قرآن مجید کی وحی اور آنحضرت ﷺ کے روحانی مشاہدات کا ایک نمونہ (دوسری قسط)
سورئہ کہف میں وارد شدہ انگورستان کی مثال اوراس کی وضاحت
سورئہ کہف کے پانچویں رکوع میں انگوروں کے دو باغوں کی مثال بیان کرتے ہوئے تمثیلاً یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عیسائی قوم کی حکومت تین زمانوں میں منقسم ہے۔ ایک اسلام سے پہلے کازمانہ۔ دوسرا اسلامی حکومت کے زمانہ کے بعد کا عرصہ جس میں ان کی حیثیت ایک کھیتی کی سی ہوگی۔ اورتیسرا زمانہ مسلمانوں کی حکومت کے زوال پر جبکہ یہ قوم ان کو پامال کرکے بہت بڑی حکومت قائم کرے گی۔یہ امر کہ کیا انگورستان کی مثال سے مراد دنیا کا مال ودولت اورجاہ وحشمت ہی ہے ۔ سورئہ کہف کے اس رکوع میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ)
جب فرمایا کہ انگورستان کا مالک اس میں داخل ہوکر فخر سے اپنے ساتھی سے کہے گا ۔ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًاوَّاَعَزُّ نَفَرًا۔ (الکھف35:) یعنی دولت میں مَیں تجھ سے زیادہ دولتمند اورجتھہ میں تجھ سے زیادہ عزت مند ہوں۔
دولتمندی اورجاہ وحشمت بیان کرنے کے لئے انگورستان کی یہ مثال عیسائی قوم کے ہی محاورہ میں دی گئی ہے جیسا کہ متی باب 12 میں حضرت مسیح علیہ السلام انگوروں کے تاکستان کی مثال دے کر یہودیوں کو سمجھاتے ہیں کہ چونکہ تم نے دیانتداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اس کی حفاظت نہیں کی بلکہ بددیانتی اورشرارت سے خدا کے انبیاء سے پیش آتے رہے ہواس لئے جب تاکستان کا مالک آئے گا تو وہ تمہیں ہلاک کردے گا اورپھر اپنا تاکستان اَوروں کو دے دے گا۔
غرض سورئہ کہف کے پانچویں رکوع میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ عیسائی قوم کو اپنی حکومت پر بڑا گھمنڈ پیدا ہوگا یہاں تک کہ وہ سمجھے گی کہ اس کی حکومت کو کبھی زوال نہیں اوریہ کہ اگرقیامت ہوتی تو وہاں بھی ان کی حالت بہتر ہوگی لیکن ان کی ایسی حکومتیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک کو عار سمجھتی ہیں اور صلیب ومردہ پرستی جن کا طرئہ امتیاز ہے آسمانی آگ سے ہمیشہ کے لئے بالکل تباہ وبرباد کردی جائیں گی۔
سورئہ مریم میں عیسائیوں کی دولتمندی کا ذکر
سورئہ مریم کے پانچویں رکوع میں بھی عیسائی حکومتوں کی اس خام خیالی کا کہ وہ بہت دولتمندہیں حوالہ دے کر ان کی آخری اورکامل تباہی کی پیشگوئی کی گئی ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے۔اَفَرَئَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًاوَّ لَدًا۔ (مریم78:)کیا تونے اسے نہیں دیکھا جس نے ہمارے نشانات کا کفر کیا اورکہا کہ مجھے ضرور مال اور اولاد دی جائے گی ۔ یہ الفاظ مفہوماً سورئہ کہف کی آیت وَلَئِنْ رُدِّدْتُ اِلٰی رَبِّیْ لَاجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَبًا (الکھف37:) کے ہی ہم معنی ہیں ۔
سورئہ کہف کی آخری آیات میں عیسائی قوموں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَتَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰـھُمْ جَمْعًا o وَّعَرَضْنَا جَھَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِّلْکٰفِرِیْنَ عَرْضًاoالَّذِیْنَ کَانَتْ اَعْیُنُھُمْ فِیْ غِطَآئٍ عَنْ ذِکْرِیْ وَکَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا۔ (الکہف:100 تا 102)یعنی جس دن وعدہ کا دن آئے گا تو اس روز ہم انہیں ایک دوسرے کے خلاف جوش سے حملہ آور ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اوربگل بجایا جائے گا۔ تب ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اورہم اس دن جہنم کو ان کافروں کے سامنے کھلے طو رپر لے آئیں گے۔ وہ جن کی آنکھیں میرے ذکر سے پردہ میں ہیں اوروہ سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
سورئہ مریم میں بأس شدید اوراس کے انجام کا ذکر
سورئہ کہف کی ان آیات میں عیسائی اقوام کی جس باہمی آویز ش اورجنگ وقتال کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ مریم کے آخر میں اسے بایں الفاظ دہرایا گیا ہے۔ فرماتا ہے۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّھُمْ اَزًّاo فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْھِمْ اِنَّمَا نَعُدُّ لَھُمْ عَدًّا۔
(مریم84:،85)
یعنی کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سرکش لوگوں(یعنی اللہ تعالیٰ کا بیٹا پکارنے والوں)کو کافروں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ انہیں جنگ کے لئے اکسائیں سوان کے خلاف جلدی مت کر ہم ان کے لئے بہت بڑی تیاری کرچکے ہیں۔
مذکورہ بالا موازنہ سے بھی ظاہر ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی موضوع انذار اوربشارت کے متعلق آپس میں ہم معنی وہم مفہوم، ہیں اوران سورتوں میںالفاظ اَلَمْ تَرَ (مریم84:) وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً (الکھف48:) تَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ(الکھف50:) ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِّنْ اَحَدٍ (مریم99:) جووارد ہوئے ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدہ کا ذکر باربار کیا گیا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی حکومت کے انجام کے متعلق علاوہ اس وحی جلی کے جوان دونوں سورتوں کے ذریعہ سے ہوئی آنے والے واقعات کے متعلق آپؐ کو مکاشفہ بھی ہوا۔ اورآپؐ کو دکھایا گیا تھا کہ بأس شدید اوربشارت سے متعلقہ پیشگوئیاں کس کس صورت وشکل میں ظاہر ہوںگی۔
