اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ (ایک تجزیہ) (قسط نمبر 6)

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں دوسری آئینی ترمیم کا ذکر۔ جعلی حوالوں سے جعلی حوالوں تک

اس تفصیلی فیصلہ میں 1974ءمیں ہونے والی دوسری آئینی ترمیم کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔یہ وہ ترمیم ہے جس میں احمدیوں کو قانون اور آئین کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔اور جماعت احمدیہ ہمیشہ سے اس فیصلہ کو مسترد کرتی آ رہی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے دوسری آئینی ترمیم کو اپنے اس فیصلے کا جواز قرار دیا ہے۔ اس لئے اس فیصلہ کے اُس حصے کا تجزیہ زیادہ ضروری ہے جس میں دوسری آئینی ترمیم اور اس کے منظور ہونے کا ذکر ہے۔اس مضمون میں 1974ء کے تمام حالات کا ذکر نہیں کیا جا رہا ۔صرف عدالتی فیصلہ کے ان حصو ں کا تجزیہ کیا جا رہا ہے جن میں دوسری آئینی ترمیم کا ذکر ہے۔

فیصلہ میں اللہ وسایا صاحب کا ذکر

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اس مقدمہ کے ایک درخواست گزار اللہ وسایا صاحب تھے۔ ان کا تعارف اس فیصلہ میں ان الفاظ میں کرایا گیا ہے۔

"Maulana Allah Wasaya, Petitioner in W.P.No. 3862/2017, is a renowned religious scholar, author of many famous books on different subjects of Islam”

ترجمہ: مولانا اللہ وسایا صاحب درخواست گزار W.P.No. 3862/2017 ایک نامور مذہبی سکالر ہیں ، جنہوں نے مختلف اسلامی موضوعات کے بارے میں بہت سی کتب لکھی ہیں۔اس کے بعد اس فیصلہ میں ان کی ایک کتاب ” پارلیمنٹ میں قادیانی شکست” کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ کتاب دوسری آئینی ترمیم کے بارے میں ہے۔ ہم اس کتاب کا مختصر تعارف کرائیں گے جس کے بعد مصنف کا زیادہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

2000ءمیںاللہ وسایا صاحب نے ایک کتاب "پارلیمنٹ میں قادیانی شکست ” کے نام سے شائع کی۔ اور اس کے سرورق پر لکھا تھا ” قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی مکمل روداد” صاف ظاہر ہے کہ وہ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ پندرہ روز کی حرف بحرف مکمل کارروائی ہے۔اب یہ واضح کرنا تھا کہ 2000 ءتک تو یہ کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی انہیں یہ ‘مکمل’ مواد کہاں سے ملا کہ انہوں نے شائع کر دیا۔انہوں نے کہا کہ پہلے چند ممبران ِ اسمبلی کو جو روزانہ کی کارروائی دی جاتی تھی وہ ان ممبران نے اللہ وسایا صاحب کو دے دی تھی اور ان کے پاس محفوظ تھی اور اس کے بعد جنوبی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے والے ایک مقدمہ کے لئے جنرل ضیاء صاحب نے پاکستانی وفد کو اس کارروائی کی مکمل کاپی فراہم کردی جو کہ اللہ وسایا صاحب کے پاس آ گئی گویا دوہری تصدیق ہو گئی۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک فائل کور کی کاپی بھی شائع کی تاکہ یقین ہوجائے کہ یہ اصل اور مکمل کارروائی شائع کی جا رہی ہے ۔ اور یہ پندرہ روز کی کارروائی جو کہ اکثر صبح سے شام تک چلتی تھی اس کتاب کے 287صفحات پر آ گئی۔ ابھی اس کتاب کے قصے چل رہے تھے کہ اچانک لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والے ایک مقدمہ کے نتیجے میں قومی اسمبلی کو 1974ءمیں بننے والی سپیشل کمیٹی کی کارروائی شائع کرنی پڑی۔جو کارروائی اللہ وسایا صاحب نے 287صفحات پر شائع کر کے اسے مکمل قرار دیا تھا، زیادہ بڑے کاغذوں پر 3085صفحات کے حجم کی تھی۔ یعنی اللہ وسایا صاحب نے 10فیصد سے بھی کم کارروائی کو مکمل کارروائی قرار دے کر شائع کیا تھا۔ اور وہ بھی جگہ جگہ پر واضح طور پرتبدیل کر کے شائع کی تھی ۔ اس کا یہی مطلب نکل سکتا ہے کہ 90فیصدسے زیادہ کارروائی ایسی تھی جس کو شائع کرتے ہوئے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین شرمندگی محسوس کرتے تھے۔

جب اس بات کے چرچے شروع ہوئے تو اللہ وسایا کی کتاب نے ایک اور جنم لیا اور وہی کارروائی جو کہ پہلے انہوںنے 287صفحات پر شائع کی تھی 2952 صفحات پر” قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ "کے نام سے شائع کر کے شرمندگی مٹانے کی کوشش کی۔ گویا یہ عملی طور پر اس بات کا اقرار تھا کہ انہوںنےپہلے جعلی کارروائی شائع کی تھی۔

یہ بھی واضح ہو کہ جو کارروائی قومی اسمبلی کی طرف سے شائع کی گئی اور جو مولوی حضرات نے شائع کی ، ان دونوں میں جماعت ِ احمدیہ کا موقف جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے دو روز کی کارروائی کے دوران پڑھا تھا اور ایک محضرنامے کی صورت میں سب ممبران میں تقسیم بھی کیا گیا تھا شامل نہیں کیا گیا ۔ یعنی یہ کارروائی جماعت ِ احمدیہ کے موقف کے بغیر شائع کی گئی ہے ۔ مخالفین ِجماعت نے جو ضمیمے جمع کرائے تھے وہ تو شائع کئے گئے لیکن جماعتِ احمدیہ نے جو ضمیمے جمع کرائے تھے انہیں اشاعت میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے زیادہ تحریف کیا ہو سکتی تھی؟

بہر حال یہ حقیقت ہے ان صاحب کی دیانتداری کی جنہیں عدالتی فیصلہ میں ‘ نامور سکالر ‘ قراردیا گیا ہے۔
اور جب جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے یہ حقیقت ِ حال شائع کی گئی تو اللہ وسایا صاحب بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے یا اپنے موقف کے حق میں کوئی دلیل پیش کرتے الٹا کوسنے دینے پر اُتر آئے ۔ اور انہوں نے اپنی کتاب ‘قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پربحث کی مصدقہ رپورٹ ‘ میں لکھا "حکومتی سطح پر اس کارروائی کے اوپن ہوتے ہی قادیانیوں نے ایک کتاب شائع کی ۔ ‘خصوصی کمیٹی میں کیا گذری’۔کتاب کیا ہے ۔تمسخر ، بد کلامی اور پھبتیوں کا مجموعہ ۔’

[قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ ۔جلد اول۔مرتب اللہ وسایا صاحب۔ ناشر عالمی مجلس ختم ِ نبوت ملتان ۔ستمبر2013ص18]۔

بڑے ادب سے عرض ہے کہ سوال تو یہ اُٹھایا گیا تھا کہ پہلے آپ نے اس کارروائی کی مکمل رپورٹ شائع کی جو کہ 287صفحات پرمشتمل تھی۔پھر آپ نے ہی یہ مکمل کارروائی شائع فرمائی جو کہ اچانک 2900صفحات سے بھی زیادہ کی ہو گئی۔ ان میں سے کون سی جعلی ہے اور کون سی اصلی؟ بس اس کا جواب مرحمت فرمادیں۔ لیکن اللہ وسایا صاحب نے یہ مہربانی کرنے کی بجائے اس دوسری اشاعت کی جلد اول کے صفحہ 19پر یہ عذر پیش کیا۔’’قادیانیوں نے اس کتاب میں کیا کہا۔ اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔‘‘ اور اس کے علاوہ وہ کوئی جواب پیش نہیں فرما سکے۔حقائق درج کر دیئے گئے ہیں پڑھنے والے خود فیصلہ فرما سکتے ہیں۔

عدالتی فیصلہ میں شورش کاشمیری صاحب کا ذکر

عدالتی فیصلہ میں،اس دور میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک اور صاحب کی قلمی کاوشو ں کی بھی بہت تعریف کی گئی ہے۔ اس فیصلہ کے صفحہ50پر لکھا ہے

"The credit also goes to the weekly Chattan, Lahore for its bold criticism and exposition of Qadiani intrigues despite stern warning of the Home Department and arrest of its valiant editor, Agha Shorish Kashmiri. He boldly faced all.”

ترجمہ: دلیرانہ تنقید اور قادیانیوں کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے اس کا سہرا ہفتہ وار ‘چٹان’ لاہور کو جاتا ہے۔ باجود اس کے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اسے سخت انتباہ بھی بھجوایا تھااور اس کے بہادر ایڈیٹر آغا شورش کا شمیری کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔انہوں نے دلیری سے ان حالات کا سامنا کیا۔

جب کسی مصنف کی قلمی کاوشوں کا اور اس کے رحجانات کا جائزہ لیا جائے تو مناسب ہوتا ہے کہ اس کی قلمی زندگی کے آغازسے جائزہ لینا شروع کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ شورش کاشمیری صاحب نے پاکستان بننے کے بعد جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بہت کچھ لکھا لیکن ان کے قلمی معرکے تو پاکستان بننے سے پہلے شروع ہو چکے تھے لیکن اس وقت ان کا مرکز جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت اتنی نہیں تھی۔ جب1944ءمیں پاکستان کے حصول کے لئےمسلم لیگ کی کاوشیں عروج پر تھیں ، اُس وقت شورش کاشمیری صاحب نے خطبات ِ احرار جلد اول مرتب کر کے شائع کی اور اس کا طویل دیباچہ بھی لکھا۔ اس کا ناشر مکتبہ احرار تھا ۔ مسلم لیگ اور قائدِ اعظم کے بارے میں اس کتاب کے چند جملے ملاحظہ ہوں۔

” مگر بطور جماعت خود خائف رہنا اور اپنی قوم کو ہندو سے خوف دلانا لیگ کا فلسفہ حیات ہے۔یہ دشمنوں کی کوششوں سے بڑھ کر اسلام دشمنی ہے۔” (صفحہ 20)

قائد ِ اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت کے بارے میں لکھا ہے :

"لیگ کے ارباب ِ اقتدار جو عیش کی آغوش میں پلے ہیں۔ اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے۔مردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانی اقدام کی توقع رکھنا ۔” [صفحہ 22]

” احرار اس پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں جہاں امراء بھوک کو چورن سے بڑھاتے ہوں اور غریب غم کھاتے ہوں۔” [صفحہ 83]

"بے عملی کے باعث لیگی عمارت ریت کی دیوار پر ہے ۔مگر کانگرس قوتِ عمل کے باعث ہندو کا مضبوط قلعہ ہے۔”[صفحہ 92]

” پاکستان کی تحریک مکانی لحاظ سے نہیں بلکہ زمانی لحاظ سے شرانگیز ہے۔” [صفحہ 42]

"احرار کا وطن لیگی سرمایہ دار کا پاکستان نہیں۔” [صفحہ 99]

ان حوالوںسے بخوبی اندازہ ہوجاتاہےکہ پاکستان کی آزادی سے قبل شورش کاشمیری صاحب کیا خدمات سرنجام دے رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ ہمت تو نہیں رہی کہ کھلم کھلا پاکستان اور پاکستان کی حکمران جماعت کے خلاف اپنی خدمات جاری رکھ سکیں چنانچہ توجہ کا مرکز زیادہ تر جماعت ِ احمدیہ ہی رہ گئی۔جیسا کہ 1953ءکے فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ صرف شورش کاشمیری صاحب کو ہی نہیں مجلسِ احرار کو بھی اس مسئلہ کا سامنا تھا کہ وہ لوگوں کی نظر میں گرِ گئے تھے اور اب وہ کوئی مسئلہ چھیڑ کر لوگوں کی نظر میں مقبول بننا چاہتے تھے ، اس لیے انہوں نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مہم شروع کی۔

اس فیصلہ کے صفحہ 52تا57 پر تفاصیل درج کی گئی ہیں کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنے رسالہ چٹان میں مضامین لکھے، اُس وقت بھٹو صاحب کو کھلا خط لکھا اور عرب ممالک کے سربراہاں کو بھی خطوط لکھے۔اور ‘ تحریک ِ ختم ِ نبوت ‘اور ‘ عجمی اسرائیل ‘ جیسی کتب لکھیں ۔ اور ان کا لُبِّ لباب یہ تھا کہ قادیانی یہودیوں اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔مغربی طاقتوںکےایجنٹ ہیں۔ان کا مشن اسرائیل میں کیا کر رہا ہے؟یہ لوگ مسلمان ممالک میں خفیہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن سے مسلمان ممالک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔یہ سیاسی جماعت ہے ان پر پابندی لگانی چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن جسٹس شوکت عزیز صاحب نے اپنے فیصلہ میں ایک چیز کا ذکر نہیں فرمایا اور وہ یہ کہ شورش کاشمیری صاحب کی تحریر کردہ یا مرتب کردہ کتب میں بہت سے مسلمانوں اور ان کی جماعتوں کو کسی نہ کسی کا ایجنٹ اور آلۂ کار قرار دیا گیا ہے۔ یا انہیں یہ الزام دیا گیا ہےکہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور اسلام کے دشمنوں کے سامنے سر جھکایا۔فہرست ملاحظہ ہو:

1۔صحابہ میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر الزام کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جنگ کرانے کی کوشش کی

[خطبات ِ احرار جلد 1صفحہ 151]۔

2۔ جب مسلم لیگ 1944ءمیں پاکستان کے قیام کی جنگ لڑ رہی تھی تو اس پر الزام کہ مسلم لیگ والے اصل میں انگریزوں کے وہ ایجنٹ ہیں جنہوں نے نقاب اوڑھی ہوئی ہے۔

[خطبات ِ احرار جلد 1 صفحہ 20]۔

3۔ انیسویں صدی میں مکہ مکرمہ کے حنفی ، مالکی اور شافعی مفتیان کو انگریزوں نے استعمال کر کے ان سے تنسیخ ِ جہاد کے فتاویٰ حاصل کئے اور کلام اللہ کا مطلب بدلوایا۔

[تحریکِ ختم نبوت از شورش کا شمیری،ناشر مطبوعات ِ چٹان مئی 1990ءصفحہ 14]

4۔ اہلِ حدیث میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے جہاد کو منسوخ قرار دیا اور زمین انعام میں حاصل کی

[تحریکِ ختم نبوت صفحہ16]

5۔ علیگڑھ کالج بنانے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمن سےاپنے کالج کا سنگِ بنیاد رکھوایا۔

[تحریکِ ختمِ نبوت صفحہ17]۔

7۔ مفتی محمود صاحب کی جمیعت العلماء ِ اسلام پر یہ الزام کہ وہ قادیانیوں کا بغل بچہ ہیں اور ان کے جلسے بھی قادیانیوںکےچندے سے ہوتے ہیں۔

[چٹان20 ؍ جولائی1970ء صفحہ4،6،چٹان17؍ اگست 1970ء صفحہ4،چٹان27 ؍جولائی1970ء صفحہ6]

تو جہاں تک ایجنٹوں کا تعلق ہے ان کی جو لسٹ شورش کاشمیری صاحب نے بنائی تھی وہ تو بہت طویل تھی۔
عدالتی فیصلہ میں ان کی کتاب ‘ عجمی اسرائیل ‘ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں شورش صاحب نے جماعت ِ احمدیہ پر الزام لگاتے ہوئےکس طرح کے ثبوت دیئے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ اس وقت میرے سامنے وہ کتاب نہیں،مصنف اور کتاب کا نام بھی یاد نہیں آرہا۔پاکستان کے ایک بڑے افسر عاریتاََ لے گئے ۔پھر اپنی نظر بندی کے باعث میں ان سے یہ کتاب واپس نہیں لے سکا۔‘‘

(عجمی اسرائیل بار دوئم صفحہ18)

بہت خوب! کیا زبردست ثبوت پیش کیا جا رہا ہے؟ کتاب کا نام کیا ہے؟ یہ تو معلوم نہیں۔کس نے لکھی؟ یاد نہیں رہا۔کتاب کہاں ہے؟ وہ تو اَب میرے پاس نہیں ۔شورش صاحب کی کتاب کے کئی ایڈیشن چھپ گئے لیکن یہ کتاب دستیاب نہ ہوئی نہ اس کا نام سامنے آیا۔

پھر وہ اگلے صفحہ پر اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جماعت ِ احمدیہ کو انگریزوں نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا کیونکہ انہیں ایک ‘حواری نبی ‘ کی ضرورت تھی۔ اور وہ ایک ایسی پُر اسرار رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جو شائع بھی ہو چکی تھی اور اس کا نام تھا

” The Arrival of British Empire in India”

اور شورش صاحب نے یہ دل دہلا دینے والا انکشاف کیا کہ اس رپورٹ کو پڑھ کر سارے راز کھل جاتے ہیں۔ لیکن اس دستاویز کا حوالہ یا ثبوت کیا ہے؟ کیا یہ کہیں شائع ہوئی تھی ؟یا اس کے مندرجات کسی کتاب یا جریدہ میں شائع ہوئے تھے ؟ یا یہ کسی لائبریری یا ARCHIVES میں موجود ہے؟ نہ تو شورش صاحب نے بیان کیا اور جب مفتی محمود صاحب نے1974 ءمیں اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف تقریر کی تو انہوں نے بھی ‘عجمی اسرائیل ‘ کا حوالہ دیا اور اس راز سے پردہ نہ اُٹھایا کہ یہ کتاب یا دستاویز کس نے دیکھی ؟ کہاں دیکھی ؟ کہاں پر موجود ہے۔

پھر جب سالہا سال کے بعد جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین پر دباؤ بڑھا کہ اس سنسنی خیز دستاویز کا انہیں کہاںسے علم ہؤا توپھراپنی خفت مٹانے کےلیے روزنامہ نوائے وقت مورخہ7ستمبر2011ءمیںشائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ دستاویزانڈیاآفس لائبریری میں آج تک موجود ہے۔ اس انکشاف سے سب محققین کو خوشی ہوئی کہ اس لائبریری میں موجود ریکارڈ تک تو پبلک کو رسائی ہے، اب یہ دستاویز شائع ہو جائے گی۔ لیکن اس ضمن میں دو اہم پہلو جان کر سب کو حیرت ہو گی۔

1۔قارئین کویہ جان کے حیرت ہو گی کہ 1982ء میں انڈیا آفس لائبریری کو ختم کر کے اس کا سارا مواد برٹش لائبریری منتقل کر کے اس کےORIENTAL AND INDIA OFFICEکا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ گویا جب 2011ءمیں یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ یہ دستاویز آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے اس وقت انڈیا آفس لائبریری ہی موجود نہیں تھی۔

2۔بہر حال انڈیا آفس لائبریری کا ریکارڈ تو موجود تھا۔ اس لئے ہم نے متعلقہ حصہ سے رابطہ کر کے سوال کیا کہ کیا اس ریکارڈ میںTHE ARRIVAL OF BRITISH IN INDIAنام کی کوئی دستاویز موجود ہے؟چونکہ اس شعبہ میں کیے جانے والے ہر استفسار یا درخواست کو ایک نمبر دیا جاتا ہے۔یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ہمارے سوال کا نمبر7007475تھا۔جس اہلکار نے اس کا جواب دیا ان کا نام DOROTA WALKERتھا۔ ان کا جواب موصول ہؤا کہ اس نام کی کوئی دستاویز ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔ ہر کوئی متعلقہ شعبہ سے رابطہ کر کے ان حقائق کی تصدیق کر سکتا ہے۔

