وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط سیزدہم)
حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر بہت سی حیرت انگیز باتوں کا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ انہی بہت سی باتوں میں سے سب سے حیرت انگیز بات وہ سکون اور اطمینان ہے جو نہ صرف حضور کی ذاتِ بابرکات میں نظر آتا ہے بلکہ دیکھنے والے کے دل میں بھی اترتا چلا جاتا ہے۔گزشتہ 13 برس سے یہی دیکھتے آئے ہیں کہ ملاقات کے لئےحضور انور کے دفتر میں داخل ہوئے۔ حضور سامنے تشریف فرما ہیں، کام میں مصروف ہیں۔ سامنے خطوں کےانبار پڑے ہیں۔ اور بڑی محبت سے فرمایا’’آؤ بھئی! کیا کہتے ہو؟‘‘
اس جملہ کا سکون ملاحظہ فرمالیں، خود یہی جملہ انسان کے اندر کی بے کلی کو سکون میں تبدیل کردینے کا حکم رکھتا ہے۔ حضور کے دفتر میں چار سُو سکون ، امن اور آشتی کی ڈیرے ہیں۔اس سے پہلے کہ اصل مضمون کی طرف چلیں، آئیے ایک نظر اس پرسکون ماحول پر ڈالنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
حضور کے بالکل سامنے خطوں کا ایک انبار ہے جس پر حضور دستخط فرماتے جاتے ہیں۔ کبھی کسی خط کے متن کو غور سے پڑھتے ہیں۔ پھر دستخط فرماتے ہیں یا مزید کوئی ہدایت دینی ہو تو وہ تحریر فرمادیتے ہیں۔جوں جوں یہ خط ملاحظہ ہوتے جاتے ہیں، ساتھ ہی ایک اور انبار تیار ہوتا جاتا ہے۔سامنے تین ضخیم قسم کی فائلیں ہیں جو ڈاک سے بھری پڑی ہیں۔ جب سامنے پڑا انبار ختم ہوجاتا ہے تو یہ سارے خطوط ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ پھر سامنے پڑی فائلوں میں سے کچھ اور خطوط اٹھاتے ہیں، اور سامنے رکھ کر انہیں دیکھنے، پڑھنے اور دستخط ثبت فرمانے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دستخط شدہ خطوط کا انبار حضور کچھ فاصلہ پر رکھتے ہیں، اور وہ فائلیں جہاں سے مزید خطوط اٹھاتے ہیں، وہ بھی کچھ فاصلہ پر ہیں۔ شروع شروع میں مجھے لگتا کہ حضور کو اس عمل میں کچھ دقت ہوتی ہے۔ ایک روز حضور اٹھ کر یہ خطوط رکھنے لگے تو میں نے ہاتھ بڑھایا تا کہ یہ سعادت میرے حصہ میں آجائے اور میں کسی سہولت کا باعث ہوسکوں۔ فرمایا’’نہیں، میں رکھ لوں گا‘‘۔ پھر کبھی ہمت تو نہ ہوئی مگر شاید میری body language سے حضور کواندازہ ہوجاتا کہ ہر بار جب آپ خطوط رکھنے لگتے یا فائل میں سے نکالنے لگتے، تو میں یہ خدمت کرنا چاہتا تھا۔ پھر ایک روز ازراہِ شفقت فرما یا کہ’’ یہ لو یہ وہاں رکھ دو‘‘۔میں رکھ کر بیٹھنے لگا تو فرمایا’’وہاں سے اور خط دو‘‘۔ تو الحمدللہ اس روز کے بعدسے میں جب بھی حاضرِ خدمت ہوتا ہوں، یہ سعادت میرے حصہ میں آجاتی ہے کہ، مگر ایسے کہ حضور انور بات کا ربط بھی ٹوٹنے نہیں دیتے اور آپ کا کام جاری و ساری رہتا ہے۔
حضور تحریر کے کام میں سہولت کے لئے ایک شیشہ کا پلیٹ فارم استعمال فرماتے ہیں جو میز سے نسبتاً بلند تر ہے۔ اس کے نیچے بھی کاغذات پڑے ہوتے ہیں مگر یہاں ایک اورچیز ہوتی ہے جس میں ہر احمدی کو دلچسپی ہوگی۔ یہاں حضور نے بہت سے سادہ کاغذات بہت بڑے سے clip کے ساتھ نتھی کر کے رکھے ہوتے ہیں۔ جیسے ایک بہت ضخیم پیڈ۔ یہ کبھی تو بالکل خالی ہوتا ہے اور کبھی اس پر حضور انور کے ہاتھ سے لکھی مبارک تحریر ہوتی ہے۔یہ کاغذات حضور نے لمبائی کے رخ یعنی landscape رخ پر رکھے ہوتے ہیں۔ اب اس کی طرف بھی بعد میں آتے ہیں۔
ساتھ کچھ بہت چھوٹے سائز کی یعنی پاکٹ سائز ڈائریاں ہیں۔ یہ بھی کبھی ایک، کبھی دو وہاں موجود ہوتی ہیں۔ کبھی اس شیشہ کے نیچے کوئی کاغذ پڑا ہوتا ہے۔ یہ شاید فوری توجہ کا طالب کوئی عریضہ ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات دیکھا کہ حضور نے جب ڈاک پر دستخط کا کام مکمل کرلیا تو ، اس شیشہ کے پلیٹ فارم کے نیچے سے وہ کاغذ نکالا، اسے پڑھا اور اس پر ہدایت تحریر فرما کر اسے الگ رکھ دیا۔
حضور کے بائیں ہاتھ بالکل کرسی کے ساتھ کتب کا ایک شیلف ہے۔ یہاں روحانی خزائن کا مکمل سیٹ موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی دیگر کتب مثلاً درثمین ، قصائد الاحمدیہ وغیرہ رکھی ہیں۔ان کتب کے آغاز پر قرآن کریم کا نسخہ ہے جو کثرتِ مطالعہ کا پتہ دیتا ہے۔پھر تفاسیر بھی اسی قطار میں ہیں۔ کتابوں کی یہ قطار پیچھے دیوار تک چلی گئی ہے۔ اسی دیوار کے ساتھ ایک اور کیبنٹ ہے جس کے اوپر متفرق فائلیں ہیں، حضور کاکمپیوٹر ہے، ہومیوپیتھی ادویہ کی کچھ شیشیاں ہیں۔ اس کیبنٹ کے ساتھ ہی ایک چھوٹا میز جس پر حضور کی پانی کی بوتل اور گلاس بڑی نفاست سے رکھا رہتا ہے، جو حضور حسبِ ضرورت استعمال فرماتے ہیں۔پھر حضور کے داہنے ہاتھ کی طرف جو دیوار ہے اس کے ساتھ بھی ایک شیلف ہے جو کتب سے بھرا پڑا ہے۔کئی مرتبہ کا تجربہ ہے کہ وہاں کسی کتاب کی ضرورت ہو تو حضور کی نظر سیدھی اس کتاب پر جاتی ہے ۔ بعض اوقات یہ سعادت بھی حاصل ہوتی ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں کہ فلاں کتاب اٹھا کر لاؤ۔ پھر حضور ساتھ ہدایات دیتے رہتے ہیں کہ تیسرے شیلف کے تیسرے خانہ میں، بائیں طرف دیکھو۔ وہاں مطلوبہ کتاب کا ٹائٹل نظر آجاتا ہے اور کتاب پیش کر دی جاتی ہے۔
