الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

حضرت مولوی ظہور حسین صاحب


روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اکتوبر 2012ء میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب مبلغ روس و بخارا کی خودنوشت سے منقول مضمون (بقلم مکرم زبیر احمد صاحب) شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں 4؍اپریل 2008ء، 28؍ستمبر 2012ء اور 3؍اپریل 2015ء کے شماروں کے اسی کالم میں حضرت مولوی صاحب کا ذکرخیر کیا جاچکا ہے۔

حضرت مولوی ظہور حسین صاحب کا تعلق دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور سے تھا۔ آپ کے والد محترم شیخ حسین بخش صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ارشاد پر آپ کو اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں داخل کروادیا جب آپ پانچویں جماعت میں تھے۔ ایک دن حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے آپ کو فرمایا: ’’ظہور حسین تم سمجھتے ہو کہ عربی پڑھنے سے تم کنگال ہو جائو گے اور ساری عمر روٹی کمانے میں مشکل پیش آئے گی۔ لیکن مجھے دیکھو کہ میں نے بھی صرف قرآن پڑھا ہے، کیا خدا تعالیٰ کا فضل مجھ پر ایسا نہیں کہ بہتوں کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتا۔‘‘

1920ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جامعہ احمدیہ میں مشنری کلاسز کا اِجرا فرمایا تو حضرت مولوی صاحب بھی اس میں شامل ہو گئے اور 1922ء میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1923ء میں جموں میں مبلغ مقرر ہوئے۔ جموں میں آریوں نے آپ سے تنا سخ کے مسئلہ پر مناظرہ کی طرح ڈالی۔ لیکن آپ کے دلائل سُن کر آریہ مناظر نے یہ کہہ کر مناظرہ سے جان چھڑائی کہ بات چونکہ لمبی ہو گئی ہے اس لئے یہ گفتگو آئندہ کبھی جاری رکھیں گے۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کا حوصلہ بہت بلند ہوا۔

دسمبر1923ء میں جلسہ سالانہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے مولوی صاحب کو فرمایا کہ آپ کچھ دن یہاں ٹھہریں۔ پھر حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ آپ بخارا جائیں۔ 1924ء میں شہزادہ عبدالمجید صاحب (تہران کے لئے) او ر مولوی محمد امین خان صاحب اور مولوی ظہور حسین صاحب (بخارا جانے کے لئے) قادیان سے روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل مولوی محمد امین خان صاحب سے حضورؓ نے ہر دو کے کرایہ کی تفصیل مانگی لیکن تفصیلی اخراجات کو ملاحظہ کرکے فرمایا:’’یہ اتنے زیادہ اخراجات لکھ دیے ہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ بہت کم اخراجات ہوں، حتیٰ کہ دوسرے جانے والے مبلغین کے لئے بھی آپ لوگ نمونہ بنیں۔‘‘

مولوی صاحب کو جب حضورؓ کے ارشاد کا علم ہوا تو آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے حضورؓ کی خدمت میںایک عریضہ لکھا کہ جو تفصیل اخراجات کی حضورؓ کے سامنے پیش کی گئی ہے مجھ کو اس کا کوئی علم نہیں۔اے میرے محسن! اگر حضور عاجز کو ایک پائی بھی نہ دیں تو عاجز خوشی سے پید ل جانے کو تیار ہے۔ حضور کا کتنا بڑا احسان ہے کہ حضور نے خدمت ِ دین کے لئے عاجز کو منتخب فرمایا۔

حضورؓ نے آپ کا یہ خط پڑھا،تو جو سفر خرچ دونوں کے لئے مقرر فرمایا تھا اُس میں دوصد روپے کا اضافہ فرمادیا۔ چنانچہ تینوں مبلغین 14؍جولائی 1924ء کو قادیان سے روانہ ہوکر براستہ کوئٹہ، ایران کے شہر مشہد پہنچے۔ کوئٹہ سے مشہد تک چھ سو میل کا صحرا اور جنگل ہے جو 45یوم میں کبھی پیدل چل کر اور کچھ اونٹ اور گدھے پر سوار ہو کر طے کیا۔ راستہ میں میل ہا میل تک پانی نہیں ملتا اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو گدلا اور کھاری۔ ایک بار 56 میل تک پانی نہ ملا اور مشک میں بھی پانی ختم ہوگیا تھا۔ یہ منزل دودن میںطے کرنی تھی۔ محمد امین خان صاحب پہلے ایک قافلہ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ حضرت مولوی صاحب اور حضرت شہزادہ صاحب پیچھے پیچھے چل پڑے۔ راہ میں شدّتِ پیاس سے دونوں گدھوں سے اتر کر پیدل چلنے لگے، کیونکہ گدھے بھی پیاسے تھے۔ راستہ ختم ہونے سے کچھ پہلے شہزادہ صاحب پیاس کو برداشت نہ کر سکے اور وہیں لیٹ گئے۔ آپ سخت گھبراگئے اور بے چین ہوکر چلتے رہے۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک شترسوار آرہا تھا۔ اُس کے پاس پانی موجود تھا۔ آپ کے مانگنے پر اُس نے پانی پلایا، پھر آپ نے شہزادہ صاحب کی طرف اشارہ کیا تووہ سوار تیزی سے اُن کے پاس پہنچا اور پانی پلایا اور اپنے ساتھ اونٹنی پر سوار کر کے منزل پر لایا جہاں کہ پانی موجود تھا۔

برکوؔ (ایران) پہنچے تو مولوی صاحب کو تپ محرّقہ ہوگیا جو ایک ماہ تک رہا۔ صحت بحال ہونے کے بعد آپ 8؍دسمبر 1924ء کو ایک ترک نوجوان کے ہمراہ بخارا جانے کے لئے روانہ ہوئے ۔ 13؍دسمبر کو ترکستان (روس) میں ارتھکؔ کے سٹیشن پر اُترے۔ اس جگہ برف بڑی کثرت سے گر رہی تھی۔ اُس ترک نے آپ کو اپنے ایک واقف کا ر کی دکان میں چھپا دیا اور اگلے دن شام کو آپ کو بخارا جانے والی گاڑی پر سوار کرانے کے لئے لے گیا۔ لیکن ابھی ٹکٹ خریدا تھا کہ سوار ہونے سے پہلے ایک روسی فوجی نے دیکھ لیا اور اِن دونوں کو اپنے ساتھ دفتر لے گیا۔ اُس نے آپ کے تمام کپڑے، بستر،کتابیں، ٹکٹ اور نقدی وغیرہ رکھ لیںاور چند کپڑے دے کر دونوں کو قیدخانہ میں داخل کر دیا۔ آپ پر اس قدر شک تھا کہ رات کو جب آپ تہجد کے لئے اُٹھتے تو پہرہ پر موجود سپاہی کھڑکی سے دیکھ کر شک کرتا کہ یہ بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پھر اگلے دن ایک دو افسر آکر کمرہ کے دروازہ اور کھڑکی کو غور سے دیکھتے کہ کہیں یہ بھاگ تو نہیں جائے گا۔ آپ سے دن کو کام بھی لیا جاتا مثلاً پانی منگوانا، صفائی کروانا اور زمین کھودنا وغیرہ لیکن کھانے کے لئے کچھ نہ ملتا تھا۔ بلکہ دوسرے قیدیوں کا اگر باہر سے کھانا آجاتا یا کوئی اپنے پیسوں سے منگواتا تو وہ آپ کو بھی کچھ دے دیتا ورنہ آپ بھوکے پیاسے پڑے رہتے۔آپ کے ساتھی قیدی آپ کو جھوٹ بول کر آزاد ہوجانے کا مشورہ دیتے لیکن آپ نے یہ مشورہ قبول نہ کیا۔ دعائیں جاری رہیں۔ تہجد کی ادائیگی، نماز فجر کے بعد قرآن شریف کی تلاوت، سورج طلوع ہونے کے بعد دو نفل ادا کرنا اور ہمہ وقت دعائیں۔

ارتھک سے آپ کو اشک آباد لے جایا گیا۔ وہاں سٹیشن سے جیل جاتے ہوئے بازار میں آپ نے تازہ روٹی پکتی دیکھی تو سوچا کہ اب یہ روٹی مجھ کو کہاں مل سکتی ہے؟ لیکن فوراً آپ کے ساتھی نے سپاہی کو کچھ پیسے دے کر روٹی منگوائی اور کچھ حصہ آپ کو دے دیا۔ آپ خداتعالیٰ کے اس احسان کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جب کبھی غمگین زیادہ ہوتے تو وضو کرکے نفل ادا کرلیتے۔ بارہا خداتعالیٰ نے آپ کو خوابوں میں تسلی دی۔ ایک دفعہ خواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دیکھا کہ وہ فرما رہے ہیں کہ تم کو یہاں قید خانہ میں سونے کے لئے تو نہیں بھیجا تھا، بلکہ تبلیغ کے لئے بھیجا تھا۔ چنانچہ آپ نے جیل میں ایک روسی سے زبان سیکھنی شروع کر دی۔

