الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
خدمت خلق کے میدان میں احمدیوں کے مثالی نمونے
روزنامہ الفضل ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں چند احمدیوں کے خدمت خلق کے نمونے مکرم منیر احمد رشید صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کئے ہیں۔ ان واقعات میں سے چند ایسے منتخب واقعات ہدیۂ قارئین ہیں جو غالباً ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں پیش نہیں ہوئے۔
٭ 1964ء میں جماعت احمدیہ کلکتہ کے سولہ احباب و خواتین نے حج بیت اللہ کا ارادہ کیا جن میں محترم میاں محمدصدیق صاحب بانی اور محترمہ بیگم زبیدہ بانی صاحبہ بھی شامل تھے۔ یہ لوگ اپنی سفری دستاویزات مکمل کروانے کے بعد کلکتہ سے بذریعہ ہوائی جہاز بمبئی پہنچے تو روانگی سے صرف ایک روز پہلے علم ہوا کہ بعض لوگوں کی شرارت اور غلط پراپیگنڈا کی وجہ سے سعودی کونسل نے ویزا نہیں دیا۔ اس اطلاع سے ان عازمین حج کو بہت دکھ ہوا۔ محترم بانی صاحب نے تمام رقم جو حج کے لئے خرچ ہونی تھی راہِ خدا میں دیدی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس قربانی کو قبول کیا اور آٹھ سال بعد آپ کو مع اہلیہ حج کی سعادت سے سرفراز کیا۔ آپ کی اہلیہ نے خانہ کعبہ میں بڑے درد سے یہ دعا مانگی کہ جس طرح نہر زبیدہ مکّہ والوں کو پانی فراہم کر رہی ہے مجھے بھی خدمت خلق کی کسی ایسی ہی عظیم الشان خدمت کی توفیق عطا فرما۔ درد دل سے مانگی ہوئی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بانی خاندان کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں ’’بیگم زبیدہ بانی ونگ‘‘ کا منصوبہ جاری کرنے کی توفیق بخشی۔ جب یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو آپ کے بیٹے محترم شریف بانی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی خدمت میں درخواست کی کہ اسی قسم کا ایک وِنگ مَیں اپنے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کی طرف سے بنانا چاہتا ہوں۔ حضور کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ ’’طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان منصوبہ شروع کیا جارہا ہے، آپ اسی میں شامل ہو جائیں۔ چنانچہ مکرم شریف بانی صاحب نے وہ تمام رقم جو آپ خرچ کرنے کی نیت کر چکے تھے، حضور پُر نور کی خدمت میں پیش کر دی۔ جب یہ عظیم الشان انسٹیٹیوٹ مکمل ہو گیا تو اس کی چوتھی منزل کو بیگم زبیدہ بانی ونگ کی عمارت سے ایک پُل کے ذریعہ ملا دیا گیا اور حضور انور ایدہ اللہ نے طاہرہارٹ انسٹیٹیوٹ کی چوتھی منزل کو ’’صدیق بانی فلور‘‘ کا نام عنایت فرمایا۔
محترم صدیق بانی صاحب رفاہ عامہ کے کاموں کے متلاشی رہتے تھے۔ مساجد اور ہسپتال کی تعمیر میں آپ کو خاص دلچسپی تھی۔ چنیوٹ، کلکتہ اور ربوہ میں مساجد کی تعمیر میں آپ کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ فضل عمر ہسپتال ربوہ کی بنیاد رکھی گئی تو آپ نے تین کمروں کی تعمیر کا خرچ ادا کیا اور ایک ایمبولینس خرید کر ہسپتال کے لئے دی۔ قادیان اور اہل قادیان کے لئے مختلف مدّات میں بے شمار رقم خرچ کرنے کی توفیق پائی۔ مکرم سید نور عالم صاحب سابق امیر جماعت کلکتہ لکھتے ہیں کہ اڑیسہ کے ایک غریب نو عمر لڑکے نے بانی صاحب مرحوم کو اپنا حال لکھا اور امداد طلب کی۔ اس لڑکے کی ایک ٹانگ کسی حادثہ کی وجہ سے ڈاکٹروں نے کاٹ دی تھی اور وہ ایک معطل زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ بانی صاحب نے اس کو کلکتہ بلوا لیا۔ خود ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے او ر بعد مشورہ آرڈر دے کر مصنوعی ٹانگ بنوائی دوران قیام اس لڑکے کے تمام مصارف کے متکفل رہے۔ نئی ٹانگ کے ساتھ اسے ریلوے سٹیشن پہنچایا۔ ہاتھ میں ٹکٹ دے کر ٹرین پر بٹھایا اور خداحافظ کہہ کر گھر آئے۔
٭ مکرم ماسٹر محمد اسلم جنجوعہ صاحب آف سرگودھا بنیادی طور پر سکول ماسٹر تھے۔ تاہم ڈاکٹری کا شوق تھا اور دیسی ادویہ کا کورس کرکے کلینک بنالیا تھا جو پوری تحصیل میں انتہائی مقبول تھا۔ ہر وقت کلینک پر رَش رہتا۔ عورتیں بچے بڑے سبھی جسمانی دوائی کے ساتھ روحانی باتیں بھی سنتے۔ جماعت کے زیرانتظام کہیں میڈیکل کیمپ لگایا جاتا تو آپ ہمیشہ حاضر ہوتے۔ کلینک پر آنے والا مریض پیسے پوچھتا تو کہتے جتنے گھر سے نیت کرکے آئے ہو دیدو۔ اگر کسی کے پاس رقم نہ ہوتی تو دوائی تو مفت دیتے ہی تھے، ساتھ دودھ پینے کے لئے رقم اور گھر جانے کا کرایہ بھی اپنی جیب سے دیتے۔ کسی بھی مسلک کا مولوی ہو، کوئی جماعتی عہدیدار ہو یا ستّر سال سے اوپر کا مریض ہو، اُس کا مفت علاج کرتے۔ ایک تنظیم ’’الفضل ویلفیئر سوسائٹی‘‘ رجسٹرڈ کروائی ہوئی تھی جس کے تحت فوتگی کے موقع پر غربا کے لئے کفن کا انتظام کرتے، چینی کے بحران کے دوران سستی چینی فراہم کرواتے رہے، یتیموں اور بیواؤں کو وظیفے دلواتے، الفضل پبلک سکول قائم کیا جس کی دو مزید شاخیں بھی کھولیں۔ آپ کی وفات پر غرباء بے اختیار روتے تھے۔
٭ مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید آف فیصل آباد کی شہادت کے بعد ایک غیرازجماعت شخص نے روتے ہوئے آپ کے بیٹے کو بتایا کہ ایک موقع پر میرے سگے بھائیوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا تو مَیں نے میاں صاحب کو اپنی داستان غم سنائی اور آپ نے بلاحیل و حجت مجھے مطلوبہ رقم دیدی اور یہ بھی نہ پوچھا کہ کب واپس کروگے؟ جب میں کافی عرصہ کے بعد رقم واپس کرنے آیا تو مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت ہے تو رکھ لیں۔
ایک بار سربازار شہید مرحوم کو پچاس ہزار روپے ملے۔ وہاں موجود کسی شخص نے کہا کہ اسے بانٹ لیں یا کسی مسجد کو دے دیں۔ آپ نے کہا کہ یہ رقم کسی کی امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور اسے بھیج دے گا۔ چنانچہ آپ نے دکان کے ملازموں کو تاکید کر دی کہ جب کوئی ایسا شخص آئے تو مجھے اطلاع کردینا۔ خود بھی دعاؤں میں لگ گئے کہ الٰہی! یہ جس کی امانت ہے اسے بھیج دے۔ یہ مال میرے واسطے کسی فتنہ کا سبب نہ بنے۔ خداتعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی اور ایک گھبرایا ہوا شخص آیا جس کی رقم بازار میں کہیں گرگئی تھی۔ آپ نے اسے حوصلہ دیا، پانی وغیرہ پلایا اور نشانیاں دریافت کرکے گواہوں کی موجودگی میں اس کی رقم اسے لوٹادی۔ وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے لگے کہ بارامانت تو اترا۔
٭ محترم رانا محمد سلیم صاحب نائب امیر ضلع سانگھڑ نے نیو لائف کے نام سے ایک سکول کھولا ہوا تھا جسے آپ کی کوششوں اور دعائوں سے نمایاں حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ شہر کے باحیثیت افراد اپنے بچے اسی سکول میں داخل کراتے۔ آپ غریب طلباء کی فیس معاف کردیتے۔ عید پر ملازمین کو نئے جوڑے کپڑوں کے بنا کر دیتے، بیماروں کا علاج کرواتے کسی مریض کو خون کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی آپ مہیا کر دیتے۔ ایک احمدی نے اپنی بچی آپ کے سکول میں داخل کروائی اور فیس کا پوچھا تو آپ نے جواب میں کہا کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدوں کا اضافہ کر دیں۔ آپ کی کوشش سے سنٹرل جیل سانگھڑ کے قیدیوں کو کھانا کھلانے کی توفیق بھی جماعت کو ملتی رہی۔ بعض قیدی جو رقم کی وجہ سے رہا نہیںہو سکتے تھے آپ نے اپنی جیب سے وہ رقم ادا کرکے ان کی رہائی کا سامان کردیا۔
٭ محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب سابق امیر ساہیوال سے ایک بارہ تیرہ سالہ احمدی بچے نے ذکر کیا کہ اُس کے گائوں میں کافی لوگ غریب ہیں اور عید قریب آرہی ہے۔ آپ نے کہا کہ کل اُن کے نام لے کر آنا۔ اگلے روز اُس نے تیس چالیس نام آپ کو دیئے تو آپ نے اُسے دس ہزار روپے دئیے کہ ان میں جا کر تقسیم کر دو۔ جب اس نے گائوں جا کر پیسے ان لوگوں میں تقسیم کر دئیے تو وہ لوگ اصرار کرکے شکریہ ادا کرنے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر آئے۔ اس پر آپ نے اُن کو آنے جانے کا کرایہ بھی دیا۔
٭ 1935ء میں کوئٹہ میں زلزلہ کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جن میں بہت سے مسلمان بھی تھے۔ اس پر حکومت بلوچستان کو فکر ہوئی کہ دیگر قوموں میں تو وراثت کا کوئی شرعی قانون نہیں ہے مگر مسلمانوں کے ہاں شرعی قانون موجود ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے ایک احمدی قاضی محمد رشید صاحب کو حکومت نے اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے مقرر کیا اور اس طرح اُنہیں کو مسلمانوں کی خدمت کا ایک زرّیں موقع مل گیا۔
٭ محترم مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال دو مربع اراضی کے مالک تھے۔ آپ کی مہمان نوازی کی وجہ سے ہی اس گاؤں کا نام لنگروال مشہور ہوگیا۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ ہمسایہ گاؤں میں سکھوں کی ایک بارات آئی جنہوں نے فرمائش کی کہ ہم نے پلاؤ زردہ ہی کھانا ہے۔ گاؤں والے غریب تھے۔ وہ درخواست لے کر آپ کے پاس آگئے تو آپ نے دعا کی اور گھر جاکر اپنی اہلیہ محترمہ عظمت بی بی صاحبہ سے کہا کہ یہ بارات آج ہماری مہمان ہوگی۔ گھر والوں نے بتایا کہ چاول تو گھر میں نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اندر جو مٹکا پڑا ہے اس میں ہوں گے۔ حالانکہ سب مٹکے خالی تھے لیکن جب اندر والا مٹکا کھولا تو چاولوں سے بھرا پڑا تھا۔ چنانچہ پلاؤ زردہ پکاکر بارات کی تواضع کی گئی۔
٭ مکرم محمد اعظم طاہر شہید ایک ایسے سرکاری ہسپتال میں ملازم تھے جو شہر سے چھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی مریضوں کوادویات دیتے رہتے اور شام کو بھی کئی مریضوں کا اُن کے گھروں میں علاج معالجہ کرتے ہوئے رات گئے گھر پہنچتے۔ ہسپتال میں کئی ایسے مفلس بھی آتے جن کے پاس پرچی کے پیسے بھی نہ ہوتے تو آپ اپنی جیب سے فیس ادا کرتے اور دوائیں بھی دیدیتے۔ اسی لئے غرباء میں ہردلعزیز تھے۔ 16,15 سال سے ایک ہی ہسپتال میں تھے۔ اگر کبھی تبادلہ ہوتا تو علاقہ کے لوگ خود افسران کے پاس جاکر اِن کا تبادلہ رُکوا دیتے تھے۔
٭ مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ سیالکوٹ ایک احمدی وکیل کے منشی کی وفات کے بعد اُن کی اہلیہ کو باقاعدگی سے دو ہزار روپے ماہوار بھجوایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ لاہور میں کسی فقیر کے کاسہ آگے کرنے پر آپ نے اپنی جیب سے ساری ریزگاری اُس میں ڈال دی۔ فقیر سمجھ گیا کہ یہ کوئی امیر آدمی ہے۔ وہ چند منٹ بعد دوبارہ آیااور ایک ڈاکٹر کی پرچی دکھاکر کہا کہ مَیں غریب آدمی ہوں اس نسخہ کی ادویات ڈیڑھ سو روپے میں آتی ہیں مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مکرم خواجہ صاحب نے رقم نکال کر اُسے دیدی تو کسی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ اس پر آپ نے کہا کہ ہو سکتاہے کہ وہ ضرورتمند ہو اور اس کے پاس دوائی لینے کے لئے واقعی پیسے نہ ہوں۔
٭ مکرم مہر مختار احمد صاحب سرگانہ آف خانیوال ایک صاحب علم شخص تھے اور علاقہ کے مظلوم افراد کی بھرپور مدد کرتے تھے۔ اُن کو وکیل کرادیتے اور مشورہ و تسلّی سے نوازتے رہتے۔ بارہا جب فریق ثانی کو علم ہوتا کہ مہر صاحب نے فریق اوّل کا ساتھ دیا ہے تو وہ خود ہی آپ کے ہاں چلے آتے اور آپ دونوں کا تصفیہ کرا دیتے۔
٭ دسمبر کی سخت سردیوں کی ایک رات اڑھائی بجے ربوہ کے ایک گھر کے دروازہ پر تیز دستک ہوئی۔ گھر کے مکین نے دروازہ کھولا تو سامنے محلّہ چمن عباس کا ایک غریب ریڑھابان پریشان حال کھڑا تھا۔ کہنے لگا کہ اس کی بیوی ہسپتال میں داخل ہے اور خون کی چار بوتلوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس مخلص خادم نے یہ سُن کر فوراً کپڑے تبدیل کئے اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار ہوکر اس مفلس اور مصیبت زدہ شخص کو لے کر گلی میں پھیلی ہوئی دُھند میں گم ہوگیا۔ یہ مخلص اور مستعد خادم احمد اقبال (مرحوم) تھے جن کا نام ربوہ میں عطیہ خون اور دیگر خدماتِ خلق کے حوالہ سے بیحد نمایاں تھا۔
٭ مکرم حافظ عبدالحلیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم ماسٹر محمد اسلم ناصر صاحب مرحوم کی زرعی زمین کے قریبی زمیندار کو راستہ کی بہت مشکل تھی کیونکہ دوسری طرف سے کسی مخالف نے ان کا راستہ بند کر دیا تھا۔ مکرم ماسٹر صاحب کے مزارع نے اس غیر از جماعت زمیندار سے کہا تم ربوہ جاکر ماسٹر صاحب سے ملو، ہم سالہاسال سے اُنہیں جانتے ہیں اور اُن کی فیاضی اور نرمی اور احسان کی بناء پر ہم سمجھتے ہیں کہ وہ شخص ایسا ہمدرد ہے کہ اس نے ضرور زمین میں سے راستہ دے دینا ہے۔ چنانچہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ آپ اپنے بیٹے کے ہمراہ وہاں گئے اوراپنی زیرکاشت زمین میں سے اُن کو راستہ دے دیا۔
محترم ماسٹر صاحب کی ایک عزیزہ عین جوانی میں بچی کی ولادت کے موقع پر وفات پا گئیں تو مکرم ماسٹر صاحب نے اس کی نوزائیدہ بچی کو اپنے سایہ عاطفت میں لے کر اُس کی پرورش کی۔ اُس بچی کو بڑے ہوکر پتہ چلا کہ وہ کن عظیم رشتوں کے تقدّس کے سائے میں پلی بڑھی ہے۔ اُس کو ایم ایس سی تک پڑھایا اور اپنی بیٹی کی طرح اس کی رخصتی کی۔ بلکہ اپنے بیٹے کو بھی نصیحت کی کہ اس بچی کو بھی میری جائیداد میں سے بالکل اسی طرح حصہ دینا ہے جس طرح دوسری بہنوں کو۔
٭ مکرم پروفیسر محمد خالد گورایہ صاحب لکھتے ہیں کہ مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب آف نائیجیریا مبلغین اور واقفین ٹیچرز کی ضروریات کاہرطرح سے خیال رکھتے تھے۔ اُن کی بیگم صاحبہ بھی ہر نئے آنے والے کے ساتھ ایک مادر مہربان کی طرح کانو کی مارکیٹوں میں سار ا سارا دن پھر کر ضروریاتِ زندگی اور گھریلو ضرورت کی ہر چیز خریدتیں اور سارے سازوسامان کے ساتھ انہیں اپنے Stations کی طرف اپنی دعائوں کے ساتھ روانہ کرتیں۔ چنانچہ مبلغین اور ٹیچرز کو جس چیز یا مدد کی ضرورت پڑتی تھی، نظریں ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کی طرف اٹھتی تھیں۔ مقامی لوگوں اور انتظامیہ سے تعلقات بنانے، نبھانے اور کام لینے کے تمام گُر بھی انہوں نے ہی سکھائے۔
٭ مکرم چوہدری اعجاز نصراللہ خانصاحب سابق نائب امیر ضلع لاہور نے بھی 28 مئی 2010ء کو سانحہ لاہور میں شہادت پائی۔ اُن کے بیٹے مکرم زکریا نصراللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ شہید مرحوم خفیہ طور پر کئی غرباء کی مستقل مالی مدد کیا کرتے تھے جس کا علم اُن کی شہادت کے بعد ہوا۔ چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے ساتھ فراخ دلی سے یتامیٰ کی سرپرستی کرتے، مساکین کا جیب خرچ، غریب روزہ دار کے شب و روز کے اخراجات، مستحق مریضان کا علاج، تنگدست گھرانوں کی بچیوں کی شادیاں اور نادار طلباء کی پڑھائی کے اخراجات، ہر پہلو سے غیرمعمولی قربانی کی روح کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔
٭ مکرم قدیر احمد طاہر صاحب معلّم وقف جدید لکھتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے پاس خاکسار ایک مریض کو لے کر پہنچا اور بتایا کہ یہ غریب آدمی ہے تو محترم ڈاکٹر صاحب نے مکمل چیک اَپ کرنے کے بعد اپنے میڈیکل سٹور سے دوائی دلوائی اور پھر خود ہی پوچھا کہ کیا اِن کے پاس کرایہ ہے؟ خاکسار نے اثبات میں جواب دیا تو پھر ہمیں دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔
اسی طرح ایک غیر از جماعت دوست سائیں بخش خاصخیلی کو دل کا مرض تھا۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب اُن کو کہنے لگے کہ آپ کا ایک ٹیسٹ کراچی سے ہو گا جس کی فیس سولہ ہزار روپے ہے اور اندراج کے ایک ماہ بعد آپ کی باری آئے گی۔ لیکن دوسرے تیسرے دن محترم ڈاکٹر صاحب نے خود مریض کو فون کیا کہ میں نے آپ کے ٹیسٹ کے لئے وقت لے لیا ہے اور آپ کی فیس بھی کم کرواکے تین ہزار روپے کروا دی ہے۔
اسی طرح محترم چوہدری ناصر احمد واہلہ صاحب امیرضلع عمرکوٹ نے ایک دفعہ ایک غیر از جماعت مریض کو محترم ڈاکٹر صاحب کے پاس بھجوایا جس کی اینجیو گرافی ہونی تھی۔ ابتدائی دوائی دینے کے بعد ڈاکٹر صاحب اُس سے کہنے لگے کہ مَیں ربوہ جا رہا ہوں اگر آپ بھی ربوہ آجائیں تو میں اپنی نگرانی میں اور کم خرچ پر آپ کا علاج کرادوں گا۔ وہ مریض جمعہ کے دن دارالضیافت ربوہ پہنچ گیا اور ہفتہ کے دن صبح 7بجے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ گیا تو وہاں محترم ڈاکٹر صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ آپ نے نہایت ہی کم خرچ پر اس کا علاج کرایا اور ساتھ ہی ایک مہمان کی زیارتِ مرکز بھی کرا دی۔
٭ مکرم چوہدری نور احمد ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم چوہدری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان نے ایک یتیم بچی کی پرورش بڑے احسن طریق سے کی جو اپنے والد کی شہادت کے بعد اپنے تین بھائیوں کے ساتھ بچپن میں ہی قادیان آگئی تھی اور پھر اُس کی شادی اس غرض سے میرے ساتھ کی کہ کہیں کوئی اَور یہ سمجھ کرکہ یتیم بچی ہے ظلم نہ کرے۔
٭ مکرمہ شوکت گوہر صاحبہ لکھتی ہیں کہ میری والدہ محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مولانا عبدالمالک خانصاحب کا معمول تھا کہ مہینہ میں ایک دفعہ اپنے ہاتھ سے بہت سارا کھانا پکاتیں اور غرباء کی بستی میں تقسیم کروادیتیں۔ اسی طرح کبھی کسی مستحق کو کپڑے سی کر دے دیتیں۔ایک دفعہ اپنی تنگدستی کے باوجود پڑوس کی ایک غریب بچی کے لئے بازار سے کپڑا لائیں اور اُس کا جوڑا سی کر ساتھ چوڑیاں لگا کر اس کو عید پر تحفہ دیا۔ آپ بیماروں کی عیادت کرتیں اور کبھی کبھی ان کے لئے پرہیزی کھانا پکاکر بھجواتیں۔ غرض ضرورتمندوں کی ہر ممکن مدد کرنا اپنا فرض سمجھتیں۔
٭ مکرمہ مبارکہ افتخار صاحبہ لکھتی ہیں کہ میری والدہ محترمہ امۃ القیوم شمس صاحبہ غرباء کے دکھ درد میں بچپن سے ہی شریک ہوتیں۔ جب وہ پرائمری سکول کی طالبہ تھیں تو اپنی ایک استانی کے گھر کے خراب مالی حالات کا احساس کرکے کسی کو بتائے بغیر اپنا ماہانہ جیب خرچ جمع کرتیں اور عید کے موقع پر اُن کی مدد کردیتیں۔
٭ مکرم زبیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری تائی مکرمہ خالدہ بیگم صاحبہ کئی عورتوں کو ہرسال کپڑے دیتیں۔ گائوں کی کئی عورتیں دیگر گھروں کی بجائے آپ سے اپنی روزمرّہ ضروریات کے لئے چیزیں لے جاتیں۔
٭ مکرم محمود احمد خالد صاحب مربی سلسلہ اپنے والد مکرم میاں شریف احمد صاحب کے بارہ میں لکھتے ہیں: بہت سے سفیدپوش ضرورتمند احمدی گھرانوں کی خاموشی سے پہلے خود مدد کرتے اور اگر ضرورت ہوتی تو نظام جماعت کے علم میں بھی لاتے۔ اسی طرح مسجد سے ’’الفضل‘‘ اخبار لے کر مختلف گھروں میں پہنچاتے۔
ایک غیر از جماعت دوست کے گردے فیل ہو گئے تو وہ کوئی کام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مالی حالت بہت خراب ہوگئی۔ مکرم میاں شریف احمد صاحب اکثر اُس کی مدد کرتے رہتے۔ ایک دفعہ اُس کے گھر عیادت کرنے گئے تو اُس کی ایک چھوٹی بچی کسی کتاب کے نہ ہونے پر رو رہی تھی۔ آپ کو معلوم ہوا تو اگلے ہی روز اُسے مطلوبہ کتاب خرید کرلادی۔
خدمت خلق کے عالمی ادارے اور شخصیات
ایس اوایس (SOS) سگنل