حضور کے سامنے والی دیوار پر بھی ایک قدِآدم شیلف ہے جس کے بعض دروازے شیشہ کے ہیں اور بعض لکڑی کے ۔ درمیان میں اس ٹی وی کی جگہ ہے جس پر حضور حسبِ ضرورت کسی پروگرام کی ریکارڈنگ دیکھنا چاہیں تو اس کے نیچے پڑے ڈی وی ڈی پلیئر پر چلانے کا ارشاد فرماتے ہیں۔اب تک کا میرا تجربہ یہ ہے کہ جب بھی حضور نے اس پرکوئی پروگرام لگانے کا کہا، اور ڈی وی ڈی پلیئر کی ٹرے کھولی، وہ کم ہی خالی ہوتی ہے۔ اکثر اس میں حضرت مصلح موعودؓ کی سیرِروحانی والی تقریر کی سی ڈی پڑی ہوتی ہے۔ اسے نکال کر پروگرام چلایا۔ جب ملاحظہ فرمالیا تو فرمایا کہ اب اپنی ڈی وی ڈی نکال لو اور وہی واپس رکھ دو جو پڑی ہوئی تھی۔یہ تقریر ایک مرتبہ خاکسار کو بھی حضور انور نے سنوائی۔ خود چلائی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ یہ تقریر کچھ دیر چلتی رہی۔ وہ تجربہ بھی عجیب تھا۔ تقریر کا حصہ جو چلا و ہ وہی شہرۂ آفاق حصہ تھا جہاں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!‘‘ اور پھر ایک جگہ جہاں حضورؓ نے فرمایا کہ ’’تم کو، ہاں تم کو، ہاں تم کو!!‘‘۔ کمرے میں حضرت مصلح موعودؓ کے یہ بابرکت اور پر رعب الفاظ گونج رہے تھے۔ سامنے وہ وجود تشریف فرماتھا جو آسمانی بادشاہت کے موسیقاروں کے اِس عظیم الشان قافلہ کا سپہ سالار ہے۔ ایک طرف سےیہ مبارک آواز آرہی تھی، اور سامنے حضور انور کا بابرکت وجود بنفسِ نفیس موجود۔ گویا سارے کمرے میں رعب اور جلا ل اور جمال !ان پندرہ بیس منٹ میں حضور انور کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس لمحہ اس عظیم خلیفۂ برحق کا حسن و جمال اور جاہ و جلال اور انہماکِ بے مثال نظر کو خیرہ کرتا تھا۔
میز پر حضور کے داہنے ہاتھ بہت سی کتب اور نوٹس وغیرہ ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ایک الیکٹرانک ڈکشنری بھی۔درازوں میں کیاسامان ہے، مجھے معلوم نہیں مگر وہاں سے کچھ اشیاء گاہے بہ گاہے نکلتی ہیں اور ہمارے امام کی خدمت کرنے کی توفیق پاتی ہیں۔
اب کچھ احوال سطح پر نظر آنے والے سکون کے پیچھے چھپے اس روزمرہ معمول کا جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں کیونکہ اسی معمول میں وہ دعائیں، وہ اپنے رب کے ساتھ خلوت کی گھڑیا ں ہیں جو راز ونیاز کی دنیا ہے۔مگر جو دیکھاہے، جتنا سمجھ میں آیا ہےپیش کرتا ہوں۔
یہ تو ہم سبھی کو معلوم ہے کہ حضور کے دن کا معمول تو فجر سے بھی بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی سُن رکھا تھا کہ حضور دفتر کے عملہ سے بھی بہت پہلے دفتر تشریف لے آتے ہیں۔ مگر ایک روز اس کا تجربہ بھی ہوا، جو بہت یادگار ہے۔ہوا یوں کہ میں اپنی ملاقات کے وقت سے کچھ پہلے انتظار گاہ میں بیٹھا تھا۔یہ انتظار گاہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے باہر ہوتی تھی۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ابھی کوئی نہیں آیا تھا کہ ابھی دفتری اوقات شروع نہیں ہوئے تھے۔ مجھے ملاقات کے لئے کچھ نوٹس تیار کرنے تھے، میں اِس لئےجلدی حاضرہوگیا تھا اور بیٹھا اپنے کاغذات کو ترتیب دے رہا تھا۔ دفتر کے دروازے کے اوپر ایک روشن دان ہے۔ جب عملہ اندر نہیں تھا تو ظاہر ہے کہ اندر لائٹ بھی نہیں جل رہی تھی اور روشن دان سے روشنی کی بجائے اندھیرا نظر آرہا تھا۔
اچانک اس روشن دان سے روشنی آئی۔ میں نے دیکھا کہ اندر کی لائٹ کسی نے روشن کر دی تھی۔ پھر اندر سے کچھ حرکت کی آوازیں بھی آئیں۔پھر دروازے کے تالے کے کھلنے کی آواز بھی اندر سے آئی۔ اور دروازہ کھلا۔ اور دروازہ جب کھلا تو سامنے کوئی اور نہیں میرے پیارے حضور کھڑے تھے۔
’’تم جلدی آگئے ہو؟ چلو آؤ پھر!‘‘
مَیں تو بالکل تیار نہیں تھا۔ نہ اتنی جلدی ملاقات کے لئے نہ اس منظر کے لئے۔ میں اپنے کاغذات کو جیسے تیسے اٹھا کر لپکا اور حضور کے پیچھے پیچھے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے ہوتا حضور کے دفتر میں داخل ہوگیا۔سانس کے اکھڑنے سنبھلنے کے درمیانی مراحل میں اپنی گزارشات پیش کرتا رہا۔ رہنمائی عطا ہوتی رہی۔ اور اُس روز یہ بھی دیکھ لیا کہ حضور کس قدر جلد اپنے دفتر میں تشریف لا چکے ہوتے ہیں۔اور دفتر کیسا جناب؟ حضور جہاں ہیں، وہیں دفتر لگا ہے۔ اوپر اپنی لائبریری میں ہوں، یا گھر کے کسی اور کمرہ میں، معلوم یہی ہوا کہ دیر تک ڈاک دیکھنے اور اس پر ہدایات دینے کا عمل جاری رہتا ہے۔
