حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

ز…مسجد Raunheim اور مسجد Marburg کے سنگ بنیاد کی تقریبات کی وسیع پیمانے پر کوریج۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ
ایک کروڑ 89لاکھ90 ہزار سے زائد لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا۔

ز…انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ سینکڑوں افراد نے اپنے پیارے امام سے ذاتی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ز… خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح۔ز…ممبرات نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی اور جرمنی میں لجنہ امااللہ کی صدرات کے ساتھ میٹنگ میں مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ، کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے زرّیں نصائح اور ممبرات لجنہ اماء اللہ کے سوالات کے جوابات۔ز…تقریب آمین۔

ز… جامعہ احمدیہ جرمنی سے شاہد کا امتحان پاس کرنے والے طلباء اور جامعہ کی مختلف کلاسز میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء میں
تقسیم اسناد کی پُر وقار تقریب۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت شمولیت اور زرّیں ہدایات و نصائح پر مشتمل خطاب۔

ز…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے اعجازی شفا کا ایک روح پرور واقعہ۔ ز…اعلانات نکاح

………………………………..
19 ؍اپریل2017ء بروز بدھ
(حصہ دوم)
………………………………..

مساجد کے سنگ بنیاد کی تقریبات کی وسیع پیمانے پر میڈیا کوریج

مسجد Raunheim اور مسجد Marburg کے سنگِ بنیاد کے موقع پر جرمنی کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بڑے وسیع پیمانے پر کوریج دی ۔

اس الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ٹی وی چینل اور 22 اخبارات کے ذریعہ مسجد Raunheim اور مسجد Marburg کے سنگِ بنیاد کی 26 خبریں ایک کروڑ 89 لاکھ 90ہزار789 افراد تک پہنچیں

نمبر
نام
تعداد سامعین و ناظرین
ٹی وی چینل
1
Rheinland Pfalz/Hessen
اخبارات
نمبر
نام
تعداد سامعین و ناظرین و قارئین

2
Allgemeine Zeitung
174158
3
Arcor
1274500
4
Bild.de
9132186
5
Echo Online
146620
6
FAZ.net
3833239
7
Focus Online
3956478
8
Gelnhäuser Tageblatt
778
9
Gießener Anzeiger
46296
10
Höchster Kreisblatt

11
Kreis-Anzeiger
7191
12
Lauterbacher Anzeiger
529
13
Mittelhessen.de
44135
14
Nassauische Neue Presse

15
Neu Isenburger Neue Presse

16
Oberhessische Presse
33579
17
Oberhessische Zeitung
12445
18
Rüsselsheimer Echo

19
Schwäbische.de
220110
20
Taunus Zeitung

21
Usinger Anzeiger
1814
22
Wiesbadener Kurier
83920
23
Wormser Zeitung
22929

کل تعداد
18990907
………………………………….

ز…online اخبار schwaebische.de نے اپنی انٹرنیٹ کی اشاعت میں اِس سرخی کے ساتھ خبر نشر کی کہ

’’مسجد کا افتتاح: نرم مزاج خلیفہ‘‘

دوسری سرخی یہ لگائی کہ:

’’آؤگس برگ میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر Bavariaکے لوگوں کا اجتماع‘‘۔

تیسری سرخی یہ لگائی کہ:

’’ بے ہنگم داڑھیوں کا اسلام نہیں‘‘

اکثر جرمنوں پر یہ تأثر ہے کہ اسلام ایک محدود حلقے کی طرح ہے۔ بہتوں کو اسلام میں خطرہ بھی نظر آتا ہے ۔ لیکن مختلف مسلمانوں کے درمیان کس قدر فرق ہے اس کا اندازہ گزشتہ دنوں جنوب کے علاقوں میں لگایا جا سکتا تھا۔ والڈزہُوٹ اور آؤگس برگ میں جماعت احمدیہ نے نئی مساجد کا افتتاح کیا۔ مخالفت زیادہ تر سُنّی حلقوں کی طرف سے ہوئی۔اس جماعت کو قریب سے دیکھنا ایک خوشگوار تجربہ ہے ۔ Augsburg کے محلے Oberhausen میں بچے جشن کے لباس پہنے خوشی اور نیکی کے نغمے گا رہے تھے۔ نوجوان مرد خوبصورت سوٹ میں ملبوس عیسائی مہمانوں کی اس طرح میزبانی کر رہے تھے کہ گویا ان میں سے ہر ایک مہمان خصوصی ہو۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔

پھر جماعت کے خلیفہ تشریف لاتے ہیں۔ حضرت مرزا مسرور احمد، ساری دنیا میں پھیلے ہوئے کم وبیش ایک سو ملین احمدیوں کے منتخبہ امام ہیں۔ اگرSchwaben کے علاقے کا سفرصرف جماعت کے خلیفہ کو دیکھنے کے لئے کیا جاتا تو یہ بھی کافی تھا ۔ آپ کی شخصیت پُر اثر ہے۔ 66سال آپ کی عمر ہے اور آپ غیر متزلزل بشاشت کے حامل ہیں۔

یہ کوئی بے ہنگم داڑھیوں اور ایسے نوجوانوں کا اسلام نہیں ہے جو بندوق اٹھائے (اگر ممکن ہو تو کٹے ہوئے سروں کے ساتھ) تصویریں کھنچواتے ہیں۔احمدیوں پر تو خود ان کے وطن پاک و ہند میں قدغن ہے ، ان کوتکلیفیں دی جاتی اور قتل کیا جاتا ہے ۔ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ محمد (ﷺ) کے بعد بھی کسی مصلح کی آمد کوممکن تصور کرتے ہیں۔

آپ غیر متزلزل شفقت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام محبت کا مذہب ہے ، نفرت کا نہیں۔ احمدیوں کو نفرت کا سامنا ہے۔ بعض ممالک میں احمدی ہونا زندگی کے لئے خطرہ ہے۔خلیفہ اس وجہ سے پاکستان میں نہیں بلکہ لندن میں رہتے ہیں ۔ جرمنی میں آپ کی رہائش جماعت کے مرکز فرینکفرٹ میں ہوتی ہے ۔

Augsburg میں جماعت کی مسجد میں فن تعمیر کے اعتبار سے کئی خوبیاں ہیں۔ تعمیر میں سادگی نمایاں ہے ، خواہ نیلے شیشے سے بناگنبدہو یا مناسب رنگ میں لکھی ہوئی تحریریں ۔ مردوں اور عورتوں کے ہال الگ الگ ہیں۔ تقریب کے دوران مرد اور عورتیں الگ الگ مارکی میں بیٹھے ہوئے تھے۔

گرین پارٹی کی Christine Kamm اس تقریب سے بہت متأثر ہوئی ہیں جس میں سادہ اور معیاری کھانے پیش کئے گئے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ یہ ہمارے لئے ایک مفید اضافہ ہے۔نائب مئیر Stephan Käfer اپنے میزبانوں کو امن کے پیامبر کہتے ہیں ۔

سب لوگ اس شہر میں خوش نظر آ رہے ہیں۔ یہ شہر مذہبی امن کا شہر ہے ۔ خلیفہ اپنے خطاب میں یہ بتار ہے ہیں کہ آج کے دور میں کلیسا ، یہودی عبادتگاہیں اور مساجد، یہ سب خطرے میں ہیں کیونکہ انسان کا خدا پر ایمان قائم نہیں رہا۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا سب انسانوں کا خدا ہے ۔ اور آخر میں کہتے ہیں کہ ہم اچھے یا برے انسان ہیں یہ فیصلہ خدا ہماری موت کے بعد خود فرمائے گا۔

………………………………….

ز…اخبار Allgemeine Zeitung Mainz نےاپنی 18اپریل 2017ء کی اشاعت میں اِس سرخی کے ساتھ خبر نشر کی کہ:

’’احمدی دو نئی مساجد بنائیں گے‘‘

احمدیہ مسلم جماعت صوبہ Hessen میں دو نئی مساجد تعمیر کررہی ہے۔ جماعت کے امام (حضرت) مرزا مسرور احمد منگل کی شام کو راؤن ہائم میں ایک مینار والی مسجد کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔ بدھ کو جماعت کے خلیفہ ماربُرگ میں سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائیں گے۔ گزشتہ جمعہ کو ہزاروں احمدیوں نے راؤن ہائم میں جماعت کے خلیفہ کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کی ۔خلیفہ لندن میں رہتے ہیں۔

جماعت احمدیہ عالمگیر اپنے بیان کے مطابق کئی ملین افراد پر مشتمل ہے ۔ جرمنی میں جماعت کے ممبران کی تعداد 45 ہزار ہے۔ جن میں سے پندرہ ہزار صوبہ Hessen میں رہتے ہیں۔ یہ بات جماعت جرمنی کے امیر ، عبداللہ واگس ہاؤزر نے منگل کے روز فرینکفرٹ میں جماعت کے خلیفہ کی آمد کے موقع پر بتائی ۔

جرمنی میں 51 مساجد میں سے آدھی ہیسن میں ہیں۔ پہلی مسجد ہمبرگ میں 1954ء میں بنائی گئی ۔ جبکہ دوسری مسجد 1959ء میں بنائی گئی جو نور مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ فرینکفرٹ ہی میں جماعت جرمنی کا مرکز بھی موجود ہے ۔ جرمنی میں کُل سو مساجد بنانے کا منصوبہ ہے ۔ جبکہ اس وقت تقریباً دس مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں کام جاری ہے ۔

…………………………………….

ز…اخبار Frankfurter Allgemeine نے اپنی 18اپریل 2017ء کی اشاعت میں اِس سرخی کے ساتھ خبر نشر کی کہ

خلیفہ جماعت کے ساتھ سنگ بنیاد کی تقاریب

دوسری سرخی یہ لگائی کہ

’’ جماعت احمدیہ دو نئی مساجد تعمیر کر رہی ہے ‘‘۔

منگل کو راؤن ہائم میں، اور بدھ کو ماربرگ میں ، احمدیہ مسلم جماعت ہیسن میں بیک وقت دو مساجد تعمیر کررہی ہے۔ ہیسن میں جماعت کے 15 ہزار ممبران ہیں۔

احمدیہ مسلم جماعت صوبہ ہیسن میں دو نئی مساجد تعمیر کررہی ہے۔جماعت کے امام (حضرت) مرزا مسرور احمد منگل کی شام کو راؤن ہائم میں ایک مینار والی مسجد کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔ بدھ کو جماعت کے خلیفہ ماربُرگ میں سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائیں گے ۔ گزشتہ جمعہ کو ہزاروں احمدیوں نے راؤن ہائم میں جماعت کے خلیفہ کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کی ۔خلیفہ کی رہائش لندن میں ہے۔

جماعت احمدیہ عالمگیر اپنے بیان کے مطابق کئی ملین افراد پر مشتمل ہے ۔ جرمنی میں جماعت کے ممبران کی تعداد 45 ہزار ہے ۔ جن میں سے پندرہ ہزار صوبہ ہیسن میں رہتے ہیں۔ یہ بات جماعت جرمنی کے امیر ، عبداللہ واگس ہاؤزر نے منگل کے روز فرینکفرٹ میں جماعت کے خلیفہ کی آمد کے موقع پر بتائی ۔

جرمنی میں 51 مساجد میں سے آدھی ہیسن میں ہیں۔ پہلی مسجد ہمبرگ میں 1954ء میں بنائی گئی ۔ جبکہ دوسری مسجد 1959ء میں فرینکفرٹ میں بنائی گئی جو نور مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ فرینکفرٹ ہی میں جماعت جرمنی کا مرکز بھی موجود ہے۔ جرمنی میں کُل سو مساجد بنانے کا منصوبہ ہے جبکہ اس وقت تقریباً دس مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں کام جاری ہے

………………………………..

20 ؍اپریل2017ء بروز جمعرات

………………………………..

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر پندرہ منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔

صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک،خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور اپنے دست مبارک سے ان خطوط اور رپورٹس پر ہدایات سے نوازا۔ حضورانور کی خدمت میں روزانہ دنیا کے مختلف ممالک سے خطوط، فیکسز اور ای میلز وغیرہ موصول ہوتی ہیں ا ور اسی طرح یہاں جرمنی کی مختلف جماعتوں کے افراد کی طرف سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں خطوط موصول ہوتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز روزانہ ساتھ کے ساتھ یہ ساری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرماتے ہیں اور ہدایات سے نوازتے ہیں۔

دو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

……………………………………

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

بعدازاں پروگرام کے مطابق سوا چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج شام کے اس سیشن میں 39 فیملیز کے 148افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضورانور کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

آج ملاقات کا شرف پانے والوں میں فرینکفرٹ کے مختلف حلقوں کے علاوہ Walldorf, Moerfelden, Boeblingen, Bad Nauheim, Eppertshausen, Bad Hersfeld, NIdda, Vechta, Bad vilbel Kolen, Bensheim, Dreiech, Dietzenbach, Schluechtern, Nauheim, Ulm Donau، آفن باغ، کوبلنز، ویزبادن، رُسل ہیم، گیزن سے آنے والی فیملیز اور احباب شامل تھے۔ بعض فیملیز اور احباب بڑے لمبے سفر طے کرکے پہنچی تھیں۔ Ulmdonau سے آنے والی فیملیز 310 کلومیٹر کا سفر طے کرکے پہنچی تھیں۔ جرمنی کی جماعتوں سے آنے والی ان فیملیز کے علاوہ دوبئی (Dubai) اور پاکستان سے آنے والے احباب نے بھی اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

آج کا دن ان فیملیز کے لئے غیرمعمولی سعادتوں اور برکتوں کا دن تھا جو چند گھڑیاں انہوں نے اپنے آقا کے قرب میں گزاریں وہ ان کی ساری زندگی کا سرمایہ اور ان کے لئے اور ان کے بچوں کے لئے یادگار لمحات تھے۔ ان میں سے ہر ایک برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ بیماروں نے اپنی شفایابی کے لئے دعائیں حاصل کیں۔ پریشانیوں اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دُور ہونے کے لئے دعا کی درخواستیں کیں اور تسکین قلب پاکر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ بعضوں نے اپنے مختلف معاملات اور کاروبار کے لئے رہنمائی حاصل کی۔ طلباء و طالبات نے اپنے امتحانات میں کامیابی کے لئے اپنے پیارے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔ غرض ہر ایک نے اپنے محبوب آقا کی دعاؤں سے حصہ پایا اور یہ مبارک ساعتیں ان کے لئے آبِ حیات بن گئیں۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر دس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس اور مکرم عبدالسمیع صاحب نگران Maintenance بیت السبوح نے حضورانور سے دفتری ملاقات کی سعادت پائی۔

بعدازاں کچھ دیر کے لئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پونے نو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے

………………………………..

21 ؍اپریل2017ء

بروز جمعۃالمبارک

………………………………..

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح سوا پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔ صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

آج جمعۃالمبارک کا دن تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کا انتظام بیت السبوح سے قریباً 34کلومیٹر کے فاصلہ پر Raunheimکے علاقہ میں وسیع و عریض مارکیز لگاکر کیا گیا تھا۔یہ وہی جگہ ہے جہاں اس سے قبل 14 اپریل کو گزشتہ جمعہ ادا کیا گیا تھا۔

Raunheim میں جماعت نے اپنی مسجد کی تعمیر کے لئے 2750مربع میٹر کا قطعہ زمین خریدا ہوا ہے۔ اس قطعہ زمین پر اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں تین مارکیز لگاکر چھ ہزار افراد جماعت کے لئے نماز جمعہ کی ادائیگی کا انتظام کیا گیا تھا۔جماعت کے اسی قطعہ زمین میں 18؍اپریل بروز منگل کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت Raunheimکی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

تینوں مارکیز کی وسعت اور محدود جگہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس بار حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات اور ہدایات کی روشنی میں انتظامیہ نے فرینکفرٹ کے اردگرد ایک محدود علاقہ تک کی جماعتوں کو Raunheim آنے کی ہدایت کی تھی اور باقی جماعتوں کے لئے یہی ہدایت کی گئی تھی کہ اپنے اپنے سینٹرز میں نماز جمعہ ادا کریں۔چنانچہ اس بار چھ ہزار کے لگ بھگ افراد جماعت نے اپنے پیارے آقا کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرنے کی سعادت پائی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دوپہر ڈیڑھ بجے بیت السبوح سے روانہ ہوئے اور نصف گھنٹہ کے سفر کے بعد دو بجے یہاں تشریف آوری ہوئی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مردانہ مارکی میں تشریف لاکر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

… … … … … … … … … …

خطبہ جمعہ

تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کاہم پر یہ فضل و احسان ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے، آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اس بات کو جہاں ہمیں اپنے ایمانوں میں بڑھنے کا ذریعہ بنانا چاہئے،کیونکہ اگر ماننے کے بعد ہم اپنے ایمان اور یقین میں نہیں بڑھتے تو اس ماننے کا کوئی فائدہ نہیں، وہاں بغیر کسی احساس کمتری کے اور بزدلی کے احساس کے ہمیں کھل کر اسلام کا پیغام پہنچانا چاہئے۔ بعض نوجوانوں میں، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں، بعض دفعہ یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی جو حالت ہے اور جو فتنہ اور فساد ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس وجہ سے اسلام کے بارے میں زیادہ بات نہ کریں۔ گو اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی active ہے اور جو لیف لیٹنگ وغیرہ کی رپورٹس آتی ہیں اس میں اظہار ہوتا ہے کہ کافی حصہ لیا گیا ہے۔ لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جوبعض دفعہ کسی نہ کسی لحاظ سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔ مسلمان کہلانا تو ہے کیونکہ مسلمان ہیں ۔لیکن اس کازیادہ اظہار نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے۔ حالانکہ دوسرے مسلمانوں کے عمل سے تو ہم میں مزید جرأت پیدا ہونی چاہئے کہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھائیں اور بتائیں کہ یہ اسلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا جب مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گا، فتنہ و فساد ہو گا اور نام نہاد علماء اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ مسلمانوں پر دنیاداری غالب ہو جائے گی اور اس وقت مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہو گا اوروہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔وہ اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا میں پھیلائے گا۔ اور ہم احمدی وہ ہیں جو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں اور حقیقی اسلامی تعلیم جس کے خوبصورت انداز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے اور سکھائے ان پر عمل کرنے والے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا پس کسی احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ ان مغربی ممالک میں آکر دنیاداری کے ماحول کے زیر اثر دنیا کے ماحول میں زیادہ ڈوب گئے ہیں اور زبانی تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کرتے ہیں لیکن حقیقت میں عمل اس سے مختلف ہیں۔ہمارے احمدی یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے اور بہتر اخلاق غیروں کو دکھانے میں تو بہت بہتر ہیں لیکن عبادت اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے وہ معیار نہیں ہیں جو ایک احمدی کے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح آپس کے تعلقات کے معیار میں بھی کمی ہے۔ عہدیداروں کے لوگوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے میں بھی کمی ہے۔ مختلف جگہوں پر شکایتیں آتی ہیں اور لوگوں کا عہدیداروں کے لئے دل میں عزت کے جذبات رکھنے کے معیار کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس جماعت کو قائم کرنے آئے تھے وہ صرف اعتقادی اصلاح کرنے والی نہیں تھی بلکہ ہر سطح اور ہر لحاظ سے عملی اصلاح کرنے والی جماعت تھی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا پس اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اس کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ جرمنی میں جوں جوں مسجدیں بن رہی ہیں اور جماعتیں قائم ہو رہی ہیں جماعت کا تعارف بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم پر دنیا کی تنقیدی نظر بھی بڑھتی جائے گی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب ہماری تعداد بڑھے گی تو دنیا سے تعارف بھی ہو گا اور جب دنیا سے تعارف ہو گا تو تنقیدی نظر بھی بڑھے گی اور بڑھتی جارہی ہیں۔ پس یہ چیز ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی حالتوں کے معیار کو بڑھائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے مقصد کو پورا کرے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میں ہمیشہ کہتا ہوں اور پھر یاد دہانی کرواتا ہوں کہ کم از کم 99.9فیصد احمدیوں کو ان ملکوں میں آکر آباد ہونے کی اجازت ملنا ان کی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ احمدیت کی وجہ سے ہے اور اس لحاظ سے یہاں آکر آباد ہونے والا ہر احمدی احمدیت کا خاموش مبلغ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے اکثر احمدیوں کے اچھے نمونے اور اچھے تعلقات کی وجہ سے لوگوں پر جماعت کا اچھا اثر ہے جس کا اظہار مختلف موقعوں پر ہو جاتا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ چند دنوں میں یہاں مختلف شہروں میں مسجدوں کے افتتاح اور مسجدوں کی بنیاد رکھنے کے پروگرام ہوئے۔ وہاں مقامی لوگوں کی شمولیت اور لوگوں کا جماعت کے بارے میں جو اظہار خیال تھا، جو خیالات انہوں نے پیش کئے ، انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کے بھی جو خیالات تھے جس کا انہوں نے اظہار کیا وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقامی احمدیوں کا مقامی لوگوں پر اچھا اثر ہے لیکن مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا جس طرح تعارف لوگوں میں ہونا چاہئے تھا اس طرح نہیں ہے کیونکہ جب میں ان موقعوں پر اسلام کی تعلیم کے حوالے سے باتیں کرتا ہوں یا جب بھی میں نے ان لوگوں سے باتیں کیں بہت سے لوگوں نے یہی کہا کہ اسلام کی اس حقیقی تعلیم کا ہمیں پہلے نہیں پتا تھا، ہمیں علم نہیں تھا۔ سب لوگوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کے یہ پہلو تو ہم سے چھپے ہوئے تھے۔ ہمارے ذہنوں میں تو اسلام کا وہی تصور ہے جو میڈیا ہمیں دکھاتا ہے۔ ہمارے بعض احمدی واقف ہیں کہ یہ بھی انہوں نے اظہار کیاکہ بیشک ان کی دعوت پر ہم یہاں آ تو گئے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں تحفظات تھے۔ کسی کا ذاتی تعلق پیدا ہونا اور تعلق رکھنا ایک بالکل مختلف چیز ہے اور جماعتی طور پر کسی کو فنکشن میں بلانا اور لے کر آنا اور جماعت کے حوالے سے بات کرنا بالکل اور چیز بن جاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ میرا دوست ہے جو انفرادی طور پرتو اچھا ہو گا لیکن پتا نہیں بحیثیت جماعت اس کی کیا حالت ہے اوران لوگوں کے کیسے خیالات ہیں۔ یہ بھی کہیں شدت پسند تو نہیں ہیں؟ اس لئے ان لوگوں کے ذہنوں میں تحفظات تھے۔ یہ عمومی تاثر اور ایسے تحفظات دنیا کے ہر ملک کے غیر مسلموں میں مَیں نے دیکھے ہیں کہ پتا نہیں اگر ہم مسلمانوں کے اس فنگشن میں گئے تو کیا ہو گا؟ شاید دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن یہ بھی انہوں نے کہا کہ آپ کے فنکشن میں شامل ہو کر ہمیں پتا چلا کہ ہماری سوچیں بالکل غلط تھیں۔ مجھے انہوں نے کہا اور مختلف جگہوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ آپ کی باتیں سن کر ہمیں پتا چلا کہ اسلام ایک پُرامن اور محبت کرنے والا مذہب ہے۔ محبت پھیلانے والا مذہب ہے۔ اور چند لوگوں کے عملوں کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جیساکہ مَیں نے کہا یہاں بھی ان دنوں مختلف فنکشنز پر بعض لوگوں نے اور دنیا میں اور جگہ بھی ایسے لوگ ملتے ہیں اور یہ اظہار کرتے ہیں کہ آپ کی باتیں سن کر ہمارے اسلام کے متعلق صرف شبہات ہی دور نہیں ہوئے، جو شبہات یا تحفظات تھے صرف وہی دور نہیں ہوئے بلکہ بعض لوگوں نے کہاکہ اگر ہمیں کبھی کسی مذہب کی طرف آنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی تو جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف ہی آئیں گے۔ اسلام کی باتیں ہم سے سن کر لوگ کس طرح اپنے خیالات بدلتے ہیں اس کی چند مثالیں میں دیتا ہوں۔چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف تقریبات میں شامل مہمانوں میں سے بعض کے تأثرات پڑھ کرسنائے۔

……………………………………

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا مکمل متن ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 12 مئی 2017ء میں شائع ہوچکا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ براہ راست MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ دنیابھر میں Live نشر ہوا۔ اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی حسب طریق Live نشر ہوئے۔

خطبہ جمعہ کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جمعہ و نماز عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز Raunheim سے واپس بیت السبوح فرینکفرٹ کے لئے روانہ ہوئے اور تین بجکر پچاس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ حضور انور اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

……………………………………

پانچ بجکر پندرہ منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور نیشنل سیکرٹری مال جرمنی طارق محمود صاحب نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دفتری ملاقات کی۔

…………………………………..

بعدازاں پانچ بجکر 40 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکرم عبدالعزیز ڈوگر صاحب (مرحوم) کی تعزیت کے لئے ان کے بیٹے عبدالغفور ڈوگر صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔

مکرم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کی 11جنوری 2016ء کو وفات ہوئی تھی۔ مرحوم کی عمر 87 سال تھی۔ آپ ماسٹر چراغ دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15جنوری 2016ء میں مرحوم کا ذکرخیر فرمایا تھا اور بتایا تھا کہ مرحوم کو ساری عمر جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ابتدا میں تقریباً 31 سال حضرت مصلح موعودؓ کے قائم کردہ دواخانہ خدمت خلق میں کام کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے خود ہی ان کو طبّ سکھائی تھی۔ اسی طرح آپ کو وفات تک مختلف جماعتی عہدوں پر خدمت کرنے کی توفیق ملتی رہی۔

…………………………………….

بعدازاں چھ بجکر 45منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس بیت السبوح تشریف لے آئے۔

……………………………………

ممبرات نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی اور جرمنی میں لجنہ اماء اللہ کی

مقامی صدرات کے ساتھ میٹنگ

پروگرام کے مطابق آج نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی اور لجنہ کی تمام مجالس کی صدرات کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ تھی۔

میٹنگ کا انتظام سپورٹس ہال میں کیا گیا تھا۔ چھ بجکر پچاس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لائے اور میٹنگ کے آغاز میں دعا کروائی۔

اس میٹنگ میں نیشنل مجلس عاملہ لجنہ جرمنی کی 25 ممبرات کے علاوہ 26 ریجنل صدرات اور 257 مقامی مجالس کی صدرات شامل تھیں۔

٭… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نیشنل جنرل سیکرٹری سے مجالس کی تعداد اور ان مجالس کی طرف سے موصول ہونے والی ماہانہ رپورٹس کے بارہ میں دریافت فرمایا۔

اس پر جنرل سیکرٹری نے بتایا کہ مجالس کی تعداد 271 ہے اور باقاعدہ رپورٹس بھجوانے والی مجالس کی تعداد 256 ہے، یعنی اوسطاً 95فیصد ہے۔

حضورانور کے دریافت فرمانے پر سیکرٹری نے بتایا کہ ایسی دو مجالس ہیں جنہوں نے گزشتہ تین ماہ سے کوئی رپورٹ نہیں بھجوائی۔

حضورانور نے ان دونوں مجالس کی صدرات سے رپورٹس نہ بھجوانے کی وجہ دریافت فرمائی اور باقاعدگی سے ہر ماہ رپورٹ بھجوانے کی ہدایت فرمائی۔ حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ پوسٹل ایڈریس یا فیکس یا ای میل پر بھجوادیا کریں۔

حضورانور نے فرمایا کہ کام تیزی سے ہونا چاہئے اور رپورٹس موصول ہونے کے بعد ان پر تبصرہ سات دنوں کے اندر صدر لجنہ کے دستخط کے ساتھ مجالس میں پہنچ جانا چاہئے۔

صدر صاحبہ لجنہ نے بتایا کہ رپورٹ ہر اگلے ماہ کی دس تاریخ تک آتی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو صدرات مجالس دس تاریخ تک رپورٹ بھجواسکتی ہیں وہ ہاتھ کھڑا کرکے بتائیں۔ اس پر صدرات نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے اور بتایا کہ وہ رپورٹس تیار کرکے دس تاریخ تک بھجواسکتی ہیں۔

٭… حضور انور نے نیشنل سیکرٹری تعلیم سے دریافت فرمایا کہ وہ سال میں کتنے امتحان لیتی ہیں؟

اس پر سیکرٹری تعلیم نے عرض کیا کہ ہم سہ ماہی امتحان لیتے ہیں۔ اور امتحان دینے والی ممبرات کی تعداد 45 فیصد ہے۔

سیکرٹری تعلیم نے حضورانور کی خدمت میں رہنمائی کی درخواست کی کہ اس تعداد کو کیسے بڑھایا جائے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا بعض عورتوں کے گھریلو مسائل اور بچے چھوٹے ہوتے ہیں۔ سال میں ایک امتحان میں ہی شامل ہوجایا کریں۔

٭… بعدازاں حضورانور نے سیکرٹری تجنید سے تعداد کے لحاظ سے بڑی مجلس کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ریجنل صدر فرینکفرٹ سے فرینکفرٹ کی تعداد دریافت فرمائی۔

اس پر ریجنل صدر نے بتایا کہ فرینکفرٹ ریجن کی تجنید 847 ہے اور ریجن میں 15 مجالس ہیں۔

بعد ازاں حضور انور نے ہمبرگ کی مجالس کے بارہ میں د ریافت فرمایا۔ اس پر یہ بتایا گیا کہ ہمبرگ کی 15 مجالس ہیں ا ور تجنید 808 ہے اور وہاں کی سب سے بڑی مجلس بیت الرشید ہے۔

٭… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری تبلیغ سے بیعتوں کا ٹارگٹ دریافت فرمایا۔ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ ہمارا سپیشل ٹارگٹ نہیں ہے۔

حضورانور نے فرمایا کہ جلسہ سالانہ برطانیہ تک آپ کے لئے سو بیعتوں کا ٹارگٹ ہے اور جولائی تک تین ماہ کا عرصہ ہے۔ اپنے گھر، عاملہ سے شروع کریں اور تب فعّال صدارت کو کہہ سکتی ہیں اور آپ کے پاس 1800 داعیات الی اللہ ہیں۔ سو بیعتوں کے ٹارگٹ کو آپ ان پر تقسیم کریں تو ہر اٹھارہ ممبرات کو ایک بیعت کا ٹارگٹ دیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ ایک ایسا بروشر پمفلٹ بنائیں جس میں ختم نبوّت کا مطلب ، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل ، چاند سورج گرہن کا نشان، خلافت کی اہمیت وغیرہ کے حوالہ سے ایک دو جملوں میں بنیادی علم حاصل ہوسکے اور تبلیغ کے لئے ممبرات اس سے استفادہ کرسکیں۔

٭… حضورانور کے استفسار پر سیکرٹری اشاعت نے بتایا کہ سہ ماہی رسالہ ’’خدیجہ‘‘، ناصرات کا رسالہ ’’گلدستہ‘‘ اور الفضل انٹرنیشنل میں ’خدیجہ‘ کے چار صفحات پر مبنی شمارہ شائع ہوتا ہے۔

حضورانور نے فرمایا کہ آپ کی کُل تجنید 13ہزار پانچصد ہے۔ کیا آپ یہ معلومات دے سکتی ہیں کہ کتنی اردو اور کتنی جرمن پڑھنے والی ہیں اور اسی طرح اردو، انگریزی، جرمن میں کتنی لکھنا پڑھنا جانتی ہیں؟

حضورانور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کو اپنے رپورٹ فارم میں شامل کرلیں اور یہ معلومات اکٹھی کریں۔

٭… حضورانور نے نیشنل سیکرٹری تربیت سے پردہ کے معیار کے بارہ میں دریافت فرمایا ور جملہ حاضر صدرات سے دریافت فرمایاکہ کیا جو صدرات میرے سامنے بیٹھی ہیں کیا وہ اسی حلیہ میں باہر بھی ہوتی ہیں؟

اس پر صدرات نے یک زبان ہوکر اس امر کی تائید کی۔

حضورانور نے فرمایا کہ بالوں کو Cover نہ کرنے کی شکایات آتی ہیں۔ مجالس کی عاملہ میں سر پہ حجاب لینا، بال ڈھانکنا، لمبا کوٹ پہننا یہ کم سے کم حیا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ’’اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَان‘‘ حیا ایمان کا حصّہ ہے۔ اصل حیا یہ ہے کہ سر ڈھانکو اور اپنی چادریں اوڑھو، جسم کے اعضاء ظاہر نہ ہوں، ڈھیلا ڈھالا لباس ہو۔بہت ساری جماعت میں نئی آنے والی یہ شکوہ کرتی ہیں کہ حیا کے معیار اچھے نہیں ہیں۔ اب یہ جرمن خاتون سامنے بیٹھی ہے۔ اس نے اپنا سَر اچھی طرح ڈھانپا ہوا ہے۔

حضورانور نے فرمایا کہ ایسی ممبرات جن کو سیکرٹری بنادیا جاتا ہے اُن کی تربیت کے معیار ایسے نہیں ہوتے تو انہوں نے دوسروں کی تربیت کیا کرنی ہے۔ اس لئے اپنی پسند کی عاملہ نہ بنائیں، یہ دیکھیں کہ آیا وہ اپنے شعبہ کی Requirement کو پورا کررہی ہے۔ اگر سیکرٹری تعلیم ہے تو دینی علم ہو، مطالعہ کرنے والی ہو۔ سیکرٹری تبلیغ ایسی ہو جس کو تبلیغ کا شوق ہو۔ سیکرٹری ضیافت کے لئے ایسی ممبر ہوں جن کو مہمان نوازی کا شوق ہو۔

٭… حضور انور نے نیشنل سیکرٹری تربیت سے استفسار فرمایا کہ تربیتی سیمینار کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا آپ نے کبھی Feedbackلیا؟ حضورانور نے صدرات سے بھی اس بارہ میں دریافت فرمایا۔ اس پر ایک ریجنل صدر نے سیمینار کے بارہ میں مثبت رنگ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

حضورانور نے فرمایا کہ بہت سی مائیں ایسی ہیں جو پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ اُن کی آپس میں بیٹیوں سے دوستی ہونی چاہئے۔ دوستی ہوگی تو مسائل حل ہوں گے۔ بہت سی مائیں ذاتوں میں الجھی ہوئی ہیں۔ کوئی بٹ ہے، چوہدری ہے۔ تو اس لحاظ سے ماؤں کو ٹریننگ دیں۔ یہ چیز بھی ساتھ ساتھ ہے۔ اس پہ نظررکھنے کی ضرورت ہے۔تربیت کے شعبہ کا یہ کام بھی ہے کہ جو لڑکیاں بہت جلد خلع کی درخواستیں دے دیتی ہیں۔ انہیں سمجھائیں کہ جلدبازی نہ کیا کریں۔

٭… حضورانور نے سیکرٹری ناصرات کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ناصرات کے لئے ایسے پروگرام بنائیں جو اُن کی دلچسپی کے لئے ہوں۔ نیشنل اجتماعات پر بھی ناصرات کے علیحدہ پروگرام ہوں۔ علیحدہ مارکی ہو، ناصرات کے لئے تقریروں وغیرہ کا پروگرام ہو، بڑوں کے لیکچر ہوں اور صدرلجنہ کی تقریر ہو، جرمن میں اِن کو سمجھائیں کہ ان کو سمجھ آئے۔ ناصرات کو involve کریں۔ ان کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہماری ایک مجلس ہے۔

٭… حضورانور نے سیکرٹری خدمت خلق سے ان کے کاموں اور پراجیکٹس کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ جس پر سیکرٹری خدمت خلق نے بتایا کہ ہمارے پروگراموں میں بلڈ ڈونیشن کیمپ، مہاجرین کی امداد، جہیز فنڈ میں معاونت اور لجنہ ہیلپ لائن شامل ہیں۔

٭… شعبہ تحریک جدید اور وقف جدید نے اپنے اعدادوشمار بتائے اور جماعت کی طرف سے موصول شدہ ٹارگٹ کے بارہ میں بتایا۔

٭… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے محاسبہ سے اس شعبہ کے تحت ہونے والے کام کے بارہ میں دریافت فرمایا۔

٭… سیکرٹری مال سے حضورانور نے کمانے والی ممبرات کی تعداد اور لجنہ کے سالانہ بجٹ کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔ جس پر سیکرٹری نے بتایا کہ کمانے والی ممبرات کی تعداد 1086 ہے اور لجنہ کا سالانہ بجٹ سات لاکھ 89 ہزار پانچصد نوّے یورو ہے۔

٭… بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے معاونہ صدر (برائے وصیت ) سے موصیات کی تعداد دریافت فرمائی۔

اس پر معاونہ صدر نے بتایا کہ موصیات کی کُل تعداد 5228 ہے۔ حضورانور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو کمانے والی ممبرات ہیں ان کی وصیت کروانے کی کوشش کریں۔ کمانے والی 1086 میں سے پانچصد وصیت کرلیں۔

٭… حضورانور کے استفسار پر معاونہ صدر (شعبہ رشتہ ناطہ) نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایک سہ ماہی میں چار سے پانچ رشتے طے ہوجاتے ہیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ آپ اس بات کا بھی جائزہ لیا کریں کہ کتنے رشتے قائم رہتے ہیں۔

……………………………………..

ز…بعدازاں ممبرات نے حضورانور کی اجازت سے سوالات کئے۔

٭… ایک ممبر نے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی ممبر وعدہ لکھوانے کے بعد پورا نہ کرسکے تو کیا اس کے لئے بقایا ادا کرنا ضروری ہوگا؟

اس سوال کے جواب میں حضورانور نے فرمایا کہ جس نے شوق سے وعدہ لکھوایا اور کسی وجہ سے ادا نہیں کرسکی تو اگر لازمی چندہ معاف ہوسکتا ہے تو یہ تو طوعی چندہ ہے۔

٭… ایک ممبر نے سوال کیا کہ اگر کوئی ممبر جماعتی چندہ ادا کرتی ہے لیکن تنظیمی چندہ ادا نہیںکرتی تو کیا وہ طوعی چندہ جات کی ادائیگی کرسکتی ہے؟

اس پر حضورانور نے فرمایا کہ دے سکتی ہے، لیکن وہ لجنہ کی عہدیدار نہیں بن سکتی۔ یہ لجنہ کے قواعد و ضوابط میں لکھا ہوا ہے کیونکہ وہ لجنہ کے چندہ کی ادائیگی نہیں کرتی۔

٭… ایک سیکرٹری نے سوال کیا کہ تقریباً 300 ممبرات ایسی ہیں جن سے رابطہ نہیں ہوتا۔

اس پر حضورانور نے فرمایا کہ اُن کے پاس تربیت کی سیکرٹری جائیں اور رابطہ کریں۔

٭… ایک ممبر نے سوال کیا کہ جماعتی سطح پر تحریک جدید/ وقف جدیدکے سیمینار ہوتے ہیں اور وعدہ جات کو بڑھانے کے لئے پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔

اس پر حضورانور نے فرمایا کہ پرچیاں تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پرچیاں دے کر بھول جاتے ہیں۔ اس کو چھوڑ دیں۔ اگر کوئی چندہ بڑھانا چاہتا ہے تو فارم پر لکھ کر بھیج دے۔

٭… ایک سوال یہ کیا گیا کہ ہم شہداء کے نام پہ چندہ دے سکتےہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا دے سکتے ہیں۔ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پہ، صحابہ کے نام پہ دیتے ہیں۔

٭… ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیا وفات شدگان کا وصیت کا چندہ اُن کی اولاد جاری رکھ سکتی ہے؟اس پر حضورانورنے فرمایا کہ وہ معاملہ ختم ہوگیا۔ اللہ کے پاس ہے۔

٭… ایک سوال یہ کیا گیا کہ مجلس میں دو ممبرات ایسی ہیں جو تجنید میں تو شامل ہیں لیکن وہ چندہ کی ادائیگی نہیں کرتیں ا ور نہ اجلاس میں شامل ہوتی ہیں۔

حضورانور نے دریافت فرمایا کیا اُن کی کسی عاملہ ممبر سے لڑائی تو نہیں ہے؟ آپ رپورٹ میں بھی لکھا کریں، اُن کے گھر جائیں، اُن سے ملیں ا ور اگر اُن کی کوئی سہیلی ہے تو اُس کے ذریعہ اُن سے تعلقات بنائیں۔ جو ضائع ہو رہا ہے اُس کو ضائع نہیں کرنا۔

٭… ایک سوال یہ کیا گیا کہ ایسی ممبرات جو مسلسل جماعتی پروگراموں، اجلاسات میں نہیں آتیں، اُن کی وجہ سے صدر مقامی مجلس کے انتخابات میں مسائل ہوتے ہیں اور کورم پورا نہیں ہوگا۔

اس پر حضورانور نے فرمایا کہ آپ یہ لکھ دیا کریں کہ مستقل رابطہ میں نہیں ہیں، اجلاسوں میں نہیں آتیں۔ ایک آدھ کا مسئلہ ہے تو صدر لجنہ کو انتخاب سے قبل لکھ کر بھیج دیں کہ اس ممبر کا رابطہ بالکل نہیں

اس لئے انتخاب کے دوران مجلس کی کُل تجنید سے نکال دیں۔ اس طرح آپ کے کورم پر اثر نہیں پڑے گا۔

٭… ایک سوال یہ کیا گیا کہ جماعت نے 2023ء میں ریڈیو چینل کھولنے کا ارادہ کیا ہے۔ اُس میں لجنہ کیسے مدد کرسکتی ہے؟

اس پر حضورانور نے فرمایا کہ اُس میں لجنہ مدد کرسکتی ہے۔ UK میں ہمارے ریڈیو (Voice of Islam) کی ٹیم ہے، لجنہ بھی اس میں حصہ لیتی ہے۔ اُن سے رابطہ کرلیں۔

٭… ایک سوال یہ کیا گیا کہ جو وقف نَو بچے اپنا وقف جاری نہیں رکھ پاتے، کیا اُن کو کوئی عہدہ دیا جاسکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں حضورانور نے فرمایا دیا جاسکتا ہے۔

…………………………………..

نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی اور مقامی مجالس کی صدرات کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ میٹنگ ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے اور پروگرام کے مطابق آمین کی تقریب ہوئی۔

………………………………..

تقریب آمین

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 29 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور بعدازاں دعا کروائی۔

(بچے) حزیم عبداللہ، نذیر احمد خواجہ خاقان ناصر، امر فاروق جوئیہ، نبیل احمد، شعیب خان، ذیشان عامر، طاہریاسر کاہلوں، طلحہ غفّار، ذکی احمد عزیز، سعید احمد ، اسماعیل رحمان، عبدالمقیت، ملک مامور احمد، موحد احمد، حاشر احمد ساہی۔

(بچیاں)قانتہ احمد، تانیہ رانا، مایا یوسف، اریبہ اعوان، یُسریٰ شاہ، فاتحہ رائے، زائنہ چوہدری، انیقہ احمد، دانیہ سہیل، انجلا عظمت چٹھہ، سویرا، طوبیٰ ندیم، نگارش احمد۔

آمین کی اس تقریب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

………………………………..

22 ؍اپریل2017ء بروز ہفتہ

………………………………..

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح سوا پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک،خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔

آج پروگرام کے مطابق جامعہ احمدیہ جرمنی سے فارغ التحصیل ہونے والے مبلغین کرام کی دوسری کلاس کو ’’شاہد‘‘ کی اسناد دیئے جانے کی تقریب منعقد ہورہی تھی۔

جامعہ احمدیہ جرمنی۔مختصر تعارف

جامعہ احمدیہ جرمنی کا آغاز جماعت جرمنی کے مرکز ’’بیت السبوح‘‘ کے ایک حصہ میں اگست 2008ء میں ہوا تھا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورۂ جرمنی کے دوران 20 اگست 2008ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی کا افتتاح فرمایا تھا۔

خدام الاحمدیہ جرمنی نے بیت السبوح میں اپنے مرکزی سینٹر ’’ایوان خدمت‘‘میں اپنے دفاتر کے ساتھ ملحقہ دونوں ہال اور گیلری خالی کردی تھیں۔ اِن دونوں ہالوں میں جامعہ کا دفتر، پرنسپل آفس، سٹاف روم اور کلاس روم قائم کیا گیا اور طلباء کی اسمبلی کے لئے جگہ تیار کی گئی۔ طلباء کے ہوسٹل کے لئے ’’بیت السبوح‘‘ میں موجود تین منزلہ رہائشی عمارت استعمال میں لائی جاتی رہی۔

طلباء کی ضرورت کے لئے بڑی وسیع لائبریری پہلے سے ہی بیت السبوح میں موجود تھی۔ اسی طرح مسجد، پروگراموں کے لئے ہال، کچن، ڈائننگ ہال، سپورٹ ہال اور پارکنگ کے لئے وسیع جگہ ، یہ سب کچھ بیت السبوح میں پہلے سے ہی مہیا تھا۔

چنانچہ اگست 2008ء میں بیت السبوح میں جامعہ احمدیہ کا آغاز ہوا۔ اس دوران فرینکفرٹ سے 57 کلومیٹر دُور آباد شہر Riedstadt میں ’’احمدیہ مسجد عزیز‘‘ کے ساتھ ملحقہ خالی پلاٹ جس کا رقبہ 5700 مربع میٹر ہے جامعہ کی عمارت کی تعمیر کے لئے خریدا گیا۔

15 دسمبر 2009ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران جامعہ احمدیہ جرمنی کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ تین سال کے عرصہ میں اس عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی۔

17 دسمبر 2012ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورۂ جرمنی کے دوران اس نئی عمارت کا افتتاح فرمایا۔

اس قطعہ زمین کےمغربی حصّہ میں جامعہ کی تدریسی اور انتظامی امور اور دفاتر، لائبریری پر مشتمل دو منزلہ عمارت ہے۔ اس نئی عمارت میں سات کلاس روم، دو بڑے ہال، لائبریری ہے۔ کمپیوٹر روم ہے۔ پرنسپل کے دفتر اور سٹاف روم کے علاوہ دیگر انتظامیہ کے دفاتر ہیں۔ ایک بڑا کچن اور ڈائننگ ہال ہے، مختلف گیلریز اور Lobbiesہیں۔

جب کہ اس پلاٹ کے مشرقی حصہ میں مسرور ہوسٹل کی دو منزلہ عمارت ہے۔ ہوسٹل کی اس عمارت میں بڑے سائز کے کُل 31 کمرے ہیں اور ایک بڑا ہال ’’کامن روم‘‘ کے طور پر ہے جہاں In door کھیلوں کا انتظام ہے۔ ہوسٹل کے ایک حصّہ میں لانڈری روم بھی ہے۔ طلباء کے کھیل کے لئے فٹ بال ، والی بال اور باسکٹ بال کے لئے بھی ایک جگہ تیار کی گئی ہے۔

کچھ عرصہ قبل جامعہ کے قطعہ زمین سے ملحقہ ایک تعمیر شدہ عمارت بھی تین لاکھ ساٹھ ہزار یورو میں خریدی گئی تھی۔ اس کا کُل رقبہ 2500 مربع میٹر ہے اور اس میں سے تعمیر شدہ حصہ 1045مربع میٹر ہے۔ یہ عمارت دو منزلہ ہے جو ایک بہت بڑے ہال اور 14کمروں پر مشتمل ہے۔ ان چودہ کمروں کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اساتذہ کے لئے تین فیملی رہائشوں اور دو سنگل رہائشوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

…………………………………….

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صبح دس بجکر چالیس منٹ پر اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور شہر Riedstadt کے لئے روانگی ہوئی۔ قریباً پچاس منٹ کے سفر کے بعد ساڑھے گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جامعہ احمدیہ میں تشریف آوری ہوئی۔

مکرم شمشاد احمد قمر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی اور مکرم مبارک احمد تنویر صاحب صدر تعلیمی کمیٹی نے اساتذہ اور سٹاف کے ساتھ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

آج کی تقریب کے لئے جامعہ کے احاطہ میں ایک مارکی لگائی گئی تھی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس مارکی میں سٹیج پر تشریف لے آئے۔

اس تقریب میں جامعہ احمدیہ جرمنی کے تمام طلباء، اساتذہ کرام، اور دیگر سٹاف کے ممبران کے علاوہ نیشنل مجلس عاملہ جماعت جرمنی کے ممبران، جرمنی میں خدمت پر مامور تمام مبلغین کرام اور آج سندات حاصل کرنے والے مربیان کرام کے والدین اور بعض دیگر مہمان شامل تھے۔

……………………………………

جامعہ احمدیہ جرمنی ’شاہدین‘ میں تقسیم اسناد کی تقریب

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم حافظ احتشام احمد صاحب نے کی اور اس کا اردو زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

بعدازاں عزیزم مرتضیٰ منان صاحب(متعلم درجہ خامسہ) نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام

نونہالانِ جماعت! مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو

سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کئے۔

اس کے بعد مکرم مبارک احمد تنویرصاحب صدرتعلیمی کمیٹی نے درج ذیل رپورٹ پیش کی۔

الحمد للہ ثم الحمد للہ ، جامعہ احمدیہ جرمنی کے لئے آج کا دن بہت ہی با برکت ہے جس میں یہ ادارہ اپنےپیارے آقا کے دست مبارک سے لگائے گئے اس باغ کادوسرا پھل حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہاہے۔آج اِس ادارے سے اپنی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہونے والی دوسری کلاس اپنے پیارے آقا کے دستِ مبارک سے اسناد لینے کی سعادت حا صل کرنے والی ہے۔

ہمارے محسن آقا نے اپنی اَنگنت مصروفیات کے باوجود آج وقت نکال کر اپنے غلاموں کو اپنے قرب سے نوازا جس پر ہم سب اپنے خدا کے حضور سجدہ ریز ہیں اور پیارے آقا کی اس شفقت پر دل کی گہرائیوں سے حضور کے شکر گزار بھی۔

سیدی ! 2009ء میں جرمنی ،فرانس ،سوئٹزرلینڈ اور بلغاریہ کے 23 طلباء نےاِس ادارے میں اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے 16 طلباء نےاپنی تعلیم مکمل کی ہے ۔اور یہ سب وقف نَو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسال میں 32 مربیان یہ ادارہ اپنے آقا کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کی سعادت کرپایا ہے۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور حضور انور کی راہنمائی میں اِن سات سالوں میں مقررہ نصاب کی تدریس کے علاوہ علمی اور ورزشی مقابلہ جات اور مختلف احبا ب کے علمی و معلوماتی لیکچرز کے ذریعہ ان طلباء کی علمی استعداد کو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔

موازنۂ مذاہب کے تدریسی نصاب کے علاوہ طلباء کو مختلف مذاہب کے مراکز میں بھی بھجوایا جاتاہے تاکہ طلباء براہ راست ان کے سسٹم کو سمجھ لیں اور معلومات بھی حاصل کر سکیں ۔ اس سلسلے میں عیسائیوں اور یہودیوں کے سنٹرز کا دورہ کروایا گیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ کا ملکی پریس کے ساتھ بھی رابطہ ہے۔ اور وقتاً فوقتاً ٹی وی، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا میں رپورٹس آتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں جرمنی کے مشہور ٹی وی چینل ZDF نے اپنے ایک پروگرام کے لئےتین بڑے مذاہب (اسلام، یہودیت اور عیسائیت)کے علما ءکی تیاری پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنائی جس میں حضور انور کے اس لگائے گئے باغ سے بھی، اسلام کی نمائندگی میں ایک طالبعلم عزیزم صادق احمد بٹ صاحب کو چنا گیا۔اس 54 منٹس کی ڈاکو منٹری میں قریباَََ تیسرا حصہ جامعہ احمدیہ جرمنی کے طالبعلم کے بارے میں تھا۔ٹی وی کی انتظامیہ کے مطابق 19 لاکھ ناظرین نے یہ پرگرام دیکھا ہے ۔پھر یہی پروگرام ایک دوسرے ٹی وی چینل ’’ 3 Sat ‘‘پر ایک ہفتہ کے وقفہ سے چلایا گیا۔

طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی ٹریننگ کے لئےجرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں وقف عارضی بھی کرتے رہےجن میں کبابیر، سویڈن، یو کے وغیرہ شامل ہیں ۔نیز جرمنی کے Tag der öffnen Tür کے موقع پر شعبہ تبلیغ کے تحت پورے جرمنی کی مختلف جماعتوں میں ڈیوٹی دیتے رہے۔

حضور انور کی ہدایت کے مطابق درجہ خامسہ کے طلباء کا جامعہ احمدیہ UK کی کلاس سے دو ہفتے کے لئےعلمی تبادلے کا پروگرام بھی جاری ہے جس سے طلباء کو حضور انور کی مبارک قربت میسر آنے کے علاوہ ایک دوسرے سے تعارف اور ایک دوسرے کے ماحول کو دیکھنے،سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔

دیگر جامعات کے طلباء کی طرح جامعہ احمدیہ جرمنی کے طلباء کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سےایم ٹی اےکے پروگراموں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ بعض پروگراموں میں ٹیکنیکل معاونت کی توفیق ملتی ہے۔

نصابی سرگرمیوں کے علاوہ جامعہ کا اس شہر کی انتظامیہ سے بھی بہت اچھا رابطہ ہے۔شہر کی انتظامیہ کو جب بھی ضرورت پڑے تو جامعہ کے طلباء و اساتذہ ہرممکن تعاون کرتے ہیں۔ مہاجرین کی آمد پر انتظامیہ کی جہاں ایک طرف ترجمانی کی ضرورت کو پورا کیا تو ساتھ ہی مہاجرین کی مدد کے لئے جامعہ نے دیگر اشیاء کے علاوہ دو ہزار یورو نقد ادا کئے۔ شہر میں صفائی کی مہم ہو یا بلڈ ڈونیشن کے کیمپس ،اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ کے طلباء پیش پیش ہوتے ہیں۔گزشتہ سال جامعہ کے اندر بھی عطیہ خون کا کیمپ منعقد ہوا جس میں جامعہ کے 59 طلباء نے عطیہ دیا اور ایک طالبعلم عزیزم عقیل احمد صاحب کو مسلسل دس مرتبہ عطیہ خون دینے پر شہر کی انتظامیہ نے انعام سے بھی نوازا ۔ دوران سال مختلف تعلیمی اداروں سے 174 طلباء واساتذہ جامعہ کا وزٹ کرنے کے لئے آئے۔ امسال مختلف اوقات میں کل 441 غیر مسلم وغیر احمدی احباب جامعہ میں آئے جن میں جرمن ،عرب اور دیگر قومیتوں کے افراد شامل تھے اور اسی طرح مختلف جماعتی وفود پر مشتمل 180، احباب جامعہ دیکھنے کے لئے آئے جن میں ایک بڑی تعداد واقفین نَو کی تھی۔

درجہ شاہد کے طلباء نے اپنے تعلیمی سفر کوجاری رکھتے ہوئے ساتویں سال میں حضور انور کی طرف سے منظور کئے گئے عناوین پر مقالے لکھے۔ حضور انور کی منظوری سے انہیں مختلف ممتحن حضرات کو چیکنگ کیلئے بھجوایا گیا۔ چیکنگ کے بعد مقالوں کے انٹرویوز ہوئے۔ان انٹرویوز میں جرمنی کے علاوہ فرانس ، یو کے اور سوئٹزرلینڈ کے ممتحن حضرات بھی شامل تھے ۔