3۔ راقم الحروف خود بھی برٹش لائبریری جا کر جائزہ لے چکا ہے۔ یہ ساری کہانی جھوٹ پر مشتمل ہے۔ اس نام کی کسی دستاویز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اگر اب بھی کسی کا خیال ہے کہ اس کا وجود تھا؟ تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا ثبوت مہیا کرے۔

یہ چیلنج تحریری طور پر ، انٹرنیٹ پر، ٹی وی پر،یُو ٹیوب پر بارہادیاجا چکا ہے۔ آخر مخالفین ِ جماعت اس ذکر سے اتنا گھبرا کیوں رہے ہیں ؟اس ‘طلسماتی دستاویز کا ذکر تو پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں بھی ہوا تھا۔ آخران مخالفین نے یہ دستاویز کہاں پر دیکھی تھی؟ ہم یہ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں کہ جس کتاب میں اس طرز پر جعلی حوالے دیے گئے ہوں اسے کسی ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ نہیں!

الزام لگانے والوں پر خود ایجنٹ ہونے کا الزام تھا

شاید شورش کاشمیری صاحب اور مجلسِ احرار کے دوسرے عمائدین کی یہ مجبوری بھی تھی کہ وہ دوسروں کو کبھی اِس کا اور کبھی اُس کا ایجنٹ قرار دیں کیونکہ یہ الزام اصل میں اُن پر آ رہا تھا۔چنانچہ1953ءکے فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق جماعت ِ احمدیہ کے خلاف شورش کے دوران سی آئی ڈی نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ آزادی سے پہلے تو احرارکے کانگرس سے تعلقات تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی ان میں سے بعض کانگرس کے وفادار ہیں اور پاکستان کے غدّار ہیں۔

اس تحقیقاتی عدالت میں اس بات کے ثبوت ملے تھے کہ مجلسِ احرار کے کم از کم ایک لیڈر کو کانگرس کے بودھ چندر صاحب نے ایک ہوٹل بغیر قیمت کے بھی دیا تھا۔اور خود شورش کاشمیری صاحب نے اپنی ایک کتاب میں اعتراف کیا تھا کہ بھارت کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر نے 1956ءمیں انہیں یاد فرمایا تھا تو وہ اُن سے ملنے دہلی گئےتھے۔اور شورش کا شمیری صاحب نے بھارت کے ان سینئر وزیر صاحب سے پاکستان کے اندرونی حالات پر طویل گفتگو بھی کی تھی۔یہ تو ہر ایک کا حق ہے کہ جس سیاسی جماعت کو پسند کرے اُس سے وابستہ رہے مگر اس ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اُس وقت شورش کاشمیری صاحب اور ان جیسے احرار پر اس قسم کے الزام لگ رہے تھے۔ تو شاید ان الزامات سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہوں نے یہ تدبیر نکالی ہو کہ جماعت ِ احمدیہ پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر لوگوں کی توجہ دوسری طرف کردیں۔مختصر یہ کہ جس شخص کی کتاب کو بنیاد بنا کر احمدیوں پر اسرائیل کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے ، اس کی جماعت پر خود ایجنٹ ہونے کا الزام تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لگایا گیا تھا۔

[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب 1953ءصفحہ49و12]

[ابوالکلام آزاد سوانح و افکار از شورش کاشمیری فروری 1988ءمطبوعات چٹان لاہورصفحہ 234]

فیصلہ میں 1974ءکے فسادات کے آغاز کا ذکر

اس عدالتی فیصلہ میں جب وہ مرحلہ آیا کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فسادات شروع ہوئے تھے تو شاید ان فسادات کا جواز ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ جب 29مئی 1974ءکو ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر ربوہ کے لڑکوں اور نشتر میڈیکل کالج کے طلباء میں تصادم ہوا تو 50 طلباء بری طرح زخمی ہوئے اور ان میںسے13کی حالت Serious[خطرناک] تھی[صفحہ56]۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے بار بار 1974ءمیں ہونے والی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کا حوالہ دیا ہے ۔جب 6؍اگست کی کارروائی ہو رہی تھی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس بات کی نشاندہی فرمائی تھی کہ ربوہ کے سٹیشن کے واقعہ میں صرف تیرہ بچوں کو ضربات ِ خفیفہ آئی تھیں۔اوراس کے بعد احمدیوںکے سینکڑوں مکانوں اور دکانوں کو جلا دیا گیا ہے۔اس وقت یقینی طور پر حکومت کے پاس ان زخمیوں کے بارے میں حکومت کے اپنے ڈاکٹروں کی رپورٹ آ چکی تھی ۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو ناممکن تھا کہ اسی وقت اس بیان کی تردید نہ کر دی جاتی۔ لیکن اس کےجواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا۔

"I agree with you they should be punished”

ترجمہ: میں آپ سےمتفق ہوں۔انہیں سزا ملنی چاہئے…

Proceedings of The Special Committee of the Whole House Held In Camera To Consider Qadiani Issue. 6 th August 1974 p 249

اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصل میں اس واقعہ میں صرف تیرہ افراد کو ضربات ِ خفیفہ لگی تھیں ۔ اس عدالتی فیصلہ میں زخمیوں کی حالت اور تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

عدالتی فیصلہ کے صفحہ56سے صفحہ59تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ29مئی کے بعد حکومت نے بڑی کوشش کی کہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں نہ پیش ہو لیکن لوگوں کے ردِّ عمل نے دبائو ڈالا اور اپوزیشن نے جان فشانی دکھائی تب جا کر حکومت مجبور ہوئی کہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش ہو۔ اور جماعت ِ احمدیہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا اور ان کا موقف سنا گیا اور سوال جواب ہوئے تب قومی اسمبلی کے اراکین اس نتیجہ پر پہنچے کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس وقت اپوزیشن نے پہلی مرتبہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کی اُس وقت بجٹ پر بحث ہو رہی تھی اور حکومت کا موقف یہ تھا کہ جب بجٹ پر بحث ختم ہو جائے گی تب یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔30 جون کوبجٹ کی بحث کے ختم ہوتے ہی اپوزیشن نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے اپنی قرارداد پیش کی اور وزیرِ قانون نے کہا کہ ہم اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتےبلکہ خیر مقدم کرتے ہیں۔اُس وقت وزیرِ اعظم ایوان میں موجود تھے۔ ابھی تو جماعت ِ احمدیہ کا موقف پیش بھی نہیں کیا گیا تھا

[نوائے وقت یکم جولائی 1974ءصفحہ1،Dawn,1st July 1974p1]۔

اس سے بھی قبل اپریل1974ء میں رابطہ عالم ِ اسلامی کا اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوا اور اس میں احمدیوں کے بارے میں یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ ان کے کفر کا اعلان کرنا چاہیے اور اس پر پاکستان کے فیڈرل سیکرٹری ٹی ایچ ہاشمی صاحب نے بھی دستخط کئے۔

ڈاکٹر مبشر حسن صاحب جو اُس وقت وزیرِ خزانہ تھے اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں۔وہ اپنے ریکارڈ سے ایک کاغذ کےمندرجات لکھتے ہیں جس پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تین وزیروں نے کچھ نہ کچھ لکھا تھا۔یہ اعلیٰ کا سطح اجلاس یکم جولائی 1974ءکو ہوا تھا۔ اس پر اُس وقت کی حکومت کے سیاسی مخالفین کی فہرست بھی درج ہے۔ یہ فہرست ملاحظہ ہو۔ولی خان ، مفتی محمود ، جماعت ِ اسلامی ، نصراللہ ، قادیانی ،ہڑتال کرنے والے مزدور ۔ڈاکٹر مبشر حسن صاحب تبصرہ کرتے ہیں کہ قادیانی ہمارے دوست تھے لیکن جب ہم نے آئین میں ترمیم کر کے انہیں غیر مسلم قرار دیا تو وہ ہمارے دوست نہ رہے۔

بہت خوب ! مکرم ڈاکٹرمبشر حسن صاحب پاکستان کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہانت سے بھی نوازا ہے۔ لیکن وہ معصومیت میںبہت اہم انکشاف کر گئے ہیں۔ ذرا تاریخ پر غور کریں۔ آئین میں دوسری ترمیم تو 7 ستمبر 1974ءکو ہوئی تھی ۔ یکم جولائی تک تو ابھی سپیشل کمیٹی کی کارروائی بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ابھی توجماعتِ احمدیہ کی طرف سے محضرنامہ بھی نہیں پیش ہوا تھا۔ اور یکم جولائی سے ہی آپ نے اس وجہ سے کہ آپ نے آئین میں ترمیم کر کے بزعم ِ خود جماعت ِ احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اپنے سیاسی مخالفین کی فہرست میں بھی شامل کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان تمام حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا ۔ یہ طویل کارروائی جسے اتنے سال خفیہ بھی رکھا گیا صرف دکھانے کے لئے تھی ۔

The Mirage of Power By Doctor Mubashir Hassan , published by Jamhoori Publication 2000 p 253

بیرونی ہاتھ

ظاہر ہے اگر یہ بات درست ہے کہ یہ فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا تو پھر یہ سوال تو اُٹھے گا کہ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا تھا؟ مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کافی عرصہ بعد اس راز سے پردہ اُٹھایا ۔ انہوں نے کراچی کے ایک جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا

” Bhutto was under pressure from the Saudi King , Shah Faisal to declare the Ahmadis non-Muslim.” Newsline, Nov. 2017 p37

ترجمہ: سعودی بادشاہ شاہ فیصل بھٹو صاحب پر دبائو ڈال رہے تھے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔
شاہ فیصل کی اس خواہش کی وجہ کیا تھی؟ اس بحث میں جائے بغیر چند امور توجہ طلب ہیں۔کسی بھی ملک میں جب آئینی ترمیم کی جائے تو یہ فیصلہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ خود مختار ممالک آزادانہ طور پر یہ فیصلہ خود کرتے ہیں۔اور کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ جمہوری طرز پر کیا گیا تھا۔ کیا جمہوری ممالک اپنے آئین میں ترامیم دوسرے ممالک سے مالی مدد کے عوض کرتے ہیں۔؟ اور ملک بھی وہ جہاں خود جمہوریت کا وجود نہ ہو۔

اگر اس مداخلت کو قبول کرنے کی وجہ وہ مالی مدد نہیں تھی جو کہ سعودی عرب سے لینی مقصود تھی تو کیا تھی؟ اگر سعودی مدد کے عوض یہ خدمت کی گئی تھی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیاتو ایسا کرنا پاکستان کی خود مختاری کو فروخت کرنے کے مترادف تھا۔

شاید اس دعوے کو کوئی شخص محض Conspiracy Theory قرار دے ۔ تو ایک اور بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں تھا جس کے آئین میں اپنی مرضی کی مذہبی نوعیت کی تبدیلیوں کے لئے سعودی عرب کے شاہ فیصل نے دبائو ڈالا تھا۔

بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون کمال حسین صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ستمبر 1973ءمیں الجزائر میں بنگلہ دیش کے وزیر ِ اعظم شیخ مجیب الرحمن صاحب اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل کے درمیان ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں شاہ فیصل نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اس مدد کے حصول میں سہولت ہو جائے گی اگر بنگلہ دیش اپنے آئین میں جو سیکولر شقیں ہیں ، ان پر نظر ِ ثانی کرے۔ کمال حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن صاحب نے ثابت قدمی سے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور بنگلہ دیش کے آئین میں ان شقوں کی شمولیت کی وجہ بیان کی۔ پاکستان کے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

پھر نومبر1974ءمیں سعودی عرب میں کمال حسین صاحب اور شاہ فیصل کی ملاقات ہوئی ۔ اس میں شاہ فیصل نے ان سیکولر شقوں کا مسئلہ دوبارہ اُٹھایا اور کمال حسین صاحب کو ان شقوں کی وضاحت کرنی پڑی۔
اگر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اور کمال حسین صاحب کے بیانات قبول کئے جائیں،اور بظاہر قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، تو یہ صورت ِ حال سامنے آتی ہے کہ اُس وقت ایک سے زائد ممالک میں یہ عمل جاری تھا۔

(Bangladesh Quest for Freedom and Justice, by Kamal Hossain, published by Oxford University Press,p 191 -194)

اس فیصلہ میں بہت سے تاریخی واقعات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔جماعت کے خلاف چلنے والی شورش کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔اپوزیشن کی قرارداد کا ذکر بھی تفصیل سے ہے۔ لیکن جب اسمبلی کی اُس کارروائی کا مرحلہ آتاہے جب امام جماعت ِ احمدیہ نے محضرنامہ پڑھا تھا تو یہ ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ جماعت ِ احمدیہ کا موقف کیا تھا؟

جب جماعت ِ احمدیہ کے وفد سے سوال وجواب کا طویل سلسلہ چلا تو اس ذکر کو مختصر کرکے سیدھا اٹارنی جنرل صاحب کی آخری تفصیلی تقریر کا ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ قومی اسمبلی نے یہ طے کیا تھا کہ سپیشل کمیٹی اس بات پر غور کرے گی کہ اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ سمجھتا ہو؟ اور قواعد کی رو سے یہ سپیشل کمیٹی اس بات کی پابند تھی کہ اس سوال پر کارروائی چلائے ۔لیکن جماعت ِ احمدیہ کا محضرنامہ سننے کے بعد اٹارنی جنرل صاحب اور ممبران ِ اسمبلی نے یہی مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر سوال و جواب کا سلسلہ نہ ہی چلایا جائے تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ اتنے روز غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کیا گیا۔

غلط حوالے

اس فیصلہ میں اس ذکر سے بچنے کی ایک اور وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب جو سوالات پڑھ رہے تھے ان کی بنیاد کچھ حوالوں پر تھی جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے لٹریچر سے پیش کئے جا رہے تھے ۔ لیکن ان میں سے کئی حوالےساری کارروائی میں غلط ثابت ہوتے رہے۔ یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ اس تواتر کے ساتھ یحییٰ بختیار صاحب نے غلط حوالے کیوں دیئے۔ یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انہیں سوالات مہیا کرنے والے ممبران اور علماء نے اتنے غلط حوالے کس طرح مہیا کئے۔ علماء اور وکلاء کی ایک لمبی چوڑی ٹیم دن رات کام کر رہی تھی۔ان کو لائبریرین اور عملہ بھی مہیا تھا۔ اور انہیں تیاری کے لئے کافی وقت بھی دیا گیا تھا ۔جماعت ِ احمدیہ کے وفد کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا سوال کیا جائے گا جبکہ سوال کرنے والے اپنی مرضی سے سوالات کرتے تھے۔پھر بھی مسلسل ان کے پیش کردہ حوالے غلط نکلتے رہے اور یہ عمل اتنے دن بغیر کسی وقفہ کے جاری رہا۔اگر سوالات میں پیش کئے گئے حوالے اس طرح غلط نکل رہے ہوں تو سوالات کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔نہ معلوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا تصرف تھا کہ آخر تک یہ لوگ اس بنیادی نقص کو دور ہی نہ کر سکے۔

خاکسار نے اس سلسلہ میں مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے انٹرویو بھی لیا تھا ۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اس وقت بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ تھے اور قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔جب ہم نے اس بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے کمال قولِ سدید سے جواب دیا:

’’یہ ہوا ہی کرتے ہیں۔ دن رات ہوتا ہے۔یحییٰ بختیار بیوقوف آدمی تھا ۔بالکل جاہل۔ اور اس کو تو جو کسی نے لکھ کر دے دیا اس نے وہ کہہ دیا۔‘‘

جب یہ سوال اس اضافہ کے ساتھ دہرایا گیا کہ جب ان کو عملہ اور دیگر سہولیات بھی میسر تھیں تو پھر بار بار یہ غلطیاں کیوں ہوئیں؟ تو اس پر جو سوال و جواب ہوئے وہ درج کئے جاتے ہیں۔

’’ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب :ارے بابا! وہ کارروائی ساری Fictitious( بناوٹی) تھی۔

سلطان : وہ اسمبلی کی کارروائی ساریfictitious تھی؟

ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:فیصلہ پہلے سے ہوا ہوا تھا کہ کیا کرنا ہے۔[اس انٹرویو کی ریکارڈنگ محفوظ ہے]یہاںیہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ جب قومی اسمبلی کی کارروائی منظرِ عام پر آئی اور اللہ وسایا صاحب کو مجبوراََ نئی کتاب شائع کرنی پڑی تو اس کے پیش لفظ میں انہوں نے کہا کہ قادیانیوں نے حوالوں کے معاملہ میں دجل سے کام لیا ہے۔ سپیشل کمیٹی میں جو غلط حوالے پیش کئے گئے تھے ، ان کی جگہ صحیح حوالے میرے پاس ہیں اور میں بین القوسین انہیں شائع کر رہا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔[ویسے وہ یہ دعویٰ بھی پورا نہیں کر سکے] عقل اللہ وسایا صاحب کے عذر کو قبول نہیں کر سکتی۔ جب یہ کارروائی ہو رہی تھی تو جماعت ِ احمدیہ کے وفد کے سامنے اٹارنی جنرل صاحب نے جماعت کے لٹریچر سے حوالے پیش کر کے سوالات کئے اور کتابیں سامنے موجود تھیں ۔اور جو حوالے انہوں نے اپنی ٹیم کی مدد سے پیش کیے ، جماعت ِ احمدیہ نے ان سوالات پر اور حوالوں پر جواب دینے تھے۔ جب وہ حوالے غلط نکلے تو قصور اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے مولوی حضرات کی ٹیم کا ہے ۔ اگر وہ حوالے غلط تھے تو غلط حوالے پیش کرنے والوں کو ہی خفت اُٹھانی پڑے گی اور انہیں ہی قصور وار ٹھہرایا جائے گا۔

اب جبکہ اس کارروائی کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے تو انہیں خیال آیا ہے کہ اب ہم صحیح حوالےپیش کردیں گے۔یہ تو ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ کارروائی چالیس سال پہلے ہوئی اور حوالے اب پیش کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔

اور اللہ وسایا صاحب آپ تو اُس کارروائی کا حصہ ہی نہیںتھے۔ آپ کو تو یہ حق ہی نہیںکہ ان کی طرف سے حوالےپیش کریں۔اگرآپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو جماعتِ احمدیہ کے محضرنامے اور اس کے ضمیمہ جات کو سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے حصہ کے طور پر شائع کریں [جس کی ہمت آپ کو اب تک نہیں ہو رہی] لوگ خود دونوں کا موازنہ کر کے فیصلہ کرلیں گے۔

یحیٰ بختیار صاحب کی اختتامی تقریرکی عبارت تبدیل کر دی گئی

اب ہم اس ذکرکی طرف آتے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صاحب کے اس فیصلہ میں 1974ءمیں بننے والی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے کس حصہ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے؟ اس فیصلہ کے صفحہ 59پر لکھا ہے:
"whereas, Mr. Yahya Bukhtiar, Attorney General gave following historical comments on 5 & & 6th September. 1974”