جب کوئی بحری جہاز خطرے میں ہوتا ہے یا ڈوبنے لگتا ہے تو وہ SOS کا سگنل دیتاہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہماری جان بچاؤ۔ خطرے کا یہ مشہور عالم سگنل 3؍اکتوبر 1906ء کو برلن ریڈیو کانفرنس میں برٹش مارکونی سوسائٹی اور جرمن ٹیلی فنکن آرگنائزیشن نے منظور کیا تھا اور یکم جولائی 1908ء کو یہ حروف نافذ العمل ہوئے تھے۔ یہ سگنل پہلی مرتبہ 10 جون 1909ء کو ایک ڈوبتے ہوئے جہاز S.S.Slavonia نے استعمال کیا۔ جس کی مدد کے لئے دو سٹیمرز پہنچ گئے اور اسے ڈوبنے سے بچالیا۔
SOS سے پہلے خطرے کے سگنل کے طور پر C.Q.D. کے حروف مستعمل تھے۔ یہ سگنل بھی مارکونی کمپنی نے ہی منظور کیا تھا اور یہ یکم فروری 1904ء سے نافذ العمل تھا۔ ان حروف کا مطلب تھا All Stations Urgent لیکن عام طور پر ان کا مطلب غلط طور پر Come Quick Danger مشہور ہوگیا تھا۔
یہی کچھ SOS کے سگنل کے ساتھ ہوا۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حروف Save our Souls, Save our Ship یا Send our Soccer کا مخفّف ہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ SOS کے حروف کسی کا بھی مخفّف نہیں ہیں۔ بلکہ یہ محض ایک کوڈ سگنل ہے اور اسے صرف اس لئے منظور کیا گیا ہے کہ اس سگنل کی ترسیل اور وصولیابی بہت آسان ہے (مورس کوڈ میں ’S‘ کے لئے تین نقطے یا ڈاٹ اور ’O‘ کے لئے تین ڈیش استعمال ہوتے ہیں۔ SOS کا سگنل بھیجنا ہو تو تھری ڈاٹ، تھری ڈیش اور تھری ڈاٹ دبا کر یہ سگنل بہت آسانی سے اور بہت جلد بھیجا جاسکتا ہے۔
SOS محض ایک کوڈ سگنل ہے۔ اسی لئے ان حروف کو لکھتے ہوئے فُل سٹاپ کا استعمال نہیں کیاجاتا۔ اگر خطرے کا سگنل زبان سے بھیجنا ہو تو اس صورت میں May Day کا سگنل دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہوائی جہاز خطرے کے وقت May Day کا سگنل دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان الفاظ کی آواز فرانسیسی لفظ M.Aider سے مشابہ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے "Help Me”۔
ریڈ کراس
دنیا کی فلاحی تنظیموں میں ریڈ کراس کا نام بہت اہم ہے۔ دنیا کی متعدد تنظیموں کی طرح یہ تنظیم بھی فقط ایک شخص کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ یہ شخص سوئٹزرلینڈ کا ژاں ہنری دوناں (Jean Henry Dunant) تھا جو 8مئی 1828ء کو پیدا ہوا۔ 24جون 1859ء کو وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں لاوردی نامی شہر میں تھا جو اُن دنوں فرانس اور آسٹریا کے درمیان جنگ کا محور بنا ہوا تھا۔ ہر روز سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں افراد زخمی ہو رہے تھے اور کوئی انہیں ابتدائی طبّی امداد دینے والا بھی نہیں تھا۔ دوناں کے ذہن پر اس واقعے کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور وہ اپنا کام بھول کر زخمیوں کی امداد میں مصروف ہوگیا۔ یوں اس کی کوششوں سے متعدد زندگیاں بچ گئیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعددوناں نے ایک پمفلٹ "Un Souvenir De Solferino” تحریر کیا جس میں اُس نے حالات جنگ کے متاثرین کے لئے ایک ایسی تنظیم بنانے کی تجویز پیش کی جو اُن کی امداد اور آباد کاری کے کاموں میں مدد کر سکے۔ اس تجویز کو زبردست پذیرائی ملی اور اس کی کوششوں سے 8اگست 1864ء کو جنیوا میں 14ممالک کا ایک کنونشن منعقد ہوا جس میں انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے قیام کی منظوری دی گئی اور سفید زمین پر ایک سرخ کراس کو جوسوئٹزر لینڈ کے پرچم کو اُلٹ کر بنایا گیا تھا ریڈ کراس کا پرچم بنا لیا گیا۔
