تمہاری پاک زبان کی وجہ سے خدا تعالیٰ بھی تمہارے قریب آ جائے گا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’مومن کا کام یہ ہے کہ ہمیشہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرے اور ہمیشہ اس حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔ زبان ایک ایسی چیز ہے جس کا اچھا استعمال سب کو آپ کا گرویدہ بنا سکتا ہے اور اس کا غلط استعمال دوست کو بھی دشمن بنا سکتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے۔ زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خداتعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے۔ جب خداتعالیٰ ڈیوڑھی میں آ گیا تو پھر اندر آنا کیا تعجّب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2 صفحہ182 الحکم 31؍مارچ1902ء)
یعنی ہمارے جسم کا اندرداخل ہونے کا جو دروازہ ہے، جو مین گیٹ(Main Gate)ہے، راستہ ہے، وہ زبان ہے۔ اگر یہ لغو اور فضول باتوں سے پاک ہے تو سمجھو کہ تمہارے وجود میں داخل ہونے کا راستہ صاف اور پاک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کیونکہ خوبصورت، پاک اور صاف چیزوں کو پسند کرتا ہے تو اس طرح تمہاری پاک زبان کی وجہ سے خداتعالیٰ بھی تمہارے قریب آجائے گا۔ تو جب تمہاری پاک زبان سے خداتعالیٰ تمہارے اتنے قریب آ گیا تو پھر عین ممکن ہے کہ تمہارے دوسرے اعمال بھی ایسے ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کی پسند کے اعمال ہوں اور پھر تمہارا سارا وجود خداتعالیٰ کا پسندیدہ وجود بن جائے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍ اگست 2004ء)
(مشکل الفاظ کے معانی: فضول گوئی: بات بڑھا کر بیان کرنا، بکواس کرنا۔ ڈیوڑھی: گھر میں آنے جانے کا مُسقَّف رستہ، ویرانڈا۔ تعجّب: حیرت، حیرانی)