آپ کے نہانے وغیرہ پر پابندی تھی۔ کپڑے جو ارتھک سٹیشن پر پہنے تھے وہی زیب تن تھے اور تقریباً گل چکے تھے۔ پھر آپ کو تاشقند لے گئے۔ وہاں قیدخانے میں تقریباً 30 عورتیں بھی شامل تھیں اور غالباً سیاسی قیدی تھیں کیونکہ اُن کو کھانا اعلیٰ قسم کا ملتا تھا۔ روزانہ ہی اُن میں سے ایک دو عورتیں آپ کے لئے اپنے کھانے سے بچا کرلے آتی تھیں اور حیرت سے دیکھتی تھیں کہ عام قیدی تو دیدے پھاڑ کر اُن کو گھورتے تھے۔ لیکن یہ اجنبی لڑکا اُن کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہ تھا۔

تاشقند میں آپ نے روسی زبان سیکھنے اور قرآن شریف کے بعض حصے حفظ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعض مسلمان اور آرمینین قوم کے لوگ بھی قید تھے۔ اُن میں سے اکثر آپ کے انتہا درجہ کے گرویدہ ہو چکے تھے۔ بعض آپ کو ولی سمجھتے۔ دن کو آپ قیدیوں کے ساتھ کام لیتے لیکن روزانہ رات کو آپ کی پیشی ہوتی اور سوال و جواب کالا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔ چنانچہ آپ کو آرام کا موقع نہ ملتا۔ بعض دفعہ ساری ساری رات جگائے رکھتے تاکہ کسی طرح تکلیفوں سے تنگ آکر آپ انگریزی جاسوس ہونے کا اقرار کرلیں۔ اُنہی دنوں جیل میں قیدیوں نے احتجاج کیا اور بھوک ہڑتال کردی۔ آپ نے اُن کے ساتھ درخواست پر دستخط نہ کئے۔ روسی افسران کو آپ کے اس فعل پر تعجب ہوا تو وجہ پوچھی۔ آپ نے بتایا کہ قرآن ہمیں جائز مطالبات منوانے کے لئے ناجائز طریق اختیار کرنے سے منع کرتا ہے۔ احتجاج بھی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ پھر آپ نے ایک علیحدہ درخواست دی کہ روسی حکومت کے فلاں قانون کے مطابق قیدیوں سے سلوک کرنا چاہئے۔ قیدیوں کی عدالتوں تک رسائی ہونی چاہئے۔ چنانچہ اس جیل سے قیدی دوسری جیلوں میں بانٹ دیے گئے۔وہاں آپ کی بہت سے مسلمان قیدیوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ لوگ آپ سے مانوس ہو گئے اور آپ کو اپنا امام بھی منتخب کرلیا۔ روس میں ابتدائی احمدی انہی لوگوں میں سے ہوئے۔ اُن کے ایمان اور محبت کو دیکھ کر حضرت مولوی صاحب کو حیرت ہوتی تھی کہ یہ لوگ صرف ایک مبلغ کو دیکھ کر ایمان لے آئے ہیں۔

تاشقند جیل میں طبقہ امراء سے ایک شخص عبداللہ آیا جسے مذہبی علوم پر کافی دسترس تھی۔ اُس نے احمدیت قبول کرلی تو قیدیوں کی ایک بڑی تعداد بھی احمدی ہوگئی۔ دراصل یہ قیدی کسی جرم کے نتیجہ میں قیدی نہ بنے تھے بلکہ روسی حکومت اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے معمولی باتوں پر لوگوں کو پکڑلیتی اور جیل بھیج دیتی تھی۔ قید کا عرصہ عموماً مختصر ہوتا تھا۔ چنانچہ لوگ آتے اور جاتے رہے اور شہر میں ایک معقول تعداد میں جماعت بن گئی۔ اکثر نَواحمدی سوچ سمجھ کر ہوئے تھے اور اکثر پڑھے لکھے اور زیرک لوگ تھے۔ بعض لوگ تو ایمان میں اس حد تک ترقی کر گئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا نام سنتے ہی اُن کی آنکھوں سے محبت اور عقیدت کے آنسو بہنے لگتے تھے۔ وہ حضرت مولوی صاحب سے جب سنتے کہ حضرت اقدسؑ کے ساتھ اُن کی قوم نے کیا سلوک کیا تو بعض اُن میں سے زارو قطا ر روتے اور رات کو احمدیت کی ترقی کی دعائیں کرتے۔

عبداللہ خان صاحب کی بیعت کے بعد ایک شور سا مچ گیا اور روسی حکام نے دو مقامی مُلّائوں کو جیل میں بھیجا تاکہ عبداللہ خاں کو دوبارہ مسلمان بنایا جائے۔ عبداللہ خاں صاحب پر تو اُن کی باتوں کا اثر نہ ہوا۔ روسیوں کو بھی اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ کوئی مقامی مالدارذی و جاہت شخص احمدی ہو جائے،لیکن اُن کو یہ فکر ضرور تھی کہ اگر بڑے بڑے لوگ احمدی ہونا شروع ہو گئے تو پھر مولوی صاحب کا کیا بنے گا۔ پھر روسی حکومت نے ایک بڑے عالم اور مقتدر طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص عبدالقادر کو جیل کے اندر یہ کام کرنے کے لئے بھیجا۔ اگرچہ وہ بھی ناکام رہا مگر اُس نے روسی حکومت کو بتایا کہ مولوی صاحب کی عبادات کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور عنقریب ایک بڑی جماعت آپ کے ساتھ ہو جائے گی۔ اس پر حکام خوفزدہ ہو ئے۔ دراصل روسی حکّام سوچ رہے تھے کہ اتنے بڑے عالمِ دین کو ایک معمولی ریلوے سٹیشن سے بغیر پاسپورٹ کے روس میں داخل ہو نے کی کیا ضرورت تھی۔

دراصل حضرت مولوی صاحب کو ایران میں کافی دن ٹھہرنا پڑا تھا۔ وہاں کے حالات ایسے تھے کہ کسی ہندوستانی کو روسی ویزا ملنا قریباً نا ممکن تھا۔ انگریزی اور روسی انقلابی حکومت کے تعلقات حد درجہ خراب تھے۔ خاص طور پر اسلام کے مبلغ کو وہ ویزا کیوں دیتے۔ ایرانی روسی چیک پوسٹ پر بھی کسی نے کوئی خاص سوالات نہ پوچھے۔ ویسے بھی اُن دنوں پاسپورٹ وغیرہ کی پابندیاں محض برائے نام ہی تھیں۔

تاشقند میں کئی لوگوں کے بیعت کرنے پر آپ پر سختی ہونا شروع ہو گئی۔ ساری ساری رات جگائے رکھتے اور سوال کرتے رہتے۔ آپ نے کتاب’’احمدی اور غیراحمدی میں فرق‘‘ کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا ہوا تھا۔ یہ کتاب بار بار پیش ہوتی رہی۔ اعلیٰ روسی افسر کو مترجم نے جب روسی زبان میں دس شرائط بیعت کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو اس کے چہرہ کا رنگ بدل گیا اور اُس نے نہایت تعظیم کے ساتھ بار بار اس کتاب کو ہاتھ میں لیا اور اپنی نوٹ بک میں بہت سی باتیں نقل کیں۔پہلے مذہب پر بحث ہوتی رہی، کچھ دنوں بعد سیاست موضوع بن گیا۔یہ سلسلہ تین چار ماہ تک جاری رہا۔ شروع میں جو عیسائی مترجم تھا،وہ یہ لمبی چوڑی بحثیں سن کر احمدیت قبول کر چکا تھا۔

حالات بدلنے لگے۔ جیل کا کھانا اگرچہ واجبی سا تھا لیکن ملتا تو رہتا تھا مگر پھر یہ حالت ہوگئی کہ کسی کو اگر یاد رہتا کہ اس قیدی کو بھی کھانا ملنا چاہئے تو کچھ نہ کچھ مل جاتا، لیکن کئی کئی اوقات کا کھانا ہی نہ ملتا۔ پھر مارپِیٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے روزانہ یا ایک آدھ دن کے وقفے کے بعد مارنے لگے۔ اذیت ناک سزا قید تنہائی کی بھی تھی۔ ایک اندھیری کوٹھری میں جس میں روشنی کی مدھم سی شعاع تک نہ آسکتی تھی اس میں ایک ایک ہفتہ،بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ عرصہ تنہا گزارنا پڑتا تھا۔ کیڑے مکوڑے اور چوہے وغیرہ تو وہاں عام تھے۔ سزائے موت سنانے کے لئے مکمل شہادت دستیاب نہ ہو سکی تو جعل سازیاں شروع ہوئیں لیکن تفتیشی افسر کے سامنے جیل حُکّام کی جعل سازی پکڑی جاتی۔ دسمبر کے انتہائی سرد موسم میں آپ کو ننگے فرش پر لٹا کر مارا پیٹا جاتا تھا اور پھر ساری ساری رات یونہی گزر جاتی۔ کوئی پُرسان حال نہیں تھا، زخموں سے خون بَہ رہا ہوتا تھا۔ جسم میں اتنی سکت بھی نہ ہوتی کہ ہاتھ پائوں بھی ہلا سکیں۔ دن چڑھتا تو سپاہی آپ کو نیم مُردہ حالت میں فرش سے اُٹھاتے، گرم پانی دیتے اور کچھ پلاتے۔ تھوڑا بہت کھانے کو بھی دیتے جس سے جسم کی حرارت تھوڑی بہت عود کر آتی۔ آپ کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں ایک آدھ زخم کا نشان موجود نہ ہو۔

ایک رات آپ کے کمرہ میں چھ سات سپاہی داخل ہوئے اور اس قدر مارا کہ جس کی مثال پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ آپ نیم بیہوشی کی حالت میں فرش پر گر پڑے تو آپ کے دونوں بازوئوں کو مروڑ کر پیٹھ کے پیچھے اس سختی کے ساتھ رسیوں سے باندھا گیا کہ نیم بیہوشی میں بھی آپ کی چیخ نکل گئی۔ ایک تختے پر ڈال کر اس زور سے رسیاں کسیں کہ آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گوشت کے اندر گھس گئی ہیں۔بیہوش ہوجانے پر چھوڑا اور وہیں پھینک دیا۔ سردی کی شدّت سے چہرے پر برف کی تَہ آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی۔ بعد میں جب ہسپتا ل لے گئے تو پیٹھ پر تیزابی مادے میں کئی گھنٹے بھیگے رہنے کی وجہ سے بڑے بڑے چٹاخ اور زخم بن چکے تھے۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ (خلیفۃ المسیح الرابع) اپنے بچپن اور آغاز جوانی میں کئی مرتبہ آپ کی پیٹھ پر وہ زخم دیکھتے تو اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی تھیں۔

اُس خوفناک رات کے حوالہ سے حضرت مولوی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ یہ زخم میری پیٹھ پر ہمیشہ کے لئے میری مظلومیت کے نشان کی صورت میں ثبت ہوگئے۔ صبح سپاہی مجھے دیکھنے آئے تو پہلے تو یہی سمجھے کہ مَیں مرچکا ہوں بہرحال جب رسیاں وغیرہ کھولیں تو انگ انگ سے خون رس رہا تھا۔ اس اثنا میں مجھے ایک روسی افسر کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس نے جب میری نازک حالت دیکھی تو پوچھا کہ یہ ظلم تم پر کس نے کیا ہے؟میں نے اس کو گزشتہ رات کی داستان سنائی اور ساتھ ہی درخواست کی کہ میرے ساتھ انسانوں والا سلوک کیا جائے، مَیں نے کوئی جرم نہیں کیا،اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کوئی ظلم تو نہیں۔ یہ تو عقیدے کی بات ہے۔ اگر انگریزی حکومت اور روسی سرکار کے تعلقات خراب ہیں تو ایک غریب اور کمزور انسان پر ظلم کر کے ان دونوں حکومتوں کو کیا مل جائے گا۔ اُس وقت تو وہ روسی افسر خاموش رہا اور کچھ نہ بولا لیکن تھوڑی دیر بعد میرے کمرہ کے باہر ایک ایمبولینس آگئی اور مجھے ہسپتال لے گئی۔اُس افسر کی سفارش پر مَیں ہسپتال بھیجا گیا جہاں میں نے دو ماہ گزارے۔ وہاں ہرطرح کا آرام اور آسائش مجھے حاصل رہا۔ اور پھر مجھے (دوبارہ جیل) بھیج دیا گیا۔

جیل میں حضرت مولوی صاحب کو سؤر کا گوشت کھلا نے کی بھی کوشش کی گئی۔لیکن جیل سٹاف میں کچھ ہمدرد بھی تھے جنہوں نے آپ کو بتا دیا۔ اس کے بعد آپ نے سالن وغیرہ کھانا بالکل چھوڑ دیا۔ آدھی ڈبل روٹی جو پانی کے ساتھ روزانہ ملتی تھی وہ پانی کے ساتھ نگل لیتے۔

پھر جیل میں ایک نیا وارڈن آیا جو عیسائی تھا۔ایک دن وہ آپ کو کہنے لگا کہ تم کیوں نہیں اپنے خدا سے مدد مانگتے اور کیوں نہیں اُس کو کہتے کہ قادیان میں تمہارے خلیفہ کو اس بارہ میں خبر کرے تا تمہاری کچھ حکومتی سطح پر مدد ہو سکے۔ آپ نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ نے خواب میں بتا یا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو تمہارے بارہ میں اطلاع ہوچکی ہے اور وہ تمہاری رہائی کے بارہ میں پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وارڈن یہ سن کر اپنی کرسی سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور آپ سے یہ پوچھا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ آپ نے کہا ہمارا خدا عالم الغیب خدا ہے اس نے یہ ساری باتیں خواب کے ذریعہ مجھے بتائی ہیں۔ باتوں باتوں میں جب آپ نے اس کو حضرت مسیح موعودؑ کی جنگ عظیم اور زار روس کو بہت بڑی ذلّت پہنچنے کے بارہ میں پیشگوئیوں کا بتایا تو یہ باتیں سن کر اُس کا رنگ زرد ہو گیا اور کہنے لگا تمہارے پاس اس کا کوئی قطعی ثبوت ہے تو پیش کرو۔ آپ نے کہا کہ میری ضبط شدہ کتابوں میں ایک ’’براہین احمدیہ حصہ پنجم‘‘ ہے جو 1905ء میں چھپی تھی، اُس میں زار روس کے متعلق پیشگوئی موجود ہے۔ یہ جواب سن کر اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کچھ دیر تک وہ بالکل خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا کہ تم اپنے کمرہ میں جاسکتے ہو اور جہاں تک میرا تعلق ہے آئندہ نہ تم کو کوئی مارے گا اور نہ کوئی تکلیف دی جائے گی۔

حُکّام مختلف لوگوں کو حضرت مولوی صاحب کا کھوج لگانے کے لئے جیل میں بھیجتے رہتے تھے۔ تاشقند کے ایک بڑے مسلمان عالم کو بھی بھیجا جو چند دن وہاں رہ کر خاموشی سے آپ کا مشاہدہ کرتا رہا اور آخر ایک روز آپ کے پاس آکر کہا کہ مَیں بہت دنوں سے آپ کی شخصیت کا مطالعہ کررہا ہوں اور آپ کی باتیں سنتا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ احمدیت سچائی پر مبنی ہے لہٰذا میں بھی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔

ارتھک، اشک آباد اور تاشقند میں قریباً 9 ماہ گزارنے کے بعد آپ کو ماسکو لے جانے کا حکم ملا۔ ماسکو میں بھی روزانہ پٹائی اور ساری ساری رات جگا ئے رکھنا معمول بن گیا … تاشقند میں تو مہینہ میں ایک آدھ مرتبہ کپڑے وغیرہ تبدیل کرنے کی اجازت بھی مل جاتی تھی۔ نہانا تو وہاں ایک قسم کا تعیش کا آئٹم تھا لیکن سر کے بال منڈوانے یاناخن وغیرہ کاٹنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ماسکو میں کپڑے بدلنے کی مکمل ممانعت تھی۔ بال اور ناخن کٹوانے پر بھی قدغن تھی۔ ایک قیدی نے آپ کو مقامی روسی اخبار کا ایک صفحہ دکھایا جس میں جلی عنوان سے یہ خبر درج تھی کہ ماسکو جیل میں آجکل ایک انڈین مولوی لوگوں کو بہکارہا ہے اور بہت سے لوگوں کو خدا کی ہستی کا قائل کرلیا ہے پس حکومت اس پاگل پن کا فوری طور پر خاتمہ کرے۔ حضرت مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جوں جوں ماسکو میں عرصہ حیات مجھ پر تنگ ہوتا گیا، اللہ تعالیٰ کی عنایات اسی نسبت سے مجھ پر زیادہ نازل ہونے لگیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا تھا کہ خواب میں مجھے تسلّی نہ دی جاتی ہو۔