ایک شبہ کا ازالہ
پیشتر اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدات کا ذکر کیا جائے اس شبہ کا ازالہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ کہف اورسورئہ مریم کی پیشگوئیوں کا تعلق ان جنگوں سے ہے جو قرون اولیٰ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے پوری ہوچکی ہیں۔ یعنی ان جنگوں میں جو رومی اوردیگر عیسائی حکومتوں کے ساتھ لڑی گئیں اورجن میں مسلمان ان پر غالب آئے اوران کی حکومتوں کو مغلوب کیا گیا۔یہ خیال درست نہیں کہ سورئہ کہف میں مذکور بأس شدید اوربشارت کا تعلق گزرے ہوئے واقعات تک ہی محدود ہے ۔
اوّلؔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورئہ کہف کی ان آیات کو دجال کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے جس کا ظہور آخری زمانہ میں ہونے والا تھا۔ اور
دومؔ اس لئے یہ خیال درست نہیں کہ سورئہ کہف کے آخر میں اس بات کا صراحت سے ذکر کیا گیا ہے کہ جن پیشگوئیوں کا ذکر سورئہ کہف میں وارد ہوا ہے ان کا سلسلہ گزشتہ زمانہ کے ساتھ ہی ختم ہونے والا نہیں بلکہ وہ ایک لمبے زمانہ پر ممتد ہے یہاں تک کہ اگر اس کی تفصیلات قلمبند کی جائیں تو ایک سمندر کیا اس سے دگنی روشنائی بھی ختم ہو جائے گی پیشتر اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ باتیں ختم ہوں۔ فرماتاہے ۔ قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْجِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ (الکھف110:)یعنی انہیں کہہ دے کہ اگرسمندر میرے رب کی باتوں کے لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تو سمندر میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا اگرچہ اتنی ہی اورروشنائی ان کے لکھنے کے لئے لے آئیں ۔
[ کَلِمٰت سے مراد یہاںوہ پیشگوئیاں ہیں جو سورئہ کہف میں مذکورہیں ۔ لفظ کلمۃ اورکلمات کا استعمال بمعنی پیشگوئی قرآن مجید میں بکثرت ہوا ہے ۔ملاحظہ ہو سورئہ آل عمران آیت 39-40۔ النساء آیت 170،سورئہ انعام آیت34و115،اعراف آیت 136،سورئہ طٰہٰ آیت 129،سورئہ زمر آیت 19و71الصافات آیت 171]
اس آیت سے ظاہر ہے کہ جن پیشگوئیوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورئہ کہف کی تجلی ہوئی ہے وہ ایک لمبا سلسلہ ہے اوراس کے سینکڑوں حلقے ہیں جیسا کہ ابھی اجمالاً ان پیشگوئیوں کی وسعت کا ذکر کیا جائے گا۔
سورئہ کہف اورسورئہ مریم میںوارد شدہ پیشگوئی کا تعلق
علاوہ ازیں مذکورہ بالا خیال اس لئے بھی نادرست ہے کہ سورئہ کہف اورسورئہ مریم میں عیسائی حکومتوں کی جس تباہی کا ذکر کیا گیا ہے وہ کامل تباہی ہے جس کے متعلق کھلے الفاظ میں ان دونوں سورتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ظالم حکومتیں صفحہ ہستی سے نابود کردی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی آہٹ تک بھی سنائی نہ دے گی ۔ اس لئے ان سورتوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان میں وارد شدہ پیشگوئیاں قرون اولیٰ میں پوری ہوچکی ہیں واقعات مشہودہ کے خلاف ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاتھوں عیسائی اقوام کی حکومتوں کی تباہی نہیں ہوئی بلکہ انہوںنے عیسائی اقوام کے ساتھ نیک سلوک کیا۔ انہیں دنیا کی آسائش اور مال ومتاع سے متمتع ہونے کی پوری پوری آزادی دی۔جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سنبھلیں اورانہوںنے دنیا میں پھر ترقی کی۔ یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے سارے جہان پر چھاگئیں اورآج سارے جہان کے لئے بلائے بے درماں بنی ہوئی ہیں۔
[انصاف پسند عیسائی مصنفین نے اس بات کا کھلے الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ 600سال بلکہ بعض لحاظ سے تو اٹھارھویں صدی تک بھی یورپ کی قومیں اسلامی تہذیب وتمدن سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ دین میں، علم اخلاق وآداب میں ،سیاست میں ، صنعت وحرفت میں، علم طبیعات وعلم کیمیا میں ، علم ریاضی وفلسفہ میں، تاریخ وجغرافیہ اورعلم طب وجراحی یہاں تک کہ فنون حربیہ اورجہاز رانی میں ۔غرض کوئی شبہ علم وفن نہیں جس میں عیسائی دنیا نے مسلمانوں سے صدیوں استفادہ نہ کیا ہو۔
گوسٹاف آف لبون ، مدیو، دوزی(Dozi) اوراینگلمین (Engelman) کی تصانیف اس تعلق میں ملاحظہ ہوں۔ مؤخرالذکر دو مصنفوں نے یورپ کی زبانوں کے متعلق ڈکشنریاں بھی تیار کی ہیں اوربتایا ہے کہ سپین ، جرمنی، فرانس اورانگلستان وغیرہ عیسائی ممالک کی زبانوں میں کثرت سے عربی الفاظ اورقواعد نحووصرف پر عربی قواعد کا اثر غالب ہے۔ یہ مضمون الگ تفصیل چاہتا ہے۔]
