خطاب حضور فرمودہ 04 اگست 2018ء بر موقعہ جلسہ سالانہ یوکے 2018ء
2018ء -2017ء میں اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے بے انتہا فضلوں اور نصرت و تائید کے عظیم الشان نشانات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ
جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 04؍اگست2018ء بروز ہفتہ(بعد دوپہر کے اجلاس میں) امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی (آلٹن) میں خطاب
(السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ پہلی بات تو یہ نوٹ کر لیں کہ جب نعرے لگانے ہوں گے اگر ضرورت ہوئی تو سٹیج سے لگیں گے ہر کوئی نعرہ نہ بلندکرے۔ جب یہاں سے نعرہ بلند ہو تب جواب دیں۔)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت جیسا کہ ہمیشہ سے یہ طریق ہے کہ سال کے دوران اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہوئے ان کا اظہار کیا جاتا ہے اور رپورٹ پیش کی جاتی ہے وہ مختصراً میں پیش کروں گا۔
نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ
خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دنیا کے 212 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ 34 سال میں 1984ء کے بعد 121 نئے ممالک احمدیت کو عطا فرمائے ہیں ۔اور دوران سال دو نئے ممالک ایسٹ تیمور
( East Timor ) اور جارجیا (Georgia)میں جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔
East Timor جنوب مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا کا ہمسایہ ملک ہے جس کو 20؍مئی 2002ء کو انڈونیشیا سے باقاعدہ آزادی حاصل ہوئی۔ پہلے یہ ملک 1702ء سے لے کر 1975ء تک پرتگال کی کالونی بھی رہا ہے۔ یہاں اس ریجن میں یہ واحد عیسائی ریاست ہے جہاں 97 فیصد کیتھولک عیسائی آباد ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت قائم ہوئی ہے۔ انڈونیشیا کے ذریعہ سے یہاں تبلیغ کی گئی اور چھ افراد پر مشتمل ایک خاندان نے وہاں احمدیت قبول کی۔ یہ پہلا پودا ہے یا چند پودے لگے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ترقی ہوتی جائے گی۔
دوسرا ملک جارجیا ہے یہاں مقامی لوگوں کی آبادی تو نہیں لیکن پاکستانی اوریجن کے ذریعہ سے یہاں جماعت قائم ہوئی ہے۔ مشنری بھی یہاں بھجوا دیا گیا ہے۔ مشن ہاؤس بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے مقامی لوگوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مشنری کے کاموں میں برکت ڈالے۔
ممالک کے حوالے سے یہ مَیں بات کر دوں۔ بعض دفعہ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔گو یواین او کی ممبر شپ تو 195 ممالک کی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی 38 ممالک ایسے ہیں جو independant ہیں یا اپنی اپنی حکومتیں وہاں قائم ہیں اور دنیا میں ان ممالک کو باقاعدہ recognise کیا گیا ہے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ دنیا میں 195 ممالک ہیں اور جماعت احمدیہ شاید مبالغہ سے کام لیتی ہے، یہ کوئی مبالغہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےاب چھوٹے چھوٹے ممالک میں بھی جماعت قائم ہو رہی ہے۔
ملک وار جماعتوں کا قیام
اس سال پاکستان کے علاوہ جو دنیا میں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 899 ہے۔
