امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نئے مرکزِ احمدیت ‘اسلام آباد’ منتقل ہو گئے
ادارہ الفضل انٹرنیشنل احبابِ جماعت کو یہ خوشخبری پہنچاتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس کررہا ہے کہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس مورخہ 15؍ اپریل 2019ء بروز سوموار شام سات بجے سے کچھ پہلے نئے مرکز احمدیت ‘اسلام آباد’ ٹلفورڈ سرے (Tilford, Surrey) منتقل ہو گئےہیں۔ اس مرکز کی تعمیر ٹلفورڈ کی Sheephatch Lane پر واقع 31؍ ایکڑ پر مشتمل اراضی پر ہو رہی ہے جس میں سے 25؍ ایکڑ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے لندن تشریف لانے کے چند ماہ بعد ہی جماعت احمدیہ کو معجزانہ طور پر خریدنے کی توفیق عطا فرمائی تھی جس کے بعد اس میں مزید 6؍ ایکڑ بھی اس میں شامل ہو گئی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ اپریل 2019ء میںحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’کے حوالہ سے فرمایا کہ
‘‘…یہ الہام آپؑ کو مختلف وقتوں میں ہوا۔ شروع میں اس وقت اللہ تعالیٰ نے ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’کا الہام فرمایا جب آپؑ فرماتے ہیں کہ اس وقت شاید دو یا تین لوگ میری مجلس میں آیا کرتے تھے اور کوئی مجھے جانتا نہیں تھا۔
پھر مختلف وقتوں میں دوسرے الہامات کے ساتھ بھی ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’کا الہام ہوتا رہا یعنی اپنی مکانیت کو وسیع کرو اور اس کے ساتھ جو دوسرے الہامات ہیں ان میں خوشخبریوں اور مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہونے کا بھی ذکر ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جب اپنے انبیاء کو الہاماً کوئی حکم دیتا ہے کہ یہ کرو تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی تائیدات اور نصرت بھی فرمائے گا اور وسائل کے سامان بھی پیدا فرمائے گا اور پھر اس طرح یہ تکمیل کو پہنچے گا اور یہی ہمارا تجربہ ہے۔ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اس الہام کو پورا کیا اور ابھی بھی پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ادنیٰ غلام ہیں ہمیں بھی اس الہام کے متعلق مختلف وقتوں میں پورا ہونے کے نظارے دکھاتا چلا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر الہام اور اللہ تعالیٰ کا آپ کو کسی بھی معاملے میں حکم دینا یا پیشگوئی کے رنگ میں بتانا اصل میں تو آپؑ کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین یعنی اسلام کی اشاعت اور ترقی کے ہونے کی خوشخبری ہے اور پھر آپؑ کے بعد سلسلۂ خلافت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی خوشخبری ہے۔ پس ہر قدم جو ہمارا آگے بڑھتا ہے یا جو ترقی ہم دیکھتے ہیں وہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بنایا ہوا ہے۔’’