نیز سورئہ کہف اورسورئہ مریم میں عیسائی حکومتوں کی جس تباہی کا ذکر کیا گیا ہے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہونے والی تباہی نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی باہمی جنگوں والی تباہی ہے۔ جیساکہ آیت وَتَرَکْنَابَعْضَھُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْض (الکھف100:) سے ظاہر ہے۔ ایسا ہی سورئہ مریم کی آیت اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّھُمْ اَزًّا (مریم84:) کا بھی یہی مفہوم ہے کہ شیطان یعنی سرغنہ ہائے کفرو ضلال ایک دوسرے کو جنگ کے لئے اکسائیں گے۔
غرض سورئہ کہف اورسورئہ مریم کی پیشگوئی آئندہ آنے والے دور دراز زمانہ سے متعلق ہیں۔ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے جن کانوں نے خدائے علّام الغیوب کی یہ عظیم الشان آواز سنی وہ یہ گوشت پوست والے کان نہ تھے ۔ اورآپؐ کی جس آنکھ کو یہ دُور دراز آنے والے واقعات دکھائے گئے وہ یہ پُتلی والی آنکھ نہ تھی بلکہ روحانی آنکھ اورکان تھے اورجس عالم اورماحول میں آئندہ زمانہ کے متعلق مذکورہ بالا عظیم الشان اطلاعات دی گئیں وہ انسان کا یہ مادی عالم نہیں جو محدود ہے بلکہ عالم الملکوت کا ایک وسیع ماحول ہے۔
فتنہ دجال کی تعیین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریحات
سورئہ مریم اورسورئہ کہف کا موضوع معین کرنے کے بعد اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال لیتا ہوں جن میں آپؐ نے ذاتی رؤیت کی بنا پر دجال کی صورت وشکل،اس کے اوصاف اوراس کے کام بیان فرمائے اوراس کے بعد اختصار کے ساتھ آپؐ کے مشاہدات کا وحی الٰہی کی ان تجلیات کے ساتھ مقابلہ کروں گا جن کا ذکر ان دونوں سورتوں میں وارد ہوا ہے اورانشاء اللہ دکھائوں گا کہ یہ تجلّیات وحی اورمشاہدات آپس میں مفہوم ومطابقت کے اعتبار سے ایک ہی قسم کے فتنہ اوربأس شدید سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ سورئہ کہف کا تعلق فتنہ دجال سے ہے ۔اس بارے میں حضوؐر کے الفاظ یہ ہیں۔ فَمَنْ اَدْرَکَہٗ مِنْکُمْ فَلْیَقْرَءْ عَلَیْہِ فَوَاتِحَ سُوْرَۃِ الْکَھْفِ فَاِنَّھَا جِوَارُکُمْ مِنْ فِتْنَتِہٖ۔
(مشکاۃ المصابیح۔ کتاب الفتن۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال)
یعنی تم میں سے جو شخص دجال کو پائے اسے چاہیے کہ سورئہ کہف کی ابتدائی آیات اس کے سامنے پڑھے۔کیونکہ یہ تمہارے لئے اس کے فتنہ سے پناہ دینے والی ہیں۔
ایک دوسری روایت میں سورئہ کہف کی آخری آیات پڑھنے کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے۔بلکہ احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ یہ ساری سورت ہی جمعہ کو پڑھی جائے تاکہ دجال کے فتنہ سے پڑھنے والا محفوظ رہے۔چنانچہ مسلمانوں کا عام طو ر پر اس پر عمل درآمد رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ سورئہ کہف میں عیسائیوں کا ذکر ہے اوردجال نام شخص یا قوم کا اس میں کہیں بھی ذکر نہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ سے کیسے اخذ فرمایا کہ اس کا تعلق دجال سے ہے۔یہ سوا ل اہم ہے اوراس کا معقول جواب سوائے اس کے کوئی نہیں کہ ان آیات کے نزول کے وقت آپؐ پر یہ تجلی بھی ہوئی تھی کہ جو فتنہ قدیم الایام سے دجال کے نام سے مشہور ہے ا س کا ماخذو منبع عیسائیت ہے جس کے شدید خطرہ سے ہر نبی نے اپنی امّت کو ڈرایا ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امّت کو اس کے فتنہ سے آگاہ فرمایا اوراس سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔چنانچہ عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام سے مخاطب ہوئے اور ان سے فرمایا۔مَا بَعَثَ اللّٰہُ مِن نَّبِيٍّ اِلَّا اَنْذَرَ اُمَّتَہٗ ۔ اَنذَرَنُوْحٌ اُمَّتَہٗ وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ بَعْدِہٖ۔یعنی ہر نبی نے جسے اللہ تعالیٰ نے بھیجا اپنی امّت کو دجّال کے فتنہ سے ڈرایا۔ نوح نے بھی اپنی امّت کو ڈرایا اوراسی طرح ان کے بعد اورنبیوں نے بھی۔اورابوہریرہؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں وَاِنّیْ اُنْذِرُکُمْ کَمَا اَنْذَرَ بِہٖ نُوْحٌ قَوْمَہٗ۔اورمیں بھی تمہیں اس کے خطرہ سے آگاہ کرتا ہوں جس طرح نوحؑ نے اپنی قوم کو آگاہ کیا۔
(حجج الکرامہ صفحہ 402مطبع شاہجہانی ۔ اردو ترجمہ از فارسی عبارت)
یہ روایتیں مستند ہیں ۔ امام بخاری ؒنے بھی انہیں نقل کیا ہے اوردیگر محدثین نے بھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنہ دجال کے تعلق میں سورئہ کہف خصوصاً اس کی ابتدائی وآخری آیات کی طرف توجہ دلانا بتاتا ہے کہ آپؐ کے نزدیک عیسائی اقوام میں سے ہی دجال کا ظہور مقدر ہے۔دجال کا ذکر سابقہ انبیاء کے صحیفوں میں باربار آیا ہے اوران میں جو اوصاف اس کے بیان کیے گئے ہیں خود عیسائیوں کے بعض بڑے بڑے علماء اورشارحین کے نزدیک عیسائی گرجوں کے متولّیوں پر صادق آتے ہیں۔اس بارے میں سب سے بڑی مشہور پیشگوئی دانیال نبی کی ہے ۔اس پیشگوئی کی تشریح کرتے ہوئے عیسائی علماء اورشارحین رومن کیتھولک اورپاپائے روم کو دجال کا مصداق بتلاتے ہیں۔
دانیال علیہ السلام کی مشارٌ الیہ پیشگوئی بھی نمونہ ہے ان مشاہدات کا جو عالم ملکوت کا پتہ دیتے ہیں۔
ملاحظہ ہو دانیال باب7) جس مشاہدہ کا ذکر اس باب میں کیا گیا ہے وہ ان کو چارحیوانوں کی شکل میں دکھلایا گیا اورعالم رئویا میں ہی اس کی تعبیر بھی ان کو بتلائی گئی ۔ ان حیوانوں سے مراد چار بڑی بڑی سلطنتیں ہیں جو دنیا میں قائم ہوں گی۔ عیسائیوں کو تسلیم ہے کہ چوتھی سلطنت رومانیوں کی تھی اوریہ کہ چوتھے حیوان کے سر پر جو دس سینگ دکھائے گئے وہ اس سلطنت کی دس شاخیں تھیں جن میں یہ چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں تقسیم ہوئی۔ اوردانیال علیہ السلام نے جو یہ دیکھا کہ ان کے دس سینگوں کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا سینگ نمودار ہوا ہے جس میں آنکھیں ہیں اور ایک منہ جوبڑے گھمنڈ کی باتیں بولنے لگا ۔ اس کا چہرہ اس کے ساتھیوں کی نسبت زیادہ رعب ناک ہے اور اس نے مقدسوں سے جنگ شروع کردی اورحق تعالیٰ کی مخالفت میں باتیں کرنے لگا اوراس نے چاہا کہ دقتوں اورشریعتوں کو بدل دے۔ اس نے حق تعالیٰ کے مقدسوں سے ان کی سلطنت چھین لی۔یہاں تک کہ ایک مدت اورمدتیں اورآدھی مدت گزریں اورخدائے قدوس کا تخت لگایا گیا جو آگ کے شعلہ کی مانند تھا۔ عدالت ہورہی تھی اورکتابیں کھلی تھیں اورپھر ان کا بدن شعلہ زن آگ میں ڈالا گیا اوراس حیوان کو ہمیشہ کے لئے نیست ونابود کردیا گیا۔ (دانیال باب 7)
عیسائی علماء یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رومانی حکومت کی دس شاخوں کے بیچوں بیچ سے نکلنے والا یہ سینگ جس کا اوپر وصف بیان ہوا ہے دجال ہے اوریہ کہ اس کے ظاہر ہونے اورطاقت وغلبہ پانے کی میعاد دانیال علیہ السلام کی پیشگوئی اوران کی تعبیر کے مطابق 1260سال کا عرصہ ہے جو اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب بیت المقدس کو تباہ کرنے والا (یعنی رومانی حکومت) خود تباہ ہوگا اورجب دائمی قربانی موقوف کی جائے گی۔ مشہور مورخ گبنؔ کے اندازے کے مطابق بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے 637ء کے نویں مہینہ میں فتح ہوا۔ اس فتح کے ساتھ یہودیوں کی سوختنی قربانی بیت المقدس ازروئے شریعت اسلامی موقوف ہوئی ۔ اس تاریخ سے اگر بارہ سوساٹھ سال کا عرصہ شمار کیا جاوے تو یہ 1897ء کا آخر ہوتا ہے۔ یہ وہ مدت ہے جس میں حق تعالیٰ کے مقدس بندوں یعنی مسلمانوں کی سلطنت عیسائی قوموں کے ہاتھوں تباہ ہونے والی تھی۔ اس طرح ازروئے واقعات دانیال علیہ السلام کی پیشگوئی کا دوسرا حصہ پورا ہوا کہ دجّال حق تعالیٰ کے مقدس بندوں سے ان کی سلطنت ایک مدت 360اورمدتیں 720=2×360اور آدھی مدت180یعنی 1260 سال کے عرصہ میں چھین لے گا۔ مدت سے مراد ایک قمری سال یعنی 360دن ہیں ۔ انبیاء سابقین کی پیشگوئیوں میں ایک دن سوسال کے برابر قراردیا گیا ہے۔ اس عرصہ میں دجال نے مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق تمام روئے زمین کو لتاڑنا اوراس کے بعد شعلہ زن آگ میں اسے تباہ کیا جانا ہے ۔ علاوہ ازیں علامہ ڈمبل بی نے صحف سابقہ کی پیشگوئیوں سے استدلال کرتے ہوئے دجال کو (Poltical beast) یعنی سیاسی درندہ قرار دیا ہے جو پالیسی سے اپنی تجارت کو فروغ دینے اوردغا اورفریب سے بہتوں کو عجیب طرح سے تباہ کرنے والا ہے۔ لفظ دجال کے معنی عربی میں فریب دینے والے اورملمع ساز کے ہیںاوراس کے معنی تاجروں کا گروہ بھی ہے جو اپنا سامان تجارت جگہ بہ جگہ لئے پھرتا ہے ۔ (دیکھیں لسان العرب زیر لفظ دجال)
دانیال علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے پور ا ہونے کی میعاد کا اندازہ متعدد مسیحی علمائے ہیئت وفلکیات نے لگایا ہے۔ ان میں سے سب سے صحیح اندازہ مشہور فلکی علامہ ڈمبلؔ بی کا ہے جس کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ (دیکھیں ان کی کتاب The Appointed Timeکے صفحات 26,255,264) اس کتاب کے صفحہ 205پروہ لکھتے ہیں کہ بعض عیسائی فرقوں کے نزدیک دانیال علیہ السلام کی پیشگوئی میں مذکور اوصاف دجال رومن کیتھولک پر صادق آتے ہیں ۔ اس تعلق میں انہوںنے یوحنا لاہوتی کے خطوط کاذکر بھی کیا ہے جو سات کلیسائوں ، یعنی گرجوں کو لکھے گئے ہیں۔ علامہ مذکور ان کا حوالہ دیتے ہوئے خود بھی دبی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ان خطوط میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بے شک گرجوں میں پائی جاتی ہیں ۔لیکن آخر وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری طرح مسیح کی ابنیت اورالوہیت کے معتقد ہیں۔ اس لئے بھی کہ ان کو توبہ اورنادم ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس تعلق میں انہوں نے مکاشفات کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں دجال کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں (جنہیں پڑھ کر عیسائیوں کے دجال کا مظہر ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا) اس ضمن میں پولوس کا تھیسلینکیوں کے نام دوسرا خط بھی ملاحظہ ہو جس میں دجال کو بے دین کا لقب بھی دیا گیا ہے جو خدا کے مقدس میں بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتا ہے جسے یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اوراپنی آمد کی تجلی سے نیست ونابود کرے گا۔ نیز اس دجال کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اورنشانوں اورعجیب کاموں کے ساتھ اورہلاک ہونے والوں کے لئے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکہ کے ساتھ ہوگی۔ (3-12) اس تعلق میں ملاحظہ ہو مکاشفہ باب 13 جس میں لکھا ہے کہ اژدہا شیطان نے اس حیوان کو اختیار دے دیا اور بڑے بول بولنے اورکفر بکنے کے لئے اسے ایک منہ دیا گیا اوراس نے خدا کی نسبت کذب بکنے کے لئے منہ کھولا اوریہ اختیار دیا گیا کہ مقدسوں سے لڑے اوران پر غالب آئے اوراسے بیالیس مہینے تک کام کرنے کا اختیار دیا گیا۔ یعنی 1260سال یہ وہی میعاد ہے جو دانیال کی پیشگوئی میں مذکور ہے ۔]
اسلامی روایات میں بھی دجال اوراس کے جسّاسہ کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایک گرجا میں پایا گیا جہاں وہ زنجیروں سے مقید تھا۔یہ مشاہدہ تمیم داری کا ہے جو عیسائیوں میں سے مسلمان ہوئے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گرجا سے نکلنے والے دجال اورجسّاسہ کا ذکر سن کر صحابہؓکرام کو جمع کیا اورفرمایا کہ میں بھی تم سے دجال کے متعلق یہی ذکر کیا کرتا تھا۔ صحابہ کرامؓکو اس اندازہ سے سخت غم ہوا۔ فاطمہ بن قیس بھی ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے یہ ذکر سنا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگیں ۔ لَقَدْ خَلَعْتَ قُلُوْبَنَا۔ اے رسول خدا آپ نے تو ہمارے دلوں کو ہلادیا ہے ۔تمیم داری کی روایت کے الفاظ(یَقْفُرُ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ) قابل توجہ ہیں جہاں تک ان الفاظ سے سمجھا جاسکتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ مشاہدہ خواب کا ہے۔ اورروایت کے الفاظ بھی کہ گرجا کا راہب ان سے کہتا ہے۔ یُوشَکُ اَنْ یُؤْذَنَ لِیْ(یعنی عنقریب مجھے باہر نکلنے کی اجازت دی جائے گی)اس امر کی تائید کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو مسلم و مشکوٰۃ )
دجّال کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ مشاہدات
دجال کے اوصاف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشاہدہ کی بناء پر بیان فرمائے ہیں وہ ذیل میں نمبروار درج کئے جاتےہیں۔ یہ حلیہ اوروصف اسی تمثیلی زبان میں ہیں جو عالم غیب اورعالم ملکوت سے مخصوص ہیں۔ جن کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا جاچکا ہے ۔ یعنی تصویروں اورشکلوں میں جو اپنے مشابہ اورمماثل معانی اوراوصاف پراسی طرح دلالت کرتی ہیں جس طرح حروف تہجی اوران کی باہمی مختلف ترکیبیں ذہنی تصورات اورمعانی پر۔ جس طرح حروف والفاظ میں وسیع سے وسیع تصورات پنہاں ہوتے ہیں ۔اسی طرح عالم غیب میں جو شکلیں متمثل ہوتی ہیں وہ بھی نہایت وسیع تصورات اورمعیّن معانی کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ شکلیں اورصورتیں بھی گویا ایک مستقل زبان ہے جس کی اصطلاحات کو عالم ملکوت کے نظاروں کے سمجھنے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
(1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ دجال کی پیشانی پر ک۔ ف۔ر لکھا ہوا ہے۔ یَقْرَأُہٗ کُلُّ مُؤْمِنٍ کاتب وغیر کاتب (صحیح مسلم۔ کتاب الفتن وأشراط الساعۃ۔ باب ذکر الدجال) جسے ہر مومن پڑھ سکتا ہے خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ یعنی غیر مومن کفر کے ان حروف کو جو اگرچہ بہت ہی نمایاں ہوں نہیں سمجھ سکے گا۔پیشانی پر(ک۔ف۔ر) نوشتے سے مراد یہ ہے کہ اس کا کفر ایسا نمایاں اورواضح ہوگا کہ عالم اورجاہل دونوں سے وہ چھپا نہیں رہے گا بشرطیکہ مومن ہو۔
(2) آپؐ نے اسے اَعْوَرَ الْعَیْنِ الْیُمْنٰی (صحیح مسلم۔ کتاب الفتن وأشراط الساعۃ۔ باب ذکر الدجال) داہنی آنکھ سے کانا دیکھا جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ دین سے کلیۃً محروم ہوگا۔ آپؐ نے اس کی یہ آنکھ بیٹھی ہوئی دیکھی اور اس سے یہ مراد ہے کہ اس کی روحانی بصیرت بالکل مسخ ہوگی۔ ابودائود کی روایت میں الفاظ مَطْمُوْسُ الْعَیْنِ الْیُمْنٰی (الفتن لنعیم بن حماد۔ مایقدم الی الناس فی خروج الدجال) یعنی داہنی آنکھ بے نور ہوگی۔ دائیں سے مراد دین اورراستی ہے ۔ جیسا کہ بائیں سے مراد دنیا اوربے دینی ہے۔
(3) آپؐ نے دجال کی بائیں آنکھ انگور کے دانہ کی طرح پھولی ہوئی اورباہر نکلی ہوئی دیکھی۔آپؐ کے الفاظ یہ ہیں۔ کَاَنَّھَا عِنَبَۃٌ طَافِیَۃٌ (صحیح البخاری۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال) سعد بن خدریؓ کی روایت میں جو ایک مستندر اوی ہیں یہ الفاظ ہیں عَیْن الیسریٰ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ (مسند أحمد۔ مسند المکثرین من الصحابۃ۔ مسند أبی سعید الخدریؓ)کہ اس کی بائیں آنکھ ایسی ہے جیسا کہ چمکتا ہوا ستارہ۔ اس تمثیلی وصف کے یہ معنے ہیں کہ یہ امورِ دنیا میں بہت ہی دانا ہوگا۔ایک اورروایت میں ہے کہ بائیں آنکھ خوبصورت ہوگی مگر وہ بھی عیب دار ہوگی۔ (حجج الکرامہ صفحہ 402 مطبع شاہجہانی۔ ترجمہ از فارسی عبارت)
(4) آپؐ نے اسے سفید گدھے پر سوار دیکھا جس کے کانوں کے درمیان 70گز کا فاصلہ ہے ۔ستّر کا لفظ قدیم عربوں کے محاورہ میں زیادہ پر دلالت کرنے کے لئے بولا جاتا تھا یعنی اس کے دوکانوں کے درمیان بہت فاصلہ ہوگا۔
(5) آپؐ نے فرمایا کہ وہ گدھا اتنی تیزی سے چلے گا کہ سورج بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔اتنا تیز کہ ابھی مشرق میں ہوگا کہ ایک جھپک میں مغرب میں جاپہنچے گا جس سے مراد یہ ہے کہ وہ بہت جلدی سفر طے کرے گا۔سابقہ علماء نے اس سے سرعت رفتار ہی مراد لی ہے ۔
(دیکھیں حجج الکرامہ صفحہ 403مطبع شاہجہانی)
(6) آپؐ نے بتلایا کہ وہ اتنا طاقتور ہوگا کہ ساری زمین پر چھاجائے گا اورتمام اطراف عالم کو پامال کرے گا اورہربستی پر مکروفریب اورجنگ وقتال سے غالب آجائے گاسوائے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے۔اوروہ دو مقدس شہروں کی طرف بھی قصد کرے گا مگراللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کا مقابلہ کریں گے وہ اس کو تاخت وتاراج کردیں گے ۔ان دوشہروں کو محفوظ رکھا جائے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ لَا یَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِھِمْ‘‘ دجال کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا اوراس کی جنگ اتنی شدید ہوگی کہ اہل زمین کی لڑائی سے فارغ ہوکر آسمان والوں سے بھی لڑائی چھیڑدے گا۔ مگران کے خون آشام تیرانہی پرواپس لوٹائے جائیں گے۔
(مشکاۃ المصابیح۔ کتاب الفتن۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ)
اس مفہوم کی روایتوں میں دجال کے لئے صیغے اورضمیریں مفرد نہیں بلکہ جمع وارد ہوئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم ملکوت میں دجال شخص واحد کی شکل میں دکھایا گیا تھا مگر مراد دجال کی ساری قوم ہے ۔
(7) آپؐ نے فرمایا وہ ویرانوں پر گزرے گا اوران سے کہے گا(أَخْرِجِیْ کُنُوْزَکِ) اپنے خزانے نکال اوروہ نکالے گی۔ دریائوں سے کہے گا کہ وہ خشک ہوں اور وہ خشک ہوجائیں گے۔ اورکہے گا چلو تو وہ چلیں گے۔ ہوائوں پر اسے تسلط ہوگا۔ آسمان سے کہے گا اوروہ بارش برسائیں گے جس سے خشک زمین شاداب اورسرسبز ہوجائے گی ۔ اس کے مویشی موٹے اوربہت بہت دودھ دینے والے ہوں گے۔اس کے ساتھ ایک جنت بھی ہوگی اورآگ بھی جو اس کا ساتھ دے گا اورکہا مانے گا اسے جنت میں داخل کرے گا مگردرحقیقت وہ آگ ہوگی۔ اورجو اس کو نہ مانے گااس کو آگ میں جھونکے گا جودرحقیقت جنت ہوگی۔ روٹیوں کا ایک پہاڑ اس کے ساتھ ہوگا جس سے مراد یہ ہے کہ کھانے پینے کے سامان اس کے پاس بکثرت ہوں گے جب کہ لوگ فاقہ مست ہوں گے۔آپؐ نے فرمایا جوقوم اس کی اطاعت نہ کرے گی وہ قحط زدہ اورخالی ہاتھ رہ جائے گی ۔1؎
(صحیح مسلم۔ کتاب الفتن و أشراط الساعۃ۔ باب ذکر الدجال۔۔و۔مشکاۃ المصابیح۔ کتاب الفتن۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ۔)
[ 1۔یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا خود بھی کرتے اورمسلمانوں کو بھی کرنے کی تلقین فرمائی۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی ۔۔۔اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ ۔۔۔فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ یعنی اے اللہ میں تیری پناہ لیتا ہوں مسیح الدجال کے فتنے سے اورموت اورزندگی کے فتنے سے ۔اس دعا سے یہ ظاہر ہے کہ دجال کا فتنہ لوگوں کے لئے درحقیقت موت اورزندگی کا سوال پید کردے گا جیسا کہ آج حال ہے ۔]
(8) شروع میں اس کا دعویٰ ایمان اوراصلاح کا ہوگا مگر نتیجہ فساد اورظلم اوربربادی ہوگی۔ مسلمان اس کے فتنہ کی وجہ سے پراگندہ ہوجائیں گے ۔
(9) وہ اتنی قدرت رکھے گا کہ ایک شخص کو مار کر اسے پھر زندہ کردے گا یہاں تک کہ وہ اپنے لئے خدائی کا دعویٰ کرے گا اوربہتوں کی گمراہی کا باعث ہوگا۔
(10) آپؐ نے فرمایا ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِيُّ اللّٰہِ عِیْسیٰ وَاَصْحَابُہٗ اِلَی الْاَرْضِ فَلَا یَجِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ مَوْضِع شِبْرٍاِلَّامَلَأَہٗ وَھْمُھُمْ وَنَتْنُھُمْ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہ عِیْسیٰ وَاَصْحَابَہٗ اِلٰی اللّٰہِ فَیُرْسِلُ اللّٰہُ ۔طَیْرًا کَاَعْنَاقِ الْبُحْتِ فَتَحْمِلُھُمْ وَتَرْمِیْھِمْ فِی النَّار‘‘ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)۔یعنی پھرعیسیٰ نبی اللہ اورآ پ کے ساتھی ہجرت کریں گے تو زمین میں ایک بالشت بھربھی ایسی جگہ باقی نہ پائیں گے جو اُن کی بدبو اور سڑاند سے بھرنہ گئی ہو۔تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بُختی اونٹوں کی مانند پرندے غول درغول ان پر بھیجے گاجو انہیں اٹھا اٹھا کر آگ میں پھینکتے جائیں گے اوراس طرح دنیا ان سے رہائی پائے گی ۔
سورۃ المرسلات میں بھی سہ شاخہ صلیب کے پرستاروں کا انجام ایک ایسی آگ بتائی گئی ہے جو کَالْقَصْرِo کَاَنَّہٗ جِمَالَۃٌ صُفْرٌ (المرسلٰت33:، 34) بڑے بڑے محلوں کی مانند بلند شعلے پھینکنے والی ہے اور پے درپے اونٹوں کی طرح لپکتی ہوئی بڑھتی آئے گی ۔جس دن یہ شعلہ زن ہلاکت آفرین مصیبت دنیا میں قائم ہوگی اس دن کانام یوم الفصل یعنی فیصلہ کا وہ آخری دن رکھا گیا ہے جس میں صلیبی فتنہ کا خاتمہ ہوگا۔
[ احمدبن حنبل اورحاکم وغیرہ کی روایتوں میں اس فیصلہ کے دن کا نام یوم الخلاص ہے جس میں لوگوں کو دجال کے فتنہ سے نجات ملے گی۔ اوریہ وہ وقت ہوگا کہ جب یہودیوں کی مدد سے دجال مدینہ منورہ پرچڑھائی کرے گااور اس شورہ زمین میں ڈیرہ لگائے گا۔ اس وقت تین زلزلے آئیں گے۔ (حجج الکرامہ صفحہ 413،414مطبع شاہجہانی)]
(11) بُختی اونٹوں کی طرح پرندوں والی مذکور ہ بالا روایت کے آخر میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کی مذکورہ بالا تباہی کے بعد اللہ تعالیٰ زمین پر ابر رحمت برسائے گا اورزمین سے فرمائے گا أَنْبِتِیْ ثَمَرَتَکِ رُدِّیْ بَرَکَتَکِ (صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال) یعنی اپنا پھل اگا اوراپنی برکت کو بحال کر۔تو زمین کے پھلوں اورمویشیوں میں برکت دی جائے گی۔
یہ خلاصہ ہے اس مشاہدہ کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کے متعلق عالم غیب میں کرایا گیا۔صحیح بخاری صحیح مسلم اوراحادیث کی دیگر مستند کتابوں میں کسی قدر لفظی اختلاف کے ساتھ دجال کا مذکورہ بالا حلیہ ، اس کے اوصاف اوراس کے فتنہ وفساد اورجنگوں کے متعلق ذکر واردہوا ہے ۔مذکورہ بالا اقتباس قدرے مشترک ہے جواُن میں پایا جاتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشاہدہ جو بحالت خواب یا بحالت کشف ہوا بہرحال تیرہ سوسال سے احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔عالم ملکوت سے مختص تصویری زبان میں جو کچھ آپؐ کو دکھایا گیا آپؑ نے اسے بیان فرمایا۔اب آئیں ذرااس کا مقابلہ اس انداز سے کیا جائے جو عیسائی اقوام کے متعلق سورئہ کہف میں واردشدہ ہے۔بے شک آپ کو سورئہ کہف کے بیانات اورمذکورہ بالا مکاشفہ کے نظاروں کے درمیان کچھ فرق نظرآئے گاجس کی وجہ یہ ہے کہ خواب وکشف میں جو شکل وصورت دیکھی جاتی ہے وہ چونکہ مجاز اور استعارہ کے پیرہن میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے اس لئے تعبیر طلب ہوتی ہے۔ لیکن وحی الٰہی کی تجلی جو سورئہ کہف کے ذریعہ سے ہوئی وہ ایک واضح حقیقت پر مشتمل ہے ۔ چنانچہ سورئہ کہف کی پہلی آیت میں اس امتیاز کا ذکر کیا گیا ہے۔فرماتا ہے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۔ قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیْدًا ۔۔۔(الکھف2:،3) ۔یعنی سب خوبیاں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جس نے یہ کتاب اپنے بندہ پر نازل کی اوراس کتاب میں کوئی کجی نہیں رکھی۔وہ صحیح صحیح راہنمائی کرنے والی ہے تاکہ شدید خطرہ سے آگاہ کرے اورمومنوں کو بشارت دے اورعیسائیوں کو انجام بدسے ڈرائے۔
تجلّیات وحی اورمکاشفات کی ہم آہنگی واقعات کی روشنی میں
ان تینوں باتوں کے متعلق جو سلسلہ کلام سورئہ کہف اورسورئہ مریم میں چلایا گیا ہے۔وہ نہایت واضح ہے اس میں کسی قسم کے ابہام اورشک وشبہ کی گنجائش نہیں اوراگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدات مذکورہ بالااس واضح کلام کی روشنی میں دیکھے جائیں تو ان دونوں کی آپس میں مطابقت واضح سے واضح تر ہوجاتی ہے اوریہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدات کی مصداق کون سی قوم ہے۔ مثلاً آپؐ کو دکھایا گیا کہ دجال کی پیشانی پر کفر کا نوشتہ ہوگا جسے ہر مومن خواہ وہ خواندہ ہویا نا خواندہ پڑھ لے گا۔
سورئہ کہف میں انذاروتبشیر کے تعلق میں عیسائی اقوام کے کفر کی یہ تعیین کی گئی ہے کہ انہوںنے نہ صرف اللہ تعالیٰ کا ایک بیٹا تجویز کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا عباد اللہ کے پرستار بھی ہیں۔ اپنے جیسے انسانوں کو ’’خداوند خداوند‘‘ (My Lord) کہہ کر پکارتے ہیں ۔اوراس سورت میں یہ بھی بتایا گیا کہ پہلے توحید پرست عیسائی اپنے عقیدئہ توحید کو قائم نہ رکھ سکے اورانہوںنے اپنی عبادت گاہوں میں اپنے بزرگوں کی قبریں بناکر ان کو سجدہ گاہ بنالیا۔ چنانچہ قدیسوں (Saints)کی پرستش ان کے ہاں قدیم سے اب تک رائج ہے اوربڑے بڑے سربفلک گرجے بکثرت ہرجگہ ان قدیسوں کے نام پر قائم ہیں ۔
علاوہ ازیں جو خارق عادت قدرت ان عیسائی قوموں کو آج حاصل ہے اس سے فریب کھاکر یہ قومیں اب یہ بھی سمجھنے لگی ہیں کہ خدا تعالیٰ کوئی نہیں اور سلسلہ پیدائش عالم خود بخود ہے۔اس کی کنہ دریافت کرنے میں ہرقسم کی مُوشگافیوں سے کام لیا جارہا ہے اوریہ خیال عام طور پر ان میں پایا جاتا ہے کہ بغیر خالق کے خَلق ممکن ہے۔ ان میں سے اکثر دہریہ ہیں ۔یہ ساری باتیں اس نوشتہ ک ۔ف۔ر کی شرح ناطق ہیں جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی پیشانی پر لکھا دیکھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال داہنی آنکھ سے کانا دکھایاگیا اوربائیں آنکھ انگور کے دانہ کی طرح اُبھری ہوئی اورستارہ کی مانند روشن دکھائی گئی۔
سورۂ کہف میں عیسائی قوم کے دنیا میں استغراق اوردین سے غایت درجہ محرومی کا ذکر بغیر کسی قسم کے استعارہ یا مجاز کے کھلے کھلے الفاظ میں کیاگیاہے۔چنانچہ فرماتا ہے۔قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالاً۔اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً۔ (الکھف104:،105) یعنی کیاہم تمہیں بتائیں جواعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں۔وہی جن کی ساری کوشش دُنیاکی ہی زندگی میں کھوئی گئی ہے اورانہیں گھمنڈہے کہ انہوں نے صنعت کو کمال تک پہنچادیاہے۔