اور ایک ہزار سات سو تہتر(1773) مقامات پر پہلی دفعہ احمدیت کا پودا لگا ہے۔ مختلف ممالک میں جو جماعتیں قائم ہوئی ہیں آگے اس کی تفصیل ہے۔ 899 وہ ہیں جہاں باقاعدہ جماعتیں قائم ہو گئی ہیں۔ اور 1773 ایسے مقامات ہیں جہاں کوئی نہ کوئی احمدی اس جگہ ، شہر میں یا قصبہ میں آگیا ہے اور باقاعدہ جماعت قائم نہیں ہوئی۔ اس کو ساتھ کی جماعت کے ساتھ attach کیا گیا ہے ۔
نئے مقامات پر جماعتوں کے نفوذ اور نئی جماعتوںکے قیام میں نائیجر سرفہرست ہے۔ 224 نئی جماعتیں یہاں قائم ہوئیں۔ پھر سیرالیون ہے۔ آئیوری کوسٹ ہے۔ بہت سارے افریقن ممالک ہیں۔
نئی جماعتوں کے قیام کے واقعات
نئی جماعتوں کے قیام کے واقعات میں امیر صاحب گھانا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ دباری(Dabari) گاؤں کے چیف امام اور پانچ دیگر اماموں کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ Dabariچیف امام نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ احمدی کافر ہیں لیکن جب آپ کے مبلغ ہمارے گاؤں آئے اور ہم سے تبلیغ کی اجازت مانگی تو ہم نے کہا سننے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ ہم نے اجازت دے دی اور جوں جوں یہ مربی صاحب اسلام کی تبلیغ کرتے جارہے تھے ہمارے دل صاف ہوتے جا رہے تھے۔ ہم نے اس سے پہلے اتنا پیارا پیغام نہیں سنا تھا۔ پس ہم نے احمدیت قبول کر لی۔ اور اب ہمارا ایمان ہے کہ احمدیت ہی سچا اسلام ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گاؤں کا نام احمدیہ ویلیج رکھا جائے۔
پھر بینن کے لوکوسا ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ ہم ایک گاؤں سیگلے ہوئے(Seaglohoue) میں تبلیغ کے لئے گئے۔ وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ جب گاؤں کے چیف سے ملے اور اس کو آنے کا مقصد بتایا تو کہنے لگا کہ ہم تو پہلے ہی مسلمان ہیں۔ تم لوگ کون سا نیا اسلام بتانے کے لئے آئے ہو۔ اس پر انہیں جماعت احمدیہ کا مکمل تعارف کروایا گیا۔ جماعتی پمفلٹس بھی دیےگئے۔ چیف نے پمفلٹس اپنے پاس رکھ لئے اور کہا کہ اچھا آپ اگلے ہفتے آ جائیں۔ گاؤں والوں کو اکٹھا کر دوں گا پھر آپ نے جو بات کرنی ہوئی کر لینا۔ چنانچہ وہاں سے واپس آ گئے۔ لیکن اسی دن رات کو نوبجے کے قریب چیف کا فون آیا کہ میں کل ہی آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ اگلے روز جب ہم وہاں پہنچے تو چیف نے سارے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا ہوا تھا۔ چیف نے بتایا کہ کل جب آپ لوگ یہاں سے گئے تھے تو ساتھ والے گاؤں کا امام مسجد یہاں آیا تھا اور کہنے لگا کہ احمدیوں کی بات ہرگز نہ سننا یہ لوگ کافر ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ پہلے جب ہم نے تمہیں کہا تھا کہ ہمیں اسلام سکھاؤ تو اس وقت تم آئے نہیں اور اب جبکہ جماعت احمدیہ اس گاؤں میںآ کر تبلیغ کرنے لگی ہے تو تمہیں ہم یاد آ گئے ہیں۔ چنانچہ وہاں موجود لوگوں کو تبلیغ کی گئی۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچایا گیا۔ اس پر چیف کے علاوہ گاؤں کے دیگر 63 افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے۔ اس طرح وہاں نئی جماعت قائم ہوئی۔
