خلافت
وہ رشک ملائک یہی تاج ہے
یہی آدمیت کا معراج ہے
یہ نورِ خدا کی ہے جلوہ گری
یہ تکوین کا نقطۂ محوری
نظام خلافت ہے پائندہ تر
اسی سے یہ خاکی ہے تابندہ تر
’’عدُوئے مُبیں‘‘اس سے پا مال ہے
قبائے خلافت تری ڈھال ہے
ازل سے ابد تک یہ اعجازِ ’’قُم‘‘
یہی روح ِ مردہ کو آواز ’’قُم‘‘
یہ ہے چشم گیتی میں تِل کی طرح
یہ سینۂ ہستی میں دل کی طرح
شہی کا نہ جمہوریت کا ہے راج
یہ دونوں کا گویا حسیں امتزاج
بظاہر یہ جمہور کا ساز ہے
مگر قدرتِ حق کی آواز ہے
خلیفہ گو چنتے ہیں اہل وفا
مگر اُس میں ہوتی ہے حق کی رضا
خلافت خدا کی نمائندگی
اسی کی جھلک اور درخشندگی
جمالی صفت میں رحیم و کریم
یہ شان جلالی میں ضرب کلیم
ملے نورِ حق کو تھے مظہر نئے
بدلتا رہا تھا یہ پیکر نئے
یہ داؤد و آدم میں تھا جلوہ گر
ازل سے ابد تک یہ محو سفر
بنا مصطفےٰ اس سے شمسُ الضّحٰی
تو مہدی ہوا مثل بدرُ الدُّجیٰ
یہ صدیق و فاروق و عثمان میں
یہ حیدر پہ اُترا نئی شان میں
اگر نور دیں میں یہ تھا جلوہ گر
تو محمود تھا اس سے رشک قمر
یہ ناصر میں طاہر میں مسرور میں
شرابور تینوں اسی نور میں
یہ زندہ تو زندہ ہے دین متیں
یہ قدرت کے جلووں کا عکسِ حسیں
اسی سے سدا محو پرواز تُو
فرشتوں سے بڑھ کر فلک باز تُو
اگر پاسبانی کا احساس ہے
سدا یہ امانت تیرے پاس ہے