ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض: قسط نمبر 3
(ترکی کی حالت زار پر تبصرہ اور مشورہ )
مگر ایسی کوئی کوشش کرنے سے پہلے یہ سوال حل کرنا چاہئے کہ ان اقوام کو ترکی سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟ کیونکہ جو خیالات ان کے ان فیصلوں کے محرک ہیں۔ انہیں کے دور کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جرمن قوم جو جنگ کی اصل بانی ہے اور جس نے جنگ کے دوران میں انسانیت اور آدمیت کے تمام اصول کو پامال کردیا تھا وہ صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو وہ بھی فرانس سے لیا ہوا تھا چھوڑ کر اور کسی قدر علاقہ پولینڈ کا آزاد کر کے پھر اسی طرح اپنے ملک پر قابض ہے۔ آسٹریا جو اس جنگ کا بانی تھا اپنے ملک میںا سی طرح حکومت کر رہا ہے اور صرف ان غیر علاقوں کو جو اس سے خود جدا ہونا چاہتے تھے جد اہونے کی اجازت د ی گئی ہے۔ بلغاریہ باوجود انتہائی درجہ کے مظالم اور غداری اور معاہدہ شکنی کے اپنے ملک پر قابض ہی نہیں بلکہ اسے سمندر کی طرف راستہ دینے کی تجاویز ہو رہی ہیں۔ رومانیہ نے تین دفعہ ادھر سے ادھر پہلو بدلا مگر اور زیادہ علاقہ کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ترک جس نےخود یوروپین طاقتوں کے اقوال کے مطابق مجبور ہو کر جرمن دباؤ کے نیچے جنگ کی تھی اور جس نےجنگ کے دوران میں نہایت شرافت، نہایت دلیری اور بہادری سے کام کیا تھا اور بحیثیت قوم کسی قسم کا ظلم نہیں کیا اس کو نا قابل حکومت قرار دیا جا کر نہ صرف یہ کہ اسے اس کے دوسرے مقبوضات سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ جس ملک میں وہ بستا ہے اور دوسری آبادی اس قدر کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے اس میں بھی اس کی حکومت کو مٹانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور کم سے کم اسے کسی دوسرے اقتدار کےنیچے رکھنا تو ایک ایسی ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آرمینیا کے قتل عام اس کی اصل وجہ ہیں۔ اور مسلمان اس اعتراض کا جواب دینے کی طرف سرعت سے متوجہ ہوتا ہے۔ مگر قطع نظر اس کے کہ یہ الزام خود ثبوت طلب ہے۔ کیونکہ ہسپانیہ میں بعض مسیحیوں کا خود ان کی مساجد میں جا کر ان کے دین کی ہتک کرنا اور بعض دفعہ کسی جوشیلے کے ہاتھ سے مارا جانا اور پھر اس کی قوم کا اسے مسلمانوں کا ظلم قرار دے کر یورپ میں شور مچانا اور اسی قسم کے اَور واقعات موجود ہیں جو ایسے الزامات کو غور و تحقیق کےبعد قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن ان کو صحیح تسلیم کر کے بھی دیکھا جاتا ہے کہ اسی قسم کےمظالم اَور حکومتوں میں بھی ہیں۔ روس میں جو کچھ یہود سےہوتا رہا ہے وہ آرمینیاکے قتل عام سے کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ اب بالشویک جو کچھ کر رہے ہیں۔ سب دنیا اس پر انگشت بدندان ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی انہوں نے قتل کر دیئے ہیں اور ایسے مظالم سےکام لیتے ہیں کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے اور طبیعت صحیح تسلیم کرنے سے رکتی ہے۔ مگر باوجود اس کے واقعات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر وہی حکومتیں جو ترکی سلطنت کےقیام کے خلاف ہیں روس کے ملک میں دخل دینےسے نہ صرف یہ کہ خود علیحدہ ہیں بلکہ برطانیہ جو اس ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا اس کے راستہ میں بھی روک ڈالتی ہیں۔ اور عملی مدد تو الگ رہی روس کا بائیکاٹ تک کرنے کے لئےتیار نہیں۔ امریکہ جو اس وقت لوائے حریت کا حامل ہے اور سب سے زیادہ انصاف و عدل کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے پریذیڈنٹ ولسن کہتا ہے کہ اگر اس جنگ کے بعد ترکی حکومت قائم رہے تو گویا اس جنگ کی غرض ہی فوت ہوگئی۔ خود اس کے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے وسیع اختلافات کی وجہ سے نہیں، کالے اور گورے رنگ کے فرق سے ایسے ایسے مظالم ہو جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وکسبرگ میں لائڈ کلے نامی ایک انیس سالہ حبشی لڑکا جو کسی الزام کے ماتحت حوالات میں تھا اور جو بعد کی تحقیق سے بالکل بے گناہ ثابت ہوا اسے عام آبادی نے قید خانہ توڑ کرنکال لیا۔ اور پندرہ سو شہری اسے عذاب دینے کےلئےجمع ہوئے۔ ایک درخت پر اسے لٹکا دیا گیا اور بالکل ننگا کر دیا گیا۔ بعض نے مشورہ دیا کہ اسے قتل کر دیا جاوے۔ مگر دوسروں نےکہا نہیں ا سے آہستہ آہستہ مرنے دو۔ اور پہلے مٹی کا تیل اس کےبد ن کو ملا گیا۔ پھر لکڑیوں کا انبار لگا کر پٹرول اوپر ڈال کر اسے جلا یا گیا۔ اس کے چیخنے اور چلانے اور آہ و فریاد کرنےکو ایک پر لطف تماشہ سمجھ کر عورت و مرد نے ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ نظارہ دیکھا۔ اور جب اس کی لاش اتاری گئی تو وہ رسیاں جس سے وہ بندھا ہوا تھا ان کےٹکڑے بطور یاد گار کے لوگوں نےاپنے پاس رکھے۔ اور اس درخت کو جس سے وہ لٹکایا گیا تھا ایک مقدس یاد گار قرار دیا گیا۔ پھر ابھی پچھلے ماہ میں ہی نسکیگو میں حبشیوں پر جو کچھ ظلم کئے گئےہیں اخبارات میں شائع ہوتے ہی رہے ہیں اس کی وجہ کیا تھی؟ صرف یہ کہ ایک حبشی لڑکا جھیل کے کنارہ پر غلطی سے اس حصہ پر چلا گیا تھا جو سفید رنگ کی آبادی کےلئے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس پر سفید آبادی نے اس پر پتھروں کا مینہ برسایا اور اس واقعہ سے وہ خطرناک آگ بھڑک اٹھی جس نے پچھلے دنوں تمام دنیا کو حیرت میں ڈالے رکھا تھا۔ انہی واقعات پر پریذیڈنٹ ولسن کو ایک دفعہ کہنا پڑا تھا کہ جب کہ ہم اپنی ڈیمو کریسی کو یہ ثابت کر کے کہ وہ کمزوروں کے لئے باعث حفاظت نہیں ہے ذلیل کر رہے ہیں تو دوسروں کے سامنے ڈیموکریسی کیونکر پیش کر سکتے ہیں۔
پس ایسے مظالم سے تو سوائے برطانیہ کےغالباً کوئی ملک بھی پاک نہیں ہے۔ خود برطانیہ کے ان حصوں میں جن میں برطانیہ اندرونی نظم و نسق میں دخل نہیں رکھتا۔ ایسے واقعات ہوجاتے ہیں جو قابل افسوس ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ترکوں کو ان واقعات کی وجہ سے امریکہ یا دیگر حکومتیں قابل نفرت خیال کریں۔
اگر کہا جائے کہ لالچ سے ایسا کیا جاتا ہے درست نہیں کیونکہ امریکہ کو کوئی لالچ نہیں۔ کم سے کم امریکہ کوئی حصہ اپنے لئے لینے کے لئے تیار نہیں۔
