مضمون کیسے لکھیں؟
اُف! احمد اور محمود آپ دونوں خاموش ہوجائیں! گڑیا نے زوردار آواز سے کہا۔گڑیا کی آواز سن کر دادی جان بھی باہر آ گئیں اور گڑیا سے پوچھا: گڑیا کیا بات ہے میری بیٹی اتنی تیز کیوں بولیں آپ؟
گڑیا: کچھ نہیں دادی جان! میں ایک مضمون لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اور یہ دونوں لڈو کھیلتے ہوئے شور مچا رہے ہیں۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
دادی جان نے اُن دونوں کو آرام سے کھیلنے کا کہتے ہوئے گڑیا سےپوچھا: کونسا مضمون ہے بھلا؟
گڑیا: ناصرات الاحمدیہ کا سہ ماہی مضمون نویسی کا ہے۔ ’مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ کی اہمیت‘۔ سیکرٹری صاحبہ نے مجھےکہا ہے کہ اس بار لازمی مضمون لکھنا ہے۔
اچھا تو یہ بات ہے۔ دادی جان نےکرسی پر بیٹھے ہوئے کہا۔
گڑیا :دادی جان مجھے مضمون لکھنے کے بارے میں کچھ بتائیں۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے لکھنا ہے۔
دادی جان: کوئی بات نہیں۔میں اپنی بیٹی کی مدد کرتی ہوں۔ چلیں سب سے پہلے آپ یہ دعا کریں۔ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا!
محمود اپنی باری کرتے ہوئے گڑیا سے پہلے ہی زور سے دعا دہراتا ہے۔ جس پر دادی جان شاباش کہہ کر محمود کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہیں۔
دادی جان: جب آپ مضمون لکھیں یا کوئی کام کریں تو پوری توجہ سے کریں۔ اردگرد پر توجہ نہ دیں۔ میں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقعہ سناتی ہوں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ آپؑ کمرہ بند کر کے کوئی کتاب لکھ رہے تھے۔اب حضرت مصلح موعودؓ جو اس وقت چھوٹے بچے تھے آئے اور زور سے دروازے پردستک بھی دی اور آواز بھی دی: ابّا بُوَاکھول! آپؑ فوراً اٹھے اور دروازہ کھول دیا۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلے گئے۔حضرت مسیح موعودؑ نے پھر سےدروازہ بند کرلیا ۔دوہی منٹ گزرے ہوں گے کہ زور زور سے دروازہ بجنے لگا اور چھوٹے سے میاں محمود کہہ رہے ہیں کہ ابّا بوا کھول! آپؑ پھر بڑے اطمینان سے اُٹھے اور دروازہ کھول دیا۔ اب کی دفعہ بھی اندر نہیں آتے بس ذرا سرہی اندر کرکے اور کچھ منہ میں بڑبڑا کے بھاگ جاتے ہیں۔حضرت صاحبؑ پھرسے دروازہ بند کرکے اپنے ضروری کام پر بیٹھ جاتے ہیں۔کوئی پانچ ہی منٹ گزرتے ہیں تو پھر سے وہی تقاضا کہ ابّا بوا کھول! اور آپ اٹھ کر اُسی وقار اور سکون سے دروازہ کھول دیتے ہیں۔کوئی بیس دفعہ اُنہوں نے ایسا کیا اور حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار بھی اُنہیں کچھ نہ کہا۔
احمد :یوم مصلح موعود پر مربی صاحب نے بتایا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے کچھ کتابوں کو آگ لگا دی تھی۔
دادی جان: جی ہوا تھا ایسا لیکن میں دوبارہ صحیح طرح بتاتی ہوں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ چھوٹے بچے تھے تو ایک بار انہوں نے دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر شرارت سے آپ کے لکھے ہوئے بعض اوراق کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور حضرت مسیح موعودؑ اپنے دھیان میں لکھنے میں مصروف رہے۔ سر اٹھا کر دیکھا ہی نہیں کہ کیا ہو رہاہے۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی کاغذ راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب آپؑ کو کسی تحریر کے ملانے کے لیے کسی پرانے کاغذ کو دیکھنے کی ضرورت پڑی تو دیکھا کہ سب کاغذات جل کرراکھ ہوچکے ہیں۔
گڑیا :اوہ خدایا! اتنی محنت ضائع ہوگئی۔
دادی جان: پہلے پہل تو پوچھنے پر کوئی نہیں بولا آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیے۔ عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ پریشان کہ اب کیا ہوگا ؟ مگر حضرت مسیح موعودؑنے مسکراکرفرمایا: ’’خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اتنی ساری نایاب کتابیں صرف خدا تعالیٰ کی مدد سے لکھی ہیں۔
دادی جان: جی بظاہر تو یہی لگتا ہے اور کوئی عام انسان ہوتا تو غصے سے آگ بگولا ہوجاتا مگر آپؑ کی طبیعت میں بلاوجہ غصہ نہیں تھا۔
دادی جان: یہ ساری باتیں آپ کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جب آپ دعاکر کے،پوری توجہ سے لکھنے بیٹھیں گی تو مضمون خود بخود ہی آپ کے ذہن میں آتا جائے گا۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مضمون نگاری کے لیے آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے۔ جب تک آپ پڑھیں گے نہیں آپ کبھی بھی اچھا نہیں لکھ سکتے۔ مضمون سے متعلق پہلے کچھ آیات، احادیث اور اقتباسات جمع کریں۔ اپنے مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے آپ اچھے واقعات اور اشعار ڈال لیں۔ اس سے مضمون اور بھی خوبصورت بن جائے گا۔ آپ اپنے موضوع سے متعلق الفضْل میں تلاش کریں اور اپنے ابو جان سے کہیں کہ وہ الاِسلام اور الفضل کی ویب سائٹ سے آپ کو اس بارہ میں مواد ڈھونڈ دیں۔ پھر دیکھنا آپ کا مضمون کتنا پیارا لکھا جاتا ہے۔
گڑیا دادی جان کے گلے لگتے ہوئے کہنے لگی: شکریہ دادی جان آپ ہمیشہ ہی میری ہر مشکل چٹکیوں میں حل کردیتی ہیں۔
احمد: دادی جان میں آج کلاس میں مربی صاحب سے کہہ کر اطفال کو یہ مضمون لکھنے کا طریقہ بتاؤں گا۔
محمود: احمد بھائی مجھے بھی مسجد میں جانا ہے۔
دادی جان: محمود ابھی آپ چھوٹے ہیں! اس لیے آپ کے ابو جان نے کہا ہے کہ آپ صرف جمعے کے روز ان کے ساتھ مسجد میں جائیں گے۔ ورنہ بچوں کے شور سے نمازیوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔
محمود انگلیوں پر دن گن کر کہتا ہے: یعنی پرسوں۔
دادی جان: چلیں مغرب کا وقت ہوگیا۔ احمد آپ وضو کر کے مسجد جائیں۔ باقی ہم سب گھر میں نماز پڑھتے ہیں۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)
(واقعات ماخوذازسیرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ وسیرت مسیح موعودؑ از حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ)