خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مارچ 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15؍ مارچ2019ء بمطابق 15؍امان1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
آج جن صحابہ کا میں ذکر کروں گا ان میں سے پہلا نام ہے حضرت سَائبْ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ان کا تعلق قبیلہ بَنُو جُمَحْسے تھا اور آپؓ حضرت عثمان بن مَظْعُون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ آپؓ کی والدہ کا نام حضرت خَوْلَہ بنتِ حکیم تھا اور ابتدائے اسلام میں ہی، شروع میں ہی آپؓ مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت سَائب بن عُثْمَان ؓاپنے والد اور چچا حضرت قُدَامَہؓکے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ میں شریک تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد حضرت سائب بن عثمانؓ اور حَارِثَہ بن سُرَاقَہؓ انصاری کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ ان کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر انداز صحابہ میں کیا جاتا ہے۔ حضرت سَائب بن عُثْمَان غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور دیگر غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔
(اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 396 تا 397 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)(طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 306 تا 307 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)(الاصابہ جلد 3 صفحہ 20 سائب بن عثمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
غزوۂ بُوَاطْ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؐ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ غزوۂ بُوَاطْ جو 2 ہجری میں ہوئی ہے اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ربیع الاول کے آخری ایام یا ربیع الثانی کے شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی طرف سے کوئی خبر موصول ہوئی جس پر آپؐ مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر خود مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے سَائب بن عُثْمَان بن مَظعُون کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ لیکن قریش کا پتہ نہیں چل سکا اور آپؐ بُوَاطْ تک پہنچ کر واپس تشریف لے آئے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ 329)
بُوَاطْ مدینہ سے قریباً اڑتالیس میل کے فاصلے پر قبیلہ جُھَیْنَہ کے پہاڑ کا نام ہے۔
(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 15 باب فی غزوہ بواط مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
حضرت سَائب بن عثمانؓ جنگِ یَمَامَہمیںشامل تھے۔ جنگِ یمامہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں 12؍ ہجری میں ہوئی تھی جس میں آپؓ کو ایک تیر لگا جس کی وجہ سے بعد میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ آپؓ کی عمر 30 سال سے کچھ اوپر تھی۔
(طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 307 السائب بن عثمان بن مظعون ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت ضَمْرَہ بن عَمْرو جُہَنِیؓ۔ حضرت ضَمْرَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا نام عَمْرو بِن عَدِی تھا اور بعض آپؓ کے والد کا نام بِشْر بھی بیان کرتے ہیں۔ آپؓ قبیلہ بنو طَرِیف کے حلیف تھے جبکہ بعض کے نزدیک قبیلہ بنو ساعدہ کے حلیف تھے جو کہ حضرت سَعْد بن عُبَادَہ کا قبیلہ تھا۔ حلیف یعنی ان کا آپس میں ایک معاہدہ تھا کہ جب بھی کسی کو ضرورت پڑے گی ایک دوسرے کی مدد کی تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ علامہ ابن اَثِیْر اُسد الغابہ میں تحریر کرتے ہیں کہ یہ کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ بنو طَرِیف بنو سَاعِدہ کی ہی ایک شاخ ہے۔ حضرت ضَمْرَہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شریک ہوئے غزوۂ احد میں آپؓ شہید ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 60-61 ضمرہ بن عمرو الجہنی ۔دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سَعْد بن سُہَیْل ؓ۔ حضرت سعد انصار میں سے تھے۔ بعض نے آپ کا نام سَعِید بن سُہَیْلؓ بیان کیا ہے۔ حضرت سعد غزوۂ بدر اور اُحُد میں شریک ہوئے آپؓ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ھُزَیْلَہ تھا۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 439 سعد بن سہیل دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 395 سعید بن سہیل دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ان کا ذکر بس اتنا ہی ملتا ہے۔
پھر حضرت سَعْد بن عُبَیْد ؓ صحابی ہیں جو بدری صحابی تھے۔ ان کا ذکر کرتا ہوں۔ حضرت سَعْد بن عُبَیْد غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ آپؓ کا نام سَعِید بھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ ‘قاری’ کے لقب سے مشہور تھے۔ آپؓ کی کنیت ابوزَید تھی۔ حضرت سعد بن عُبَیْد ؓ کا شمار ان چار اصحاب میں ہوتا ہے جنہوں نے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں قرآن جمع کیا تھا۔ آپؓ کے بیٹے عُمَیْر بن سَعْد حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں شام کے ایک حصہ کے والی تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سَعْد بن عُبَیْد ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد قبا میں امامت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں بھی اس امامت پر مامور تھے۔ حضرت سعد بن عُبَیْد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے سولھویں سال جنگ قَادِسِیّہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 64 سال تھی۔
عبد الرحمٰن بن ابو لیلٰی سے روایت ہے کہ جنگ جِسرجو 13 ہجری میں ہوئی اس میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہوا تھا۔ حضرت سعد بن عُبَیْد شکست کھا کر واپس آئے، پیچھے ہٹ گئے تھے تو حضرت عمرؓ نے حضرت سَعْد بن عُبَید سے فرمایا کہ ملک شام میں جہاد سے دلچسپی ہے؟ سوال پوچھا۔ وہاں مسلمانوں سے شدید خونریزی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اگر تمہیں شوق ہے تو پھر وہاں چلے جاؤ اور دشمن کی اس خونریزی کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس سے دشمن ان پر دلیر ہو گئے ہیں تو حضرت عمرؓ نے ان کو فرمایا کہ شاید آپؓ اپنے اوپر لگی ہوئی شکست کی بدنامی کا داغ دھو سکیں کیونکہ یہاں یعنی جنگ جِسرسے واپس آئے تو مسلمانوں کو نقصان ہوا تھا تو حضرت عمر ؓنے آپؓ کو کہا کہ اگر اس بدنامی کا، شکست کا داغ دھونا ہے تو وہاں شام کی طرف بھی جنگ ہو رہی ہے۔ حضرت سعد نے عرض کیا نہیں۔ میں سوائے اس زمین کے اور کہیں نہیں جاؤں گا جہاں سے مَیں بھاگا ہوں یا ناکام واپس آیا ہوں اور ان دشمنوں کے مقابل پر ہی نکلوں گا جنہوں نے میرے ساتھ جو کرنا تھا کیا یعنی مراد یہ تھی کہ لڑائی میں وہ غالب آگئے۔ چنانچہ حضرت سعد بن عُبَیدؓ قادسیہ آئے اور وہاں لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ عبد الرَّحمٰن بن ابو لَیْلٰی روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبَید نے لوگوں سے وعظ کیا اور کہا کہ کل ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے اور کل ہم شہید ہوں گے۔ لہٰذا تم لوگ نہ ہمارے بدن سے خون دھونا اور نہ ،سوائے ان کپڑوں کے جو ہمارے بدن پر ہیں ،کوئی اَور کفن دینا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 349 سعد بن عبید دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (اسد الغابة فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 445 سعد بن عبید دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)(الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد3 صفحہ57 سعد بن عبید دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
جنگ جِسرکی کچھ تفصیل ایک گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کی تھی۔ اس حوالے سے کچھ اور تھوڑا بیان کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جنگ جِسر13 ہجری میں دریائے فرات کے کنارے مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور مسلمانوں کی طرف سے لشکر کے سپہ سالار حضرت اَبُو عُبَیْد ثَقْفِیؓ تھے جبکہ ایرانیوں کی طرف سے بَہْمَنْ جَادْوَیْہ سپہ سالار تھا۔ مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار تھی جبکہ ایرانیوں کی فوج میں تیس ہزار فوجی اور تین سو ہاتھی تھے۔ دریائے فرات کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے یعنی بیچ میں دریائے فرات آ گیا تھا اس وجہ سے دونوں گروہ کچھ عرصہ تک لڑائی سے رُکے رہے یہاں تک کہ فریقین کی باہمی رضا مندی سے فرات پر جِسر یعنی ایک پل تیار کیا گیا۔ اسی پل کی وجہ سے اس کو جنگ جِسرکہا جاتا ہے۔ جب پل تیار ہو گیا تو بَہْمَنْ جَادْوَیْہ نے حضرت اَبُوعُبَیْدؓ کو کہلا بھیجا کہ تم دریا عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہمیں عبور کرنے کی اجازت دو گے۔ حضرت اَبُوعُبَیْدؓ کی رائے تھی کہ مسلمانوں کی فوج دریا عبور کر کے مخالف گروہ سے جنگ کرے جبکہ لشکر کے سردار جن میں حضرت سَلِیْطؓ بھی تھے اس رائے کے خلاف تھے لیکن حضرت ابوعُبَیْدؓ نے دریائے فرات کو عبور کر کے اہلِ فارس کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ تھوڑی دیر تک لڑائی ایسے ہی چلتی رہی۔ کچھ دیر بعد بَہْمَنْ جَادْوَیْہ نے اپنی فوج کو منتشر ہوتے دیکھا۔ دیکھا کہ ایرانیوں کی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے تو اس نے ہاتھیوں کو آگے بڑھانے کا حکم دیا۔ ہاتھیوں کے آگے بڑھنے سے مسلمانوں کی صفیں بے ترتیب ہو گئیں۔ اسلامی لشکر اِدھر اُدھر ہٹنے لگا۔ حضرت ابوعُبَیْد ؓنے مسلمانوں کو کہا کہ اے اللہ کے بندو! ہاتھیوں پر حملہ کرو اور ان کی سونڈیں کاٹ ڈالو۔ حضرت ابوعُبَیْدؓ یہ کہہ کر خود آگے بڑھے اور ایک ہاتھی پر حملہ کر کے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی۔ باقی لشکر نے بھی یہی دیکھ کر تیزی سے لڑائی شروع کر دی اور کئی ہاتھیوں کی سونڈیں اور پاؤں کاٹ کر ان کے سواروں کو قتل کر دیا۔ اتفاق سے حضرت اَبُوعُبَیدؓ ایک ہاتھی کے سامنے آئے۔ آپؓ نے وار کر کے اس کی سونڈ کاٹ دی مگر آپؓ اس ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آ گئے اور دب کر شہید ہو گئے۔ حضرت ابوعُبَیدؓ کی شہادت کے بعد سات آدمیوں نے باری باری اسلامی جھنڈا سنبھالا اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ آٹھویں شخص حضرت مُثَنّٰیؓ تھے جنہوں نے اسلامی جھنڈے کو لے کر دوبارہ ایک پُر جوش حملے کا ارادہ کیا لیکن اسلامی لشکر کی صفیں بے ترتیب ہو گئی تھیں اور لوگ مسلسل سات امیروں کو شہید ہوتے دیکھ کر اِدھر اُدھر بھاگنا شروع ہو گئے تھے جبکہ کچھ دریا میں کود گئے تھے۔ حضرت مُثَنّٰیؓ اور آپؓ کے ساتھی مردانگی سے لڑتے رہے۔ بالآخر حضرت مُثَنّٰیؓ زخمی ہو گئے اور آپؓ لڑتے ہوئے دریائے فرات عبور کر کے واپس آ گئے۔ اس واقعہ میں مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ مسلمانوں کے چار ہزار آدمی شہید ہوئے جبکہ ایرانیوں کے چھ ہزار فوجی مارے گئے۔
(ماخوذ از تاریخ ابن خلدون (مترجم) حکیم احمد حسین اٰلہ آبادی جلد 3 صفحہ 270 تا 273 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2003ء)
بہرحال یہ جنگ اس لیے ہوئی تھی کہ ایرانیوں کی طرف سے بار بار حملے ہو رہے تھے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے یہ اجازت لی گئی تھی کہ جنگ کریں۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے حضرت سَہْل بن عَتِیْکؓ۔ ان کا نام سُہَیْل بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی والدہ کا نام جَمِیْلَہ بنتِ عَلْقَمَہ تھا۔ حضرت سہل بن عَتِیکؓ ستر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ آپ نے غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔
(طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 387 سہل بن عتیک دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(اسد الغابۃ جلد2 صفحہ578 سہل بن عتیک دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سُہَیل بن رافِعؓ۔ حضرت سُہَیل کا تعلق قبیلہ بنو نَجَّار سے تھا۔ وہ زمین جس پر مسجد نبوی ؐتعمیر ہوئی وہ آپؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت سہل کی ملکیت تھی۔ آپؓ کی والدہ کا نام زُغَیْبَہ بنتِ سَہْل تھا۔ حضرت سہیلؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ کی وفات ہوئی۔
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد3 صفحہ 372 سہیل بن رافع، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے جو تحریر فرمایا ہے پیش کرتا ہوں۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ
‘‘جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے، ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپؐ کی اونٹنی گزرتی تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رسولؐ اللہ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ یارسولؐ اللہ! اور ہم آپؐ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔ آپؐ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپؐ کو اپنے گھر میں اتروا لیں مگر آپؐ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے۔’’ (جو اس کو حکم ہوگا۔ یہی سمجھو کہ جہاں اللہ تعالیٰ چاہے گا وہاں یہ بیٹھ جائے گی) ‘‘یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اونٹنی ٹھہر گئی۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی۔ ان کا ولی آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپؐ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپؐ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔’’
(دیباچہ تفسیرالقرآن۔ انوارالعلوم جلد20 صفحہ 228)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیین ؐ میںکچھ اس طرح لکھی ہے کہ
‘‘مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجد نبوی کی تعمیر تھا جس جگہ آپؐ کی اونٹنی آ کر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سُہَیل کی ملکیت تھی جو حضرت اَسْعَد بن زُرَارَۃؓ کی نگرانی میں رہتے تھے۔ یہ ایک افتادہ جگہ تھی۔’’ یعنی بالکل بنجر، غیر آباد جگہ تھی ‘‘جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے۔’’ اِکا دُکا درخت لگے ہوئے تھے۔ ‘‘اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے ’’گرے ہوئے مکان تھے، کھنڈر تھے۔ ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایا اور دس دینار …… میں یہ زمین خرید لی گئی اور جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجد نبویؐ کی تعمیر شروع ہو گئی۔’’
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ269)
ایک روایت کے مطابق اس زمین کی یہ جو رقم تھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادا کی تھی۔
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ186 دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء)
پھر لکھتے ہیں کہ جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجد نبویؐ کی تعمیر شروع ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعا مانگتے ہوئے سنگ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قبا کی مسجد میں ہوا تھا صحابہؓ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شرکت فرماتے تھے۔ بعض اوقات اینٹیں اٹھاتے ہوئے صحابہ حضرت عبداللہ بن رَوَاحَہ انصاری کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ
هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَر ، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرُ
یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانوروں پر لد کر آیا کرتا ہے۔ بلکہ اے ہمارے مولیٰ! یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی صحابہ کام کرتے ہوئے عبداللہ بن رَوَاحَہ کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَہ، فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہ
یعنی اے ہمارے اللہ! اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے پس تُو اپنے فضل سے انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔ جب صحابہ یہ شعر پڑھتے تھے یا اشعار پڑھتے تھے تو بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز ملا دیتے تھے اور اس طرح ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوئی۔ مسجد کی عمارت پتھروں کی سِلوں اور اینٹوں کی تھی جو لکڑی کے کھمبوں کے درمیان چنی گئی تھی۔ اس زمانے میں مضبوط عمارت کے لیے یہ رواج تھا کہ لکڑی کے بلاک کھڑے کر کے،کھمبے بنا کر یا pillar بنا کر اس کے اندر یہ اینٹیں اور مٹی کی دیواریں لگائی جاتی تھیں تا کہ مضبوطی قائم رہے۔ یہ اس کا سٹرکچر (structure) ہوتا تھا اور چھت پر کھجور اور تنے اور شاخیں ڈالی گئی تھیں۔ مسجد کے اندر چھت کے سہارے کے لیے کھجورکے ستون تھے اور جب تک منبر کی تجویز نہیں ہوئی، وہ منبر جہاں کھڑے ہو کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے انہی ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے وقت ٹیک لگا کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ مسجد کا فرش کچا تھا اور چونکہ زیادہ بارش کے وقت چھت ٹپکنے لگتی تھی اس لیے ایسے اوقات میں فرش پر کیچڑ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ اس تکلیف کو دیکھ کر بعد میں کنکریوں کا فرش بنوا دیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے پتھر وہاں ڈالے گئے۔ شروع شروع میں مسجد کا رخ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا تھا لیکن تحویل قبلہ کے وقت یہ رخ بدل دیا گیا۔ مسجد کی بلندی یعنی height اس وقت دس فٹ تھی(چھت دس فٹ اونچی تھی)۔ اور طول ایک سو پانچ فٹ (لمبائی ایک سو پانچ فٹ تھی) اور عرض 90 فٹ کے قریب تھا(چوڑائی جو تھی نوے فٹ تھی) لیکن بعد میں اس کی توسیع کر دی گئی۔ یہ بھی جو 105 فٹ اور 90 فٹ کا رقبہ بنتا ہے یہ تقریباً پندرہ سولہ سو نمازیوں کے لیے جگہ بنتی ہے۔
مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دار چبوترا بنایا گیا تھا جسے صُفَّہ کہتے تھے۔ یہ ان غریب مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے، جن کا گھر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور اَصْحَابُ الصُّفَّہکہلاتے تھے۔ ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے اور جب کبھی آپؐ کے پاس کوئی ہدیہ وغیرہ آتا تھا یا گھر میں کچھ ہوتا تھا تو ان کا حصہ ضرور نکالتے تھے۔ ان لوگوں کا کھانا پینا اکثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فاقہ کرتے اور جو کچھ گھرمیں ہوتا تھا وہ اصحاب الصفہکو بھجوا دیتے تھے۔ انصار بھی ان لوگوں کی مہمان نوازی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اور ان کے لیے کھجوروں کے خوشے لا لا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اور یہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتٰی کہ کچھ تو مدینہ کی آبادی کی وسعت کے نتیجہ میں ان لوگوں کے لیے کام نکل آیا مزدوری وغیرہ ملنے لگ گئی اور کچھ قومی بیت المال سے امداد کی صورت پیدا ہو گئی۔ حالات بہتر ہوئے تو ان کی مدد ہونے لگ گئی۔
مسجد کے ساتھ ملحق طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رہائشی مکان تیار کیا گیا تھا۔ مکان کیا تھا ایک دس پندرہ فٹ کا چھوٹا سا حجرہ تھا اور اس حجرے اور مسجد کے درمیان ایک دروازہ رکھا گیا تھا جس میں سے گزر کر آپؐ نماز وغیرہ کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَور شادیاں کیں تو اسی حجرے کے ساتھ ساتھ دوسرے حجرات بھی تیار ہوتے گئے اور مسجدکے آس پاس بعض اور صحابہ کے مکانات بھی تیار ہو گئے۔
یہ تھی مسجد نبویؐ جو مدینہ میں تیار ہوئی اور اس زمانہ میں چونکہ اَور کوئی پبلک عمارت ایسی نہیں تھی جہاں قومی کام سرانجام دیے جاتے۔ اس لیے ایوانِ حکومت کا کام بھی یہی مسجد دیتی تھی۔ یہی دفتر تھا۔ یہی حکومت کا پورا سیکرٹیریٹ (secretariat)تھا ۔ یہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس لگتی تھی۔ یہیں تمام قسم کے مشورے ہوتے تھے۔ یہیں مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ یہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے۔ یہی قومی مہمان خانہ تھا یعنی کہ جو مہمان خانہ تھا وہ بھی یہی مسجد ہی تھا۔ اور ہر قومی کام جو تھا وہ اسی مسجد میں انجام دیا جاتا تھا۔ اور ضرورت ہوتی تھی تو اسی سے جنگی قیدیوں کا حبس گاہ کا کام بھی لیا جاتا تھا یعنی یہیں مسجد میں جنگی قیدی بھی رکھے جاتے تھے اور بہت سارے قیدی ایسے بھی تھے جب مسلمانوں کو عبادت کرتے اور آپس کی محبت اور پیار دیکھتے تھے تو ان میں سے پھر مسلمان بھی ہوئے۔ بہرحال اس کے بارے میں سر ولیم میور بھی ذکر کرتا ہے جو ایک مستشرق ہے اور اسلام کے خلاف بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی کافی لکھتا ہے، لیکن وہ یہاں اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ
گو یہ مسجد سامان تعمیر کے لحاظ سے نہایت سادہ اور معمولی تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسجد اسلامی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتی ہے۔ رسول خداؐ اور ان کے اصحابؓ اسی مسجد میں اپنے وقت کا بیشتر حصہ گزارتے تھے۔ یہیں اسلامی نماز کا باقاعدہ باجماعت صورت میں آغاز ہوا۔ یہیں تمام مسلمان جمعہ کے دن خدا کی تازہ وحی کو سننے کے لیے مؤدبانہ اور مرعوب حالت میں جمع ہوتے تھے۔ یہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فتوحات کی تجاویز پختہ کیا کرتے تھے۔ یہیں وہ ایوان تھا جہاں مفتوح اور تائب قبائل کے وفود ان کے سامنے پیش ہوتے تھے۔ یہی وہ دربار تھا جہاں سے وہ شاہی احکام جاری کیے جاتے تھے جو عرب کے دُور دراز کونوں تک باغیوں کو خوف سے لرزا دیتے تھے اور بالآخر اسی مسجد کے پاس اپنی بیوی عائشہؓ کے حجرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان دی اور اسی جگہ اپنے دو خلیفوں کے پہلو بہ پہلو وہ مدفون ہیں۔
یہ مسجد اور اس کے ساتھ کے حجرے کم و بیش سات ماہ کے عرصہ میں تیار ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نئے مکان میں اپنی بیوی حضرت سودہؓ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ بعض دوسرے مہاجرین نے بھی انصار سے زمین حاصل کرکے مسجد کے آس پاس مکانات تیار کر لیے اور جنہیں مسجد کے قریب زمین نہیں مل سکی انہوں نے دور دور مکان بنا لیے اور بعض کو انصار کی طرف سے بنے بنائے مکان مل گئے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ صفحہ269 تا 271)
بہرحال حضرت سُہَیل اور ان کے بھائی وہ خوش قسمت تھے جن کو اسلام کے اس عظیم مرکز میں اپنی زمین پیش کرنے کی توفیق ملی۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓ۔ حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓ کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام ہِند بنتِ اَوس تھا۔ حضرت ابو ضَیَّاح نُعمان بن ثابتؓ جو کہ بدری صحابی ہیں والدہ کی طرف سے آپؓ کے بھائی تھے۔ آپؓ کی کنیت ابو خَیْثَمَہ اور ابو عبداللّٰہ بیان کی جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓ کے اور حضرت ابو سلمہ بن عَبْدُ الْاَسَدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ 366-367 سعد بن خیثمہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 429 سعد بن خیثمہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت سعدؓ ان بارہ نقباء میں سے یعنی نقیبوں میں سے تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ کے مسلمانوں کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ بارہ نقیب کس طرح مقرر ہوئے۔ اس کی کچھ تفصیل اور نقیبوں کے نام اور کام کے بارے میں بھی بتاتا ہوں جو سیرت خاتم النبیین ؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ
13؍ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے۔ ان میں سے ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے۔ مُصْعَب بن عُمَیرؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مُصْعَبکی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آ کر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مُصْعَب ؓ نے جواب دیا کہ میں ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملا۔ آپؐ سے مل کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے۔ وہ بہت جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مُصْعَب ؓ نے کہا ماں میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا وہ کیا ہے؟ مُصْعَبؓ نے آہستہ سے جواب دیا کہ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ وہ پکی مشرکہ تھی سنتے ہی شور مچا دیا کہ مجھے ستاروں کی قسم ہے میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہیں ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مُصْعَب ؓکو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ بھاگ گئے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُصْعَبؓ سے انصار کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپؐ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی یعنی علیحدہ ملاقات ہونی چاہیے تھی اس لیے مراسم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گزشتہ سال والی گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر ملیں تا کہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے آئیں دشمن کی نظر پڑ سکتی ہے اور وقت مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور اگر کوئی سویا ہوا ہے تو سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستے میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، مشرک تھے مگر آپؐ سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے۔ اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آ پہنچے۔ یہ ستر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ سب سے پہلے عباس نے گفتگو شروع کی یعنی حضرت عباس جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے کہ اے خزرج کے گروہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں ایک معزز اور محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرے کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے جانے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا ۔اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔ بَرَاء بنِ مَعْرُور ؓ جو انصارکے قبیلے کے ایک معمر اور بااثر بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ عباس ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنی زبان مبارک سے کچھ فرماویں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریر ختم کر چکے تو بَرَاء بن مَعْرُور نے عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یا رسولؐ اللہ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق اور صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے۔ ہم لوگ تلواروں کے سائے میں پلے ہیں اور بات یہ کہہ ہی رہے تھے، ابھی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ اَبُوْالْہَیْثَمْ بِن تَیِّہَان ایک اور شخص وہاں بیٹھا تھا، اس نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ یا رسولؐ اللہ! (یہ بھی مسلمان ہو گئے تھے) یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں، پرانے تعلقات ہیں ،آپؐ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہوکہ جب اللہ تعالیٰ آپؐ کو غلبہ دے تو آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آئیں اور ہم نہ اِدھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ تمہارا خون میرا خون ہوگا۔ تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن۔ اس پر عباس بن عُبَادَۃ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا کہ لوگو! کیا تم سمجھتے ہو کہ اس عہد و پیمان کے کیا معنی ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ تمہیں ہر اسود و اَحمر ،ہر کالے گورے کے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ ہر شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہیں تیار ہونا پڑے گا اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں مگر یا رسولؐ اللہ! اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ پھر ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم تو یہ سب کچھ کریں گے ہمیں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ سب نے کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے یا رسولؐ اللہ! آپؐ اپنا ہاتھ آگے کریں۔ آپؐ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا اور یہ ستر جانثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدے میں آپؐ کے ہاتھ پر بک گئی۔ اس بیعت کا نام بیعتِ عقبہ ثانیہ ہے۔
جب بیعت ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے۔ مَیں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپؐ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلے کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپؐ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ بہرحال ان بارہ نقیبوں کے نام یہ ہیں۔
اَسْعَد بن زُرَارۃ۔ اُسَیْد بن الْحُضَیر۔ ابوالہَیْثَم مالِک بن تَیِّہَان۔ سعد بن عُبَادہ۔ بَرَاء بن مَعْرُور۔ عبداللّٰہ بن رَوَاحَہ۔ عُبَادہ بن صَامِت۔ سَعد بِن ربِیع۔ رَافِع بن مَالِک ۔ عبدُاللّٰہ بن عمرو اور سَعْدبن خَیْثَمَہ (جن کا ذکر چل رہا ہے۔ یہ سعد بن خَیْثَمَہ بھی ان نقیبوں میں سے ایک نقیب تھے )اور مُنْذِرْ بن عَمْرو۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ صفحہ 227تا232)
