ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
تمہارا مسیح تمہارے پاس آگیا۔ اب اگر تم ظلم سے باز نہ آئے تو ضرور پکڑے جاؤ گے۔ خدا کے نزدیک مغضوب علیہم سے وہ یہودی مراد ہیں
جنہوں نے عیسیٰ کے معاملہ میں ناانصافی کی اور اس کو کافر کہا اور اس کو ستایا اور قرآن میں اس کی زبان پر لعنت کئے گئے۔ اور اسی طرح تم میں سے
وہ جو مسیح آخرالزمان کی تکفیر اور زبان سے اس کی تکذیب اور ایذا اور اس کے قتل کی آرزو کی وجہ سے ان یہودیوں سے مشابہ ہو گئے-
’’ اے لڑنے والو! اس لڑائی میں تمہارے لئے کوئی بہتری نہیں۔ تم سورۃ فاتحہ میں اس قوم کا ذکر پڑھتے ہو جن پر خدا کا غضب اس لئے اترا کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کا کفر کیا اور اس کو حقیر جانا اور ستایا اور پکڑوایا اور چاہا کہ سولی دیں اس لئے کہ لوگ اسے ملعون اور بدبخت جانیں۔ چاہیے کہ اُمُّ الکتاب میں خوب غور کرو کہ کیوں تم کو خدا نے اس سے ڈرایا کہ تم مَغْضُوْب عَلَیْہم ہو جاؤ۔ جان لو کہ اس میں یہ راز تھا کہ خدا جانتا تھا کہ مسیح ثانی تم میں پیدا ہو گا اور گویا وہ وہی ہو گا اور خدا جانتا تھا کہ ایک گروہ تم میں سے اس کو کافر اور جھوٹا کہے گا اسے گالیاں دیں گے اور حقیر جانیں گے اور اس کے قتل کا ارادہ کریں گے اور اس پر لعنت کریں گے۔ پس اس نے رحم کرکے اور اس خبر کی طرف جو مقدر تھی اشارہ کے لئے یہ دعا تم کو سکھائی۔ پس تمہارا مسیح تمہارے پاس آگیا۔ اب اگر تم ظلم سے باز نہ آئے تو ضرور پکڑے جاؤ گے۔ اور اس مقام سے ثابت ہوا کہ خدا کے نزدیک مغضوب علیہم سے وہ یہودی مراد ہیں [ترجمہ ۔ لفظ مغضوب علیہم ، ضالّین کے لفظ کے مقابل میں ہے یعنی وہ لفظ اس لفظ کے مقابل پڑا ہے جیسا کہ دیکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں۔ پس قطع اور یقین سے ثابت ہو گیا کہ مغضوب علیہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں تفریط کی اور کافر قرار دیا اور دکھ دیا اور اہانت کی۔ اور ضالّین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں افراط کیا اور ان کو خدا قرار دے دیا۔ منہ]جنہوں نے عیسیٰ کے معاملہ میں ناانصافی کی اور اس کو کافر کہا اور اس کو ستایا اور قرآن میں اس کی زبان پر لعنت کئے گئے۔ اور اسی طرح تم میں سے وہ جو مسیح آخرالزمان کی تکفیر اور زبان سے اس کی تکذیب اور ایذا اور اس کے قتل کی آرزو کی وجہ سے ان یہودیوں سے مشابہ ہو گئے اور ضالّین سے مراد نصاریٰ ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں حد سے گزر گئے اور کہا کہ مسیح ہی خدا ہے اور وہ تین میں سے ایک ہے ایسا کہ دونوں اس کے وجود میں موجود ہیں۔ اور اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْسے وہ انبیاء اور بنی اسرائیل کے آخری برگزیدے مراد ہیں جنہوں نے مسیح کی تصدیق کی اور اس کے بارے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور باتوں سے اس مسیح کے حق میں زیادتی نہیں کی اور اسی طرح مراد لفظ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ سے عیسیٰ مسیح ہے جس پر وہ سلسلہ ختم ہوا اور اس کے وجود سے فیض کا چشمہ بند ہوگیا۔ گویا کہ اس کا وجود اس انتقال کے لئے ایک نشانی یا حشر اور قیامت تھا اور اسی طرح اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ سے مراد اس اُمّت کے ابدالوں کا سلسلہ مراد ہے جنہوں نے مسیح آخرالزمان کی تصدیق کی اور صدق دل سے اس کو قبول کیا۔ یعنی اِس مسیح کو جس پر یہ سلسلہ ختم ہوا اور اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْسے وہی مقصود اعظم ہے کیونکہ مقابلہ اسی کا مقتضی ہے اور تدبّر کرنے والے اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ مَغْضُوْب عَلَیْہِم وہی یہودی ہیں جنہوں نے مسیح کو کافر کہا اور اس کو ملعون جانا جیسا کہ اَلضَّآلِّیْن کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے ترتیب ٹھیک نہیں بیٹھتی اور قرآن کے کلام کا نظام درست نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ سے آخر زمانہ کا مسیح مراد لیا جائے۔ کیونکہ قرآن شریف کی عادت ہے کہ مقابلہ کی رعایت رکھتا ہے اور مقابلہ کی رعایت رکھنا اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور حسن بیان میں داخل ہے اور جاہل کے سوا کوئی اس معنے سے انکار نہیں کرتا۔ اس مقام سے اچھی طرح سے معلوم ہوا کہ جو کوئی نماز میں یا نماز سے باہر اس دعا کو پڑھتا ہے وہ اپنے پروردگار سے سوال کرتا ہے کہ اس کو اُس مسیح کی جماعت میں داخل فرماوے جس کو اس کی قوم کافر کہے گی اور اس کی تکذیب کرے گی اور اس کو سب مخلوقات سے بدتر سمجھے گی اور اس کا نام دجاّل اور مُلحِد اور گمراہ رکھے گی جیسا کہ یہود ملعون نے عیسیٰ کا نام رکھا تھا۔
اب بتلاؤ کہ وہ کون ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور تم نے اس کو کافر کہا اور ان ناموں سے پکارا اور فتوے لگانے کے تیروں سے اس کو زخمی کیا۔ کیا تم اس پیشگوئی کو جسے تم نے خود اپنی زبانوں سے پورا کیا جھٹلاتے ہو؟ کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ فاتحہ میں اپنے خدا سے چاہتے ہو کہ تم کو میری جماعت میں داخل فرماوے پھر منہ پھیرتے ہو؟ اور تم کہتے تھے کہ بغیر فاتحہ کوئی نماز درست نہیں۔ اب اے موحّدو! تم خود سب سے پہلے اس کا کفر مت کرو۔ بڑا تعجب ہے کہ پانچ وقت اس دعا کو فاتحہ میں پڑھتے ہو اور اس کے معنے بھی سمجھتے ہو پھر بھولتے ہو اور منہ پھیر لیتے ہو۔ اس بدبختی سے خدا کا غضب بھڑکتا ہے کیونکہ یہ خدا کے حکم سے منہ پھیرنا ہے۔ مَیں اس چیز پر جو تمہارے پاس لایا ہوں کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ یہ کہتا ہوں کہ مال اپنے ہاتھ سے زمین پر پھینکواور میں اسے اٹھالوں بلکہ میں خود تم کو مال دیتا ہوں۔ کیا لیتے ہو؟‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 123تا128۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)