پس معلوم ہوتا ہے کہ اس نفرت کا باعث کچھ اَور ہے اور وہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ترک مسلمان کہلاتے ہیں؟ میرا مطلب اس سے یہ نہیں کہ ترک چونکہ مسلمان ہیں اور امریکہ یا فرانس اور دیگر طاقتیں عیسائی ہیں اس لئے ترکوں سے نفرت کرتی ہیں۔ کیونکہ مسیحی تو انگریز بھی ہیں مگر وہ ترکوں سے اس قسم کی نفرت نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت کرتے ہیں اور ان کےاحساسات کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ امریکہ اور فرانس مسیحی ہیں یہ بھی درست نہیں۔ مغربی ممالک میں عموماً تعلیم یافتہ لوگ مسیحیت سے زیادہ تعلق نہیں رکھتے اور یا تو لوگ دہریت کی طرف مائل ہیں یا بعض عقلی مذاہب کی اتباع کرتے ہیں۔ پس بلحاظ مذہب کے وہ مسیحیت سے بھی علیحدہ ہیں اور اسلام سے خاص تعصب کی ان کےلئے کوئی وجہ نہیں۔ پس یہ نفرت اس لئےنہیں کہ وہ مسیحی ہیں اور ترک مسلمان۔ مذہب کی حقیقت ان لوگوں کےدلوں میں اس قدر نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے ایسا شدید تعصب رکھیں۔
میرا مطلب اس بات کے کہنے سے کہ ترکوں سے اس لئے نفرت کی جاتی ہے کہ وہ مسلمان کہلاتے ہیں یہ ہے کہ ان ممالک کے لوگوں کو اسلام سے اس قدر بُعد ہے۔ اور آباء و اجداد سے ان کے دل میں اسلام کی نسبت اس قدربد ظنیاں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ اسلام کو ایک عام مذہب کے طور پر خیال نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی تعلیم خیال کرتے ہیں جو انسان کو انسانیت سے نکال کر جانور اور وہ بھی وحشی جانور بنا دیتی ہے۔ ان کے نزدیک اسلام ایسی وحشیانہ تعلیم دیتا ہے کہ اس کی موجودگی میں رحم اور انصاف دل میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ لوگ طبعاً اپنے مذہب یا اپنے خیال کے سوا ہر ایک مذہب اور عقیدہ کو غلط اور جھوٹا سمجھتے ہیں جیسا کہ ہر مذہب کے لوگوں کا حال ہے مگر اسلام کے سوا دوسرے مذاہب سے وہ ڈرتے نہیں ان سے نفرت نہیں کرتے۔ وہ ان کے ماننے والوں کو غلطی خوردہ سمجھتے ہیں مگر قابل نفرت نہیں سمجھتے مگر اسلام سے وہ خوف کھاتے ہیں۔ اس کی ترقی کو تہذیب و شائستگی کے راستہ میں روک ہی نہیں خیال کرتے بلکہ خود انسانیت کے لئے اُسے مہلک یقین کرتے ہیں۔ اس لئے وہ جہاں دوسرے مذاہب کے پیروؤں پر رحم کرتے ہیں۔ اسلامی حکومتوں کو ناقابل علاج اور متعدی مریضوں کی طرح سو سائٹی اور تہذیب کے لئے مہلک خیال کر کے اس کے مٹ جانے یا مٹادینے کو پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ کیا اس شخص یا قوم کا جو دوسروں کے لئے بھی ہلاکت کا موجب ہو خود مٹ جانا مناسب نہیں؟ ضرور ہے۔ پس مغربی ممالک کے باشندے فرض منصبی کے طور پر بلکہ باقی دنیا پر رحم کر کے پسند کرتے ہیں کہ یہ خطرناک مرض جو اسلامی حکومت کے نام سے مشہور ہے دنیا سے اٹھ ہی جائے تو بہتر ہے۔
یہ میرا خیال ہی نہیں بلکہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اس کے سوا ترکوں سے خاص سلوک کی کوئی وجہ نہیں۔ اور مجھے اس امر کے متعلق خاص علم حاصل ہے کیونکہ میں ایک ایسی جماعت کا امام ہوں جس کا کام ہی تبلیغ اسلام ہے اور جسے اپنے کام کے چلانے کے لئے ہر ایک ملک کے مذہبی حالات معلوم رکھنے پڑتے ہیں۔ اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ مغربی ممالک میں سے جتنا کوئی مذہب زیادہ آزادی کی طرف قدم اٹھاتا ہے اسی قدر وہ اسلام کا دشمن بن جاتا ہے۔ کیونکہ آزادی اسے ہمدردی کی طرف مائل کرتی ہے اور اسلام کی بیخ کنی میں وہ دنیا کی ہمدردی پاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں مسیحیت کی جو حالت ہے وہ پادریوں کے رسالہ پڑھنے سے خوب ظاہر ہو جاتی ہے۔ پانچ فیصدی آدمی بھی نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں فی الواقع مسیحی کہلانے کے مستحق ہوں ایک کثیر حصہ مسیحیت سے متنفر ہے مگر باوجود اس کے وہ دیگر ممالک میں تبلیغ مسیحیت کے لئے کروڑوں روپیہ دیتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسیحیت میں داخل ہوجانے سے ان ممالک کے باشندوں کے جسم ظلم سے بچ جاویں گے اور وہ جہالت سے نجات پاجاویں گے نہ اس لئے کہ ان کی روح کو کوئی خاص راحت حاصل ہو جاوے گی۔ مگر اسلامی ممالک میں تبلیغ کے کام میں وہ اور بھی جوش سے حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس ذریعہ سے ایک حصہ مخلوق بہیمیت کا جامہ اتار کر انسانیت کا جامہ پہن لے گا۔ پس یہ کہنا کہ امریکہ یا کوئی اور ملک ترکوں کا دشمن ہے غلط ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ نہ بوجہ اس مذہب سے تعصب کے جس پر وہ قائم ہے بلکہ بوجہ اس ناواقفیت کے۔ نہیں، بلکہ غلط واقفیت کے جو اسے اسلام کے متعلق ہے۔ بے شک دوسرے ممالک میں بھی ظلم ہوتے ہیں۔ بے شک امریکہ کا مہذب سفید رنگ کا آدمی بھی کبھی انسانیت کا جامہ اتار دیتا ہے۔ بے شک روس کے باشندے ظلم و ستم کی انتہائی حد کو پہنچ جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ ایسے مذاہب کے پابند ہیں جو رحم کی تعلیم دیتے ہیں جو اخلاق کو درست کرتے ہیں۔ مذہبی حیثیت سے خواہ وہ کتنے ہی گرے ہوئے ہوں۔ مگر اخلاقی اور انسانیت کی تعلیم تو ان میں موجود ہے جو ان کے پیروؤں کی روح کی حفاظت کرتی ہے اور ان کو ہمیشہ اوپر اٹھائے رکھتی ہے۔ پس ان کے جوش اور ان کے مجنونانہ افعال صرف بہیمیت کا ایک منفرد شعلہ ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام(نعوذ باللہ من ذالک) تو اپنے پیروؤں کی طبیعت کو بدل دیتا ہے اور فطرت انسانیت سے فطرت بہیمیت پر قائم کر دیتا ہے۔ اس کے پیرو کوئی نیکی کر ہی کیونکر سکتے ہیں اور اگر ان سے کوئی نیکی ہوتی بھی ہے تو وہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ بلکہ مغربی تمدن سے ملاپ کا نتیجہ۔ اس لئے ترکوں کے مظالم اور مغربی ممالک کے بعض مجنونانہ افعال کا مقابلہ ہی کیا ہے۔ ان دونوں کا مقابلہ ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ ایک طبیب اور ایک متطبیب کا مقابلہ۔ اس بناء پہ کہ دونوں کے ہاتھوں سے مریض مرتے بھی ہیں اور شفاء بھی پاتے ہیں۔ کیونکہ اول الذکر کے ہاتھوں میں مریضوں کا شفا پانا مطابق قاعدہ ہے گو کبھی بطور استثناء موت بھی واقع ہو جاوے اور مؤخرالذکر کے ہاتھوں سے مریضوں کے مر جانے کا قاعدہ ہے گو کبھی استثنائی طور پر شفا بھی ہو جاوے اور اگر کوئی ایسی مثالیں مل سکیں کہ مسلمانوں نےظلم نہ کیا ہو تو کیا شیر جسے پنجرہ میں رکھا گیا ہو شکار کر سکتا ہے؟ وہ ضرور کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہیں کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص کو اسلام کی تعلیم دی جاوے اور پھر وہ آدم خور درندہ نہ بن جاوے۔ اور بنی نوع انسان کے لئے مضر وجود ثابت نہ ہو۔
یہ وہ خیالات ہیں جو اسلام کی نسبت مغربی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ وہ خیالات ہیں کہ جب تک ان ممالک میں پھیلے رہیں گے اس وقت تک مسلمان کہلانے والوں کو انصاف حاصل نہ ہونے دیں گے۔
(باقی آئندہ)