2016ءمیں درجہ شاہد کے امتحانات کے لئے حضور انور کے ارشاد کے مطابق بعض امتحانی پرچہ جات جامعہ احمدیہ UK اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے مختلف علماء نے تیار کئے اور انہوں نے ہی پیپرز چیک کئے۔

مئی 2016 ءمیں حضور انور کی طرف سے مقرر کردہ پانچ رکنی بورڈ نے طلباء کا فائنل انٹرویو کیا۔ اِن تمام امتحانات کے رزلٹ ساتھ ساتھ برائے ملاحظہ و منظوری حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کئے جاتے رہے۔

حضور انور کی دعاؤں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اِن تمام طلباء نے امتحانات ، مقالہ جات اور انٹرویوز میں کامیابی حاصل کی۔ الحمد للہ علی ذالک

دیگر کھیلوں کے علاوہ طلباء کو ہائیکنگ کا موقع بھی ملا۔ درجہ شاہد کے امتحانات کے بعد اس کلاس کے طلباء کو تدریس کے ساتھ کچھ عملی ٹریننگ بھی کروائی جاتی ہے جس میں کھانا پکانا، بجلی کا کام، ہومیوپیتھی سے تعارف اور گاڑی کے بعض بنیادی کاموں کی واقفیت شامل ہے۔

پیارے آقا! جامعہ کی تدریس اور جامعہ کے اساتذہ و انتظامیہ کی کوششیں اپنی جگہ لیکن حقیقت وہی ہے جس کا اظہار حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ نے فرمایا

’’میں نے قرآن بھی پڑھا تھا ۔ مولانا نورالدین ؓ کے طفیل سے حدیث کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ گھر میں صوفیوں کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتا تھا ۔ مگر ایمان میں وہ روشنی اور نور معرفت میں ترقی نہ تھی جو اَب ہے ۔اس لئے میں اپنے دوستوں کو اپنے تجربہ کی بنا ء پر کہتا ہوں کہ یاد رکھو اس خلیفۃ اللہ کے دیکھنے کے بدُوں صحابہ کا سا زندہ ایمان نہیں مل سکتا۔ ‘‘ ( تاریخ احمدیت ، جلد اول ، صفحہ342)

حضرت مصلح موعودؓ اس حقیقت کی طرف احباب جماعت کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ ایک روحانی اثر ہوتا ہے جو سامنے آنے والے لوگوں پر پڑتا ہے ۔ اس کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا۔…. دعا کے علاوہ قلب کا ایک اثر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت سی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اور اس اثر کو وہی حاصل کر سکتا ہے جو مجلس میں آکر بیٹھے اور جو مجلس میں نہیں آتا اس پر یہ اثر نہیں ہو سکتا۔‘‘ ( خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1920 ، بحوالہ روزنامہ الفضل 21 مارچ 2011 ،صفحہ11)

حضور انور سے ملاقات، تعلق اورقرب نہ ہو تو صرف نصابی کتب کے الفاظ تو اپنی ذات میں نور ایمان عطا کرنے سے عاری ہیں۔ اسی لئے اِن سات سالوں میں پیارے آقا کی جرمنی آمد کے موقع پر کوشش کی جاتی رہی کہ حضور انور کی قربت کے جو لمحے بھی میسر آ سکیں ان سے استفادہ کیا جا ئے۔ حضور انور ہی کی شفقت سے طلباء کو جب بھی موقع ملا ، پیارے آقا کے ساتھ کلاسز میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ اِسی طرح جامعہ احمدیہ کی انتظامیہ کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ طلباء زیادہ سے زیادہ حضور انور کی خدمت اقدس میں لندن ملاقات کیلئے جائیں اور حضورانور سے براہ راست فیض حاصل کریں۔ الحمد للہ ، سوائے چند ایک طلباء کے جن کو ویزا کا مسئلہ ہے سب ہی پیارے آقا کی ملاقات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

آج ہم ایک طرف اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ طلباء اپنے سات سال کے تعلیمی سفر کا ایک مرحلہ بخیروخوبی مکمل کرکے میدان عمل میں جانے کے لئے حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش ہیں تو دوسری طرف اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم جامعہ احمدیہ جرمنی کے تمام اساتذہ و طلباء اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے پیارےآقا کی خدمت میں دُعا کی عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائے۔ اور خدا اور خداکا پیارا اما م ہم سے جس خدمت کی توقع رکھتے ہیں اور جس مقام پر ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ قادر خدا محض اپنے فضل سے ہمیں ویسا ہی بنادے۔ آمین اَللّٰھم آمین۔

آخر میں حضور انور کی خدمت اقدس میں عاجزانہ درخواست ہے کہ جامعہ احمدیہ جرمنی سے فارغ التحصیل ہونے والےمربیان سلسلہ کو قرآن کریم کے ترجمہ اور درجہ شاہد کی ڈگری سے نوازیں ۔ نیز باقی کلاسز میں اول ، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کو بھی انعامات سے نوازیں۔

…………………………………….

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ کی چھ کلاسز کے سالانہ امتحانوں میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کو انعامات سے نوازا۔

اس کے بعد جامعہ احمدیہ جرمنی سے فارغ التحصیل ہونے والی دوسری کلاس کے درج ذیل مربیان کو تفسیرِ صغیر اور درجہ شاہد کی ڈگری سے نوازا۔

نمبرشمار نام طالبعلم

1 مکرم شیخ عبدالحنان صاحب مبلغ سلسلہ
2 مکرم منصوراحمد گھمن صاحب مبلغ سلسلہ
3 مکرم ارسلان احمد سندھوصاحب مبلغ سلسلہ
4 مکرم عزیزاحمد گھمن صاحب مبلغ سلسلہ
5 مکرم آفتاب اسلم صاحب مبلغ سلسلہ
6 مکرم محمد مصوراحمد گوندل صاحب مبلغ سلسلہ
7 مکرم جواد احمدجٹ صاحب مبلغ سلسلہ
8 مکرم محمد سرفراز خان صاحب مبلغ سلسلہ
9 مکرم فخراحمد آفتاب صاحب مبلغ سلسلہ
10 مکرم رانامحمد منورصاحب مبلغ سلسلہ
11 مکرم عدیل احمدخالد صاحب مبلغ سلسلہ
12 مکرم جوادالدین عفان صاحب مبلغ سلسلہ
13 مکرم احمدبہزاد چوہدری صاحب مبلغ سلسلہ
14 مکرم وفامحمدصاحب مبلغ سلسلہ
15 مکرم حبیب الرحمان ناصرصاحب مبلغ سلسلہ
16 مکرم اسامہ احمدصاحب مبلغ سلسلہ
17 مکرم عبداللہ صاحب (بلغارین) مبلغ سلسلہ
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فارغ التحصیل طلباء مربیان سے خطاب فرمایا۔
…………………………………

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا تقریب سے خطاب

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا

جامعہ کی انتظامیہ کی طرف سے جو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں مختلف Activities کا بھی ذکر کیا گیا ۔ جامعہ کے تعلیمی نصاب کے علاوہ جو یہ باتیں ہیں ،ان کا تعارف اس لئے کروایا جاتا ہے یا ان چیزوں میں شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے تا کہ مربیان جب میدانِ عمل میں آئیں تو انہیں جہاں ان باتوں کا علم ہو وہاں ان پر ان باتوں کی اہمیت بھی واضح ہواور وہ اس بارے میں کوشش کرنے والے بھی ہوں ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ میدانِ عمل میں آکر آپ لوگوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ اگرچہ ایک طالب علم جو جامعہ میں آتا ہے اس سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ اس کا دینی معیار ، اس کا اخلاقی معیار ، اس کا رہن سہن ، اس کا بات چیت کا طریق ، باقی دوسروں سے مختلف ہو اور اس میں آہستہ آہستہ تدریجی ترقی اور بہتری پیدا ہوتی رہے ۔ لیکن میدانِ عمل میں آکر آپ کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ اب آپ صرف طالبعلم نہیں رہے ۔ ویسے طالبعلم تو انسان ہمیشہ رہتا ہے ۔آنحضرت ﷺ نے یہی فرمایاہے کہ’ قبر تک علم حاصل کرنا چاہئے۔‘بلکہ اس کے ساتھ آپ کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ جہاں اپنوں کی تربیت کرنی ہے وہاں غیروں کو اسلام کا خوبصورت پیغام بھی پہنچانا ہے اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ابھی جونظم پڑھی گئی ہے اس میں بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایاہے کہ ایک مقصد حاصل کرنا ہے جوکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پس آپ میں ہمیشہ اس ذمہ داری کا احساس نہ صرف پیدا ہونا چاہیے بلکہ بڑھتے رہنا چاہیے۔ اب دنیا کی نظر آپ پر ہے۔ چاہے وہ احمدی ہیں یا غیر احمدی ہیں یا غیر مسلم ہیں۔ آپ لوگوں کے دلوں سے اب ہر قسم کا دنیاوی خوف دُور ہو جانا چاہیے اور اس دنیاوی خوف کو دل سے دور کر کے اللہ تعالیٰ سے تعلق میں ہر لمحہ آپ کو بڑھتے رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہی ہے جو ہر موقع پرآپ کے کام آئے گا ۔ اگر خدا تعالیٰ سے تعلق کا وہ میعار نہیں جو ایک مربی اور مبلغ کا ہونا چاہیے ، جس نے یہ عہد کیا ہے کہ میں دین کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہوں، میں نہ صرف اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنے والا ہوں اور اس تبدیلی میں بڑھتا چلا جاؤں گا بلکہ دنیا کی اصلاح کر کے ان کو بھی خداتعالیٰ کے قریب لاؤں گا۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ کام نہیں ہو سکتا جب تک کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا نہ ہو اور تعلق پیدا کرنے کے لئے آپ نے اپنے نوافل اور نمازوں کی نہ صرف یہ کہ سستی نہیں دکھانی بلکہ انتہائی کانشس ہو کر اس طرف توجہ دینی ہے ۔ کوشش کر کے اس کو حاصل کرناہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اکثر مربیان سے جب بھی میں سوال کرتا ہوں تو نوافل میں بہت سستی ہے۔ تہجد کے لئے اٹھنے میں بڑی سستی ہے۔ یہاں خاص طور پر یورپ میں گرمیوں کے دنوں میں جب راتیں چھوٹی ہو جاتی اور دن لمبے ہوجاتے ہیں ، بہت تھوڑا سونے کا وقت ملتا ہے لیکن اس میں بھی آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ نفل کی ادائیگی کے لئے جاگیں اور نفل ادا کریں۔اور یہی چیزیں یا نوافل ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے میں اورتعلق بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ فرائض تو ہر احمدی اور ہر مسلمان کے لئے فرض ہیں اور احمدی مسلمان کے لئے خاص طور پر جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اور اس نے یہ عہد کیا کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ لیکن ایک مربی کا عہد اس سے بڑھ کر ہے ۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ لوگوں کی نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ اور بعض میدانِ عمل میں آنے کے باوجودفجر کی نماز میں سستی دکھاتے ہیں ۔ یہ سستیاں اب دُور ہونی چاہئیں۔ یہ سستیاں دُور کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں ترقی بھی کریں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آپ کا سب سے بڑا مقصد توحید کا قیام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں اسی مقصد کے لئے آئے ہیں کہ توحید کا قیام ہو اور بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو۔یہ ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ اور دوسرا مقصد انسان کے آپس کے حقوق ہیں ان کی طرف توجہ دلانا۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف دل میں ہو، اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوتو تبھی آپ توحید کے قیام کے لئے حقیقی کوشش کر سکتے ہیں ۔ تبھی آپ کو وہ اِدراک حاصل ہو سکتا ہے کہ توحید کیا چیز ہے۔ورنہ اگر عبادتیں نہیں اور عبادتوں کے مقابلہ پر بعض سستیاں آڑے آ رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے توحید کے مقابلہ پر کسی اور چیز کو کھڑا کر دیا ہے۔ یہ عموماً مَیں افرادِ جماعت کو بھی کہتا رہتا ہوں لیکن مربیان کے لئے یہ سب سے اہم چیز ہے۔ اگراللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں گے تو تب ہی آپ توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کر سکتے ہیں ۔ عبادت کے بغیر یہ ناممکن ہے کہ آپ توحید کا قیام کر سکیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پھر عبادتوں اور نمازوں کی طرف توجہ دینے کے بعد قرآن کریم کا پڑھنا ، اس پر غور کرنا، اس کی تفاسیر پڑھنا ، یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ آپ کو یہاں جامعہ احمدیہ میں تفسیر پڑھائی گئی اورتفسیرکا مختصر تعارف کروایا گیا ہوگا یا کچھ حد تک تفسیر پڑھائی گئی ہو گی لیکن اب اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کے لئے، اپنے علم کومزید بڑھانے کے لئے آپ کو خود جہاں قرآن کریم پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہاں جو مختلف تفاسیر ہیں ان کوبھی پڑھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتب میں مختلف آیات کی تشریح فرمائی ہے وہ تفسیر کی صورت میں ایک جگہ جمع ہے ۔ اس کو مسلسل آپ کو مطالعہ میں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقریباً 54 سورتوں کی تفاسیر ہیں ، ان کو پڑھنا چاہیے اور ہمیشہ اپنے مطالعہ کو بڑھاتے چلے جائیں۔ یہی چیزیں آپ کے دین میں کام آئیں گی ۔ ہر موقع پر یہ کوشش کریں کہ آپ کوآپ کے جواب قرآن کریم سے ملیں اور وہ اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب آپ کو اس پر غور کرنے کی اور تدبر کی عادت ہوگی ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کا مختصر ذکر کر دیا جو چار جلدوں میں تفسیر کی صورت میں جماعت کے لٹریچر میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے۔ آپ کو کم از کم آدھا گھنٹہ روزانہ، اس سے زیادہ ہو تو اور بھی بہتر ہے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔ اور یہ چیز آپ کے علم کو بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی، ورنہ دنیاوی علم جو آپ نے مختلف جگہوں سے سیکھا یا پڑھ کر آئے ہیں یا آئندہ بھی شائد آپ کو پڑھنے کا موقع ملے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ لوگوں کو تحریک کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب پڑھو لیکن جب تک خود نہیں پڑھ رہے ہوں گے آپ کی تحریک میں اور توجہ دلانے میں برکت نہیں پڑے گی۔ پس اس لحاظ سے ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ لوگ میدانِ عمل میں خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں اورآپ نے اس نمائندگی کا حق ادا کرنا ہے جس میں تربیت بھی شامل ہے اور تبلیغ بھی شامل ہے۔ کسی بھی قسم کی مداہنت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں آپ نے سامنے شعر لکھ کر لگائے ہوئے ہیں کہ

محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار

روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

بعض دفعہ مَیں نے دیکھاہے کہ روئے زمین کو کیا ہلا نا ہے بعض لوگ ذرا سے پریس کے دباؤ سے یا معاشرے کے دباؤ سے یا ان ملکوں کے غلط قوانین جو انہوں نے آزادی کے نام پر بنا دیئے ہیں ان کے زیرِ اثر آکر حکمت کی بجائے مداہنت سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔

رُوئے زمیں کو تو ہم اسی وقت ہلا سکتے ہیں جب ہمارا اپنا ایمان مضبوط ہواور اس مضبوط ایمان کے ساتھ ہم دنیا کا مقابلہ کرنے والے ہوں۔ اگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ہم جنسی ایک برائی ہے تو اس کا مقابلہ ہم نے کرنا ہے چاہے جتنے بھی دنیاوی قوانین پاس ہوتے رہیں۔ اگر اسلام ہمیں کہتا ہے کہ عورتوں اور مَردوں میں ایک تقسیم کار بھی ہے اور فرق بھی ہے اور علیحدگی ہونی چاہیے اور مصافحہ سے بچنا چاہیے تو اس میں آپ کو جرأت سے کام لینا چاہیے۔ اسی طرح بعض دوسرے حقوق ہیں ۔اگر آزادی کے نام پر یہ لوگ بگڑ رہے ہیں تو ان کو بگڑنے سے بچانے کے لئے آپ نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، نہ کہ مصلحت کے نام پر مداہنت دکھانا شروع کر دیں۔ مصلحت اور مداہنت میں بڑا فرق ہے۔ مصلحت یہ ہے کہ ایک چیز کو آپ حکمت سے بیان کریں لیکن کمزوری نہ دکھائیں۔ یہ نہ ہو کہ آپ یہ کہنے والے ہو جائیں کہ اگر کسی سے مقابلہ ہو جاتا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے ہم مان لیتے ہیں یا اس کی ایسی توجیہیں پیش کریں جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہوں ، یہ ہمارا مقصد نہیں ۔ ہاں اگر لڑائی ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں ۔ بہرحال ہم نے لڑائیاں نہیں کرنیں لیکن ہمارا جو مؤقف ہے، جو ہماری بنیادی تعلیم ہے جو ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیئے ہوئے ہیں ان سے ہم نے بہرحال پیچھے نہیں ہٹنا چاہے ایک خبر کیا اخباروں کے اخبار آپ کے خلاف کالم لکھنا شروع کر دیں تب بھی آپ نے اپنے مؤقف پر قائم رہنا ہے اور اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی، نہ اس کی فکر کی ضرورت ہے کہ اگر ہم نے ان لوگوں کی باتیں نہ مانیں تو ہم شائد جماعت احمدیہ کا پیغام یا اسلام کا پیغام نہ پہنچا سکیں۔ اسلام کا پیغام تو بہرحال پہنچنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً فرمایا تھا کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے ’میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔‘ جب یہ وعدے ہی اتنے زیادہ ہیں تو پھر ہمیں کسی بھی قسم کے خوف کی ضرورت نہیں ہے کہ شائد ہمارا پیغام نہ پہنچے۔ یہ مصلحت اندیشی نہیں، یہ بزدلی ہے۔ اور ایک مبلغ سے، ایک مربی سے بلکہ عہدیداروں سے بھی ایسی بزدلی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ تبھی آپ خلیفۂ وقت کی نمائندگی کاصحیح حق ادا کر سکتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پھرآپ نے افرادِ جماعت کو یہ احساس بھی دلانا ہے کہ آپ لوگ عالم باعمل ہیں۔ ان مولویوں کی طرح نہیں ہیں جو منبر پر کھڑے ہو کر تقریریں تو کر لیتے ہیں لیکن جب اپنی باری آئے تو ان کے معیار بالکل بدل جاتے ہیں۔ بلکہ آپ جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں اور اگرآپ جماعت کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا کر دیں تو افرادِ جماعت کے اندر آپ کی عزت کئی گنا بڑھ جائے گی ۔ عزت کسی دنیاوی خوشامد سے یا مصلحت سے نہیں بڑھتی ، عزت اللہ تعالیٰ نے دینی ہے اوروہ اسی صورت میں ہو گی جب آپ کا قول و فعل ایک جیسے ہوں گے ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اسی طرح میدانِ عمل میں بعض عملی معاملات آپ کے سامنے آئیں گے، ان میں آپ نے ہمیشہ غور کر کے، سوچ کر وہ فیصلے کرنے ہیں جو جماعتی مفاد میں ہوں مثلاً اخراجات وغیرہ ہیں۔ جہاں آپ خود قناعت دکھائیں وہاں عہدیداروں کو سمجھانا بھی آپ کا کام ہے کہ ہمارے اخراجات میں قناعت ہونی چاہیے۔ ہم ایک غریب جماعت ہیں اور چند افراد کے چندوں سےہمارے اخراجات پورے ہوتے ہیں اور جماعت کے افراد کی اکثریت غریب ہے یا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بہت امیر ہیں۔ اس لئے آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے جو چندے آتے ہیں ان کے مقابل پر اخراجات کم سے کم ہوں اور کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔ اکنامکس کا یہ ایک اصول ہے کہ کامیاب وہی ہوتا ہے جو کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ پس آپ کو بھی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہمارے منصوبے بہت بڑے بڑے ہیں اور انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ ان کو پورا کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے لیکن اس کے لئے ہمیں بھی کوشش کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو ذرائع اور وسائل دیئے ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے اِن بڑے منصوبوں کو حاصل کرنا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ ’سلسلہ کی عزت اور عظمت کا خیال رکھو۔‘ اور یہ سلسلہ کی عزت اور عظمت کا خیال رکھنا ایک مربی ، مبلغ، واقف زندگی کا سب سے بڑھ کر کام ہے ۔ ہمیشہ آپ کے سامنے سلسلے کی عزت اور عظمت اور وقار کا سوال رہنا چاہیے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ ، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، جب آپ کا ہر لمحہ اپنے اوپر نظر رکھتے ہوئے گزرے گا ۔جہاں آپ کی عبادتوں کے معیار بلند ہوں وہاں آپ کے اخلاق بھی اعلیٰ ہوں۔ اورآپ ہر معاملہ میں ایک مثالی اخلاق رکھنے والاکردار ادا کرنے والے ہوں ۔ گھروں میں ہیں تو عائلی طور پر آپ کے بہترین نمونے ہوں۔ باہر ہیں تو بول چال میں ، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، اعلیٰ نمونے ہوں۔ آپ کے لباس میں آپ کے اچھے نمونے ہوں اور ہر شخص آپ کو دیکھ کر یہ کہنے والا ہوکہ یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت کی سچی نمائندگی کرنے والے ہیں، جو جماعت کی حقیقی نمائندگی کرنے والے ہیں اور ان سے کوئی ایسی حرکت کبھی نہیں ہوتی جو جماعتی مفادات کے خلاف ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی عزتوں کو تو داؤ پر لگا سکتے ہیں لیکن جماعت کی عزت و عظمت پر کبھی فرق نہیں آنے دیں گے۔پس یہ وہ معیار ہیں جو آپ نے حاصل کرنے ہیں ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جماعت کو فرمایا کہ ’تمہارا ایک نصب العین ہونا چاہیے۔‘ اور وہ نصب العین کیا ہے؟ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یہ وہ نصب العین ہے جو عمومی طور پر جماعت کے ہر فرد کے لئے ہے لیکن مربی کے لئے سب سے بڑھ کرہے ۔ یہ بڑا وسیع کام ہے۔ جب ہم اِیَّا کَ نَعْبُدُ کہتے ہیں تو پھر ، جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ آیا ہوں، اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ یہ صرف فرض نہیں ایک نصب العین ہے اور جماعت کی عظمت اور وقار کو قائم کرنے کے لئے بھی ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا یعنی اللہ تعالیٰ کے آگے ہی جھکنا ہے۔ کبھی کسی انسان کے آگے نہیں جھکنا ۔ کسی انسان سے، دنیا سے متأثر نہیں ہونابلکہ ہر مدد اللہ تعالیٰ سے لینی ہے کہ انسان خطاؤں اور غلطیوں کا پُتلا ہے،اور اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہیے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہ مجھے سیدھے راستے پر چلاتا رہ۔ کبھی ایسی لغزشوں میں نہ پڑ جاؤں جس سے جماعت کی عزت اور وقار پر حرف آئے، جس سے جماعت کی عظمت پر حرف آئے ، جس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں داخل ہو کر اور پھر اپنے آپ کو مربی کا ٹائٹل دلوا کر اس پر حرف آئے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک مربی غلط حرکت سے صرف اپنے آپ کو بدنام نہیں کرتا بلکہ پورے نظام کو بدنام کر رہا ہوتا ہے پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہمیشہ آپ کے سامنے ہواور اس پر ہمیشہ غور کرتے رہیں اور انعمت علیھم یعنی ان لوگوں میں شمار ہونے کی کوشش کریں جن پر اللہ تعالیٰ انعام کرتا ہے۔ پس ایسے انعام یافتہ جب بنیں گے تو پھر ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مطابق ہم ان چار باتوں پر عمل کرنے والے بنیں گے اور تبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق اپنے نصب العین کو حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اس بات کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور ان چیزوں کے لئے سب سے بڑھ کر چیز یہ ہے کہ تقویٰ بھی ہو۔ ہر ایک مربی کا تقویٰ کا میعار بلند ہو۔ ایک بزرگ کے کپڑے پر ہلکا سا داغ لگا ہوا تھا اور وہ اسے دھورہے تھے۔ ان کے ایک مرید نے پوچھا کہ حضور آپ نے تو یہ فتویٰ دیا ہوا ہے کہ اتنے سے داغ سے گندگی نہیں ہوتی کوئی حرج نہیں ہے اور نماز وغیرہ جائز ہے اور کپڑے بھی پاک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو میں نے تمہیں دیا تھا وہ فتویٰ تھا اور یہ جو میں کر رہا ہوں یہ تقویٰ ہے۔ پس ایک مربی کو فتویٰ اور تقویٰ میں فرق کرنے کے لئے اپنے میعاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں اور اگر ان باتوں کا خیال رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ میدانِ عمل میں بہترین مربی اور مبلغ کا کردار ادا کر سکنے والے ہوں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےآخر میں فرمایا: اللہ کرے کہ آپ لوگ میدانِ عمل میں جا کر صرف ان باتوں کو اپنی ڈائریوں تک نوٹ کرنے والے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے والے بھی ہوں اور ایک مثالی مربی اور مبلغ بن جائیں۔ وہ انقلاب پیدا کرنے والے ہوں جس کے پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے اور خلافت احمدیہ کے صحیح دست و بازو بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب بارہ بجکر پچیس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی۔