حالت جنگ میں انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی متحارب ممالک اور ان کی نیشنل ریڈ کراس سوسائٹیز کے مابین غیرجانبدار رابطے کا کام انجام دیتی ہے اور جنگی قیدیوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے اور انہیں ڈاک اور اسی نوع کی دوسری سہولیات فراہم کرتی ہے۔ جنگ کے علاوہ قدرتی آفات میںبھی یہ تنظیم فعال کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں ریڈ کراس سوسائٹی کا نام فروری 1974ء میں بدل کر پاکستان ہلال احمر سوسائٹی رکھ دیا گیا اور اس کے صلیب کے نشان کی جگہ سرخ ہلال نے لے لی۔
ژاں ہنری دوناں کا انتقال 30اکتوبر 1910کو سوئٹزرلینڈ کے شہر ہیڈن میں ہوا۔ اسے دنیا کی متعدد تنظیموں نے انعامات اور اعزازات سے نوازا۔ 1901ء میں جب نوبیل انعامات کا آغاز ہوا تو دوناں نے ایک فرانسیسی Frederic passy کے اشتراک سے امن کا پہلا نوبیل حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس 1917ء ، 1944ء اور 1963ء میں تین مرتبہ امن کے نوبیل انعامات حاصل کرچکی ہے۔
یوم سفید چھڑی
برسٹل (انگلینڈ) کا تاریخی شہر اپنے قدیم چرچوں کی وجہ سے معروف ہے۔ 1921ء میں یہاں کا ایک نابینا فوٹو گرافر جیمز بگز (James Biggs) شہر کی ٹریفک سے پریشان تھا۔ ایک حادثے میں اس کی آنکھیں ضائع ہو گئی تھیں اور وہ ٹریفک کے کسی حادثے کا شکار ہوکر اپنے مصائب میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی چھڑی کو سفید رنگ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ موٹرکار چلانے والوں کو آسانی سے نظر آئے۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ یہ چھوٹا ساکام اُسے دنیا میں غیر معمولی شہرت عطا کرنے والا ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں 1930ء سے سفید چھڑی کے متعلق قانون سازی شروع ہو گئی تھی۔ 1960ء کے عشرے میں امریکہ میں نابینا افراد کے لئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے زور دینے پر کانگریس نے ہر سال 15؍ اکتوبر کو سرکاری طور پر ’’یوم سفید چھڑی‘‘ منانے کا فیصلہ کیا اور چند گھنٹوں بعد ہی امریکی صدرلنڈن بی جانسن نے اس قرارداد کی منظوری دیدی۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے خدمت خلق کے حوالہ سے شائع ہونے والے جلسہ سالانہ نمبر 2011ء میں محترم چوہدری محمد علی مضطر عارفی صاحب کی درج ذیل مختصر غزل شامل اشاعت ہے:
خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں
چھوٹا ہوں مگر بہت بڑا ہوں
منسوخ نہ ہو سکوں گا ہرگز
قدرت کا اٹوٹ فیصلہ ہوں
بولوں تو ہوں عہد کی علامت
خاموش رہوں تو معجزہ ہوں
وہ میرے وجود کا مخالف
میں اس کے بھلے کی سوچتا ہوں
طوفاں کو بھی ہو چلا ہے احساس
ساحل کے قریب آ گیا ہوں
منزل ہوں تو معتبر ہوں مضطرؔ!
رستہ ہوں تو سیدھا راستہ ہوں