نائیجر کےمبلغ سلسلہ لکھتے ہیں ایک گاؤں میں ہم تبلیغ کے لئے گئے ۔انہیں امام مہدی اور جماعت کا تعارف کروایا ۔اس پر ایک بوڑھا آدمی اٹھ کر اپنے گھر گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء کی تصاویر لے کر آیا۔ کہنے لگا کہ 2006ء میں احمدیوں کے پروگرام میں شامل ہوا تھا اور ہم تو اس وقت سے انتظار کر رہے تھے کہ آپ لوگوں سے رابطہ ہو کیونکہ ہمارے بزرگوں نے ہمیںبتایا تھا کہ امام مہدی کا زمانہ آ چکا ہے۔ اس لئے ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مہدی مانتے ہیں اور ان پرایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ سارا گاؤں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گیا۔
اسی طرح لائبیریا کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک گاؤں فَانجَا(Fahnga) میں تبلیغی پروگرام کیا۔ نماز مغرب کے بعد گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا اور احمدیت کا تعارف کروایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتایا۔ پروگرام کے اختتام پر وفات مسیح کے بارے میں سوا ل ہوا جس کا ان کو قرآن کریم اور احادیث کی رُو سے تفصیلی جواب دیا گیا۔ لیکن اس وقت کسی نے بیعت نہیں کی۔ اتفاق سے اس پروگرام میں ایک دوسرے گاؤں کے امام الحاجی موسی کمارا بھی موجود تھے۔یہ سارے مسلمان تھے۔ فَلَمَّا تَوَفَیْتَنِی کی وضاحت سن کر کہنے لگے کہ میرے تمام شکوک دور ہو گئے اور مجھے یہ سچا پیغام لگتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہمیں اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی اور مقررہ تاریخ پر جب ہم ان کے گاؤں پہنچے تو امام صاحب نے لوگوں کو پہلے ہی اکٹھا کیا ہوا تھا۔ جماعت کا تعارف کروایا گیا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 170 افراد نے احمدیت قبول کر لی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ساتھ والے گاؤں میں بھی ہماری آمد کی اطلاع کر دی۔ چنانچہ دوسرے گاؤں میں بھی تبلیغ کی گئی۔ اس کے نتیجہ میں اس گاؤں کے امام صاحب سمیت 140 افراد نے بیعت کر لی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تبلیغی مساعی کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک ہی وقت میں دو جگہ پھل مل گئے۔ اس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں۔
نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد
اس سال نئی مساجد کی مجموعی تعداد 411 ہے جو نئی مساجد جماعت کو ملی ہیں جن میں سے نئی تعمیر کی گئی 198 ہیں اور جو بنی بنائی مساجد ملی ہیں وہ 213 ہیں۔ اس میں مغربی ممالک کی بھی شامل ہیں، آسٹریلیا بھی شامل ہے۔ یُوکے بھی ہے۔ جرمنی بھی ہے۔ افریقہ کے بہت سارے ممالک ہیں ۔ ہندوستان میں اس سال پانچ مسجدوں کا اضافہ ہوا۔ اور بنگلہ دیش ہے۔ غانا ،سیرالیون، لائبیریا، نائیجیریا ،آئیوری کوسٹ ، گیمبیا، گنی بساؤ، تنزانیہ، کینیا، یوگنڈا، برکینا فاسو، کونگو کنساشا ،مالی ،کافی ممالک ہیں جہاں نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔
مساجد کے تعلق میں واقعات