جس روز بیت الفتوح کمپلیکس کو آگ لگی، اس روز ظہر کے فوراً بعد یاد فرمایا تھا۔ یعنی دفتر سے اٹھے ہوں گے، نماز پڑھائی ہوگی،اور پھر یاد فرمایا ہوگا۔ میں جب تک مسجد فضل پہنچا، حضور دفتر سے تشریف لے جاچکے تھے۔ مگر دس منٹ کے اندر اندر حضور واپس دفتر میں تشریف فرماتھے۔
ابھی کچھ دن پہلے موسمی اثرات سے طبیعت ناساز ہوئی۔ کچھ دن حضور نمازوں پر مسجد تشریف نہیں لائے۔ جمعرات کی شام اس گھبراہٹ میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حاضرہوا کہ معلوم ہو کہ کل جمعہ کی کیا صورت ہوگی۔ اگر حضور خطبہ ارشاد فرمائیں گے تو مسجد فضل سے یا مسجد بیت الفتوح سے؟ میں حاضر ہوا تو حضور کے دفتر کے باہر نصب لائٹ روشن تھی۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس لائٹ کو روشن دیکھ کر دل اور دماغ بھی کس طرح روشن ہوگئے۔ حضور دفتر میں مصروفِ کار تھے۔ جان میں جان تو آئی ہی، مگر ساتھ یہ بھی خیال دل کو جھنجھوڑ کر رکھ گیا، کہ طبیعت ناساز بھی ہے تو بھی حضور اپنے مولا کی طرف سے سپرد کام میں مصروف ہیں۔
عشاء کے بعد بھی دفتر کے باہر نصب یہ لائٹ کئی مرتبہ روشن دیکھی ہے۔ یہ تو دفتری اوقات کا تذکرہ ہے (یعنی ہمارے دفتری اوقات کا)۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد حضور دفتر میں ہوں یا گھر پر تشریف فرما ہوں، رات گئے تک کام ہی کام ہے۔ کئی مرتبہ رات کو ڈاک دیکھنے اور رات گئے کئے گئے کسی مطالعہ کا ذکرفرمایا۔ سو معلوم ہوا کہ معمول کے کام کہیں تھمتے ہی نہیں۔
تو یہ معمول جو ہمارے سامنے ہے، اس سے کئی دفعہ خیال آیا کہ حضور سے پوچھنے کی جرات کروں کہ حضور، یہ ہفتہ وار خطباتِ جمعہ جو کم و بیش ایک گھنٹہ پر محیط ہوتے ہیں، یہ سارے خطابات جو کبھی پیس کانفرنس اور کبھی پارلیمنٹ اور کبھی کسی اجتماع اور کبھی کسی اجتماع میں ارشاد فرماتے ہیں، ان کی شانِ نزول پر کچھ روشنی عطا فرمائیے۔ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اور نہیں ہوئی تو کئی سال نہیں ہوئی۔ ایک روز کوئی ایسا لمحہ میسر آگیا۔ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ ’’حضور، آپ کا معمول کیا ہوتا ہے؟‘‘
بڑے لطیف تبسم کے ساتھ فرمایا ’’معمول؟ معمول کیا ہونا ہے! صبح ہوتی ہے ، شام ہوتی ہے۔۔۔‘‘
اور یہ باب یہیں بند سا ہوگیا۔’’کچھ سو لیتا ہوں۔ پھر جاگ جاتا ہوں۔ کچھ کام کرلیتا ہوں اور بس‘‘
مگر کچھ اور باتوں کو جمع کرتے کرتے ایک jigsaw میں نے خود جوڑا۔ جو تصویر ابھری وہ حیرت میں مبتلا کردینی والی ہے۔سو کچھ اس کا احوال سنتے چلیں۔
ایک روز میرے نصیب جاگے تو وہ چھوٹی پاکٹ سائز ڈائریاں دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کا اوپر ذکر گزرا ہے۔ حضور ورق پلٹتے جاتے اور بتاتے جاتے۔ ہر صفحہ نہایت باریک خط میں حضور کے دستِ مبارک سے کی گئی تحریر سے پُر۔ کوئی اسے عام طور پر تحریر کرے تو شاید ہر چھوٹا سا صفحہ جو بمشکل ہتھیلی بھر کا ہے، پورے بڑے کاغذ پر محیط ہو جائے۔
فرمایا ’’یہ میرے نوٹس ہیں۔۔۔جلسہ جرمنی 2015 آخری دن کا خطاب۔۔۔اجتماع وقفِ نو۔۔۔پارلیمنٹ سے خطاب 2008۔۔۔یہ جامعہ کے کانووکیشن کے نوٹس، مگر یہ میں ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔۔۔وہیں جو ذہن میں آتا گیا،کہہ دیا۔۔۔‘‘
کئی خطابات، کئی خطبات کے نوٹس۔ ایک خزانہ جو نہایت سادہ سی چھوٹی سی ڈائریوں میں محفوظ ہے۔فرمایا کہ ’’اس طرح کی کئی ڈائریاں بھری ہوئی میرے پاس اوپر پڑی ہیں۔ پہلے میں کاغذ پر ہی نوٹس لے لیا کرتا تھا، اب ان میں لکھتا جاتا ہوں‘‘۔
جانے کس وقت یہ خزائن یکجا کئے جاتے ہوں گے۔ کون سے مبارک وہ لمحات ہوں گے جب ذہنِ مبارک پر کوئی خوش قسمت خیال یوں روشن ہوتا ہوگا کہ حضور اپنے دستِ مبارک سے اسے رقم فرمالینے کے لائق خیال فرماتے ہوں گے۔
پھر ایک روز خطبہ کی شانِ نزول کا بھی بیان ہوا۔ وہ حالت تو یا حضور خود جانتے ہیں یا آپ کا خدا جانتا ہوگا، مگر ان خطبات کے مبارک الفاظ کے ظہور پر سے کچھ پردہ ایک روز ازراہِ شفقت اٹھایا، تو میں نے جھانک کر نظروں اوردل کی تسکین کا سامان کیا۔
فرمایا کہ ’’میں جمعرات کی صبح خطبہ پر کچھ غور کرنا شروع کرتا ہوں۔ حوالے ڈھونڈتا ہوں۔ اگر حوالے پہلے سے ہوں تو کچھ ابتدائی نوٹس بنالیتا ہوں۔ دوپہر کی نماز تک۔۔۔‘‘
یہ ذکر ِخیر بھی طلوع ہوتا ہوتا جمعرات کے روز کی نمازِ ظہر پر آکر رک گیا۔
پھر کسی اور موقع پر فرمایا کہ جمعرات کی رات کو خطبہ پر کچھ کام کر لیتا ہوں۔اور اس موقع پر بھی بات جمعرات کی رات پر جا کر ٹھہر گئی۔
پھر ایک موقع پر فرمایا کہ ’’خطبہ کے لئے جاتے جاتے بھی خطبہ کے نوٹس میں ترمیم کرتا رہتا ہوں‘‘