اس کے بعد جامعہ احمدیہ جرمنی کی تمام کلاسز نے باری باری اپنے پیارے آقا کے ساتھ گروپ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ فارغ التحصیل مربیان کی تصویر کے بعد جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور کارکنان نے بھی اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

تصاویر کے اس پروگرام کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت جامعہ احمدیہ کے درج ذیل اساتذہ کرام کی رہائشگاہوں پر کچھ وقت کے لئے تشریف لے گئے۔

مکرم محمد فاتح ناصر صاحب۔ مکرم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب۔ مکرم حامد اقبال صاحب، مکرم رحمت اللہ صاحب اور مکرم سہیل ریاض صاحب۔

ان اساتذہ کرام کی رہائشگاہیں جامعہ احمدیہ کے احاطہ کے ایک حصہ میں ہیں۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اُس ہال میں تشریف لے آئے جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جامعہ احمدیہ کے تمام طلباء اور آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے تمام مہمانوں نے اپنے پیارے آقا کی معیّت میں کھانا کھایا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت بعض طلبا سے گفتگو بھی فرمائی۔ ہال کے ایک طرف جامعہ کے کچن کا سٹاف کھڑا تھا جنہوں نے کھانا تیار کیا تھا۔ حضورانور نے ازراہ شفقت ان سے بھی گفتگو فرمائی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے اعجازی شفا کا روح پرور واقعہ

استاد جامعہ احمدیہ مکرم شمس اقبال صاحب کی اہلیہ گزشتہ دنوں شدید بیمار رہی ہیں۔ اُن کی حالت اس حَد تک بگڑ گئی تھی کہ قومہ میں چلی گئی تھیں اور Ventilatorپر ڈالنا پڑا تھا۔ پھیپھڑوں نے کام کرنا مکمل طور پر چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب زندگی کی امید نہ ہونے کے برابر ہے اور حالت انتہائی خرابی کی طرف جا رہی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں موصوفہ کی بیماری کی رپورٹس پیش ہوتیں۔ حضورانور حال دریافت فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے۔ ایک رپورٹ پر حضور انور نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اعجازی رنگ میں لمبی عمر عطا فرمائے‘‘۔ حضورانور نے ہومیو نسخہ بھی عطا فرمایا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے الفاظ حرف بحرف پورے ہوئے۔

شمس اقبال صاحب بتاتے ہیں کہ بظاہر زندگی کے کوئی آثار نہ تھے لیکن پیارے آقا کی دعاؤں سے ایک عظیم معجزہ رونما ہوا۔ اگلے ہی روز ڈاکٹر نے مجھے بلایا اور کہا کہ راتوں رات ایک معجزہ ہوا ہے کہ Ventilator جس کی طاقت انتہائی حَد پر کی ہوئی تھی اور اس صورت میں بھی وہ کام نہیں کر رہا تھا کہ اچانک زندگی بحال ہونا شروع ہوئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ مریضہ کے پھیپھڑے تیس فیصد کام کررہے ہیں اور Ventilator سے ہم صرف 70 فیصد مدد لے رہے ہیں۔

چند دن کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ اب ان کے پھیپھڑے صحیح کام کر رہے ہیں اور جسم میں آکسیجن کی مقدار 98 فیصد ہے جو اس حالت میں حیران کُن ہے۔ ان کو Ventilator سے اتار دیا گیا اور گھر بھجوادیا گیا اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم اور پیارے آقا کی دعاؤں سے مُردہ زندہ ہوگیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شمس اقبال صاحب سے اہلیہ کی طبیعت کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر شمس اقبال صاحب نے عرض کی کہ وہ آج کے اس پروگرام میں شامل ہیں اور لجنہ کی طرف ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت لجنہ کی طرف تشریف لے گئے اور موصوفہ سے فرمایا کہ ’’اب تو یہ بالکل ٹھیک ہوگئی ہیں‘‘۔

بعدازاں ایک بجکر 35 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت العزیز‘‘ میں تشریف لاکر نماز ظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد جب حضورانور ایدہ اللہ مسجد سے باہر تشریف لائے تو جامعہ کے تمام طلباء راستہ کے ایک طرف قطار میں کھڑے تھے۔ حضورانور نے ازراہ شفقت تمام طلباء کو باری باری شرف مصافحہ سے نوازا اور بعض طلباء سے گفتگو بھی فرمائی۔

اس موقع پر اساتذہ کرام نے بھی مصافحہ کی سعادت حاصل کی۔

بعدازاں دو بجکر بیس منٹ پر جامعہ سے ’’بیت السبوح‘‘ فرینکفرٹ کے لئے روانگی ہوئی اور تین بجکر دس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ حضورانور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق چھ بجکر پندرہ منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس سیشن میں 39 فیملیز کے 142افراد اور تین احباب نے انفرادی طور پر اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔

آج ملاقات کرنے والوں میں جرمنی کی 28 جماعتوں اور شہروں سے آنے والے احباب اور فیملیز کے علاوہ پاکستان سے آنے والے احباب بھی شامل تھے۔

ملاقات کرنے والی ان سبھی فیملیز نے اپنے آقا کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔ملاقاتوں کا یہ پروگرام ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا۔

اعلان نکاح

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق مکرم حیدر علی ظفرصاحب مبلغ انچارج جرمنی نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے درج ذیل بارہ نکاحوں کا اعلان فرمایا

۱۔ عزیزہ عاتکہ ظفرصاحبہ بنت مکرم مظفراحمدصاحب کا نکاح عزیزم مدثراحمدصاحب ابن مکرم منوراحمدصاحب کے ساتھ طے پایا۔

۲۔ عزیزہ ماریہ احمد صاحبہ بنت مکرم بدر احمد صاحب (یوکے) کا نکاح عزیزم عرفان احمد اعظم صاحب ابن مکرم چوہدری منوراحمد اعظم صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۳۔ عزیزہ کنول ناصر صاحبہ بنت مکرم ناصر احمد کاہلوں صاحب کا نکاح عزیزم عمرمبشرصاحب ابن مکرم مبشر احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۴۔ عزیزہ بادیہ یوسف صاحبہ بنت مکرم راجہ محمد یوسف خان صاحب کا نکاح عزیزم سفیراحمدصاحب ابن مکرم نصیر احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۵۔ عزیزہ نمیرہ طارق صاحبہ بنت مکرم طارق محمود احمد صاحب کا نکاح عزیزم برہان احمد لون صاحب ابن مکرم فہیم احمد لون صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۶۔ عزیزہ فریحہ محمود صاحبہ بنت مکرم محموداحمدصاحب کا نکاح عزیزم حسن نعیم صاحب ابن مکرم نعیم احمدصاحب کے ساتھ طے پایا۔

۷۔ عزیزہ رامین کلیم شیخ صاحبہ بنت مکرم شیخ کلیم احمد صاحب کا نکاح عزیزم ماہر احمد ممتاز صاحب ابن مکرم ممتاز احمدصاحب کے ساتھ طے پایا۔

۸۔ عزیزہ آمنہ اظہر خان صاحبہ بنت مکرم محمد اظہر صاحب کا نکاح عزیزم ودود راشد خان صاحب ابن مکرم مسعود ارشد خان صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۹۔ عزیزہ ماریہ بتول راجہ صاحبہ بنت مکرم راجہ طاہر محمود صاحب کا نکاح عزیزم فرید احمدطورصاحب ابن مکرم رحمت اللہ شمس طور صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۱۰۔ عزیزہ فاطمہ طاہرہ یونس صاحبہ بنت مکرم محمد یونس بلوچ صاحب کا نکاح عزیزم عدیل بابر صاحب ابن مکرم بابر جلال صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۱۱۔ عزیزہ نائمہ احمد طاہرہ صاحبہ بنت مکرم لطیف احمد صاحب کا نکاح عزیزم نعمان احمدصاحب ابن مکرم مبشر احمد طاہر صاحب کے ساتھ طے پایا۔

۱۲۔ عزیزہ سیماب آصف صاحبہ بنت مکرم آصف محمود صاحب کا نکاح عزیزم فرہان داؤد حیدر صاحب ابن مکرم داؤد حیدر صاحب کے ساتھ طے پایا۔

نکاحوں کے اعلان کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاکروائی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمازمغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کےبعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ تشریف لے گئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button