مساجد کے تعلق میں جو واقعات ہیں ان میں ساؤ تومے میں اس سال جماعت کی پہلی مسجد کا قیام عمل میںآیا۔ یہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر ساؤ تومے کے دارالحکومت سے پندرہ کلو میٹر دور ایک علاقے فرننڈیا میں ہوئی اور اس سال 13؍مئی کو اس کا افتتاح ہوا۔ جماعت کا وفد مسجد کی تعمیر کے لئے جب لوکل گورنمنٹ سے اجازت لینے کے لئے گیا تو میئر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اپنے ملک میں دہشتگردی نہیں چاہتے۔ یہ عیسائیوں کا ملک ہے اور اس میں مسجد بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ ، دوبارہ میئر سے ملاقات کی گئی اور جماعت کا تفصیلی تعارف کروایا تو میئر نے اجازت دے دی۔ مسجد کے سنگ بنیاد میں بھی شرکت کی۔ میئر نے کہا کہ ہمیں جماعت کی تعلیمات کا کچھ علم نہیں تھا بس میڈیا سے سنا تھا کہ اسلام جنگ و قتال کا مذہب ہے۔ لیکن اب جماعت احمدیہ کی بدولت پتہ چلا کہ اسلام ایک نہایت پُر امن اور پیارو محبت کا مذہب ہے۔ ہم جماعت احمدیہ کو پہلی مسجد بنانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہماری نیک تمنائیں اس مسجد کے ساتھ ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے دوران ایک عیسائی عورت جو بہت زیادہ مخالفت کرتی تھیں مسجد میں کام کرنے والے مستریوں مزدوروں اور احمدی بچوں اور خدام سے کہتی تھیں کہ جب تم نے مسجد مکمل کر لی تو مسلمانوں نے تمہیں قتل کر دینا ہے اس لئے مسجد میں کام نہ کریں یہ دہشت گردی کامذہب ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ بیمار ہو گئی۔ ان دنوں ہمارے میڈیکل کیمپ ہو رہے تھے ۔چنانچہ وہ میڈیکل کیمپ میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دی۔ اس کے بعد سے اس نے یہ مخالفت ترک کر دی۔
امیر صاحب برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ دِوْگُو‘ ریجن کی ایک جماعت میں حال ہی میں ہماری ایک مسجد مکمل ہوئی ہے۔ صرف اس مسجد کو دیکھ کر بیعت کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک غیر احمدی دوست جو ایک سکول کے ڈائریکٹر ہیں وہ مسجد کو دیکھ کر اپنے بچے کے ساتھ مشن ہاؤس آئے اور جماعت کے متعلق کچھ کتب خریدیں۔ کہنے لگے کہ میں روزانہ یہاں سے گزرتا ہوں اور نوجوانوں بچوں اور عورتوں کو بڑے جوش و جذبے سے وقار عمل کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ ایسا جذبہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ یہ ایک زندہ اور سچی جماعت کی نشانی ہے۔ جماعت کے معلم بتاتے ہیں کہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی بیعت اس مسجد سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہی ہے۔
تنزانیہ کے ریجن شیانگا کے ایک گاؤں میں اس سال جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ امسال وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی اور مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔آغاز میں وہاں 147 بیعتیں ہوئیں۔ جب مخالفین کو پتہ چلا کہ گاؤں کے کافی لوگوں نے احمدیت قبول کر لی ہے تو اس ضلع کا امام وہاں پہنچ گیا اور لوگوں کو جماعت کے خلاف اکسانے اور بہکانے لگا۔ اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجہ میں کچھ لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ چنانچہ وہاں نئے سرے سے تبلیغ کا آغاز کیا گیا۔ مستقل معلم کا تقرر کیا گیا۔ ہمارے معلم صاحب نے خواب دیکھا کہ اس گاؤں میں کثرت سے لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور اس گاؤں کے لئے جو مسجد بنائی گئی ہے وہ چھوٹی پڑ گئی ہے۔ پھر ایک اور خواب میں دیکھا کہ گاؤں کے ایک مخالف پر ہم نے غلبہ پا لیا ہے۔ چنانچہ معلم صاحب نے وہاں احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ مخالفین کو تبلیغ بھی شروع کر دی۔ اسی دوران جماعت نے گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لئے پلاٹ بھی خرید لیا۔ جب نومبائعین کو پتہ چلا کہ جماعت نے پلاٹ خریدا ہے تو انہوں نے از خود ہی مسجد کی تعمیر کے لئے پتھر اکٹھے کرنے شروع کر دئیے۔ پانی کے لئے ایک کنواں بھی کھود لیا جس کا پانی غیر احمدی بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہاں باقاعدہ مسجد کی تعمیر کی گئی۔ جو لوگ پیچھے ہٹے تھے وہ بھی واپس آنے لگ گئے اور اس کے علاوہ گاؤں کے کئی اور افراد نے بھی احمدیت قبول کر لی۔ اب وہاں جماعت کی تعداد 230 سے زائد ہو چکی ہے اور مسجد بھی افراد جماعت کی کثرت کے باعث چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ جو شروع میں مخالفت تھی گاؤں میں کوئی سلام کا جواب تک نہیں دیتا تھا ان سب نے مخالفت ترک کر دی اور جماعت میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے۔ اس کے بھی بہت سارے واقعات ہیں۔
مسجد کی تعمیر میں مخالفت، رکاوٹ، نصرت الٰہی
اسی طرح مسجد کی تعمیر میں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی جو نصرت ہے وہ بھی نظر آتی ہے پھر۔
گنی بساؤ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ کسیبی ریجن میں مختلف تربیتی و تبلیغی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ غیر احمدی مولویوں نے ایک میٹنگ کی اور اس میں کہا کہ ہم احمدیہ جماعت کو اپنے ریجن سے ختم کر دیں گے۔ اس کے بعد وہ احمدیوں کے پاس جا کر کہنے لگے کہ ہم اس گاؤں میں مسجد بنائیں گے بشرطیکہ آپ احمدیہ جماعت کو چھوڑ دیں ۔اس پر ہمارے احمدی احباب نے جواب دیا کہ اگر آپ مسجد اس نیت سے بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں تو آپ خوشی سے ہمارے گاؤں آئیں اور اگر آپ کی نیت ہے کہ ہم احمدیت چھوڑ دیں تو ہمیں آپ کی یہ مسجد نہیں چاہئے آپ ہمارے گاؤں سے چلے جائیں۔ چنانچہ مخالفین ناکام ہو کر واپس لوٹے۔
آئیوری کوسٹ کے معلم لکھتے ہیںکہ ایک گاؤں لوکاحا(Lokaha) میں احمدیت کا نفوذ 2016ء میں ہوا تھا لیکن گاؤں کا چیف احمدی نہیں ہوا تھا۔ امیر صاحب آئیوری کوسٹ نے اس گاؤں کا دورہ کیا۔ چیف نے چار سو مربع میٹر کے چار پلاٹ جماعت کو مسجد کے لئے دینے کا وعدہ کیا۔ اپنے وعدے کے مطابق انہوں نے زمین کی جماعت کے نام پر منتقلی کے لئے کارروائی شروع کر دی۔ ابھی زمین جماعت کے نام منتقل نہیں ہوئی تھی کہ مخالفین نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں کی زمین احمدیوں کو کیوں دی گئی ہے اور اس زمین کو جماعت کے نام پر منتقلی سے روکنے کے لئے سرکاری لوگوں سے رابطے کئے۔ اس مقصد کے لئے وہ قریبی شہر کے ڈپٹی گورنر کے پاس گئے۔ اس نے فریقین کو بلایا۔ اس پر گاؤں کے چیف اور نمبر دار نے احمدیت کے حق میں بیان دیا جس پر ڈپٹی گورنر نے جماعت کے حق میں فیصلہ دیا اور زمین جماعت کے نام پر منتقل کرنے کا حکم دیا اور مخالفین ناکام واپس لوٹے۔ اسی طرح مسجد کی تعمیر میں جو مخالفتیں ہوئیں ان کے بہت سارے واقعات ہیں۔
مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں اضافہ
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوران سال 180 مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن ہاؤسز کی تعداد 2826 ہو گئی ہے اور 127ممالک میں باقاعدہ مشن ہاؤسز قائم ہیں ۔مشن ہاؤسز کے قیام کے حوالے سے پہلے نمبر پر انڈونیشیا ہے۔ اس کے بعد گھانا ہے۔ پھر بنگلہ دیش ہے۔ اسی طرح تنزانیہ اور دوسرے بعض افریقن ممالک ہیں۔