اب یہاں یہ یاد رہے کہ معمول کے کام جو ہم ظاہر میں دیکھ رہے ہیں سب جاری ہیں۔ ڈاک ہے، دفتری ملاقاتیں ہیں، انفرادی ملاقاتیں ہیں، سب کچھ چلتا چلا جا رہا ہے، مساجد کے افتتاح ہیں، تقاریب سے خطاب ہیں، کلاسیں ہیں ، طلبا کی رہنمائی ہے، مجالسِ عاملہ سے ملاقاتیں ہیں۔ تو یہاں تک اس jigsaw کے جتنے ٹکڑے میسر آئے، انہیں جوڑا تویہ ساری تیاری کل ملا کر کچھ گھنٹوں سے زیادہ کی تصویر نہ بنی۔ تو یہ سب انقلاب انگیز فرمودات جو آپ اپنی جماعت بلکہ کُل انسانیت کی بہبود کے لئے عطا فرماتے ہیں، ان پر چند ہی گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔میرا خیال تو تھا کہ کئی دن لگ جاتے ہوں گے۔ مگر ابھی حیرت کی اور منزلیں باقی تھیں۔ آئیے ، میرے ساتھ اس حیرت کا لطف اٹھائیے۔
ایک اور تجسس تو ہمیشہ سے تھا ہی۔ اور وہ یہ کہ صرف حوالہ جات ہی ڈھونڈنے ہوں، تو وہ بھی کئی پہرکے متقاضی ہوتے ہیں۔اپنا تجربہ بھی یہی ہے، اور باقی کہنہ مشق حوالہ جات کی تخریج کرنے والے احباب کا بھی یہی کہنا ہے۔ مگر یہی تو ہماری کوتاہی ہے کہ ہم اپنے وقت، اپنی محنت، اپنی تدبیر، اپنی سوچ کے پیمانہ پر خلیفۃ المسیح کے وقت اور تدبیر کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بھول جاتے ہیں کہ یہ دو الگ دنیاؤ ں کی بات ہے۔ شاید میرا تجسس پوشیدہ نہ رہا اور یہ عقدہ حضور نے کھول دیا ۔ حضور کی نگاہِ مبارک تو دور تک دیکھ لیتی ہے۔ شاید میرا یہ تجسس اس روز کہیں پڑا ہوا نظرآیا۔ اور میرے اس معصوم جذبے کے بخت جاگ اٹھے۔
’’خطبہ کے لئے اور خطابات وغیرہ کے لئے مجھے بہت سے حوالے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ میں نے اس کا حل نکال لیا ہوا ہے‘‘یہ فرما کر اپنے پاس رکھی دو کتب اٹھائیں، اور ان میں سے ایک کا انڈیکس کھولا۔ یہ کتاب تھی ’’مرزا غلام احمد قادیانیؑ اپنی تحریروں کی روسے‘‘۔ اس کا انڈیکس دیکھنے کے لئے عطا فرمایا۔ مجھے یہ ریاضی کا کوئی گھمبیر فارمولا معلوم ہوا۔ کہیں کچھ حروفِ مخفف درج تھے اور کہیں کچھ ہندسے انگریزی طرز پر ، کچھ رومن ہندسے۔’’بھلا کیا ہے؟‘‘
صاف عرض کردی کہ کچھ معلوم نہیں۔ پھر فرمایا کہ ’’یہ دیکھو۔۔۔اسلام میں نبوت کا موضوع ہے۔ ۔ ۔ (شیلف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) وہاں جا کر Essence of Islam کی تیسری جلد اٹھاؤ‘‘۔ میں نے ڈھونڈ کر اٹھا لی تو فرمایا کہ ’’اب اس کے صفحہ 125 پر جاؤ۔۔۔ کیا لکھا ہے؟‘‘ عرض کی کہ ’’یہاں لکھا ہے Prophethood in Islam‘‘
پھر ایک اور جلد میں سے ایک اور صفحہ تلاش کرنے کا ارشاد ہوا۔ پھر ایک اور۔فرمایا ’’میں نے تو اپنے لئے حوالوں کی تلاش یوں آسان کر لی ہوئی ہے۔ حوالے بھی مل جاتے ہیں۔ ان کے ترجمہ پر بھی وقت نہیں لگتا۔ میرا وقت بچ جاتا ہے۔ پھر اور تفصیل دیکھنی ہو تو روحانی خزائن کے انہی صفحات کے آگے پیچھے مل جاتی ہے‘‘۔
اور پھر روحانی خزائن کے سیٹ کی طرف نظر اٹھا کر جب جب میں نےدیکھا ہے، جابجا کئی رنگ کی نشانیاں لگی ہیں۔
پھر ایک روز کاغذات کے اس پیڈ پر نظر پڑی جو حضور نے لینڈسکیپ رخ پر کلپ سے یکجا کر کے رکھے ہوتے ہیں۔ اس روز اس کے کئی صفحات پیچھے مڑے ہوئے تھے جیسے لکھ کر ان صفحات کو الٹ کر اگلے صفحہ پر پہنچا جاتا ہے۔ اور جو صفحہ سامنے تھا، اس پر حضور انور نے دستِ مبارک سے اسی رخ کچھ تحریر فرمایا ہوا تھا۔وہ بھی کوئی مبارک گھڑی تھی جب پوچھنے کی جسارت کر لی کہ ’’حضور، یہ اس رخ کیا لکھا ہے، اور اتنا زیادہ؟‘‘
اس پر فرمایا کہ یہ خطبہ جمعہ کا متن ہے۔ حضور خطبہ تحریر فرما رہے تھے۔ فرمایا ’’میں اپنا خطبہ خود اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ آیات بھی سب خود اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں، مگر مسجد جاتے جاتے بھی خطبہ میں کہیں تبدیلی کرنی ہو تو راستہ میں ہی کر لیتا ہوں‘‘۔
حیرت کی عجیب کہانی ہے۔ کس وقت یہ سب تحریر فرماتے ہوں گے۔ کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر خیال آیا کہ جس طرح حضور کے پڑھنے کی رفتار میں خدا تعالیٰ نے خاص برکت عطا فرمائی ہے، اسی طرح تحریر کی رفتار میں بھی کوئی خاص برکت عطا ہوئی ہے۔ پڑھنے کی رفتار کا بھی اندازہ نہ تھا، مگر جب ہوا تو وہ حیرت اور استعجاب کی ایک الگ داستان ہے۔
ایک روز حضور انور کی خدمت میں ایک دستاویز دوپہر کی ڈاک میں بھیجی۔ لمبی تحریر تھی۔ یہ ڈاک کے اس انبار کے ساتھ اندر گئی تھی جو روزانہ بعد دوپہر پیش ہوتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں دفتر پی ایس سے فون آگیا کہ تحریر ملاحظہ ہوکر آگئی ہے، آکر لے جائیں۔ میں نے جب اس دستاویز کو دیکھا، جو ایک پلندے سے کم نہ تھی، تو حضور نے اسے بغور پڑھ کر اس پر ازراہِ ذرہ نوازی ایک طویل نوٹ بھی رقم فرمایا ہوا تھا۔اندر مختلف مقامات پراصلاحات تھیں۔