چند روز بعد جیل سپرنٹنڈنٹ نے آپ کو بلاکر کہا کہ تمہاری صحت بہت کمزور ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ زیادہ دیر تک تم یہاں کی سردی برداشت نہیں کر سکتے اس لئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں کچھ عرصہ کے لئے ہسپتال بھیج دیا جائے۔ چنانچہ آپ کو ہسپتال بھیج دیا گیا۔ ہسپتال میں چند ماہ نہایت آرام سے گزار کر جب آپ واپس جیل میں لائے گئے تو معلوم ہوا کہ آپ کی رہائی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ چنانچہ ایک صبح آپ کو رہا کرتے ہوئے 50روبل دئیے گئے۔ پھر ماسکو سے بذریعہ ٹرین آپ کو باکوؔ لے جایا گیا جہاں چند روز کے لئے آپ کو جہاز کا انتظار کرنا تھا۔ وہاں آپ نے کیمپ کمانڈر سے درخواست کی کہ آپ کو دوتین دن کے لئے آزادانہ تبلیغ کی اجازت دی جائے۔ کیمپ کمانڈر کو ذاتی طور پر تو اعتراض نہ تھا لیکن وہ کہتا تھا کہ اس کے لئے ماسکو سے پوچھنا پڑے گا۔ چنانچہ آپ نے یہ معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کردیا۔

چند روز بعد روسی بحری جہاز کے ذریعہ آپ کو ایرانی بندرگاہ ہنزالی بھجوادیا گیا۔ وہاں کی برٹش کونسل نے آپ کو تہران بھجوادیا۔ وہاں انگریز سفیر سے ملے اور اُس کی ہدایت پر بغداد چلے گئے جہاں سے براستہ بصرہ تقریباً ایک ہفتہ بعد آپ کراچی پہنچے۔ پھر جب قادیان پہنچے تو یہ 1926ء کا موسم خزاں تھا۔ صدرانجمن احمدیہ نے اُس دن عام تعطیل کا اعلان کیا اور اُسی دن بعد نماز ظہر آپ نے حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔

10؍مارچ 1944ء کو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پیشگوئی مصلح موعود کے پورا ہونے کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر حضورؓ نے فرمایا کہ اب ہماری جماعت کے وہ مبلغ جو اس وقت یہاں موجود ہیں آپ لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح میرے زمانہ میں اسلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچا۔ اس پر جن مبلغین نے اپنے واقعات بیان کئے اُن میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب بھی تھے۔ اس کے بعد حضورؓ نے دوبارہ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

’’یہی مولوی ظہور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کئے ہیں۔جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اس وقت لڑکے ہی تھے۔ میں نے ان سے کہا کیا تم روس جائو گے۔ انہوں نے کہا میں جانے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے کہا جائو گے تو پاسپورٹ نہیں ملے گا۔ کہنے لگے بے شک نہ ملے میں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لئے جائوں گا۔ آخر وہ گئے اور دوسال جیل میں رہ کر انہوں نے بتا دیا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے وجود مجھے دیئے ہیں۔خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میںکاٹ کر رکھ دیتی ہیں، خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں، میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرادیں، میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے تنوروں میں کود کر دکھا دیں۔اگر خود کشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتے۔‘‘

حضرت مولوی صاحب کے واپس ہندوستان میں پہنچنے پر ’’کشمیری اخبار‘‘ لاہور نے ’’ایک احمدی کا قابل تقلید مذہبی جوش‘‘ کے عنوان سے لکھا:

’’مولوی ظہور حسین مبلغ احمدیت جو دو سال سے بالکل لاپتہ تھے پھر ہندوستان واپس آگئے ہیں اس دوران میں آپ کو بہت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ اپنے ایک خط میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں بغیر پاسپورٹ کے بے کسی اور بے بسی کی حالت میں مشہد سے بخارا کی طرف جانا پڑا اور وہ بھی دسمبر کے مہینہ میں جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا۔ راستے میں روسیوں کے ہاتھ پکڑے گئے جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے۔ قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ بے رحمی سے ماراگیا۔ تاریک کمروں میں رکھا گیا۔ کئی کئی دن سؤر کا گوشت کھانے کے لئے ان کے سامنے رکھاگیا لیکن وہ سرفروش عقیدت جاہ و استقلا ل پر برابر قائم رہا۔

وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص جو قید خانہ میں انہیں دیکھنے آیا، ان کی تعلیمات کی بدولت احمدی ہوئے بغیر باہر نہ نکلا۔ اس طرح تقریبًا 40؍اشخاص احمدی ہو گئے۔‘‘

٭۔۔۔٭۔۔۔٭

مکرم نوید احمد صاحب کراچی کی شہادت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ21ستمبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مکرم نوید احمد صاحب ابن مکرم ثناء اللہ صاحب آف حمیراٹاؤن کراچی کو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے 14؍ستمبر 2012ء کو شہید کر دیا۔ آپ کی عمر 22 سال تھی۔ احمدیہ قبرستان کراچی میں آپ کی تدفین ہوئی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 21؍ستمبر 2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا مختصر ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوید احمد صاحب ابن ثناء اللہ صاحب کے دادا عبدالکریم صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ کا تعلق امرتسر سے تھا مگر بیعت کے بعد آپ کا زیادہ وقت قادیان میں ہی گزرتا۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں آپ کا خاندان محمود آباد سندھ میں مقیم ہوا۔ پھر 1985ء میں کراچی آگئے۔ شہید مرحوم کے والد ثناء اللہ صاحب کو 1984ء میں اسیر راہِ مولیٰ رہنے کی بھی توفیق ملی۔ واقعہ شہادت اس طرح ہے کہ 14؍ستمبر 2012ء کو جمعہ کے دن عزیزم نوید احمد اپنے گھر واقعہ حمیرا ٹاؤن حلقہ گلشن جامی کے سامنے اپنے دو غیر از جماعت پٹھان دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ دو نامعلوم افراد موٹرسائیکل پر آئے اور انہوں نے ان تینوں نوجوانوں پر کلاشنکوف اور رپیٹر سے فائرنگ کردی۔ کلاشنکوف سے نکلی دو گولیاں عزیزم نوید احمد کے پیٹ میں لگیں جبکہ دوسرے دونوں نوجوانوں کو بھی گولیاں لگیں اور یہ تینوں زخمی ہو گئے۔ انہیں فوری ہسپتال لے جایا گیا لیکن نوید احمد ہسپتال جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگئے۔

شہید مرحوم بڑے سادہ مزاج، سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ نرم مزاج تھے۔ نرم خُو تھے۔ ہمدرد تھے۔ اطاعت گزار تھے۔ عاجزانہ عادات کے مالک تھے۔ پڑھائی کا شوق تھا لیکن غربت کی وجہ سے مڈل کے بعد پڑھائی نہیں کر سکے۔ اپنے والد کے ساتھ کام کرتے تھے اور اُس کام کے دوران ہی انہوں نے میٹرک کا امتحان بھی پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔

رمضان میں خود خدام الاحمدیہ کی ڈیوٹی میں اپنے آپ کو پیش کیا۔ اکثر خود پیش کیا کرتے تھے اور بڑے احسن رنگ میں ڈیوٹیاں سرانجام دیتے تھے۔ جہاں یہ کام کرتے تھے، وہاں ساتھی اور افسران بھی آپ کے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متأثر تھے۔ آپ کی نماز جنازہ پر بھی دفتر سے کئی افراد نے شرکت کی۔ نیز آپ کے ادارہ کے مالکان اور اُن کی فیملی کے ممبران آپ کے گھر تعزیت کی غرض سے آئے۔ شہید مرحوم کے والدین دونوں زندہ ہیں، آپ کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔

٭۔۔۔٭۔۔۔٭

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21 ؍دسمبر2012ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کا ایک قطعہ بعنوان ’’ٹوٹے ہوئے کتبے ‘‘ شامل اشاعت ہے۔ یہ قطعہ اس خبر کے پس منظر میں کہا گیا ہے کہ لاہور (پاکستان) کے ایک قبرستان میں موجود احمدیوں کی تمام قبروں کے کتبوں کو بعض شرپسندوں نے رات کی تاریکی میں توڑ دیا۔

بزور ظلم و استبداد دل جیتے نہیں جاتے
وفا کا استعارہ تھے وفا کا استعارہ ہیں
یہ کل کہتے تھے قبرستان کے ٹوٹے ہوئے کتبے
نہ ہم زندہ گوارا تھے نہ ہم مُردہ گوارا ہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button