ارجنٹائن میں پہلی دفعہ باقاعدہ مشن ہاؤس کا قیام عمل میں آیا اور باقاعدہ مبلغ کا تقرر ہوا تو وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ پہلے ایک جگہ مشن ہاؤس کے لئے بات چلی تھی لیکن مکمل نہ ہو سکی ۔لینڈ لیڈی نے وہ جگہ دینے سے انکار کر دیا اس کے بعد ہم نے مشن ہاؤس کے لئے بہت سی جگہیں دیکھیں لیکن مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی ۔وہاں چونکہ پہلی مرتبہ مشن کا آغاز ہو رہا تھا اس لئے لوگ انکار کر دیتے تھے ۔اس کی وجہ سے پریشانی بھی تھی اور دعائیں بھی ہو رہی تھیں۔ مجھے بھی لکھتے رہتے تھے۔ رمضان کے پہلے عشرہ میں اسی خاتون مالکہ نے جس نے پہلے انکار کر دیا تھا اس نے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ شدید بیمار ہو گئی ہے اس لئے وہ جلد از جلد اس جگہ کو کرائے پر دینا چاہتی ہے۔ کہنے لگی کہ میں نے آپ سے رابطہ اس لئے کیا ہے کہ میرا دل کہتا ہے کہ آپ نیک اور شریف لوگ ہیں۔ چنانچہ جتنی قیمت پہلے طے ہوئی تھی اس سے بہت سستی قیمت پر جگہ دینے کے لئے تیار ہو گئی۔ اس کے بعد بہت ساری قانونی روکیں بھی تھیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہوتی چلی گئیں اور اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت ہوئی اور وہاں باقاعدہ مشن ہاؤس چاہے کرائے پہ ہی ہے لیکن باقاعدہ جماعت کے نام ہو گیا ہے۔
جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز ۔ وقار عمل
جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز وقار عمل ہے۔ افریقہ کے ممالک میں جماعتی مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ جماعت حصہ لیتی ہے۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعتیں اپنی مساجد، سینٹرز اور تبلیغی مراکز کے بعض بہت سارے کام وقار عمل کے ذریعہ سے کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سال 96 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق کل ساٹھ ہزار تین سو چھتیس وقار عمل کئے گئے جن کے ذریعہ ستائیس لاکھ انتیس ہزار یُو ایس ڈالرز سے زائد کی بچت ہوئی۔
وکالت تصنیف یُوکے تراجم قرآن کریم
وکالت تصنیف یُوکے کے ذریعہ قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے ۔قرآن کریم کا سویڈش ترجمہ 1988ء میں پہلی بار شائع ہوا تھا۔ اس کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن تیار کر کے طبع کروایا گیا ہے جس میں ترجمہ کی زبان بہتر کی گئی ہے۔ کچھ فُٹ نوٹس کا بھی اضافہ کیا گیا ہے ۔اسی طرح ہر سورۃ کے ابتدا میں سورۃ کا تعارف بھی دیا گیا ہے اور کمپیوٹر پر از سر نو ٹائپ کیا گیا ہے۔ مکرمہ ڈاکٹر قانتہ صاحبہ سویڈش ہیں۔ وہ اور ان کی ٹیم نے اس ترجمہ کو ریوائز کیا ہے اور تیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے۔
اسی طرح وکالت تعمیل و تنفیذ کی طرف سے موصولہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں اس سال قرآن کریم کا انگریزی اور ملیالم ترجمہ ری پرنٹ کروایا گیا ہے ۔
اب تک اللہ تعالی کے فضل سے 75 زبانوں میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ طبع ہو چکا ہے۔
تراجم کتب