ایک مرتبہ تہیہ کیا کہ آج جو تحریر بھیج رہا ہوں، وہ ہے بھی طویل، حضور کا وقت بھی لگے گا اس لئے اتنی توجہ سے بار بار دیکھ کر بھیجی جائے کہ اس میں ایک بھی ٹائپنگ وغیرہ کی غلطی نہ ہو، مبادا کوفت کا باعث بنے۔ کئی دفعہ تسلی خود بھی کی۔ اوروں سے بھی کروائی۔ حضور کی خدمت میں یہ تحریر صبح پیش ہوئی تو شرفِ باریابی پاکر دوپہر تک واپس آچکی تھی۔ سرِ ورق پر ازراہِ شفقت ایک طویل نوٹ تھا۔ اندر ایک ایک صفحہ دیکھا۔ کہیں کسی غلطی کی نشاندہی نہ تھی۔ بہت شکر ادا کیا کہ اس مرتبہ ایسی کوئی غلطی نہ گئی جو حضور کے لئے کوفت کا سامان کرتی۔ اس خوشی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے دوبارہ ہر صفحہ دیکھا۔ اب کے جو دیکھا تو اختتام سے کچھ پہلے کے ایک صفحہ پر ایک جگہ ’’تھے‘‘ کی بجائے ’’تھی‘‘ لکھا گیا تھا۔یہ غلطی اوجھل رہ گئی تھی۔ حضور نے ازراہِ شفقت اپنے قلم سے اس کی اصلاح فرمائی ہوئی تھی۔نشان چونکہ پنسل کا تھا، اس لئے فوری نظر نہ آیا تھا۔ مگر حضور انور نے اتنی جلدی پڑھا، سارا پڑھا اور اتنی باریک غلطی کو بھی نوٹ کر کے اسے نشان زد فرمایا۔
تو خطبہ جمعہ کی بات چل رہی تھی۔ اس کا وقت کہاں سے اور کب نکلتا ہے، اس حیرت کی کہانی میں یہ دیکھنے کا موقع بھی اللہ کے فضل سے میسر آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کےوقت میں کس قدر برکت رکھ دی ہے ۔دفتر میں جو چیز ہے، اپنی جگہ پر ہے اور گویا خدمت پر مامور ہے۔
وہاں داہنے ہاتھ جو ایک الیکٹرانک ڈکشنری پڑی ہے۔ متعدد مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا ہے کہ جہاں کسی لفظ پر ذرا سا بھی اشتباہ ہوا، یا اس کے تلفظ کے بارہ میں تصدیق درکار ہوئی، حضور نے اس ڈکشنری کو استعمال فرمایا۔مثلاً ایک موقع پر فرمایا کہ ’’میں اکثر اپنی تقریروں میں کہتا ہوں کہ خطبہ میں بیان ہونے والی باتوں کی جگالی کرتے رہا کریں۔ انگریزی میں اس کے لئے لفظ پتہ ہے؟‘‘
عرض کی کہ جی نہیں حضور، مجھے نہیں معلوم۔
حضور نے فرمایا کہ اسے انگریزی میں cud کہتے ہیں۔ پھر اس ڈکشنری میں یہ لفظ تلاش فرمایا۔ اس کا تلفظ سنایا۔ اس کا معنی پڑھ کر مجھے سمجھایا، اور ساتھ فرمایا کہ ’’دیکھو، دوسرا مطلب وہی ہے جو میں کہتا ہوں ۔انگریزی میں بھی یہی محاورہ ہےthink or talk reflectively ‘‘تو اگرچہ دفتر میں لغات تو اور بھی بہت سی موجود ہیں، مگر اس الیکٹرانک ڈکشنری کو حضور انور کی خدمت کرتے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
کئی دفعہ یہ بھی دیکھنے کا موقع میسر آیا ہے کہ حضور کچھ تحریر فرما رہے ہیں۔ قلم متواتر چلتا چلا جارہا ہے۔ چلتے چلتے قلم نے دم توڑ دیا یعنی اس کی روشنائی ختم ہوگئی۔ بغیر کسی وقفہ کے یا تو دوسرا قلم اٹھایا اور تحریر کےسلسلہ کو بلاتوقف جاری رکھا، یا پھر ساتھ ہی دراز کھولی، اس میں سے نیا cartridge نکالا، اور ہدایات ارشاد فرماتے فرماتے اسے تبدیل کیا اور دوبارہ تحریر کے کام کا آغاز ہوگیا۔ یہ کارٹرج ایک ہی دراز، ایک ہی جگہ سے نکلتے دیکھے۔ مجال ہے ایک ثانیہ بھی ضائع ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے وعدہ کیا کہ آپؑ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ آپ ؑ کے خلفاء کو آپ ؑ کی ذمہ داریاں سونپیں تو اللہ تعالیٰ نے ان ہستیوں کے وقت کی حفاظت کا انتظام بھی فرمادیا۔
کچھ سال قبل میں نے دفتری ملاقات کی درخواست کررکھی تھی۔ مگر جس روز ملاقات تھی، اس روز صبح بیدار ہوا تو نزلہ اور کھانسی کی شدید شکایت تھی۔ مجھے اس حالت میں حاضرِ خدمت ہونے میں انقباض تھا مبادا حضور کے لئے بھی تکلیف کا سامان کر آؤں۔مگر ملاقات کی منظوری آچکی تھی۔ ازخود غیر حاضر تو نہ ہوسکتا تھا۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں حاضر ہوگیا اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے گزارش کی کہ حضور کی خدمت میں عرض کردیں کہ ملاقات کے لئے حاضر تو ہوں، مگر کھانسی کی شکایت ہے اور یوں حاضرہونے میں انقباض ہے۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے میری عرض حضور کی خدمت میں پیش کی۔ حضور کے دفتر سے نکل کر مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا۔میں حاضر ہواتو حضور نے بڑی محبت سے فرمایا کہ ’’کام تو چلتے ہی رہتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی پشت پر پڑے کیبنٹ کے اوپر سے lozenges کا ایک پیکٹ عنایت فرمایا اوربڑی محبت سے فرمایا’’یہ کھا لو، کچھ جراثیم تو کم ہوں گے‘‘۔ وہ کھانسی جو دم بھر کو بولنے نہ دیتی تھی، ساری ملاقات کے دوران دبی رہی۔بعد میں بھی آرام بہت جلد آگیا۔