ہجرت مدینہ کے وقت قبا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کَلْثُوم بن الہِدْمؓ کے گھر قیام فرمایا۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سَعْد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر قیام فرمایا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت کلثوم بن الہِدْمؓ کے گھر ہی تھا لیکن جب آپ ان کے گھر سے نکل کر لوگوں میں بیٹھتے تو وہ سعد بن خَیْثَمَہ ؓ کے گھر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 215-216 فصل فی دخولہ علیہ السلام… دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓکو مدینہ کے مسلمانوں کی تربیت کے لیے بھجوایا تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے آپؐ سے نماز جمعہ کی اجازت چاہی۔ اس پر آپؐ نے انہیں اجازت دی اور جمعہ کے متعلق ہدایت فرمائی۔ چنانچہ ان ہدایات کے ماتحت مدینہ میں جو پہلا جمعہ ادا کیاگیا وہ حضرت سَعْد بن خَیْثَمَہ ؓکے گھر ادا کیا گیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 87-88 مصعب الخیر، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یہ حوالہ الطبقات الکبریٰ کا ہے ۔ حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓکا قبا میں ایک کنواں تھا جسے اَلْغَرْسکہا جاتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پانی پیا کرتے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے بارے میں فرمایا کہ یہ جنت کے چشموں میں سے ہے اور اس کا پانی بہترین ہے ۔یعنی بہت اچھا میٹھا ٹھنڈا پانی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو اسی کنویں کے پانی سے غسل دیا گیا۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو بِئْرِ غَرْسسے سات مشکیزے لا کر اس کے پانی سے مجھے غسل دینا۔ ابو جعفر محمد بن علی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ غسل دیا گیا۔ آپؐ کو پانی اور بیری کے پتوں سے قمیض میں ہی غسل دیاگیا۔ یعنی قمیض نہیں اتاری گئی تھی۔ حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ اور حضرت فضلؓ نے آپؐ کو غسل دیا اور ایک روایت کے مطابق حضرت اُسَامہ بن زید ؓحضرت شُقْرَانؓ اور حضرت اَوْس بن خَوَلِی ؓ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں شریک تھے۔
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد جلد2 صفحہ 214 ذکر غسل رسول اللہﷺ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی غسل النبیﷺ حدیث نمبر1468)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 7 صفحہ229۔ الباب الاول: فیما یستعذب لہ الماء ۔۔الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کرنے والے بہت سارے مسلمانوں کی پہلی منزل عموماً حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓ کا گھر ہوا کرتی تھی۔ جو لوگ بھی ہجرت کر کے آتے تھے وہ حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓ کے گھر ٹھہرا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت حمزہؓ ۔ ان میں سے بعض لوگوں کے نام جو ملتے ہیں وہ یہ ہیں :حضرت حمزہؓ، حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت ابوکبشہؓ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جوغلام تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ۔ جب انہوں نے ہجرت کی تو حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر ٹھہرے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ6، 32، 36، 112، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
سُلَیْمَان بن اَبَّانْ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے لیے نکلے تو حضرت سعد بن خَیْثَمَہ ؓ اور آپؓ کے والد دونوں نے آپؐ کے ساتھ جانے کا ارادہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات عرض کی گئی کہ دونوں باپ بیٹا گھر سے نکل رہے ہیں۔ اس پر آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ ان دونوں میں سے صرف ایک جا سکتا ہے۔ وہ دونوں قرعہ اندازی کر لیں ۔ حضرت خَیْثَمَہؓ نے اپنے بیٹے سعد سے کہا کہ ہم میں سے ایک ہی جا سکتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ عورتوں کے پاس وہاں نگرانی کے لیے، حفاظت کے لیے رک جاؤ۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ اگر جنت کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو میں ضرور آپؓ کو ترجیح دیتا لیکن میں خود شہادت کا طلبگار ہوں۔ اس پر ان دونوں نے قرعہ اندازی کی تو قرعہ حضرت سَعدؓ کے نام نکلا۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے لیے نکلے اور جنگ بدر میں شہید ہو گئے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3 صفحہ 209 ومن مناقب سعد بن خیثمہ حدیث 4866، دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
آپؓ کو عَمْرو بن عَبدِ وُدّ نے شہید کیا اور ایک قول کے مطابق طُعَیْمَہ بن عَدِینے آپؓ کو شہید کیا تھا۔ طُعَیْمَہکو حضرت حمزہؓ نے جنگ بدر میں اور عَمْرو بن عَبدِ وُدّکو حضرت علیؓ نے جنگ خندق میں قتل کیا تھا۔
(اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 429 سعد بن خیثمہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ بدر کے روز جب دن چڑھ گیا اور مسلمانوں اور (ایک روایت یہ ہے) مسلمانوں اور کفار کی صفیں باہم مل گئیں یعنی جنگ شروع ہو گئی تو میں ایک آدمی کے تعاقب میں نکلا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ریت کے ٹیلے پر حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ ایک مشرک سے لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ اس مشرک نے حضرت سَعدؓ کو شہید کر دیا۔ وہ مشرک لوہے کی زرہ میں ملبوس گھوڑے پر سوار تھا پھر وہ گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس نے مجھے پہچان لیا تھا لیکن میں اسے نہ پہچان سکا۔ اُس نے مجھے لڑائی کے لیے للکارا۔ میں اس کی طرف بڑھا۔ جب وہ آگے بڑھ کر مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نیچے کو پیچھے ہٹا تا کہ بلندی سے میرے قریب آجائے۔ زیادہ اونچا نہ ہو۔لڑائی کا اصول ہے، نیچے آئے اور قریب آ جائے کیونکہ مجھے یہ ناگوار گزرا کہ وہ بلندی سے مجھ پر تلوار سے وار کرے۔ جب میں اس طرح ایک قدم پیچھے ہٹ رہا تھا تب وہ بولا کہ اے ابن ابی طالب! کیا بھاگ رہے ہو؟ تو میں نے اسے کہا کہقَرِیْبٌ مَفَرُّ ابنِ الشَّتْرَاء۔ کہ الشَّتْرَاءکے بیٹے کا بھاگ جانا قریب ہے یعنی کہ ناممکن ہے۔ یہ عربوں میں ایک محاورہ بن گیا تھا کیونکہ کہتے ہیں۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک ڈاکو تھا جو لوگوں کو لوٹنے کے لیے آتا تھا۔ لوگ اس پر حملے کرتے تو بھاگ جاتا لیکن اس کا بھاگنا عارضی ہوتا تھا۔ پھر وہ جلدی موقع پا کر دوبارہ حملہ کر دیتا تھا۔ پس یہ بطور ضرب المثل استعمال ہونے لگا تھا کہ داؤ پیچ کے لیے پیچھے ہٹو اور پھر حملہ کرو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ جب میرے قدم جم گئے اور وہ بھی میرے قریب پہنچ گیا تو اس نے اپنی تلوار سے مجھ پر حملہ کیا جسے میں نے اپنی ڈھال پر لیا اور اس کے کندھے پر اس زور سے وار کیا کہ میری تلوار اس کی زرہ کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ مجھے یقین تھا کہ میری تلوار اس کا خاتمہ کر دے گی کہ اپنے پیچھے سے مجھے تلوار کی چمک محسوس ہوئی۔ کہتے ہیں دوسرا وار ابھی کرنا تھا کہ اتنے میں مجھے پیچھے سے تلوار کی چمک سی محسوس ہوئی۔ میں نے اپنا سر فورًا نیچے کر لیا کہ پیچھے سے کوئی تلوار آ رہی ہے اور وہ تلوار اس زور سے اس دشمن پر پڑی کہ اس کا سر مع خَود کے تن سے جدا ہو گیا۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت حمزہؓ تھے۔ وہ اس کو کہہ رہے تھے کہ میرے وار کو سنبھالو کہ میں ابن عبدالمطلب ہوں ۔
(کتاب المغازی للواقدی صفحہ 92-93 غزوہ بدر، عالم الکتب 1984ء) (لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 431 مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور 2005ء)
اس روایت سے کہتے ہیں ناںکہ فلاں نے فلاں کو قتل کیا تو یہی لگتا ہے کہ طُعَیْمَہ بن عدی نے حضرت سعدؓ کو شہید کیا تھااور پھر وہ وہیں مارا گیا ۔ ایک روایت کے مطابق جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو گھوڑے تھے ایک گھوڑے پر حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ اور دوسرے پر حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ سوار تھے۔ حضرت زُبَیر بن العَوامؓ اور حضرت مِقْدَادِ بِن اسودؓ بھی باری باری ان پر سوار ہوئے۔
(دلائل النبوة للبیہقی جلد3 صفحہ 110 سیاق قصة بدر، دار الکتب العلمیہ بیروت 1988ء)
جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنے گھوڑے تھے؟ اس کے متعلق تاریخوں میں مختلف روایات ملتی ہیں ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خیال ہے کہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے پاس ستّر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 353)
لیکن یہ بھی بعض دوسری کتابوں میں لکھا ہے کہ گھوڑوں کی تعداد تین اور پانچ بھی بیان ہوئی ہے۔
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 260 باب غزوۃ بدر الکبرٰی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 205 باب ذکر مغازیہ ﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
بہرحال جو بھی سازو سامان اور گھوڑے اور اونٹ تھے یا ان کی تعداد تھی اس کی کافروں کے سازو سامان کے ساتھ اور گھوڑوں کی تعداد سے تو کوئی نسبت ہی نہیں تھی لیکن جب مسلمانوں پر حملہ ہوا، جنگ ٹھونسی گئی اور کافر اپنے زعم میں اس لیے آئے کہ اب اسلام کو ختم کر دیں گے تو پھر ان مومنین نے اپنے سامان کی طرف نہیں دیکھا، گھوڑوں کی طرف نہیں دیکھا بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر ایک قربانی کرنے کی تڑپ تھی جیسا کہ ان کے جواب سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہاںکسی اَور دنیاوی چیز کی خواہش کا سوال نہیں ہے یہاں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کا سوال ہے۔ اس لیے بیٹے نے باپ کو کہا کہ میں یہاں تمہیں ترجیح نہیں دے سکتا۔ بہرحال ایک تڑپ تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور پھر فتح بھی عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ہر آن ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا رہے۔
٭…٭…٭