اسی طرح براہین احمدیہ حصہ پنجم کا انگریزی ترجمہ بھی ہو گیا ہے اور اس وقت وہ پریس میں ہے۔ ترجمہ ذرا لیٹ ہو گیا۔ ان کا خیال تھا کہ جلسہ سے پہلے کتاب آ جائے گی۔
اسی طرح حقیقۃ الوحی کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ’ روئداد جلسۂ دعا‘ اس کا بھی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ ملفوظات جلد اول کا ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے۔
فضل عمر فاؤنڈیشن انگریزی ڈیسک کی طرف سے Ahmadiyyat Destiny and Progress اور A Call to Faith اور Muhammad the Great Exemplarاور Ten Proofs of the Existence of Godاور Signs of the Living God یہ کتابیں ترجمہ ہو کے شائع ہوئی ہیں ۔ بہت ساری کتب ری پرنٹ ہوئی ہیں۔
تراجم قرآن کریم۔غیروں کا اظہار اور دلچسپی
امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے صدر قرآن کریم کی نمائش دیکھنے کے لئے آئے۔ کہنے لگے کہ میں جماعت احمدیہ کا فرنچ ترجمہ والا قرآن کریم پڑھتا ہوں اور جب بھی مجھے قرآن کریم سے کوئی حوالہ دینا ہو یا مجھے قرآن کریم سے کوئی بات دیکھنی ہو تو میں جماعت احمدیہ کا قرآن کریم ہی consult کرتا ہوں۔ آپ نے قرآن کریم کے آخر پر جو انڈیکس دیا ہے یہ بھی بہت مفید ہے۔
کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘۔ غیروں کے تاثرات
اسلامی اصول کی فلاسفی کی کتاب کا بھی غیروں پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے۔ بینن کےریجن کانڈی میں قرآن کریم کی نمائش اور بک سٹال لگایا گیا۔ وہاں ایک غیر احمدی دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی خرید کر لے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کی ملاقات ہمارے معلم صاحب سے ہوئی تو کہنے لگے یہ بہت ہی زبردست کتاب ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کتاب ہمارے ملک کے تعلیم کے نظام میں بطور ایک مضمون پڑھائی جائے۔
ایک پاکستان ہے جہاں احمدیوں نے وہاں کے لئے جو جو کام کئے ہیں اس کو بھی تاریخ سے نکالا جا رہا ہے۔ اور ایک اللہ تعالیٰ کا فضل دنیا کے باقی ملکوں میں اس طرح ہےکہ جو پڑھے لکھے لوگ اسلامی لٹریچر لے کر جاتے ہیں وہ یہ اظہار کر رہے ہیں کہ ان کو ہمارے سکولوں اور کالجوں میں پڑھانا چاہئے۔
پھر اسی طرح بہت سارے واقعات کتابوں کے بارے میں ہیں۔ لوگوںنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔
رقیم پریس یُوکے اور احمدیہ پرنٹنگ پریسز افریقہ
رقیم پریس یُوکے اور احمدیہ پرنٹنگ پریس افریقہ جتنے بھی ملکوںمیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقیم پریس یُوکے میں اس سال چھپنے والی کل تعداد کتب کی کل تعداد چھ لاکھ چھبیس ہزار تین سو تیس ہے۔ الفضل انٹرنیشنل، جماعتی رسائل اور میگزین ،پمفلٹس، لیف لیٹس، جماعتی رسائل اور سٹیشنری وغیرہ اس کے علاوہ ہے۔
احمدیہ پرنٹنگ پریس افریقہ جو رقیم پریس کی نگرانی میں افریقہ کے نو ممالک میں غانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، آئیوری کوسٹ، کینیا، گیمبیا، برکینا فاسو، بینن میں کام کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر تین لاکھ چھبیس ہزار تین سو تیس کتب شائع کی ہیں ۔رسالے اس کے علاوہ ہیں ۔اخبارات اور تربیتی لٹریچر کی تعداد اکانوے لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ اور اللہ کے فضل سے وہاں بھی ہمارے یہ پریس مشہور ہو رہے ہیں۔
(باقی آئندہ)