ہی اچھا بندہ تھا۔ یقیناً وہ بار بار عاجزی سے جھکنے والا تھا۔(صٓ:45)حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ حضرت ایوبؑ کی بیوی بڑی نیک اور خدمت گزار تھی اور آپؑ بھی متقی صابر تھے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 7صفحہ38) پھر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت ایوبؑ اور رسول اللہ ﷺ میں ایک مشابہت یہ بیان کی ہے کہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا علاقہ چھوڑ کر جانے کا حکم دیا اور کہا کہ ہم تکلیفوں کو دور کریں گے اور تمام رشتہ دار وہاں پہنچا دیں گے اور وہاں اَور بھی عطا ہوں گے۔ اوروہاں پانی بھی کثرت سے مہیا ہوگا۔ تو یہ باتیں آپﷺ اور حضرت ایوبؑ دونوں میں مشترک ہیں۔(تفسیر کبیر جلد8صفحہ87)
گڑیا: تو اللہ میاں چاہتاہے کہ ہم ایسا صبر کریں کہ بس دعا کریں؟
دادی جان: جی بیٹا صبر کا مطلب ہے کہ خاموشی سے دعا کی جائے۔
احمد: اب مجھے سمجھ میں آیا کہ حضور انور ایدہ اللہ بس دعا کا کیوں کہتے ہیں۔ کبھی ہمیں یہ نہیں کہا کہ ہم بھی جلسے جلوس نکالیں۔
دادی جان: جی ہاں! جیسےاگر پھل توڑنے میں جلدی کریں تو پھل کچا ہوتا ہے اور ضائع ہو جاتا ہے۔ یا کوئی گرم چیز منہ میں ڈال لیں تو کیا ہوگا؟
محمود: منہ جل جائے گا!
دادی جان: جی ہاں! اسی طرح اگر صبر نہیں کریں گے تو ہمیں کوئی انعام یا اجر بھی نہیں ملے گا۔اسی لیے کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔
گڑیا: دادی جان ہمیں بھی حضرت ایوبؑ کی دعا یاد کروا دیں۔
دادی جان: چلیں میرے ساتھ دہرائیں اور پھر سو جائیں۔
قیمتی نصائح کو بہت عمدہ طریق سے سمجھایا جاتا ہے۔بہت شکریہ