امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی، 7 ستمبر 2018ء
خطبہ جمعہ کے ذریعہ جلسہ سالانہ جرمنی کا افتتاح۔ خطبہ جمعہ میں جلسہ کی غرض و غایت کو پیشِ نظر رکھنے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مہمانوں اور میزبانوں کو نہایت اہم نصائح۔
جلسہ سالانہ کی پریس اور الیکڑانک میڈیا میں کوریج۔سینیگال، تاجکستان، لتھوانیا اور افریقن ممالک سے آنے والے مہمانوں اور وفود کے ساتھ ملاقاتیں اور مہمانوں کے سوالات کےبصیرت افروز جوابات
7؍ ستمبر 2018ء بروز جمعۃ المبارک
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر پچاس منٹ پر مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصّہ میں تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف نوعیت کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کے تینتالیسواں (43)جلسہ سالانہ کا آغاز ہو رہا تھا اور آج جلسہ سالانہ کا پہلا روز تھا۔
پروگرام کے مطابق دوپہر ایک بجکر 55منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرچم کشائی کی تقریب کے لئے جلسہ گاہ کے چاروں ہالوں کے درمیان واقع ایک کھلے لان میں تشریف لے آئے۔ حضور انور نے لوائے احمدیت لہرایا جبکہ امیر صاحب جرمنی نے جرمنی کا قومی پرچم لہرایا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دعا کروائی۔ MTAانٹرنیشنل کی یہاں جلسہ گاہ سے Live نشریات صبح سے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ پرچم کشائی کی یہ تقریب بھی دنیا بھر میں Liveنشر ہوئی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا ئے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کے ساتھ جلسہ کا افتتاح ہوا۔
خطبہ جمعہ
تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
الحمد للہ آج سے جماعت احمدیہ جرمنی کاجلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ ایک اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ جلسہ سالانہ کیا ہے ہم سالوں سے سنتے آ رہے ہیں بلکہ جب سے جلسہ سالانہ کے انعقاد کا آغاز ہوا ہے۔ سوا سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرماتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں جمع ہونا کسی دنیاوی مقصد اور تعداد دکھانے کے لئے ہے یا دنیا پر کوئی دنیاوی اثر ڈالنے کے لئے ہے بلکہ یہاں آنے والوں کو ،یہاں جمع ہونے والوں کو خالصۃً للہ جمع ہونا چاہئے تا کہ جہاں اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانے والے ہوں۔ اپنے علم اور روحانیت میں اضافہ کرنے والے ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کے بارے میں علم حاصل کرنے والے اور ان حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ یہاں بعض لوگ آتے تو ہیں جلسہ میں شامل ہونے کے لئے لیکن حاصل کچھ نہیں کرتے سوائے اس کے کہ کچھ دوستوں کو مل لیا اور کچھ شغل کی باتیں ہو گئیں۔ ایسے لوگ پھر مسائل بھی کھڑے کرتے ہیں۔ بعض نوجوانوں اور بچوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بھی بنتے ہیں بعض بڑی کریہہ قسم کی حرکتیں بھی کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اور ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ پس سب سے پہلی بات آج جو میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہر ایک کو ذہن میں یہ بات اچھی طرح راسخ کر لینی چاہئے کہ یہ جلسہ خالصۃً روحانی جلسہ ہے اس کا انعقاد اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ ہم تقویٰ میں بڑھیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں اور اس میں ترقی کریں۔ بعض غیر مہمانوں کے سامنے تو پردہ پوشی ہو جاتی ہے ان کے سامنے کچھ احتیاط بھی ہو جاتی ہے اور کچھ اللہ تعالیٰ بھی پردہ پوشی فرماتا ہے کہ چند ایک کے غلط رویّوں اور حرکات سے جماعت کی بدنامی نہ ہو پتہ نہیں لگتا تو بہرحال جیسا کہ میں نے کہا آج پہلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جلسہ کا مقصد کیا ہے تو وہ مقصد یہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تقویٰ پیدا ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے مدعا اور مقصد کو بیان فرماتے ہوئے شامل ہونے والوں کے لئے فرمایا کہ ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد و تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہمی محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو۔ پھر آپ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ ہر چیز کی جڑ ہے۔ تقویٰ کے معنی ہیں ہر ایک باریک در باریک رگِ گناہ سے بچنا۔ فرمایا تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ جس امر میں بدی کا شبہ بھی ہو اس سے بھی کنارہ کرے ۔اس سے بھی بچو۔ اب ہر ایک اپنا جائزہ لے تو خود ہی اپنا محاسبہ ہو جائے گا کہ کیا اس تعریف کے مطابق ہم باریک در باریک گناہ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس بات میں برائی کا شبہ بھی ہو اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس بات کا ہر کوئی اگر محاسبہ کرے اور محاسبہ کرنے کے بعد یہ دیکھے کہ واقعی ہم عمل کرنے والے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے والے ہوں تو تب ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم نے جلسہ پہ آنے کے مقصد کو پورا کر دیا یا پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ورنہ تقریریں سننا اور وقتی جوش دکھانا اور نعرے لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بعض نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کے تاثرات اور ہنسی سے یہ پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ کوئی دلی جوش نہیں ہے بلکہ صرف نعرہ برائے نعرہ لگ رہا ہے۔ پہلے تو یہ تاثرات اور حرکات چھپ جاتی تھیں لیکن اب کیمرے کی آنکھ بغیر پتہ لگے، بغیر کسی کے علم میں لائے ان کی طرف جا کر ان کی حالتوں کے بارے میں بتا دیتی ہے اور پھر یہ مستقل محفوظ ہو جاتی ہے۔ پہلے تو یہ پروگرام صرف ایم ٹی اے پر ہی ہوتے تھے اب سوشل میڈیا پر بھی ہوتے ہیں وہاں بھی شکلیں نظر آ جاتی ہیں۔ نظر آ رہا ہوتا ہے کہ کس کے چہرے پر کیسا تاثر ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر ایک اور معیار انسان کی اندرونی حالت اور تقویٰ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ تقویٰ کا اثر اسی دنیا میں متقی پر شروع ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ادھار نہیں نقد ہے۔بلکہ جس طرح زہر کا اثر اور تریاق کا اثر فوراً بدن پر ہوتا ہے۔ زہر انسان پی لے یا کوئی دوائی کھا لے اس کا اثر انسان پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بلکہ بعض دفعہ فوری ہو جاتا ہے فرمایا کہ اسی طرح تقویٰ کا اثر بھی ہوتا ہے تو یہ معیار آپ نے بیان فرمایا۔ پس یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو اور اس کا اثر ظاہر نہ ہو رہا ہو۔ تقویٰ پر چلنے والا کبھی برائی کے قریب جا ہی نہیں سکتا۔ اس کے خیالات بھی پاک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہر کوئی اپنا جائزہ خود لے سکتا ہے۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایامیں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ کی معرفت رہی نہیں دنیا میں گم ہو گئی دنیا کی چیزوں نے غلبہ پا لیا اللہ تعالیٰ کی طرف رجحان کم ہو گیا۔ نعرہ یا عہد تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ہے لیکن بہت سارے ایسے مواقع آ جاتے ہیں کہ دنیا مقدم ہو جاتی ہے اور دین پیچھے چلا جاتا ہے، فرمایا اور وہ حقیقی تقویٰ اور طہارت جو اس زمانے میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔ مقصد کیا ہے جماعت کا کہ وہ تقویٰ اور طہارت جو اس دنیا میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق تقویٰ اور طہارت کو قائم کرنے کی کوشش کرے گا وہی کامیاب ہو گا۔ وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں حقیقی احمدی ہے اور وہی اس جلسہ کے مقصد کو پورا کرنے والا ہے۔ جن دوسری دو باتوں کی طرف آج میں توجہ دلانا چاہتا ہوں ان پر عمل بھی اسی صورت میں ہو گا اور ہو سکتا ہے جب دلوں میں خوف خدا ہو اور تقویٰ ہو اور جلسے پہ آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی خواہش ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر شامل ہونے والے میں کیا خصوصیات پیدا ہونی چاہئیں یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس میں نرم دلی بھی پیدا ہو۔ ایک دوسرے کے لئے دل نرم ہوں۔ آپس کی محبت ہو بھائی چارہ ہو عاجزی ہو انکساری ہو اور سچائی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جلسہ میں شامل ہونے والوں کے دو طبقے ہیں یا دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں جلسہ کا جو انتظام ہے اس کے تحت ایک طبقہ ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جو شامل ہونے کے لئے آ رہے ہیں۔ بہرحال یہ دو قسم کے لوگ ہیں اور ان دونوں قسموں کے لوگوں میں یہ خصوصیات پیدا ہونی ضروری ہیں۔ نہ ہی وہ جو ڈیوٹیاں دے رہے ہیں ان باتوں سے بری ہوسکتے ہیں۔ جو کارکنان خدمت کر رہے ہیں کارکنان ہیں، نہ وہ جو شامل ہونے والے ہیں۔ دونوں کو ان معیاروں پر اپنے آپ کو پرکھنا ہو گا۔ جو میزبان ہیں ان کو بھی اور جو مہمان ہیں ان کو بھی۔ ان دونوں میں تقویٰ ہو گا تو یہ خصوصیات پیدا ہوں گی۔ پس اس حوالے سے دونوں کو میں ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف کچھ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اگر دونوں میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو جلسہ کا ماحول بھی خوشگوار ہو گا اور جلسہ پر آنے کا مقصد بھی پورا ہو گا۔ ڈیوٹی دینے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم نے ڈیوٹیاں دیں ہم رضاکار ہیں تو ہم نے کوئی بہت بڑا مقصد حاصل کر لیا یا اللہ کو راضی کر لیا۔ ہاں راضی کر لیا اللہ تعالیٰ کو اگر ان باتوں پر عمل بھی ساتھ ساتھ کیا۔ نہ ہی شامل ہونے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بڑی دُور کا سفر طے کر کے آئے ہیں تو ہم نے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا۔ ہاں راضی اس صورت میں کر لیا جب معرفت اللہ تعالیٰ کی پیدا ہو اور حقوق العباد کی طرف توجہ پیدا ہو۔ سب سے پہلے میں کارکنان یا میزبانوں کو توجہ دلاؤں گا کہ اپنے اندر یہ خصوصیات خاص طور پر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے جذبات کو کنٹرول رکھیں۔ ہر حال میں مہمان کا خیال رکھنا ہے نرم زبان استعمال کرنی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ عہدیداروں کو اور کارکنوں کا سب سے زیادہ پہلا فرض بنتا ہے کہ نرم زبان استعمال کریں۔اور پھر عاجزی دکھانی ہے ، عہدیداروں اور کارکنوں کا سب سے پہلا فرض بنتا ہے کہ عاجزی دکھائیں۔ ہر حال میں مہمان کا خیال رکھنا ہے۔ عہدیداروں کو بھی کارکنان کو بھی نرم زبان استعمال کرنی ہے۔پھر کارکنان کے آپس کے تعلق ہیں اس میں بھی محبت اور اخلاص اور بھائی چارہ ہونا چاہئے مہمانوں کے لئے بھی اور آپس کے تعلقات میں بھی۔ عہدیداروں اور ماتحت کام کرنے والوں میں بھی ۔ کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی بات پر غصہ میں آ گئے تو مہمانوں پر اور خاص طور پر غیر مہمانوں پر جو یہ سنتے ہیں کہ احمدیوں کے جلسہ میں سب آپس میں محبت اور پیار سے رہتے ہیں اور کسی قسم کے غصہ کا اظہار نہیں کرتے یا نہیں ہوتا جب اس قسم کی باتوں کو دیکھیں گے فسادوں کو دیکھیں گے یا کہیں بھی دو اشخاص کو اونچا بولتا ہوا دیکھیں گے تو ان پر غلط اثر ہو گا۔ کارکنوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب اپنے آپ کو چند دن کی خدمت کے لئے پیش کر دیا اور خدمت بھی وہ جو بڑا اعلیٰ مقام رکھتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت ہے اس میں اپنے رویّے پھر ایسے رکھیں کہ نہ کسی مہمان کو تکلیف پہنچے نہ ایک دوسرے کو جو کارکن ہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے۔ جلسہ کی تربیت کا یہ حصہ ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہے افسروں نے بھی اور ماتحتوں نے بھی۔ پارکنگ ہے ٹریفک کنٹرول سے لے کر کھانا پکانے اور صفائی کرنے والے کارکنان تک ان سب کو اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ان دنوں میں کرنا چاہئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر جرمنی کے رہنے والے مہمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایک لحاظ سے مہمان ہیں اور ایک لحاظ سے میزبان بھی ہیں جو جرمنی سے باہر سے آنے و الے ہیں ان کی خاطر انہیں قربانی دینی چاہئے کیونکہ جو جرمنی میں نہیں رہتے اور باہر سے آ کر جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں وہ اب مہمان بن گئے اور یہاں کے رہنے والے میزبان بن گئے پس ان کی خاطر آپ لوگوں کو قربانی دینی چاہئے۔ بیٹھنے کے لئے جگہ دینی ہے، کھانا کھانے کے وقت اگر تنگی ہے جگہ کی تو وہاں جگہ دینی ہے یا اور کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ فرض ہے آپ سب کا کہ ان کی مدد کریں۔ زبان وغیرہ کے مسئلہ کی وجہ سے بعض دفعہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے جہاں بھی ضرورت ہو مدد کریں۔ یہ صرف ڈیوٹی دینے والوں کا کام نہیں ہے کہ مدد کریں بلکہ یہاں کے رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق آپس کی محبت اور بھائی چارے کا اظہار ہے۔ اسی طرح غیر از جماعت مہمان جو آئے ہوئے ہیں ان کو بھی جیسا کہ میں نے کہا ہر احمدی کو اپنا نیک نمونہ دکھانا چاہئے۔آپ کے سب کے نمونے دیکھ کر ہی غیروںکو اسلامی معاشرے کے خوبصورت نظارے نظر آئیں گے جہاں ہر احمدی عاجزی نرمی آپس کی محبت اور بھائی چارے کی مثال قائم کر رہا ہوگا وہ نظارے لوگوں کو نظر آئیں گے۔ پس مردوں اور عورتوں دونوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ کھانے کے بارے میں اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو برداشت کرنا چاہئے۔ اصل غذا جس کے لئے آپ لوگ یہاں آئے ہیں روحانی اور علمی غذا ہے۔ پس اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں یہ ضروری ہے۔ اسی طرح بازاروں میں بھی اس وقت جائیں جب وقت ہو۔ عموماً شعبہ تربیت جو ہے وہ میرا خیال ہے بازار تو کھولتا ہی اس وقت ہے جب جلسہ کا سیشن نہ چل رہا ہو لیکن بعض دفعہ لوگ زور دیتے ہیں کہ نہیں ہم نے جانا ہے ہمیں بھوک لگی ہے ان کے انتظام کے لئے پہلے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں شعبہ مہمان نوازی کو انتظام رکھنا چاہئے۔ پھر عورتوں کا بازار ہے اس میں بھی اور مردوں کے بازار میں بھی جلسہ کے تقدس اور ماحول کو ملحوظ رکھیں۔ یہ نہیں ہے کہ صرف جلسہ گاہ میں بیٹھ کر ہی جلسہ کا تقدس ہو۔ اس سارے پریمیسس(premises) میں آ گئے اس علاقے میں آ گئے یہ ساری جگہ جلسہ کی ہے جہاں ٹینٹ لگے ہوئے ہیں کیمپ لگے ہوئے ہیں مارکیاں لگی ہوئی ہیں یا ہال ہیں۔ یہ سب جلسہ کی جگہ ہے یہاں بھی آپ لوگوں کو جلسہ کے تقدس کو قائم رکھنا چاہئے۔ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا کا جو قرآن کریم کا حکم ہے جو میں نے پہلے بتایا یہ صرف کارکن کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کے لئے ہے اور خاص طور پر ہر احمدی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ میں نے کارکنوں کو تو کہا ہے کہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں کل بھی کہا اور آج بھی کہا اور کسی قسم کی بدخلقی نہ دکھائیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کے صبر کو آپ لوگ آزماتے رہیں اور ایسے حالات پیدا کریں جس سے بدمزگی کے حالات پیدا ہو جائیں۔ جہاں جہاں جس شعبہ کا متعلقہ کارکن بھی آپ سے کسی بات کا مطالبہ کرے یا ہدایت کرے اعلیٰ خلق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی بات کو مانیں اور تعاون کریں۔ پس قرآنی حکم کہ اچھے اخلاق سے پیش آئیں ہر شامل ہونے والے کے لئے یہ قرآنی حکم ہے۔ جلسہ کے اوقات میں جب پروگرام ہو رہے ہوں تو سوائے اس کے کہ کسی مجبوری سے اٹھ کر جانا پڑے جلسہ کی کارروائی سنیں۔ ہر تقریر میں ہر احمدی کے لئے کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو اس کی زندگی بہتر کرنے کے کام آ سکتی ہے۔
[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل 21ستمبر 2017ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔ ]
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ تین بجے تک جاری رہا۔ یہ خطبہ جمعہ MTAانٹرنیشنل پر Live براہ راست نشر ہوا۔
درج ذیل سات زبانوں میں MTAپر حضور انور کے خطبہ کا ترجمہ بھی براہ راست نشر ہوا۔ انگریزی، فرنچ، جرمن، عربی، بنگلہ، انڈونیشین، سواحیلی۔
اس کے علاوہ درج ذیل سات زبانوں میں بھی حضور انور کے خطبہ جمعہ کا انتظام کیا گیا تھا۔
بوزنین، سپینش، بلغارین، فارسی، رشین،ترکش، البانین۔ ان زبانوں کے جاننے والے لوگوں نے جلسہ گاہ میں براہ راست یہ ترجمہ سنا۔
خطبہ جمعہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔
ریڈیو FM 87.9پر بھی حضور انور کا خطبہ Liveنشر ہوا۔ اس ریڈیو کی رینج پانچ کلومیٹر ہے۔ جلسہ سالانہ کے تمام پروگرام بھی اس ریڈیو کے ذریعہ نشر ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری سہولت APPکی بھی ہے۔ جلسہ سالانہ جرمنی کی نشریات اردو اور جرمن زبان میں Jalsa Radio Appمیں بھی سنی جا سکتی ہیں۔نیز جس کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں اس کے لئے اس Appمیں یہ سہولت موجود ہے کہ وہ فون کے ذریعہ نمبر ملا کر جلسہ کی نشریات اپنے فون پر بھی سن سکتا ہے۔
جلسہ سالانہ کی کوریج کے لئے پریس کی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ میں موجود تھی۔
انٹرنیشنل میڈیا
Reuters Worldنیوز ایجنسی
Epa-european Pressphoto Agency نیوز ایجنسی
Congo TV
TV Kanal 8 Kocaniمیسیڈونین ٹی وی چینل
TV Malesnetمیسیڈونین ٹی وی چینل
TV Iris Stipمیسیڈونین ٹی وی چینل
TV Nova 12 Gevgelijaمیسیڈونین ٹی وی چینل
Alislam.mk Macedonia
Kars Komentaras Lithuania
Israel Hayom Online
Ruptly World Online
نیشنل میڈیا
Weltپرنٹ میڈیا۔ZDFٹی وی چینل۔ATLٹی وی چینل۔Chrismonپرنٹ میڈیا Online
Evangelischer Pressedienst (EPD)نیوز ایجنسی۔DPA Karlsruhe
Deutche Welle (Samstag)ریڈیو چینل
SWR-National ARDٹی وی چینل
لوکل میڈیا
Badische Neuste Nachrichten پرنٹ میڈیا۔Baden TV۔KA-News Online۔
SWR Horfunk (Studio Karlsruhe)ریڈیو چینل۔SWR Aktuell (Studio Karlsruhe) ٹی وی چینل۔Bayrischer Rundfunk (Montag) ریڈیو چینل
جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز جمعہ و عصر پڑھانے کے بعد جلسہ گاہ سے اپنی رہائشگاہ کی طرف واپس آرہے تھے تو حضور انور کی رہائشگاہ سے باہر پریس اور میڈیا کے نمائندگان اور جرنلسٹ حضور انور کی آمد کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان سبھی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصاویر بنائیں اور حضور انور کی آمد کو ریکارڈ کیا اور اس کو اپنی Coverageکا حصّہ بنایا۔
ملاقاتیں
آج شام سینیگال، تاجکستان، لتھوانیا اور افریقن ممالک سے آنے والے وفود اور مہمانوں کی اجتماعی ملاقات کا پروگرام تھا۔
سنگاپور کی ایک فیملی سے ملاقات
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ساڑھے سات بجے ملاقات ہال میں تشریف لائے اور سب سے پہلے سنگاپور سے آنے والی ایک فیملی نے ملاقات کی سعادت پائی اور حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔
سینیگال کے وفد سے ملاقات
بعد ازاں سینیگال سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کاشرف پایا۔
سینیگال سے جلسہ جرمنی پر دو مہمان آئے تھے۔ ان میں سے ایک Alhaji Falou Sillaصاحب تھے۔ موصوف سینیگال کے ایک بڑے شہر امبور کے میئر ہیں اور ’’فرقہ مرید‘‘ کے خلیفہ کے نمائندہ کے طور پر آئے تھے۔ دوسرے مہمان Mortallصاحب تھے۔ موصوف وہاں ایک NGO Madefsکے صدر ہیں اور صدر مملکت سینیگال کے قریبی ساتھی ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعارف حاصل کرنے کے بعد مہمانوں سے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا۔ اس پر موصوف الحاجی فالو سیلا صاحب نے عرض کیا کہ ہمیں جلسہ بہت اچھا لگا ۔مَیں جلسہ میں شامل ہو کر بہت خوش ہوں۔ جلسہ نے ہمیں بہت متاثر کیا ہے۔ میں نے حضور کا خطبہ جمعہ سنا ہے اور حضور کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے۔ حضور نے جو امن اور محبت کا پیغام دیا ہے ہم اس کو آگے پہنچائیں گے۔ حضور نے عزت و احترام اور امن ، بھائی چارہ کا درس دیا ہے۔ اسی کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ جلسہ میں اتنی بڑی تعداد اور ڈسپلن کو دیکھ کر بہت متاثر ہواہوں۔
الحاج فالو سیلا صاحب نے بتایا کہ ہم نے جماعت کو شہر کے وسط میں 700مربع میٹر زمین مسجد کی تعمیر کے لئے دی ہے۔ یہ زمین خلیفہ مرید کی ملکیت ہے انہوں نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بھائی چارہ اور اخلاص کے اظہار کے طور پر یہ زمین تحفہ میں دی ہے۔
موصوف نے کہا جماعت اس پر اپنی مسجد بنائے ہم مسجد کی تعمیر میں بھی مدد کریں گے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مسجد کی تعمیر تو ہم خود کریں گے۔ یہ صرف اتنا کر دیں کہ مسجد کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہی ان کی مدد ہے۔ اس پر موصوف فالو سیلا صاحب نے کہا کہ ہم سب لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ہمارے امبور شہر میں حضور انور کا ہر جمعہ خطبہ Liveنشر ہوتا ہے اور ہم سب خطبہ سنتے ہیں۔ ہم نے ہسپتال کے لئے بھی جگہ دی ہے۔
دوسرے مہمان مورتال صاحب (Mortall) نے عرض کیا کہ وہ ہسپتال کی اجازت کے سلسلہ میں جماعت کی کافی مدد کر رہے ہیں ۔ موصوف نے عرض کیا کہ وہ ایک عربی سکول حضور انور کے نام پر کھولنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میرے نام پر کھولیں، اپنے نام پر کھولیں کوئی بات نہیں۔ خدا تعالیٰ کرے کامیاب ہو۔ خدا تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق دے۔
موصوف نے عرض کیا کہ میری خواہش ہے کہ جب افریقہ آئیں تو ہمارے سکول کا سنگ بنیاد رکھیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا میرا کب وہاں آنا ہوتا ہے اس کا پتہ نہیں۔ آپ اپنا سکول بنائیں کوئی مدد کی ضرورت ہو تو ہم کر دیں گے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مربی سلسلہ سینیگال کو ہدایت فرمائی کہ وہاں ایک پرائمری سکول تو ہم فورًا شروع کر وا سکتے ہیں۔ پرائمری سکول آغاز میں تین کلاس روم کے بلا ک سے شروع ہو سکتا ہے پھر حسب ضرورت اس میں توسیع ہوتی رہے گی۔
موصوف نے بتایا کہ جب میں نے ہسپتال میں حضور انور کی تصویر دیکھی جو وہاں دیوار پر آویزاں تھی تو میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے اس ہسپتال کی اجازت کے حصول کے لئے کوشش کرنی ہے اور میں نے اس پر بہت کام کیا ہے۔
مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کو سینیگال کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب افریقہ کا دورہ ہو گا اور کوئی موقع بنا تو دیکھ لیں گے۔ آپ کی دعوت کا شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خواہشات قبول فرمائے۔
حضور انور نے فرمایا افریقہ کے پاس بہت وسائل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عدل و انصاف کے ساتھ اپنے ریسورسز استعمال کرے تو میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ افریقہ ایک دن دنیا کو Leadکرے گا۔
اس پر Mortallصاحب کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی گیس اور پٹرول دیا ہے تو اس پر حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ اس کے صحیح استعمال کی توفیق دے۔ نائجیریا کے پاس بھی پٹرول ہے اور وہاں صحیح استعمال نہیں ہو رہا تو دیکھ لیں وہاں کا کیا اقتصادی حال ہے۔ خدا تعالیٰ نے ان کو وسائل تو دیئے ہیں اب تقاضا ہے کہ یہ صحیح طور پر استعمال کریں۔
خلیفہ مرید کے نمائندہ الحاجی فالو سیلا صاحب نے عرض کیا کہ خلیفہ نے حضور انور کے لئے پیغام دیا ہے کہ جماعت احمدیہ یورپ میں جو اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے اور اسلام کی ایسی خدمت کر رہی ہے جو ہم نہیں کر سکتے۔ جماعت کا یہ کام دیکھ کر ہم جماعت کے ساتھ ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا اصل یہی ہے کہ عقائد کے اختلاف کے با وجود ایک ہو کر کام کیا جائے۔ مل کر کام کیا جائے تو ہم اسلام کے لئے بہت کام کر سکتے ہیں اور یورپ میں بھی کر سکتے ہیں۔
آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ آئندہ سال جلسہ سالانہ یُوکے پر آنے کی کوشش کریں ۔ اُس جلسہ کا اپنا ایک نظّارہ ہے۔ جنگل میں ایک شہر آباد ہو جاتا ہے اور وہ نظّارہ افریقہ میں رہنے والوں کو پسند آتا ہے۔
یہ ملاقات سات بجکر 55منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر دونوں مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
تاجکستان اور لتھوانیا کے وفود کی ملاقاتیں
بعد ازاں پروگرام کے مطابق تاجکستان اور لتھوانیا سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔ تاجکستان سے گیارہ افراد آئے تھے۔ جبکہ لتھوانیا سے پچاس افراد پر مشتمل وفد آیا تھا۔ ان بچاس میں آج وہ دس افراد ملاقات کی سعادت پا رہے تھے جنہوں نے کسی وجہ سے جلدی واپس روانہ ہونا تھا۔
وفد کے ممبران نے باری باری اپنا تعارف کروایا اور جماعت کا شکریہ ادا کیا کہ ہمیں جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کے لئے دعوت دی گئی۔ یہاں آکر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے جو پہلی بار جلسہ سالانہ میں شال ہو رہے تھے۔ ان میں سے بعض نے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیا مجھے پاکستان کی تاریخ کا پتہ ہے ، پاکستان میں جو آخری جلسہ 1983 میں ہوا تھا ، بہت بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے تھے ۔یہ ساری تنظیم کوفعال کرنے میں خلیفہ المسیح کا بہت بڑا کردار ہے۔ دنیا میں مسلمان اپنے حقوق سے نا آشنا ہیں اور ہمیں اپنے حقوق مل نہیں رہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ حضورکا نقطہ نظر کیا ہے ؟
اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
نقطہ نظر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں جب مسیح اور مہدی آئے گا ، تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پراکٹھا کرے گا’’علٰی امۃ واحدۃ ‘‘اوردُنیا میں غیر مسلم لوگوں کو تبلیغ کرکےاسلام کا پیغام پہنچائے گا مسلمان بنائے گا ،اس کو تو مانتے نہیں ہیں ، امام تسلیم نہیں کرتے قرآن کریم میں جو کافروں کی حالت بیان کی گئی ہے کہ قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی کہ اُن کے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔توآج کے مسلمانوں کےیہ حال ہورہے ہیں، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ مسلمان ایک ہوجائیں فرقہ بازیاں ختم کردیں تو ٹھیک ہوجائےگا ۔اگر نہیںماننا مسیح اور مہدی کو تو کم از کم حکومتیں ہی آپس میں ایک رہیں۔ اب کوئی بھی مسلمان حکومت ایسی نہیں ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہو ، سب ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔
حضور انور نے فرمایا:
اگر دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں تو ایک بہت بڑی طاقت ہے اور وہ جو اللہ تعالیٰ نے نظام جاری کیا ہوا ہے تو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے لئے اس کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اِس نظام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ جمعہ میں بیان فرمایا اور آپ ﷺ نے اسے مختلف احادیث میں مزید کھول کر بیان فرمایا تو یہی ایک راستہ دنیائے اسلام کو متحد کرنے کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام کو مان لیں۔
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اب ہم (احمدی)بہت تھوڑی تعداد میں ہیں ہمارے پاس طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس دولت نہیں ہے ۔ تیل کی دولت نہیں ہے سونے کی کانیں نہیں ہیں ۔ سعودی عرب کے پاس تیل بھی ہے اور اسلامی ملکوں کے پاس بھی تیل ہے ، دولت بھی ہے ، حکومتیں بھی ہیں لیکن ان کو کسی کو بھی توفیق نہیں مل رہی کہ اسلام کی تبلیغ کریں اور اسلام کی صحیح تصویر دکھائیں ۔یہ توفیق اگر مل رہی ہے تو جماعت احمدیہ کو مل رہی ہے اور تھوڑے سے وسائل کے ساتھ ہم ساری دنیا میں یہ سارے کام کررہے ہیں ۔ یہ کیا چیز ظاہر کر رہی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ہے تو یہ کام ہورہا ہے۔ بغیر اللہ تعالیٰ کی تائید کے یہ کام نہیں ہوسکتے تھے ۔ جبکہ ہمارے خلاف مسلمان دنیا فتوے بھی دے رہی ہے اور ہمارے کاموں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ غیر مسلم ہیں ان کی بات نہ مانو ۔ پس اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنیں اس کے نبی کی آواز کو سنیں تو ہم ترقی کرلیں گے ۔ یہی میرا جواب ہے ۔
٭ ایک مہمان نے عرض کی میری ایک خواہش ہے جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں اس حوالہ سے کہ آج کل رشیا اور اس کے وسطی ایشیا کے جو ممالک ہیں ان میں پردے کے متعلق،داڑھی کےمتعلق اور عموماَ اسلام کی situation بہت خراب ہورہی ہے۔ دو دن پہلے ہی تاجکستان میں کچھ بچیوں کو سکول میں اس لئے نہیں آنے دیا کہ انہوں نے حجاب پہنا ہوا تھا ، انہوں نے ان کو داخل نہیں کیا۔ حضور سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اس وقت dictator لوگ وہاں پر ہیں، وہ اب وہاں سے چلے جائیں اوراُس کی جگہ اچھے ذہن کے لوگ آئیں ۔
اس پرحضور انورنے فرمایا:
اچھے ذہن کے لوگ آئیں گے توتب بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے اور جرأت نہیں ہے، توجب حکومت میں کوئی بھی انسان آتا ہے تو تھوڑی دیر بعدوہ بزدل ہوجاتا ہے تاکہ اس کی کرسی محفوظ رہے۔
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آنا تو انہی لوگوں نے ہے جو سیاست میں ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو یہ بڑی طاقتیں آشیر باد دیتی ہیں ۔ اور یہ دجالی طاقتوں کی چال ہے کہ اور تو کوئی مذہب اپنی اصلی حالت میں رہا نہیں اور بائبل میں جو تبدیلیاں پہلے ہوئیں ہیں ان کے علاوہ اب توتعلیم پر عمل کرنابھی بالکل چھوڑ دیا ہے۔ gay marriages ہیں اور دوسری چیزیں ہیں جو اَب کہتے ہیں کہ جائز ہیں لیکن قرآن کریم کی تعلیم جو ہے اپنی اصلی حالت میں موجودہے ۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جس طرح ہماری تعلیمات بدلی گئی ہیں اس طرح اسلام کی تعلیمات بھی بدل جائیں اس لئے پہلا قدم تو انہوں نے یہ اٹھایا کہ سکولوں کی لڑکیوں کے سروں سے حجاب اتارو پھر آہستہ آہستہ باقی چیزیں بھی کرتے رہیں گے اور یہ بھی شور مچ رہا ہے کہ قرآن کریم کو بھی نئے زمانہ کے ساتھ چلنا چاہئے ۔ یہاں کا مغربی پریس بھی مجھ سے پوچھتا ہے تو میں ان کو کہتا ہوں کہ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تمہاری جو سوچ اور عقل ہے اس کے مطابق دین چلے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم آتی ہے اپنے پیچھے چلانے کے لئے آتی ہے نہ کہ انسانوں کے پیچھے چلنے کے لئے ۔ یہ تو مسلمان ملک ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ کھڑے ہوں اور اپنی جو تعلیمات ہیں اور روایات ہیں ان پر قائم کرنے کے لئے struggle کریں۔ اب اسلام کی تعلیم کو محفوظ رکھنا ہر شریف مسلمان کا فرض ہے ۔
٭ اس پر مہمان نے سوال کیا کہ اس صورت حال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچیوں کو حجاب کے بغیر سکول جانا چاہئے یا وہ گھر بیٹھ جائیں ؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
نہیں، ٹھیک ہے عارضی طور پر کریں اور اس کے لئے struggle کریں ۔ شور مچائیں کہ ہماری جو روایات ہیں اُن کوقائم رکھنا چاہئے اور یہ غلط چیز ہے کہ کسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی مرضی پر نہ چلے۔
حضور انور نے فرمایا:
یہاں ان مغربی ممالک میں سکولوں میں جب کوئی پابندی لگاتے ہیں تو بعض دفعہ لوکل administration سکولوںکیactionلیتی ہے۔ ہماری لڑکیاں وہاں سٹینڈ لیتی ہیں ۔ اس کے بعد ان کے favour میں بھی کیس ہوجاتے ہیں اور پھر انتظامیہ مان بھی لیتی ہے کہ ٹھیک ہے کر لو۔آپ اپنے علماء کو کہیں کہ آواز اٹھائیں اور اپنی حکومت کو سمجھائیں تمہارے علماء صرف پیسہ کھانے کے لئے رہ گئے ہیں ؟
مہمان نے علماء کے حوالے سے عرض کیا کہ ہمارے وہاں کے جو مُلّاں ہیں انہوں نے خاص طور پر اہتمام کر کے Lenin کا جو مجسمہ ہے اس کو ٹھیک ٹھاک کیا ہے۔
اس پر حضور انورنےفرمایا :
ماشاء اللہ ۔ اس کو تو ٹھیک ٹھاک کریں گے لیکن اپنی دینی حالت کو ٹھیک نہیں کریں گے۔
مبلغ سلسلہ کی اہلیہ نے عرض کیا کہ جہاں تک سٹینڈ لینے کا سوال ہے وہاں تو پریذیڈنٹ کو یہ لوگ اتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیںکہ لڑکیاں سوچ بھی نہیں سکتیں کہ اس بارہ میں سٹینڈ لیں۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
لڑکیاں نہیں سوچ سکتیں لیکن چاہئے کہ علماء کے ذریعہ آواز اٹھائیں اور president کو لکھیں!
موصوفہ نے عرض کیا کہ ان میں ہمت ہی نہیں ہے کہ پریذیڈنٹ کو لکھیں۔
اس پر حضور انورنے فرمایا۔
نہیں لکھتیں تو نہ جائیں سکول میں۔ آپ پاکستانی ہیں؟ آپ بچوں کو نہ بھیجیں!
بس۔ سٹینڈ لے لیں! لینا پڑتا ہے ، قربانی تو کرنی پڑتی ہے۔
٭ ایک طالبعلم جو Psysiotherapyکا کورس کررہے ہیں اُس نے سوال کیا کہ حضور نے ایسا کیا کیا کہ اِس مقام پر ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا:
میں نے تو کچھ نہیں کیا کہ اس مقام پر ہوں ۔ یہ ایسا dilemma ہے جو ابھی تک میں حل نہیں کرسکا ۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیا کہ میں اپنے معاملات کے بارہ میں شک میں رہتا ہوں۔ اس پر حضور انورنے استفسار فرمایا:
کیا آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں؟
اس پر مہمان نے عرض کیا بالکل رکھتا ہوں عیسیٰ علیہ السلام پر۔
اس پرحضور انورنے فرمایاجو بھی آپ کا یقین ہے۔ یقین تو ہے۔ خدا سے دعا کریں اور اگر آپ اپنے بارہ میں شک میں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا یقین متزلزل ہے اور اس کے لئے آپ کو خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ سیدھی راہ کی طرف راہنمائی فرمائے اور آپ کے ایمان کو مضبوط کرے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ ثابت قدمی کے ساتھ کچھ دن دعا کریں تو آپ کا ایمان اور یقین مضبوط ہوجائے گا۔
٭ لتھوینیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے عرض کیا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ میں نے حضور کے کچھ خطابات کا ترجمہ لتھوینین زبان میں کیا ہے اور میں اس سے ہمیشہ لطف اندوز ہوئی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں صحیح الفاظ کا چناؤ کروں تاکہ سامعین کو حضور انور کی باتیں سمجھ آسکیں لیکن ایسا شخص جس کا علم کم ہے اسے ترجمہ کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ وہ کما حقہ حضور کے الفاظ کی عکاسی کرسکے ۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تو آپ میرے خطابات کا انگریزی سے لتھوینین زبان میں ترجمہ کرتی ہیں؟ اور کچھ ان میں سے ارد و زبان میں ہوتے ہیں اور ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا جاتا ہے اور پھر آپ انگریزی سے لتھوینین زبان میں کرتی ہیں۔ تو کبھی کبھی پہلےانگریزی والے ترجمہ میں وقفہ پڑ جاتا ہے جو آپ کو کسی حد تک confuse کرتا ہوگا تواس کے لئے میں تو یہی کہوں گا کہ آپ کو اردو سیکھنی پڑے گی تاکہ آپ میرے اردو زبان میں کئے گئے خطابات کا ترجمہ کر سکیں۔ مجھے اردو سے انگریزی کے ترجمہ کے معیار کا نہیں پتہ۔ وہ خطابات جو انگریزی میں ہوتے ہیں میرا اندازہ ہے کہ آپ کو لتھوینین زبان میں ترجمہ کرنا زیادہ آسان لگتا ہوگا۔یہ آپ کا تجربہ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مضمون نہیں ہے جو آپ کو confuse کررہا ہے بلکہ زبان ہے ۔
موصوفہ نے عرض کیا کہ حضورآپ کی تقاریر بڑی گہری ہوتی ہیں اور ان باتوں کا جو اثر لوگوں پر ہورہا ہوتا ہےاب پتہ نہیں کہ آیا میں اس قابل ہوں کہ میں من و عن اس اثر کو دوسری زبان میں منتقل کر سکوں یا نہیں ۔
اس پرحضور انور نے فرمایا:
تقاریر کے کچھ الفاظ یا فقرے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ آپ کو یہ خدشہ ہے کہ آپ انہیں ٹھیک طرح سمجھ نہیں پائیں گی اور اپنی زندگی میں لاگو نہیں کرسکیں گی ؟یا آپ کو لگتا ہے کہ لوگوں کو ان باتوں پر عمل کرنے میں مشکل ہوتی ہے ؟
اس پر موصوفہ نے عرض کیا میں سمجھتی ہوں کہ ہر ایک ترجمان اپنے کندھے پر یہ بوجھ لئے ہوئے ہوتاہے کہ اس نے بات کو من و عن دوسری زبان میں ترجمہ کرکے لوگوں تک پہنچاناہے ۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ تو ویسے بھی مشکل امر ہے۔ بندہ ویسے بھی مکمل طور پر بیان نہیں کرسکتا جب تک اصل زبان پر عبور حاصل نہ ہوجائے۔ آپ جس حد تک بھی کر رہی ہیں ٹھیک ہے ۔
٭ ایک خاتون نے عرض کیا میرا نام اوکسے احمد ہے۔ میں ویسے لتھوینیا سے ہوں لیکن اس وقت جرمنی میں مقیم ہوں ۔ میری دعا کی درخواست ہے کہ میری فیملی کے لئے دعا کریں کہ ہمیں واپس لتھوینیا جانے کی توفیق ملے ۔ میری انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے ۔
اس پر حضور انور انے فرمایا:
مجھے لگتا ہے کہ آپ نے مجھے پہلے بھی یہ بات بتائی تھی۔
اس پرخاتون نے کہا میں نے آپ کو خط لکھا تھا ۔
٭ ایک خاتون نے سوال کیامیرا نام اوریلیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ مرد عورتوں سے ملنے سے کیوں احتراز کرتے ہیں ؟ میں عورت کے وقار کو سمجھتی ہوں لیکن میں اس کی اصلیت اور وجہ جاننا چاہتی ہوں۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ جہاں تھوڑا سا بھی خدشہ ہو کہ فلاں بات سیدھے راستہ اور صحیح فکر سے ہٹا دے گی تو انسان کو چاہئے کہ اس سے بچے ۔ اسلام کہتا ہے کہ مرد اتنے با عتبار نہیں ہیں۔ یہ مرد کی ذہنیت کی وجہ سے ہے کہ اسلام نے یہ حکم دیا ہے نہ اس وجہ سے کہ ہم عورتوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اس لئے اسلام کہتا ہے کہ چاہے تم نیک ہو یا نہیں بہتر یہی ہے کہ میل ملاپ سے بچو سوائے خونی رشتوں میں ۔ آج دیکھیں کہ دنیا نے اس بات کو سمجھ لیا ہے ، Hollywood کو دیکھ لیں کہ کتنا شور مچا ہوا ہے مردوں کے خلاف ۔ یہاں تک کہ برلن میں موسیقی کا فنکشن تھا جہاں عورتیں الگ تھیں ۔
اب کئی فنکشن ہیں جو صرف عورتوں کے لئے منعقد ہورہے ہیں ۔ کیوں؟ کچھ خرابی تو ہے جس کی وجہ سے یہ رائے سامنے آئی کہ عورتوں کے فنکشن علیحدہ ہوں یہ صرف عورتوں کے وقار کے لیے ہے۔ ورنہ اگر آپ کسی مشکل میں ہیں اور مدد کی مستحق ہیں تو آپ مجھے یا دوسرے کسی حقیقی مسلمان کو دیکھیں گی کہ وہ مدد کے لئے صف اول میں ہوگا ۔ اگر آپ زمین پر پڑی ہوں ، بیمار ہیں ، بے ہوش ہیں یاکوئی اور تکلیف ہے تو میں آپ کواٹھاؤں گا،اوراُٹھانے کے لیے جسم کو اور ہاتھ کو چھونا پڑے توچھوؤں گا۔ پس جہاں بھی ایسی ضرورت ہوگی ہم کریں گے لیکن بغیر مجبوری کے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہاتھ ملائے جائیں۔
٭ تاجکستان سے آنے والے ایک مہمان مرزا رحیم صاحب جو کہ سیاستدان ہیں نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔ مجھے جلسہ میں پہلی دفعہ شامل ہونے کا موقع ملا اور جماعت احمدیہ کو قریب سے دیکھا ہے۔ تمام کارکنان کا جذبہ میرے لئے ایک مثال ہے کہ کس طرح سب مل کر دن رات کام کر رہے ہیں۔ میرے ذہن میں کئی سوالات تھے ۔ حضور انور سے ملاقات کے دوران میرے ان سب سوالوں کا جواب مل گیا۔
حضور انور کی شخصیت بہت پُر نور ہے۔ حضور کو دیکھ کر اور جماعت احمدیہ کے افراد کو دیکھ کر پتہ چلا ہے کہ آج وحدت صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہی ہے۔ حضور انور کو سیاسی امور اور دنیا کے حالات پر عبور حاصل ہے۔ مسلمانوں کی آج کے دور میں حالت زار کے بارہ میں مَیں نے سوال کیا تھا۔ حضور نے اس کا بہت جامع جواب دیا اور میں پوری طرح مطمئن ہو گیا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ مستقبل میں تمام امت مسلمہ کو جمع کر سکتی ہے۔ مجھے جماعت اپنے مقصد میں بہت سنجیدہ لگتی ہے۔ مَیں اس جلسہ کو اور حضور انور کی خوشگوار ملاقات کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
٭ ایک مہمان دل افروز رستموہ صاحبہ جو کہ یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں بیان کرتی ہیں:
مَیں جلسہ کے انتظام سے بہت متأثر ہوئی ہوں۔ مہمان نوازی اور تعاون کی یہ مثال میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ جماعت احمدیہ کو یہاں بہت آزادی ہے۔ حضور انور نے لجنہ میں جو خطاب فرمایا وہ آج کے مسائل کا حقیقی حل ہے۔ کاش ساری دنیا اس پر عمل کر سکے۔ مجھے حضور انور سے ملاقات کا موقع ملا۔ حضور انور کو صحافت اور آج کے میڈیا کے مسائل پر کافی عبور حاصل ہے۔ مَیںملاقات سے قبل یہ سمجھتی تھی کہ حضور محض ایک روحانی شخصیت ہیں ۔ لیکن ملاقات سے پتہ چلا کہ حضور کو روحانی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف مسائل کے بارہ میں بھی معلومات ہیں اور حضور ان کا حل جانتے ہیں۔
حضور انور نے درست فرمایا کہ آج کی دنیا میں میڈیا فساد کو پھیلانے میں ساتھ شامل ہے۔ آج اگر میڈیا چاہے تو دنیا میں امن کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ میری نیک خواہشات جماعت احمدیہ اور حضور انور کے ساتھ ہیں۔
٭ عزّت امان صاحب صدر جماعت تاجکستان بیان کرتے ہیںکہ جلسہ سالانہ جرمنی میں دوسر ی دفعہ شامل ہوا ہوں۔ سب انتظامات قابل رشک تھے۔ یہ سب خلافت کی برکا ت ہیں۔ حضور انور سے ملاقات کی سعادت ملی۔ حجاب کے بارہ میں حضور انور کا مفصّل جواب بہت اچھا لگا۔مجھے لگتا ہے کہ حضور انور کو اِس زمانہ کی عورتوں کے حقوق کی بہت فکر ہے۔آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو حضور انور کی قیادت میں عورتوں کے حقوق اسلامی تعلیم کی روشنی میں اجاگر کر رہی ہے۔ حضور انور عورت کو با پردہ کر کے معاشرہ کو اور آئندہ نسل کو محفوظ کر رہے ہیں۔
٭ لتھوانیا (Lithuania)سے آنے والے وفد میں ایک خاتون Mrs. Aurelija Einoryte (آؤریلیا اینوریتے) صاحبہ شامل ہوئیں۔ موصوفہ نے بیان کیا جلسہ کا ماحول بہت محبت والا اور دوستانہ تھا۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آ رہا تھا۔ میں ایک لمبے عرصہ سے زندگی کے مقصد کے بارہ میں سوچ رہی تھی۔ اس جلسہ میں شرکت کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ زندگی کا مقصد ہم خیال لوگوں سے مل کر دوسروں کی خدمت کرنا ہے اور دوسروں کے کام آنا ہے۔
٭ لیتھوانیا سے آنے والے ایک طالبعلم Mr. Emis Vengrauskas(ایمیس وینگراؤکَسْ) نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلسہ دراصل اسلام کی اصل تصویر دیکھنے کا ایک ایسا موقع ہے جو کہ میڈیا دکھانے سے قاصر ہے۔میرے لئے سب سے متأثر کن بات لوگوں کا باہمی تعلق اور محبت اور ان کے ہر وقت مسکراتے چہرے ہیں۔ آپ کے خلیفہ کی شخصیت نہایت متأثر کن ہے۔ وہ ایک مجسم محبت ہیں۔ ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ محبت کو جسم کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔
٭ Mrs. Saule Bulavaite(ساؤلے بُلا وائتے) نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے جلسہ میں شمولیت اور خلیفہ سے ملنے کا دوسرا موقع ہے۔ یہ جلسہ میرے پچھلے جلسہ سے بہتر ہے کیونکہ اس دفعہ میرے پاس اسلام کا علم پہلے سے زیادہ ہے۔ حضور انور کے خطابات کا لتھوانین زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ ایک ہدایت کی روشنی ہیں اور جو جتنا چاہے اس نور سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
٭ لتھوانیا(Lithuania )سے آنے والی ایک مہمان خاتون Mrs. Dalia Umbrasiene (دالہ اُمْبَرَاسی آنے) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : جلسہ میں شامل ہو کر مجھے آپ کی جماعت کی روایات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں جلسہ کے پروگراموں سے اور انتظامات سے بہت متأثر ہوئی ہوں۔ آپ کے خلیفہ سے ملاقات نے بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ میں سب کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتی ہوں۔
٭ لتھوانیا سے آنے والی ایک خاتون Mrs. Ausra Umbrasaite(آؤشر اُمْبَراسائتے) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :مَیں پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی ہوں اور میں نے یہاں بہت کچھ سیکھا ہے۔ عصر حاضر میں اس طرح کے اجتماعات کی بہت اہمیت ہے کیونکہ عمومی طور پر لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ جماعت احمدیہ کا یہ حُسن ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل ہوتا دیکھ کر اسلام کے بارہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کا بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے اور اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دوریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ مجھے جلسہ سالانہ میں بطور مہمان شمولیت کی توفیق ملی۔
تاجکستان اور لتھوانیا کے مہمانوں کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی یہ ملاقات سوا آٹھ بجےتک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے باری باری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
افریقن ممالک سے آنے وفود کی ملاقات
اس کے بعد افریقہ کے ممالک گیمبیا، نائیجر، غانا، سینیگال، کانگو برازاویل سے آنے والے مہمانوں اور وفود نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔ اس ملاقات کا انتظام احمدیہ مسلم پان افریقن ایسو سی ایشن جرمنی نے کیا تھا۔
آغاز میں حضور انور نے جائزہ لیا کہ احباب و خواتین کا کن کن ممالک سے تعلق ہے۔ اس دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آج ادھر the Gambia کے افراد زیادہ موجود ہیں اور غانا کے کم ہیں۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا۔ لیکن یُوکے جلسہ میں ایسا کبھی نہیں ہو تا۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام حاضرین کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
سب سے پہلے ایک غانین احمدی نے عرض کی کہ حضور نے مختلف مواقع پر اپنے خطابات میں ایک بات کا ذکر فرمایاکہ جو اساتذہ ہیں وہ بچوں کا رجحان اس طرف لے جاتے ہیں کہ خدا کی کوئی ہستی نہیں ہوتی۔ اس طرح سے وہ بچوں میں خدا کا تصور مٹانا چاہتے ہیں۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
٭ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو بچوں پر بہت محنت کرنی ہو گی۔ جب وہ گھر آئیں تو آپ لوگوں کو بہتر تربیت گھر میں کرنی ہو گی۔ بچوں کو زیادہ وقت دیا کریں تا کہ انہیں یقین ہو کہ ایک خدا کی ہستی ہے۔اتنے مختلف ثبوت ملتے ہیں آجکل۔ social media میں ہی دیکھ لیں۔ ایک افریقن پروفیسر کہتا ہے کہ خدا کہاں پر ہے؟ ایک چھوٹی سی بچی اس کا جواب دیتی ہے۔ بے شک یہ ایک مذاق کی شکل میں ہیں لیکن یہ مذاق میں خدا تعالیٰ کی ہستی کی ہی ایک پختہ دلیل بیان کی گئی ۔ لہٰذا آپ کو نہایت محنت سے اس بارہ میں کام کرنا ہو گا۔ اور ساتھ اپنے اساتذہ کو بھی سمجھائیں کہ اگر آپ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ والدین اپنے بچوں پر اپنے مذہب کے مطابق اور اپنے مطلب کے مطابق تربیت کر رہے ہیں اور ان بچوں کا ذہن صحیح تعلیم کی طرف لے جا رہے ہیں تو وہ اساتذہ بھی وہی کام کر رہے ہیں اور بچوں کا ذہن متأثر کر رہے ہیں۔ لہٰذا آپ لوگ بھی انہیں کوئی آزادی نہیں دلا رہے۔ آزادی تو یہ ہوگی کہ انہیں کچھ بھی نہ کہا جائے۔ انہیں ان کے فیصلے خود کرنے دو جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچیں۔ ایک بچہ تو مثبت ذہن کا مالک نہیں ہوتا۔ بچہ خود تو فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ بہر حال اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔ پھر دوسری بات یہ کہ اساتذہ سے بھی بات کریں۔بہت سے ایسے والدین ہیں جنہوں نے اساتذہ سے بات کی۔ بلکہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب میں غانا میں تھا تو میرے بچے عیسائی سکولوں میں پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن میرا بیٹا یہ الفاظ منہ سے بولنے لگا کہ عیسیٰؑ خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ میں نے اس کو بتایا کہ نہیں۔ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نبی ہیں۔ ایسی بات نہیں تمہیں کہنی چاہئے۔ ایک دن جب سکول میں کچھ نظمیں بچوں کو پڑھنے کا کہا تو اس میں بھی کچھ ایسے الفاظ تھے کہ گویا عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں۔ میرے بیٹے نے یہ الفاظ کہنے سے انکار کردیا۔تو انہوں نے اس بارہ میں میری بیٹی کو بھی کہا۔ آپ کو third world کے سکولوں کے نظام کا تو پتہ ہی ہو گا۔ اس پر ان دونوں کو سزا دی گئی اورمارا گیا۔ تین دن تک انہیں یہ سزا دی گئی۔ چوتھے دن مَیں ادھر گیا اور انہیں بتایا کہ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ عیسیٰ ؑ خدا کے بیٹے نہیں بلکہ اس کے نبی ہیں۔ آج کے بعد میرے بچے بہر حال یہ نہیں کہیں گے کہ عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں۔ یا تو وہ اس موقع پر خاموش رہیں گے یا پھر یہ کہیں گے کہ وہ خدا کے نبی تھے۔ اس پر سکول والوں نے کہا ٹھیک ہے۔ آج کے بعد انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہر ماحول میں ہر جگہ کوئی نہ کوئی مشکلات ہوتی ہیں جن کا والدین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ مشکلات آپ نے حل کرنی ہوں گی۔
٭ ایک مرد نے پوچھاکہ بہت سے لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ جب ان کی حضور انور سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ جب ملاقات کے لئے انتظار کر رہے ہوتے ہیں تو سوچ رہے ہوتے ہیں کہ حضور انور سے کیا باتیں کرنی ہیں اور کیا سوال کر نے ہیں۔ لیکن یہ باتیں وہ ملاقات کے دوران بھول جاتے ہیں۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ میری غلطی تو نہیں ہے۔ اگر آپ نہیں بھولے جو آپ نے ملاقات سے پہلے میرے سے بات کرنی تھی تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کچھ بھی لوگ کہتے ہیں وہ غلط ہے۔ بعض اوقات کچھ لوگ اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے خیال کا اظہار نہیں کر پاتے۔ خاص طور پر وہ افراد جن کی پہلی بار ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اس موقع پر ان افراد کے جذبات کی وجہ ہوتی ہے نہ کہ کوئی خوف۔میں بھی ایک انسان ہوں ۔ ایک بار ایک شخص آنحضور ﷺ سے ملا اور کانپ رہا تھا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ خوفزدہ مت ہو۔ میں بھی ایک انسان ہوں اور ایک عورت کا بچہ ہوں جسے کھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔بہرحال ہم سب انسان ہی ہیں۔ لیکن اگر احترام کی وجہ سے کوئی جذبات کی وجہ سے اپنی بات نہ بیان کر سکے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ ورنہ میرے سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
٭ ایک افریقین دوست جن کا تعلق لنڈن سے تھا سوال کیا کہ کیاایک احمدی لڑکی ایسے سکول میں پڑھائی کرسکتی ہے جو کے غیر احمدیوں کے تحت چلایا جا رہا ہو؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس کی ممانعت ویسے تو نہیں ہے۔ اگر ایک احمدی لڑکی ایک ایسےgirl اسکول میں جو غیر احمدی کےتحت ہے بہتر رنگ میں تعلیم حاصل کرسکتی ہے اور وہ وہاں محض سیکولر تعلیم دیتے ہوں تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کی جائے۔ آپ کا تعلق تو لندن سے ہے۔ تو ادھر کیا کوئی احمدی اسکول موجود ہے؟آپ کے تمام بچے یا تو حکومتی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر چرچ اسکول میں؟ اگر وہ چرچ سکول میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں تو پھر ایک غیر احمدی سکول میں تعلیم حاصل کیوں نہیں کرسکتے۔
٭ ایک غیر از جماعت خاتون نے سوال کیا کہ میں احمدی تو نہیں ہوں۔ میرے والدین بھی ساتھ ہیں جو میرے ساتھ موجود ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ دنیا میں تبدیلی کس طرح لانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ آج کل بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو احمدی مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں اور اس طرح سے احمدی مسلمان محفوظ نہیں ہیں۔ تو آپ اس صورتِ حال کو کس طرح سے بدلنا چاہتے ہیں۔ یورپ میں بھی اور تمام دنیا کے ممالک میں بھی احمدی کس طرح تبدیلی لا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا:
احمدیہ مسلم جماعت ایک مذہبی جماعت ہے۔ جو مذہبی جماعتیں ہوتی ہیں وہ صرف ایک رات میں ہی نہیں دنیا میں غالب آجاتیں۔ اور نہ ہی اپنے تمام علاقہ میں پھیل جاتی ہیں۔ بہت سے انبیاء اب تک آچکے ہیں۔ ہمارے ایمان کے مطابق ہر ملک میں نبی گزرا ہے۔ کیا ان انبیاء نے تمام دنیا میں تبدیلی کی؟ یا پھر اپنے تمام علاقہ میں تبدیلی لائے؟ اتنے انبیاء گزرے ہیں جن کو ان کی قوم نے قبول نہیں کیا۔ ان کے پیغام کا انکار کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ان پر ظلم ہوا۔ آخر کار خدا تعالیٰ نے ان کی قوموں کو سزا دی۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت ایک مذہبی جماعت ہے۔ آنحضور ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق امام مہدی کا ظہور آخری زمانہ میں ہو نا تھا اور اس نے آکر اسلامی تعلیم کو دبارہ سے زندہ کرنا تھااور اسلام کا پیغام پھیلاناتھا ۔ان دنوں میں چونکہ میڈیا نے بھی بہت ترقی کرلی ہو گی تو آپ لوگوں کو اس ذریعہ سے دنیا کے ہر کونے تک کامیابی حاصل ہو گی۔ تو ہم بالکل یہ کام کر رہے ہیں۔ ایک فرد جس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ہے وہ ایک دور دراز کے علاقہ قادیان میں رہتا تھا جو ہندوستان کے ایک صوبہ پنجاب میں واقع ہے جدھر کوئی سڑک نہیں جاتی تھی اور نہ ہی کوئی ٹرین۔ اس نے اس زمانہ میں دعویٰ کیا اور اس کا پیغام اس چھوٹے سے گاؤں سے باہر پھیلا اور ہندوستان کے بڑے شہروں تک پہنچا اور پھر برّ صغیر تک جا پہنچا اور پھر یہ پیغام تمام سرحدیں پار کر کے دور جگہوں تک پہنچا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی یہ پیغام امریکہ اور یُوکے تک بھی پھیل گیا تھا۔اس وقت سے احمدیہ مسلم جماعت مسلسل پھیل رہی ہے اوراب توہم دنیا کے 212 ممالک میں پھیل چکے ہیں۔ ہر سال افریقہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی ایک بڑی تعداد میں احمدی ہو رہے ہیں اور ہم دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ اور امید ہے کہ انشاء اللہ ایک دن اسلام کا حقیقی پیغام پوری دنیا تک پھیل جائے گا اور اکثریت اس پیغام کو مان بھی لے گی۔اور یہ سب احمدیہ مسلم جماعت کے تبلیغی کام سے ہوگا۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ایک رات میں پوری دنیا میں تبدیلی لائیں گے لیکن ہم یہ کام جاری رکھیں گے اور ہم اپنا کام نہیں چھوڑیں گے اور انشاء اللہ ایک دن لوگوں کے دل جیت کر ہم فتحیاب ہوں گے۔ ہم نے اس طرح سے لوگوں کو اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع کرنا ہے جو پھر وحدہٗ لاشریک خدا کے سامنے جھک جائیں گے اور اسلام کے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کو قبول کرلیں گے۔
٭ ماریشس سے تعلق رکھنے والے صاحب نے عرض کیا کہ حضور،جب آپ کا اگلا افریقہ کا دورہ ہو تو ماریشس کو بھی یاد رکھیے گا۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا
ماریشس تو افریقہ کے اس علاقہ میں ہے جو ایشیا کے قریب ہے۔ تو اگر میں افریقہ جاؤں گا بھی تو ماریشس نہیں جاسکوں گا۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیا کہ اس کا تعلق کانگو برازاویل سے ہے اور وہ ایک صحافی ہیں اور احمدی نہیں ہیں۔خلیفہ کو دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوں کہ خلیفہ ہمارے درمیان بیٹھے ہیں اوریہ بالکل بھی وہ خلیفہ نہیں لگ رہے جس اسلام اور خلیفہ کے بارہ میں ہم سنتے آئے ہیں۔ یہ تو بالکل مختلف ہیں ۔میں بتانا چاہتا ہوں کہ اصل اسلام تو آپ کے پاس ہے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔وہ اسلام جس کے بارہ میں حضور ہمیں بتا رہے ہیں وہ توامن اور پیار والا ہے۔ اب ہم دنیا کو کس طرح تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم ہر جگہ جنگ و جدال دیکھ رہے ہیں ۔ ہمیںان جنگوںکے پیچھے مغربی ممالک کے ہاتھ نظر آرہے ہیں۔ خواہ وہ افریقہ میں ہوں یا middle east میں ہوں۔ہر جگہ بڑی طاقتیں پیچھے ہیں۔ آپ اب کس طرح دنیا میں تبدیلی لاناچاہتے ہیں؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بناسرہ العزیز نے فرمایا
پہلی بات تو یہ ہے کہ جو خلافت کے بارہ میں آپ کہہ رہے ہیں، تو اس بارہ میں واضح ہو کہ خود کسی کو اجازت نہیں کہ وہ کہے مَیں ایک خلیفہ ہوں۔ خلافت کے نظام کے لئے ایک باقاعدہ اصول ہے جو کہ رسول کریم ﷺ نے بیان فرمادیاہے۔ اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں امام مہدی اور مسیح موعود آئے گا اور وہ اسلام کی اصل تعلیم کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس کے بعد خلافت کا نظام دوبارہ سے قائم ہو گا۔ تو یہ وہ سچی خلافت ہے اور اس کے ساتھ حضور ﷺ نے یہ ضمانت بھی دی کہ یہ خلافت کامیاب ہو گی اور دنیا پر فتحیاب ہو گی لوگوں کے دلوں پر بھی غلبہ پائے گی۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی اس خاتون کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کامیابی کچھ وقت چاہتی ہے۔ اب وہ ایک فرد جس نے ہندوستان کے ایک دور درازعلاقہ میں ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود ہیں ۔ اُس وقت اُدھر نہ تو کوئی ٹرانسپورٹ کے ذرائع تھے اور نہ ہی کوئی اور ایسی سہولتیں تھی۔ لیکن پھر بھی آپ کی وفات کے وقت ان کے پیرو کاروں کی تعدادچار لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اور ان کے بعد بھی اب دیکھ رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اس ایک گاؤں سے پیغام پھیلا اور آج تک دنیا کے 212 ممالک تک پھیل گیا۔ اورافریقہ میں بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لئے امید ہے کہ انشاءاللہ ایک دن ہم دنیا کی اکثریت کے دل جیت لیں گے اور وہ لوگ اسلام کی حقیقی تعلیم جان لیں گے۔ اور وہ تعلیم یہ ہے کہ امن، پیار اور ہم آہنگی۔
ہمارا اسلام کوئی نیا اسلام نہیں ہے۔ ہمارا اسلام وہی اسلام ہے جو آنحضرت ﷺ لائے تھے۔ اور وہ پیار و امن اور ہم آہنگی والا ہے۔ آپ ﷺ کے زمانہ کے دوران بھی وہ ابتدائی تیرہ سال تک نہیں پھیلے تھے۔ جب آپ ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی اور مکہ والوں نے مدینہ کے قلیل تعداد مسلمانوں پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو اپنے دفاع کی اجازت دی کہ اب آپ لوگ ان کے مظالم کا جواب دے سکتے ہو اور اپنا دفاع کر سکتے ہو۔ اگر وہ ایک حملہ کریں تو اب ان کے خلاف لڑ بھی سکتے ہو۔ یہ وہ پہلا حکم تھا دفاعی جنگ کا جو کہ حضرت محمدﷺ کو دیا گیا تھا۔ ساتھ یہ بھی واضح کردیا اور قرآن کریم میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اگر تم نے ان کے مظالم کا جواب نہیں دیاجو کہ نہ صرف مسلمانوں کو مٹانا چاہتے تھے بلکہ اس مذہب کو بھی صفحہء ہستی سے مٹانا چاہتے تھے، تو پھر کوئی بھی مندر یا synagogueیا چرچ یا مسجد نہ بچے گی۔ یہ جنگ کا پہلا حکم تھا جو دیا گیا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو حکم مسلمانوں کو دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ دشمنوں کو اسی طرز سے جواب دیں جس طرز سے وہ حملہ کر رہے ہیں۔ اور اس کا مقصد یہ تھا کہ مذہب کو بچایا جائے۔ تو حقیقی اسلام یہ تھا۔ اور آج جو اسلام کے دشمن ہیں وہ اسلام کے خلاف جنگ نہیں کر رہے۔ اب اسلام پر حملہ کرنے کی طرز بدل گئی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی اسی طرح جواب دینا ہوگا جس طرح دشمن اسلام پر حملہ آور ہے اور بالکل یہ کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے کہ اسلام کا حقیقی پیغام دنیا بھر میں پھیلا یا جائے اور اسلام کی امن پسند تعلیم دنیا کے سامنے رکھی جائے۔ ہم اس طرح تبلیغ کر رہے ہیں کہ لٹریچر شائع کر رہے ہیں اور electronic میڈیا کے ذریعہ سے بھی پیغام پہنچا رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہرسال لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ انشاء اللہ ایک دن ہم اکثریت میں ہوں گے۔
آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی جس کے ساتھ یہ ملاقات کا پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔
بعد ازاں 9بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزی اپنی رہائشگاہ پر تشریگ لے گئے۔
………………………
(باقی آئندہ)