ترجمہ : جبکہ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے 5اور 6 ستمبر 1974ءکو مندرجہ ذیل تاریخی تبصرہ کیا ۔
اس کے بعد اس فیصلہ کے صفحہ 59سے صفحہ 70 تک اٹارنی جنرل صاحب کی اس تقریر کا متن درج کیا گیا ہے جو انہوں نے سپیشل کمیٹی میں دوسری آئینی ترمیم کے بارے میں بحث سمیٹتے ہوئے کی تھی۔جب ہم نے اس حصہ کا مطالعہ شروع کیا تو ایک ایسی صورت ِ حال سامنے آئی جو افسوسناک ہی نہیں بلکہ المناک بھی تھی۔ایک ناقابل ِ یقین نتیجہ سامنے آ رہا تھا۔

معزز عدالت کے فیصلہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی تقریر کی عبارت کو تبدیل کر کے درج کیا گیا ہے۔ پہلے سپیشل کمیٹی میں پیش ہونے والے جعلی حوالے کیا کم تھے ؟ کہ اب اس کمیٹی کی کارروائی میں بھی تحریف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔مکمل موازنہ تو اس مضمون میں نہیں سما سکتا لیکن ہر کوئی قومی اسمبلی کی شائع کردہ کارروائی اور اس فیصلے میں درج تقریر کے متن کو پڑھ کر موازنہ کر سکتا ہے۔دونوں انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔یہ ایک طویل بحث ہو گی کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اور مقصد کیا تھا؟ ۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی بڑے پیمانے پر کی گئی ہے۔ہم صرف چند مثالوں پر اکتفا کریں گے۔جہاں اٹارنی جنرل صاحب وزیر ِ قانون کی پیش کردہ موشن پڑھتے ہیں وہاں قومی اسمبلی کی شائع کردہ کارروائی میں کمیٹی کا دائرہ کار واضح کرتے ہوئے الفاظ ہیں:

To discuss the question of status in Islam of persons

اس کو تبدیل کر کے فیصلہ میں یہ الفاظ اس طرح درج ہیں:

To discuss the position or status of a person within the frame of Islam(page 61)

وزیر ِ قانون کے موشن کے اس حصہ میں اٹارنی جنرل صاحب نے اہم قانونی سقم کی نشاندہی کی تھی ۔اس لئے الفاظ کو ہی تبدیل کر دیا گیا۔

اس تقریر میں جہاں جہاں الفاظ”Status in Islam”آتے تھے انہیں تبدیل کر کے”Position or status within the frame of Islam”کردیا گیا ہے۔ اس طرح اس سقم کو دور کرنے کی ناکام سی کوشش کی گئی ہے۔

اسی طرح اپوزیشن کے37 اراکین نے جو قرارداد پیش کی تھی اسے اٹارنی جنرل صاحب نے تقریر کے آغاز میں پڑھ کر سنایا تھا ، اس کے الفاظ بھی جگہ جگہ تبدیل کر کے اس فیصلہ میں درج کئے گئے ہیں۔
عدالتی فیصلہ میں تبدیل شدہ الفاظ اس لئے شامل کئے گئے ہیں کہ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا کہ وزیر ِ قانون کے موشن کے اندر خود تضاد موجود ہے ۔ یعنی قانونی سقم موجود ہے۔ انہوں نے کہا تھا:

“ The motion is contradiction in terms”

اس فیصلہ میں یہ الفاظ تبدیل کر کے اس طرح شامل کئے گئے ہیں:

"The motion is in itself conflicting” page 63

اسی طرح تقریر کے اس حصہ کے الفاظ بھی تبدیل کر دیئے گئے ہیں جس میں اٹارنی جنرل صاحب نے اپوزیشن کی قرارداد کے اندر تضاد کی نشاندہی کی تھی۔ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا:

“Again Sir, with all respect, the resolution moved by thirty seven members is, in my opinion, in some parts contradictory.”

ترجمہ: پھر سر! ادب سے عرض ہے کہ کہ وہ قرار داد جو کہ 37اراکین نے پیش کی ہے میرے خیال میں اس کے کچھ حصوں میں تضاد موجود ہے۔

ان الفاظ کو تبدیل کر کے اس فیصلہ میں اس طرح درج کیا گیا ہے:

"Sir, the resolution (37) presented by the members, I would say with utmost respect, that it also has some conflict.” page 63

اسی طرح اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا کہ اپوزیشن کے37اراکین نے جو قرارداد پیش کی ہے ۔ اس میں ایک طرف تو یہ کہا گیا ہے کہ قادیانیت ایک تخریبی تحریک ہے اور دوسری طرف اسی قرارداد میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو اقلیت قراردے کر ان کے حقوق محفوظ کئے جائیں ۔تو کیا آپ تخریبی تحریک کو تحفظ دیں گے۔ اگر آپ نے انہیں علیحدہ مذہب قرار دیا تو آپ کو انہیں ایک مذہب کے حقوق دینے پڑیں گے ۔اور ان حقوق کے بارے میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا:

“It is my duty to draw the attention of the honorable members of the house that if you declare a section of population as a separate religious community, then not only the constitution but even your religion enjoins upon you to respect their right to profess and practice their religion and to propagate it. I do not want to say anything more…”

ترجمہ: میرا یہ فرض ہے کہ معزز اراکین اسمبلی کو یہ توجہ دلادوں کہ جب آپ اپنی آبادی کے ایک حصہ کو علیحدہ مذہبی گروہ قرار دیتے ہیں تو نہ صرف آئین بلکہ آپ کا مذہب بھی آپ کو حکم دیتا ہے کہ اسے اپنے مذہب کا اعلان کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کو پھیلانے کی اجازت دی جائے۔میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔۔”

یہ علیحدہ بات ہے کہ جماعت ِ احمدیہ نے کبھی کسی اسمبلی یا آئین کا یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ وہ کسی گروہ کے مذہب کا فیصلہ کرے۔ لیکن آئین کی رُو سے اور اسلام کی رُو سے کسی بھی گروہ کو اگر علیحدہ مذہب تصور کیا جائے تو کم از کم یہ حقوق اُسے دینے پڑیں گے۔

ظاہر ہے کہ 1984ءمیں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف نافذ کیا جانے والا آرڈیننس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بھی ان حقوق کو سلب کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

ایک طرف تواس عدالتی فیصلہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی سپیشل کمیٹی میں آخری تقریر کو ایک تاریخی خطاب قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اسی تقریر کا یہ اہم حصہ اس عدالتی فیصلہ کی نفی بھی کرتا ہے۔چنانچہ اس مخمصے سے بچنے کے لئے ، عدالتی فیصلہ میں اس مقام پر تقریر کے الفاظ بھی بدل دیئے گئے ہیں۔چنانچہ اوپر درج کئے گئے کی جگہ یہ الفاظ درج کیے گئے ہیں:

“But it is my duty to make it clear to the worthy members that if you declare a portion of your citizen population a separate religious group, then not only your constitution but also your religion demands you to safeguard their rights; to give them their right to preach and practice their religion. I would not like to comment any further as I am very sure that there is very little time available.” page 64 & 65

اس مقام پر Propagateاور profess کے الفاظ کو نکال کر حقیقت پوشیدہ کرنے کی بہت ناکام سی کوشش کی گئی ہے۔

اسی طرح اٹارنی جنرل صاحب کی تقریر میں جہاں پر Mirza Ghulam Ahmad of Qadian کے الفاظ تھے ، ان کو بدل کر ان کی جگہ Mirza Qadianiکے الفاظ متن میں شامل کر دیئے گئے ہیں۔ اور ایسا کرنے کی وجہ ظاہر ہے۔

قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی5ستمبر کی کارروائی کے آخر پر اور 6 ستمبر کی کارروائی کے صفحہ3005سے 3049پر اٹارنی جنرل صاحب کی تقریر موجود ہے جسے دیکھ کر موازنہ کیا جا سکتا ہے۔اور اس اشاعت کے صفحہ 3047پر اٹارنی جنرل صاحب نے ایک بار پھر یہ واضح کیا تھا کہ اگر آپ انہیں اقلیت قرار بھی دے دیں تو انہیں اپنے مذہب کو Profess, practice and propagateکرنے کا آئینی حق حاصل ہے۔ اور ممبران نے آئین کی پاسداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے۔

بھٹو صاحب کی قومی اسمبلی اور پھر سپریم کورٹ میں تقریر

اور دوسری تقریر جس کا خاص طور پرجسٹس شوکت عزیز صاحب نے ذکر کیا ہے وہ اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی تقریر تھی جو کہ 7ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی میں دوسری آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل کی گئی تھی۔عدالتی فیصلہ میں صفحہ 70سے صفحہ 74تک وزیرِ اعظم کی ا س تقریر کا متن درج کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے ریکارڈسے اُس روز کی کارروائی حاصل کی گئی۔چنانچہ The National Assembly of Pakistan-Debates Vol v no.39پر 7 ستمبر1974ءکی کارروائی شائع ہوئی ہے۔ اور اس کے صفحہ565سے570پر بھٹو صاحب کی یہ تقریرموجود ہے۔

ایک بار پھر افسوس سے عرض کرنا پڑتا ہے کہ متعدد مقامات پر عبارات تبدیل کر کے اس تقریر کو اس فیصلہ میں درج کیا گیا ہے۔ یہ سوال کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟ ایک اہم سوال ہے۔ لیکن اس کا جواب ایک تفصیلی موازنہ ،قا نونی اور نفسیاتی تجزیہ کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت اہم ہے کہ ایسا کیا گیا۔اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟

ممبران ِ اسمبلی کو کارروائی پڑھائیں لیکن مکمل کارروائی پڑھائیں

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے بجا طور پر اپنے فیصلہ کے صفحہ164پر لکھا ہے:

“It would be pertinent to observe here that steps shall be taken to ensure that every parliamentarian is provided adequate awareness about the parliamentary debates and proceedings taken place during the course of passage of 2nd Constitutional Amendment.”

ترجمہ : یہ تبصرہ کرنا مناسب ہوگا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن قدم اُٹھانا چاہیے کہ ممبران ِ پارلیمنٹ کو اُن بحثوں اور کارروائی سے کافی آگہی حاصل ہو جو کہ دوسری آئینی ترمیم کو منظور کرتے ہوئے کی گئی۔

ہم کم از کم اُن کی اس بات سے متفق ہیں۔نہ صرف ممبران ِ پارلیمنٹ کو بلکہ اس ملک کے ہر پڑھے لکھے شخص کو اس بارے میں آگہی دینی ضروری ہے۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل سے پہلے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی مکمل کارروائی شائع کر ے۔اب تک جماعت ِ احمدیہ کا موقف جو کہ ایک محضرنامہ کی صورت میں دو روز اس کمیٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا، اسے تو قومی اسمبلی نے شائع ہی نہیں کیا۔

اگر ان کے نزدیک جماعت ِ احمدیہ کا موقف کمزور تھا تو پھر تو انہیں اس بات کے لئے بے تاب ہونا چاہیے تھا کہ جماعت ِ احمدیہ کا محضرنامہ شائع کریں ۔ مخالفین نے جو ضمیمہ جات جمع کرائے تھے وہ تو اس کارروائی کا حصہ بنا دیئے گئے لیکن جماعت ِ احمدیہ نے جو ضمیمہ جات جمع کرائے تھے وہ اس اشاعت کا حصہ نہیں بنائے گئے۔ ان کی اشاعت بھی تو ضروری ہے۔

محضرنامہ میں درج ایک انتباہ

آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کے محضرنامہ میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر قومی اسمبلی نے اس طرز پر مذہب میں مداخلت کی تو جو صورتیں سامنے آئیں گی وہ’’بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کاموجب ہو جائیں گی۔‘‘

اس عدالتی فیصلہ میں بھٹو صاحب اور ان کے اٹارنی جنرل یحیٰ بختیارصاحب کی تقاریر کے متن شامل کئے گئے ہیں۔خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ چند سالوں بعد ایک مقدمہ میں بھٹو صاحب ملزم کے طور پر اور یحیٰ بختیار صاحب ان کے وکیل کے طور پر پیش ہو رہے تھے ۔یہ مقدمہ نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں بھٹو صاحب کو سزائے موت سناتے ہوئے ‘نام کا مسلمان ‘ قرار دیا۔ سپریم کورٹ میں اپیل کرتے ہوئے بھٹو صاحب اور ظاہر ہے ان کے وکیل یحیٰ بختیار صاحب نے بھی اس پر شدید احتجاج کیا۔ اور سپریم کورٹ میں اپنی تقریر میں بھٹو صاحب کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہے اور کلمہ پر یقین رکھتا ہے۔اور انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ انہیں پھانسی دے دی جاتی۔

[عدالت ِعظمیٰ سے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی خطاب ، مترجم ارشاد رائو ، ناشر جمہوری پبلیکیشنز صفحہ30][بھٹو کا عدالتی قتل ، مصنفہ مجاہد لاہوری ، ناشر احمد پبلیکیشنز جنوری 2008صفحہ133]

اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔آج پاکستان کے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں ۔ یا اور مسلمان ممالک کے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں۔ یا مسلمان ممالک کے آپس کے تعلقات پر نظر ڈالیں ۔حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ ہر کوئی ان حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کا انتباہ درست تھا کہ نہیں۔

………………

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button