اسی طرح اس قوم کے روحانی اندھا پن کے متعلق فرماتاہے۔ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ (الکھف29:) ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دینا جن کے دل کو ہم نے اپنی یادسے غافل کردیا ہے اوروہ ہوائے نفس کے پیروہیں اوراُن کی بات حد سے نکل چکی ہے۔اورفرماتا ہے اَلَّذِیْنَ کَانَتْ اَعْیُنُھُمْ فِیْ غِطَآئٍ عَنْ ذِکْرِیْ۔ (الکھف102:) اُن کی آنکھیں میرے ذکر سے پردہ میں ہیں۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ عیسائی قومیں دین سے کلیۃً محروم اور دنیا میں منہمک اورصناعت میں اوّل درجہ کی ماہر ہوں گی۔ ان کی یہی حالت آنحضرت ﷺ کو عالم ملکوت میں مَطْمُوْسُ الْعَیْنِ الْیُمْنٰی (الفتن لنعیم بن حماد۔ ما یقدّم الی النّاس فی خروج الدجال) کی شکل میں دکھائی گئی ۔ یعنی اس کی دائیں آنکھ بیٹھی ہوئی اور پچکی ہوئی بے نورہے۔ اوربائیں آنکھ عِنَبَۃُ طَافِیَۃٌ (صحیح البخاری۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال) کَأَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّيّ (مسند أحمد۔ مسند المکثرین من الصحابۃ۔ مسند أبی سعید الخدریؓ) کی شکل میں دکھائی گئی کہ دانہ انگوری کی طرح شفاف اُبھری ہوئی ہے گویا کہ وہ ایک روشن ستارہ ہے۔آپؐ نے اسے سفید گدھے پرسوار دیکھا جو سرعت رفتار میں ایساتیز ہے کہ ابھی مشرق میں ہے توپل بھرمیں مغرب میں پہنچ گیا۔اورآپؐ نے فرمایا کہ وہ اس سواری کے ذریعہ تمام اطراف ِعالم میں چکر لگائے گا۔سوائے مکہ اور مدینہ کے ہر بستی کو تاخت وتاراج کرے گااورجگہ جگہ فتنہ وفساد برپا کرے گا۔
سورۂ کہف میں عیسائیوں کی ابتدائی تاریخ بیان کرتے ہوئے پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ شروع میں اعلیٰ درجہ کے موحدتھے۔ توحید کی خاطر انہوں نے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا۔اپنی مشرک قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنے یہاں تک کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔سوائے غاروں کے انہیں اورکہیں پناہ نہ ملی جہاں اُنہیں لمباعرصہ گزارناپڑا۔ یہ غاریں شمالی علاقوں میں واقع ہیں۔ان کی تاریخ کا یہ حصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ وَنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ (الکھف19:) یعنی انہیں آئندہ دائیں اوربائیں یعنی مشرق ومغرب میں پھرائیں گے ۔ اوربوقت ہجرت اُن سے یہ وعدہ کیا گیا تھا۔ فَأْوُوْا اِلَی الْکَھْفِ یَنْشُرْ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ رَحْمَتِہٖ وَ یُھَيِّئْ لَکُمْ مِنْ اَمْرِکُمْ مِرْفَقًا۔ (الکھف17:) جائو پنا ہ لوغار میں تمہارا رب تمہیں اپنی رحمت سے پھیلائے گا اورتمہارے لئے آسائش کا سامان مہیا کرے گا۔ چنانچہ غاروں کی زندگی سے نکل کر وہ تمام دنیا میں پھیل گئے۔ اور سورۂ کہف میں یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ جب عیسائیوں کو آزادی حاصل ہوئی اوروہ غار والی زندگی سے نکلے تو شروع میں قلت خوراک کا انہیں احساس پیدا ہوا اورباہمی مشورہ کے بعد قرار پایا کہ اپنے میں سے کسی کو باہر بھیجا جائے جو عمدہ اناج شہر سے لے آئے۔یورپ کے شمالی حصوں میں بسنے والی عیسائی قوموں کی تاریخ کا یہ حصہ نہایت ہی حیرت انگیز ہے۔اس کے متعلق ضخیم کتابیں لکھی ہوئی موجود ہیں۔شروع میں خوراک کی قلت پاکر انہیں باہر سے سامان خوراک لانے کا خیال پیداہوا۔ چنانچہ تجارت کی غرض سے وہ باہر نکلیں اوریہی راز ہے ان عیسائی قوموں کی ساری ترقی کا۔یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایشیا کے ممالک میں بھی وہ تاجرانہ حیثیت سے داخل ہوئے اورامریکہ میں بھی جب وہ گئے توابتدا میں گو اُن کے وہاں جانے کا باعث مذہبی اختلاف ہوا مگر بعدمیں امریکہ کی استعمار اور وہاں سے سامان خوراک وغیرہ لانے کی غرض سے تجارتی کمپنیاں قائم ہوئیں ۔ممالک یورپ کی شمالی اقوام خواہ انہوں نے ایشیا اورافریقہ کے براعظموں کا قصد کیا، خواہ امریکہ کی نئی دُنیا کا، تاجرانہ اغراض سے نکلیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے صنعت کاری کی طرف بھی توجہ کی۔ یہ عیسائی اقوام بیرونی دنیا کاخام مال خرید کر صنعت کاری کی چیزیں اس کو مہیا کرتے ہوئے دولتمندسے دولتمندہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ یورپ وامریکہ کی کایاہی پلٹ گئی اوریہ قومیں سب دُنیا پر چھاگئیں اور اب ہمارے زمانہ میں ان قوموں کے درمیان جو خطرناک کشمکش قائم ہے اس کے پیچھے بھی یہی تجارتی رقابت کارفرماہے۔ عیسائی قوموں کی تاریخ کایہ حصہ جونہایت ہی دلچسپ ہے۔ پڑھ کر حیرت آتی ہے کہ نُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ۔(الکھف19:)یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(الکھف105:) کافرمودہ کس وضاحت سے ان قوموں کے حق میں صادق آیا۔اطراف عالم میں ان کے پھیلنے اوران کی خارق عادت ترقی کا بڑا باعث ان کی تجارت اوران کی صنعت کاری او رایجاد کردہ وسائل نقل وحرکت ہی ہیں۔ ان وسائل میں سے سب سے پہلی ایجاد ریل کی ہے۔آنحضرت ﷺ نے دیکھاتھا کہ دجال سفید گدھے پرسوار ہے جو بہت تیز رفتار ہے۔اس کے دوکانوں کے درمیان 70گزکافاصلہ ہے۔ یہ بات بھی ریل پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ انجن ڈرائیور اور گارڈ کے ڈبوں کے درمیان جو انتطام مواصلات اورپیغام رسانی کاایجاد کیاگیا ہے وہ کانوں ہی کا قائم مقام ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ الفرقان۔ فروری، مارچ، اپریل 1953ء وماہنامہ الفرقان۔ جولائی1953ء)
… … … … …
(باقی آئندہ)