اب کچھ روز قبل جب موسمی اثرات سے حضور انور کو کھانسی کی تکلیف ہوئی تو خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ حضور نے گفتگو کے دوران پلٹ کر اپنے لئے lozenges اٹھائے تو ایک گولی اس غلام کو بھی عنایت فرمائی ۔ یہ گولیاں اسی جگہ پر تھیں جہاں سے کئی سال پہلے ، اسی محبت سے عنایت فرمائی گئی تھیں۔ غرض جو چیز جہاں ہے، وہاں ہے اور حضور کا وقت ایک ثانیہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں ہونے دیتا۔
اب اس ٹی وی کا بھی ذکر کرتے چلیں کہ وہ بھی اس معمور الاوقات ہستی کے وقت کی اہمیت کی ایک داستان لئے ہوئے ہے۔یہ ٹی وی اور ڈی وی ڈی پلیئر حضور کے بالکل سامنے والی دیوارکے شیلف میں ہیں۔گزشتہ مضامین میں ذکر گزرا ہے کہ حضور کی خدمت میں کسی پروگرام پر رہنمائی کی درخواست کی جائے تو حضور انور اگر پسند فرمائیں تو اسے چلانے کا ارشاد فرماتے ہیں۔جب پہلی دفعہ ایسا حکم ہوا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ ایسے میں کیا کرنا ہے۔کہاں سے ٹی وی چلے گا، ڈی وی ڈی پلیئر کیسے چلے گا، کہاں سے اس کی ٹرے کھلے گی۔ سامنے کوئی ریموٹ کنٹرول بھی نظر نہ آتا تھا اور نہ بظاہر کہیں بٹن نظر آرہے تھے(ہوتے بھی تو ان ہوش ربا لمحات میں یہ سب کس کو سجھائی دیتا ہے)۔ حضور کی طرف دیکھا تو حضور اپنے داہنے ہاتھ پڑے ہوئے درازوں میں سے دو ریموٹ کنٹرول نکال رہے تھے۔ مجھے حکم تھا کہ ’’وہاں لگاؤ‘‘سو میں سمجھا کہ یہ ریموٹ میں نے استعمال کرنے ہیں اور پروگرام چلانا ہے۔ ہاتھ بڑھایا مگر ساتھ ہی ارشاد ہوا’’نہیں، میں خود یہاں سے چلاتا ہوں۔ میں نے اپنے حساب سے سیٹنگ رکھی ہوئی ہے۔ کہیں سیٹنگ ہی نہ بدل جائے، پھر میرا وقت ضائع ہوتا ہے ‘‘۔
اس کے بعد یہ ریموٹ بھی ہر بار ایک ہی مقام سے نکلتے دیکھے۔ یہ بھی ہر دفعہ دیکھا کہ میرے ٹی وی تک پہنچنے سے پہلے ڈی وی ڈی پلیئرکی ٹرے کھل چکی ہوتی ہے، پھر پروگرام چلتا ہے۔ حضور اپنے سامنے رکھے کاغذات، خطوط، تحریر کے کام میں مستقل منہمک ہوتے ہیں، جہاں کوئی بات اصلاح طلب ہوئی اسے سن کر ہدایت ارشاد فرمائی۔ کہیں دوبارہ سننا پسند فرمایا تو فوری طور پر پیچھے کیا اور مطلوبہ حصہ دوبارہ سماعت فرما لیا۔ پھر جب اس پر ہدایات ارشاد ہو گئیں تو میرے وہاں پہنچنے سے پہلے وہ ٹرے کھلی ہوتی ہے، میں ڈی وی ڈی نکالتا ہوں ۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ جو پہلے لگی ہوئی تھی وہی لگا دو۔
تو بات چل رہی تھی خطبہ جمعہ کی۔ اس روز معلوم ہوا کہ تمام خطبہ حضور اپنے دستِ مبارک سے رقم فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حضور کو صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔اللہ تعالیٰ روح القدس سے ہمارے آقا کی تائید و نصرت فرمائے۔
پھر یہ تو صرف خطبہ جمعہ ہے۔ خطابات کا بھی یہی احوال بیان فرمایا۔
پھر ایسی خوش بخت گھڑیاں بھی آتی ہیں جب ان خطبات اور خطابات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے جو حضور نے دیکھے، ان نظاروں کے کچھ رنگوں کی ایک جھلک دکھاکر مجھ غریب کو عمر بھر کے لئے ممنون و مشکور فرما دیتے ہیں۔
ایک روزجلسہ سالانہ جرمنی کا کچھ ذکر فرما یا۔ فرمایا کہ ’’میں لجنہ سےخطاب کی تیاری کررہا تھا۔ کچھ لکھا تھا مگر اس کے بعد بات رک گئی تھی۔ آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ میں نے وہیں چھوڑ دیا۔ اتنے میں میرے بھائی ڈاکٹر مرزا مغفور احمد آئے۔ اور کسی تقریب میں کسی جرمن شہر کے میئر کے ساتھ کسی بات کا ذکر کیا۔ میری تقریر جہاں رکی ہوئی تھی، وہیں سے اس کا سرا مل گیا اور میئر کی اسی بات کو لے کر اس پر تبصرہ کر کے میری بات مکمل ہو گئی اور میں نے جا کر لجنہ سے خطاب کر لیا‘‘۔
ایک مرتبہ کسی مسجد کے افتتاح کی تقریب پر ایک پروگرام پر ہدایت کی درخواست کی تھی۔ حضور نے ہدایت ارشاد فرما دی تو عرض کی کہ حضور، اب تو اللہ کے فضل سے مساجد کے افتتاح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ کس طرح ہر تقریب کے لئے خطاب تیار کر لیتے ہیں۔ بعض دوروں میں تو ایک تقریب کے بعد دوسری تقریب ہوتی ہے۔ فرمایا
’’ جب باہر کے مہمان اپنی اپنی تقریریں کررہے ہوتے ہیں۔ اس میں اپنے شہر یا علاقہ کے مسائل اور حالات و واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ اب یہ واقعات تو ہر شہر کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں ہے،میں ساتھ ساتھ کچھ لکھ رہا ہوتا ہوں۔ تو بس انہی کی باتوں سے کوئی بات یا کچھ باتیں لے کر انہی پر بات کرلیتا ہوں‘‘۔
