ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا
اور وہ زمانہ اُس روحانیت کی ترقیات کا انتہا نہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔
پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اِس وقت پوری طرح سے تجلّی فرمائی
’’ اور ہمارے نبی کی روحانیت کا زمانہ پانچویں ہزار سے شروع اور چھٹے ہزار کے آخر تک کامل ہوا اور اس کی طرف خدا تعالیٰ کا قول اشارہ کرتاہے کہ اوراس مقام کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللّہ علیہ وسلم آدم کے قدم پر آئے اور آدم کی روحانیت نے پانچویں دن میں طلوع فرمایا کیونکہ اس دن تک سب کچھ جو اس کی ہویّت کے اجزا سے اور اس کی ماہیت کی حقیقت سے تھا پیدا ہو گیا۔ کیونکہ زمین اپنی تمام مخلوق کے ساتھ اور آسمان اپنی تمام مصنوعات کے ساتھ آدم کی ہویّت کی حقیقت تھے۔گویا آدم کا مادہ تھا۔ گویا آدم کا مادہ جمادی حقیقت سے نباتی حقیقت کی طرف اور نباتی حقیقت سے حیوانیت کی ہویّت کی طرف منتقل ہوا پھر روحانیت کے طور پر کوکبی کمالات سے قمری کمالات کی طرف اور قمری انوار سے شمسی شعاعوں کی طرف انتقال فرمایا اور( یہ سب انتقالات مظاہر ترقیات عالم کے حقیقت انسانیہ کے معارج کی طرف تھے)۔[بریکٹ میں دیا گیا ترجمہ روحانی خزائن میں ہے ایڈیشن اوّل میں نہیں ہے۔ (ناشر)] اور اس راز کودوسرے لفظوں میں اس طرح پر سمجھنا چاہیے کہ انسان ایک وقت جماد تھا اور دوسرے وقت نبات اور اس کے بعد حیوان اور اس کے بعد ستارہ اور چاند اور سورج تھا یہاں تک پانچویں دن وہ سب کچھ جو اس کی فطرت زمینی اور آسمانی قویٰ سے تقاضا کرتی تھی احسن الخالقین خدا کے فضل سے جمع ہو گیا۔ پس تمام پیدائش آدم کے لئے ایک فرد کامل تھا یا اس کے وجود کا آئینہ تھا جسے خدا نے معزز اور مکرم بنایا۔ پھر ارادہ فرمایا کہ پوشیدگیوں کو پورے طور پر ایک ہی شخص میں ظاہر کرے جو ان خصلتوں کا مظہر ہو۔ پس آدم کی روحانیت نے جامع کامل تجلّی کے ساتھ جمعہ کے دن آخری ساعت میں تجلّی فرمائی یعنی اُس دن جو چھ کا چھٹا ہے۔ اسی طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اُس روحانیت کی ترقیات کا انتہا نہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اِس وقت پوری طرح سے تجلّی فرمائی جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں احسن الخالقین خدا کے اِذن سے پیدا ہوا اور خیر الرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیارکیا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کتابِ مبین میں وعدہ فرمایا تھا۔ پس مَیں وہی مظہر ہوں۔ پس ایمان لا اور کافروں سے مت ہو اور اگر چاہتا ہے تو اس خدا تعالیٰ کے قول کو پڑھ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ آخر آیت تک۔[ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو اس لئے بھیجا کہ تا دین ِ اسلام کو سب دینوں پر غالب کردے۔ (الصف 10:)] پس یہ اظہار کا وقت اور روحانیت کے ظہور کے کمال کا وقت ہے اے مسلمانوں کی جماعت۔ اور اسی لئے آثار میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چھٹے ہزار میں مبعوث ہوئے حالانکہ آنجناب کی بعثت قطعاً اور یقیناً پانچویں ہزار میں تھی۔ پس شک نہیں کہ یہ اشارہ ہے تجلّی تام کے وقت کی طرف اور استیفاء مرام کی طرف اور روحانیت کے ظہور کے کمال کی طرف اور جہان میںمحمدی فیوض کے موج مارنے کے دنوں کی طرف۔ اور یہ چھٹے ہزار کا آخر ہے جو زمانہ کے مسیح موعود کے اُترنے کے لئے مقرر ہے۔جیسا کہ انبیاء کی کتابوں سے سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ زمانہ یقیناًخدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت کے قدم رکھنے کی جگہ ہے جیساکہ آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ اور پاک تحریروں کی دوسری آیتوں سے مفہوم ہوتا ہے۔ پس اگر تو عقلمند ہے تو فکر کر اور جان کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے۔اور یہ قرآن سے ثابت ہے اِس میں انکار کی گنجائش نہیں اور بجز اندھوں کے کوئی اس معنے سے سر نہیں پھیرتا۔ کیا وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْکی آیت میں فکر نہیں کرتے۔ اور کس طرح مِنْھُمْ کے لفظ کا مفہوم متحقق ہو اگر رسول کریم آخرین میں موجود نہ ہوں جیسا کہ پہلوں میں موجود تھے۔ پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اُس کی تسلیم سے چارہ نہیں اور منکروں کے لئے بھاگنے کا رستہ بند ہے اور جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اُس نے حق کا اور نَصِّ قرآن کا انکار کیا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 159تا164۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)