پیارے حضور ایّدہ اللہ کی پیاری باتیں
الفضل کے اجرا میں ایک بچی اور ان کی والدہ کی قربانی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’1913ء میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت اُمّ ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمایہ کے طورپر اپنا کچھ زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دل میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اُس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو (یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی) جو اُس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا، (آپ نے) اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں، اُن میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے(سونے کے)، اور دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے سونے کے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے، مَیں زیورات کو لے کر اُسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے‘‘ اور اُس سے پھر یہ اخبارالفضل جاری ہوا۔
قارئین الفضل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گو بیشک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا، اور یہ الفضل جو ہے آج انٹرنیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور اُن کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ 5؍ اگست 2011ء، الفضل انٹرنیشنل 26 اگست تا یکم ستمبر 2011ء)