حضور کا جامعات کے فارغ التحصیل ہونے والی کلاس سے خطاب ایک الگ رنگ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ جیسے ایک باپ اپنی اولاد کو کسی مشن پر روانہ کرنے سے پہلے اسے نصائح کررہا ہو۔ اور پھر یہ باپ تو جرنیل بھی ہے۔ کمان بھی اسی جرنیل کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نصائح اور انہیں بیان کرنے کا انداز ایک نہایت نورانی رنگ رکھتا ہے۔
’آسماں کی ہے زباں ، یارِ طرحدار کے پاس‘ ایک روز حاضرِ خدمت تھا۔ ایک روز قبل حضور نے جامعہ یوکے کے فارغ التحصیل طلبا سے خطاب ارشاد فرمایا تھا۔ اللہ نے فضل کیا اور مجھے اپنے اس احساس کے اظہار کا موقع میسر آگیا۔ میری عرض سن کر فرمایا ’’جاتے ہوئے تو پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنا ہے۔ ایک دو باتیں ایک کاغذ کے پرزے پر لکھ لی تھیں۔ پھر ان طلبا کودیکھ کر جو جو ذہن میں آتا گیا، کہتا گیا‘‘۔ اور وہ خطاب کیا تھا، وہ واقعی الُوہی رنگ لئے ہوئے کلمات تھے جوحضور کی زبانِ مبارک سے ادا ہوئے تھے۔
کئی مواقع پر یوں ہوا کہ حضور کے کسی خطاب کی تعریف کی تو حضور نے فرمایا کہ ’’میں کونسا کوئی مقرر ہوں۔ نہ میں نے کالج میں کبھی debate وغیرہ میں حصہ لیا اور ویسے بھی کبھی تقریر کم ہی کی تھی‘‘۔میں عرض کرنے کی مجال نہ رکھتا مگر ہر ایسے موقع پر سوچتا رہ جاتا کہ ’’حضور، مقرر اور کیسے ہوتے ہیں؟اور یہ کہ جو تاثیر ہے، وہ کسی مقرر کو کہاں نصیب؟‘‘ مگر ایسے جملے تخیل میں تو باندھے جاسکتے ہیں، عرض کرنے کی مجال کہاں۔
حضور انور کی والدہ حضرت ناصرہ بیگم صاحبہ کاانتقال ہوا، تو حضور نے خطبہ جمعہ میں بڑے پرسوز انداز میں اپنی پیاری والدہ کا ذکرِ خیر فرمایا۔ خطبہ کے تقریباً آخر پر فرمایا کہ خلافت کے بعد تو ان کے تعلق میں ایک اور ہی رنگ آگیا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ ہر دورہ سے پہلے وہ بتاتی تھیں کہ وہ حضور کے لئے دعا کررہی ہیں۔ ساتھ حضور نے فرمایا’’ان کو پتہ تھا میری حالت کا۔ ماں سے زیادہ تو کوئی نہیں جانتا۔ میرے انداز کا بھی پتہ تھا۔ بات مختصر کرتا ہوں، تھوڑی کرتا ہوں، بولتا کم ہوں۔ ہمیشہ یہی کہا کرتی تھیں کہ اللہ تمہاری زبان میں، تقریروں میں برکت ڈالے۔ اور خاص طور پر یہ تھا کہ میں نفل بھی پڑھ رہی ہوں اور سجدوں میں ہر نماز میں دعا بھی کرتی تھیں۔۔۔‘‘
جنہوں نے ربوہ میں اس دور کا کچھ نہ کچھ حصہ پایا جب حضور ناظرِ اعلیٰ اور امیر مقامی تھے، وہ سب جانتے ہی ہیں کہ حضور کو تقریر کا تجربہ کس قدر تھا۔ ربوہ میں جمعہ کے مرکزی اجتماع میں خطبہ جمعہ کے لئے ہمیشہ آپ نے کسی نہ کسی کی ذمہ داری لگائے رکھی۔ کبھی کوئی عالمِ دین کبھی کوئی۔ مسجد مبارک کی نمازوں میں بھی یہ ذمہ داری مختلف علما کے سپرد فرماتے رہے۔ جنازہ اور نکاح بھی شاید صرف تبھی جب خلیفۂ وقت کی طرف سے ارشاد موصول ہوگیا اوراس کی تعمیل کو فرض اور سعادت جانا۔ پاکستان بھر میں بالعموم اور ربوہ میں بالخصوص جماعتی تقاریب منعقد ہوتی رہتیں۔ آپ کو مدعو کرنا سب اپنے لئے باعثِ خیر وبرکت خیال کرتے۔ آپ تشریف تو لے جاتے، مگر کبھی کوئی طویل تقریر نہ کی۔ فضلِ عمر ہسپتال کے ایک ونگ کے افتتاح کے موقع پر آپ مہمان خصوصی تھے۔ ہسپتال کے ایک اہلکار نے تقریر کی اور حقائق وغیرہ بیان کئے۔ اس کے بعد مہمانِ خصوصی کو دعوت دی گئی تو حضرت صاحبزادہ صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ تقریر تو آپ نے سن ہی لی ہے، آئیں دعا کر لیں۔ باقی تقاریب کا احوال بھی کم و بیش یہی ہوتا۔ بہت ہواتو چند جملوں کا اضافہ، وہ بھی بہت مختصر (مگر جامع)۔ جنہیں حضور انور سے خلافت سے قبل گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے، وہ گواہ ہیں کہ حضور کی گفتگو بڑی رواں، بہت شگفتہ، بہت دلچسپ اور بہت ایمان افروز ہوتی تھی۔جس کی گفتگو میں یہ سب شمائل موجود ہوں، وہ بہت اچھا مقرر بھی ہوتا ہے۔ مگر پبلک میں آپ کم کم ہی بولتے۔
خطبۂ جمعہ ہی کے ذکر میں ایک روز حضور نے ایک واقعہ بیان فرمایا۔ وہ یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دور خلافت کا پہلا جلسہ سالانہ تھا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی اورلنگر خانہ میں ڈیوٹی تھی۔ ڈیوٹی ختم ہوئی تو افتتاحی خطاب سننے جلسہ گاہ تشریف لےگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اس پہلے جلسہ کے پہلے خطاب میں فرمایا کہ رات تک اس خطاب کے لئے کوئی موضوع ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور عرض کی کہ اے اللہ، میں خود تو اس منصب پر نہیں بیٹھا۔ تو نے ہی بٹھایا ہے۔ تو ہی کچھ سجھا دے ورنہ میں تو سورۃ الفاتحہ پڑھ کر کہہ دوں گا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کوئی مضمون نہیں سجھایا۔پھر اللہ تعالیٰ نے دل میں اس مضمون کو کھول دیا جو اب بیان کروں گا۔
میرے لئے یہ واقعہ نیا تھا اور بہت ایمان افروز تھا۔ میں نے سمجھا کہ یہ بات یہیں تک تھی۔ مگر ازدیادِ ایمان کے سامان ابھی کچھ اور باقی تھے۔اس کے بعد حضور نے فرمایا’’دیکھو، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تو کالج کے لیکچرر بھی رہے تھے۔ پرنسپل بھی تھے۔ روزانہ پبلک میں بولنا بھی پڑتا تھا۔ پھر صدر صدر انجمن احمدیہ بھی تھے۔ شوریٰ سے بھی خطاب فرماتے رہے تھے۔ صدر انصاراللہ کی حیثیت سے کئی دورہ جات کرنے پڑتے اور وہاں بھی خطابات ارشاد فرماتے۔ پھر بھی پہلے خطاب کے وقت یہ حالت تھی‘‘۔
میرے لئے اب یہ واقعہ اور بھی ایمان افروز ہوگیا۔ اس پہلو سے تو اس واقعہ پر غور نہیں کیا تھا۔ مگرابھی حضور کی بات جاری تھی۔ اس کے آگے ایک جملہ فرمایا ۔مگر جناب! یہ جملہ کیاتھا، ہستیٔ باری تعالیٰ کا ایک زندہ ثبوت تھا۔
فرمایا، ’’اب اُس کا سوچ لو جسے تقریر کا کوئی تجربہ ہی نہ ہو‘‘
قارئین کرام، آئیے اس ارشاد کی تعمیل میں ہم مل کر شامل ہوں۔ آئیے اس آدمی کے بارہ میں سوچیں جس نے خلافت کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے کبھی تقریر نہ کی تھی۔ جسے مقرر ہونے کا کوئی تجربہ تھا، نہ دعویٰ۔
مگر کیا یہ وہی آدمی نہیں جسے اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لئے خدانے خود چن لیا؟ کیا خدا کو نہیں معلوم تھا کہ اُس کا یہ بندہ کم سخن اور کم گو ہے؟ کیا شعلہ بیان مقرروں کی جماعت میں کوئی کمی تھی؟مگر خدا تعالیٰ کیا تلاش کرتا ہے، وہ اس نے بتا دیا۔ اس کے یہاں تو سب سے مکرم وہ آدمی ہے جو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر ہو۔ پھر اس نے اپنے اس انتخاب سے بتا دیا کہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز اس وقت دنیا میں کون آدمی ہے۔
پھر اسی عالی مرتبت وجود کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لمس سے ممسوح کردیا۔ اسی وجود کی زبان میں تاثیر کے وہ جوہر رکھے جو کہیں اور دستیاب نہیں۔ اسی وجود کے دھیمے اور نرم لہجے کے لئے دنیا کے دل میں وہ مقبولیت پیدا فرمادی جو بڑے بڑے شعلہ بیان مقرروں کے نصیب میں نہ ہوسکی۔اسی وجود کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک اسلام کا پیغام عام ہوا۔ لاکھوں نہیں کروڑوں نے اسی زبانِ مبارک سے ادا فرمودہ الفاظ کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کو شناخت کیا۔ اسی وجود سے مل کر بہت سے اسلام مخالف یہ کہہ اٹھے کہ اسلام اگر اصل میں یہ ہے جو انہوں نے بیان کیا، تو ہم غلط تھے، ہم غلط ہیں۔ یہ جو کہہ رہے ہیں ، وہ غلط نہیں ہوسکتا۔اسی وجود کو ساری دنیا نے کبھی برطانوی حکومت کے ایوانوں میں اسلام کا پیغام دیتے سنا۔ یہی وجود امریکہ کے سیاستدانوں کوحق کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ماننا ہے تو مان لو، نہیں ماننا تونتائج کا انتظار کر کے دیکھ لو۔ خود مان جاؤ گے۔ جہاں بڑے بڑے اسلامی سکالر اور لیڈر مغربی عمائدین کے سامنے مداہنت کی اوٹ میں چھپ گئے، وہیں اسی وجود نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، علی الاعلان انہیں بتایا کہ اسلام کی پردہ کی تعلیم جائز ہے، ضروری ہے، لازم ہے۔ ورنہ معاشرہ اخلاقی برائیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ اسی وجود نے سیاسی طاقتوں کے سربراہوں کوبراہِ راست خطوط لکھے اور انہیں راہِ راست کی طرف آنے کی دعوت دی۔آپ ہی تو ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینل آپ کا انٹرویو لینے کے لئے آپ سے وقت کی درخواست کرتے ہیں۔کیاعظیم الشان سطح کی بین الاقوامی تقریبات میں آپ کے خطاب کو سن کر بڑے بڑے لیڈر، سیاستدان، دانشور سب احتراماً اٹھ کر آپ کے کلمات پر داد و تحسین کا اظہارکرتے نہیں دیکھے گئے؟پھر ان لوگوں نے اپنے تاثرات میں کیا کچھ نہیں کہا۔ کتنےہی ہیں جو صرف آپ کے ارشاد فرمودہ ایک جملہ کو سن کر حلقہ بگوشِ اسلام احمدیت ہو گئے۔
ہم کون ہیں کہ کچھ سوچیں۔ ہم کیا جواب دیں۔ سب جواب تو وقت نے بزبانِ حال دے دئیے۔
ایک بار راہِ ہُدیٰ میں ایک کالر نے کال کر کے کہا کہ وہ جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ دل کس بات نے پھیر دیا؟ کہنے لگے میں بہت سے مولویوں کی تقریریں سن چکا تھا۔ بہت سے ٹی وی چینل دیکھتا تھا۔ بڑے بڑے علما بڑی بڑی شعلہ بیانی کے مظاہرے کر رہے ہوتے تھے۔ ایک روز ایم ٹی اے لگایا۔ آپ کے امام بڑے تحمل، بڑی بردباری، بڑے وقار سے آنحضور ﷺ کی تعلیمات کو بیان کررہے تھے۔ ان کے اندازِ گفتگو نے میرا دل موہ لیا۔ اور میں نے احمدی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
لگتا تھا دیکھنے میں جو انسان کم سخن
جب بولنے پہ آیا، زمانہ پہ چھا گیا
۔۔۔۔۔۔۔(باقی آئندہ)