حضورِ انور نے فرمایا:‘‘خلافت کے یہاں یوکے میںہجرت کے بعد برطانیہ میں بھی، یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی، افریقہ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ مکانیت وسیع ہوتی چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جگہیں مہیا کرتا چلا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب یہاں ہجرت کر کے آئے تھے تو فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اپنی وسعت کا ایک نظارہ دکھایا اور اسلام آباد میں 25؍ ایکڑ زمین جماعت کو خریدنے کی توفیق ملی اور اس کے بعد مزید اس میں چھ ایکڑ بھی شامل ہو گئی جہاں جلسہ بھی ہوتا رہا اور کچھ رہائش بھی جماعتی کارکنوں کے لیے، واقفین زندگی کے لیے میسر تھی۔ ایک بنگلہ بھی جو خلیفۃ المسیح کی رہائش کے لیے تھا۔ کچھ دفاتر بھی تھے۔ ایک بیرک نما جو جگہ تھی اس میں مسجد بھی بنائی گئی تھی اور مجھے یاد ہے جب ایک دفعہ یہاں آیا 1985ء میں تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے مجھے خاص طور پر فرمایا تھا کہ بڑی اچھی جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مرکز کے لیے بھی مہیا کر دی ہے۔ کم و بیش یہی الفاظ تھے مگر معین نہیں۔ اور مجھے یقین ہے اور بعض دوسرے شواہد بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہاں باقاعدہ مرکز بنانے کا ارادہ تھا۔ بہرحال ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر فرمایا ہوا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ اسلام آباد میں نئی تعمیر ہوئی ہے۔ کچھ دفاتر بہتر سہولتوں کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔ باقاعدہ مسجد بنائی گئی ہے۔ خلیفۂ وقت کی رہائش بنائی گئی ہے اور واقفین زندگی اور کارکنوں کے لیے گھر بھی تعمیر ہوئے ہیں اور اَور بھی تعمیر ہوں گے۔
…جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ خلیفہ وقت کی رہائش گاہ اور دفاتر وغیرہ بھی وہاں بن گئے ہیں۔بڑی مسجد بھی بن گئی ہے۔ اس لیے اب میں بھی لندن سے ان شاء اللہ تعالیٰ چند دنوں میں اسلام آباد منتقل ہو جاؤں گا۔ وہاں منتقلی کے بعد ہر لحاظ سے وہاں کی رہائش بھی بابرکت ہونے کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل فرماتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اسلام آباد سے اسلام کی تبلیغ کے کام کو پہلے سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’صرف مکانیت کی وسعت کا ذریعہ ہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کی تکمیل میں وسعت کا ذریعہ بھی بنے۔
…جہاں تک جمعہ کا سوال ہے عموماً جمعہ یہیں بیت الفتوح میں ان شاء اللہ تعالیٰ آ کے پڑھایا کروں گا۔ …دوبارہ میں یہی کہتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس منصوبے کو اور (خلیفۂ وقت اور مرکزِ احمدیت کے)وہاں منتقل ہونے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔’’ (خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍اپریل 2019ء)
اسلام آباد میں نئے مرکز کی تعمیرات کے سلسلے میں متعلقہ کونسل (Waverley Borough Council) سے 28؍ اکتوبر 2015ء کو باقاعدہ اجازت حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد کام شروع ہو گیا تھا۔ لیکن احبابِ جماعت پر یہ واضح نہیں تھا کہ آیا حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز باقاعدہ طور پر یہاں منتقل ہوں گے کہ نہیں۔ پھر تعمیرات جیسے جیسے تکمیل کے قریب پہنچنے لگیں یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس اسلام آباد میں تعمیر ہونے والے ‘قصرِ خلافت ’میں منتقل ہو رہے ہیں۔ چنانچہ 12؍ اپریل کے خطبہ جمعہ میں حضورِ انور کے مذکورہ بالا اعلان کے بعد مسجد فضل کے اردگرد رہنے والے احمدیوں میں خصوصاً اور لندن کے احمدیوں میں عمومًا اداسی کا سماں پیدا ہونا ایک فطری بات تھی۔ یہاں بسنے والے احمدی دور دراز سے شمعِ خلافت کے اردگرد جمع ہوئے تھے اور آج وہ مرجعِ خلائق اور بابرکت وجود نئے مرکز میں تشریف لے جا رہے تھے۔ مسجد فضل میں نمازوں کی حاضری اس احساس کے تحت کہ نہ جانے کتنی نمازیں حضورِ انور یہاں اَور پڑھائیں ایسی بڑھی کہ مسجد اور ملحقہ ہالز نمازیوں کے لیے ناکافی معلوم ہونے لگے۔ نمازوں کے دوران لوگوں کی کیفیت دیدنی تھی۔لوگ حضورِ انور کی مسجد فضل سے روانگی اور اسلام آباد ورودِ مسعود کے پیشِ نظراداسی اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے گزرتے دکھائی دیتے۔
بالآخر وہ تاریخی دن طلوع ہوا جب خلیفۂ وقت کا نَوتعمیر شدہ مرکزِ احمدیت منتقل ہونا مقدر تھا۔ 15؍ اپریل 2019ء بروز سوموار معمول کے مطابق حضورِانور نے مسجد فضل میں نمازِ فجر پڑھائی اور معمول کی دفتری مصروفیات سرانجام دیں۔ آج صبح دفتری ملاقاتیں بھی پروگرام کا حصہ تھیں۔ چنانچہ مرکزی دفاتر سے تعلق رکھنے والے چھے احباب نے حضورِ انور سے ملاقات کا شرف حاصل کر کے اپنے شعبہ جات کے متعلق رہنمائی حاصل کی۔
حضورِ انور کی اسلام آباد روانگی کی باقاعدہ تشہیر نہیں کی گئی تھی اس لیے باوجودیکہ اکثر احبابِ جماعت کو حضورِ انور کی اسلام آباد روانگی کا علم روانگی کے روز ہی ہوا تاہم نمازِ ظہر پر عُشّاقانِ خلافت امڈ کر آئے۔ اور نمازِ عصر پر کہ جس کی ادائیگی کے بعد حضورِ انور کی روانگی طَے تھی احباب و خواتین کی حاضری دو ہزار سے تجاوز کر گئی۔
ایم ٹی اے کے کیمرے کی آنکھ نے مسجد میں اور فضا سے ہر دو طرح بڑی مہارت کے ساتھ ان ایمان افروز اور تاریخ ساز مناظر کو محفوظ کیا جس کا کچھ حصہ ایم ٹی اے پر نشر کیا جا چکا ہے۔
حضورِ انور کی مسجد فضل سے روانگی
نمازِ عصر پڑھانے کے بعد حضورِ انور کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے۔ اس دوران احباب و خواتین قافلے کی گاڑیوں کے قریب اکٹھے ہونا شروع ہو گئےجو روانگی کے لیے تیار تھیں۔ چھے بجے سے کچھ پہلے کروڑوں دلوں کی دھڑکن حضرت امیر المومنین خلیفۂ خامس امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔ مسجد فضل کے احاطہ میں موجود خواتین، بچے اور بچیاںپُرجوش انداز میں
‘سیدی مرشدی تو سلامت رہے
تو سلامت رہے تا قیامت رہے
تیرے دکھ اور غم
ہنس کے جھیلیں گے ہم
تو سلامت رہے تا قیامت رہے’
اشعارپڑھ رہے تھے جبکہ مردوں کی جانب سے نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر ۔ ‘غلام احمد کی’، ‘جے’۔ خلافتِ احمدیہ، زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ حضورِ انور جس طرف رُخ کرتے اس جانب سے ‘السلام علیکم پیارے حضور!’ کی صدائیں بلند ہونے لگتیں۔ حضور پُر نور ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اپنے عشاق کو ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دے رہے تھے اور الوداع کہہ رہے تھے۔ حضورِ انور 5؍ بجکر 58؍ منٹ سواری کے دروازہ پر پہنچے اور دعا کروائی۔ جیسے ہی اعلان ہوا کہ
‘دعا ہو رہی ہے’
نعرے لگاتا، نظمیں گاتا ہجوم چند ہی لمحوں میں ایسے ساکت ہو کر حضورِ انور کی اقتدا میں اپنے رب کے حضور اجتماعی دعا میں مصروف ہو گیا جیسے وہاں موجود افرادِ جماعت کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔
دعا کے بعد حضورِ انور سوار ہو ئے اورکچھ ہی لمحوں بعد خلیفۂ وقت، امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس کا یہ قافلہ مسجد فضل سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے سائے میں ایک مرکزِ احمدیت کو الوداع کہتا نئے مرکزِ احمدیت کی جانب عازمِ سفر ہوا۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ آج سے 35؍ برس قبل اپریل ہی کے مہینے میں اُس وقت کے مرکزِ احمدیت ‘ربوہ’ میں احمدی آج سے کسی قدر ملتی جلتی کیفیات سے گزر رہے تھے۔ 26؍ اپریل 1984ء کو شام نَو بجے کی خبروں میں پاکستان کے تیسرے آمر حکمران جنرل محمد ضیاء الحق کے جاری کردہ آرڈیننس کے اجراء کے اعلان کے بعدپاکستان بھر سے احمدی ربوہ میں جمع ہورہے تھے۔ مسجد مبارک ربوہ میں ہونے والی ہر نماز سسکیوںاور مولیٰ کے حضور آہ و زاریوں کی ایک دلخراش تصویر نظر آتی۔ اُس وقت بھی ‘‘جماعت ایک نئے روحانی دَور میں داخل ہو رہی ’’ (الفضل 4؍ مئی 1984ء) تھی اور آج بھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اُس وقت مومنین پر ایک ابتلاء کی وجہ سے بظاہر ‘خوف’ کا عالم تھا لیکن آج کے روز الٰہی نوشتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور اس کی نصرت اورخلافتِ احمدیہ کی برکت سے ‘امن’ کی کیفیت مومنین پر عیاں تھی۔ اُس وقت افرادِ جماعت کے آنسو اور سسکیاں جماعت پر آنے والے کڑے وقت میں خلیفۂ وقت کی صحت اور درازیٔ عمر کی دعاؤں کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کی جا رہی تھیں لیکن آج خلیفۂ وقت کے لیے اپنے رب کے حضور پیش کی جانے والی آنسوؤں سے تر یہ دعائیں اداسی اور خوشی اورحمید و مجید خدا کی حمد و شکر کے ملے جلے جذبات اپنے اندر رکھتی تھیں۔
سوموار کے روز نمازِ عصر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مسجد فضل سے روانہ ہونے کے ساتھ وہ دَور اختتام کو پہنچا جس کا آغاز سوموار ہی کے روز پینتیس سال قبل 30؍ اپریل 1984ء کی دوپہر نمازِ ظہرسے قبل ہوا تھا۔ اُس وقت جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پاکستان کے حالات کے پیشِ نظر انگلستان میں ‘‘بیرونی دورہ’’ کے لیے چند ماہ قیام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جیسا کہ حضورؒ نےاپنے 30؍ اپریل 1985ء کے خطاب میں فرمایا تھا کہ ‘‘سر دست میرا ارادہ تین ماہ کا دورہ ہے اور ہوسکتا ہے کچھ زیادہ ہو جائے اور چارماہ تک بھی ممکن ہے مجھے بیرونی دورہ کرنا پڑے’’۔لیکن تقدیر کو کچھ اَور ہی منظور تھا۔ اللہ تعالیٰ قادیان سے ربوہ ہجرت کے 35 سال بعد ایسے مقام پر خلیفۂ وقت کو منتقل کرنے کے سامان کر رہا تھا جہاں سے احمدیت کی ترقی کی رفتار کئی گنا زیادہ ہوجانا مقدّر تھی۔ چنانچہ خلیفۂ وقت مسجد فضل کے احاطہ میں موجود مشن ہاؤس میں سکونت پذیر ہوئے اور بظاہر اس مختصر سی رہائش اور اس سے ملحقہ دفاتر سے اسلام کی ترقی اور دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کی تربیت اور رہنمائی کا عظیم سلسلہ جاری رہا۔
ایک طرف پاکستان میں سچے مسلمان اور رسولِ اکرمﷺ کے سچے عشاق احمدیوںکو اپنے آپ کو ‘مسلمان’ کہلانے، کلمہ طیّبہ پڑھنے، نماز کو ‘نماز ’کہنے، اپنی مسجد کو ‘مسجد’ کہنے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کو ‘صحابہ’ کہنے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی پابندیوں میں جکڑ دیا گیا جن کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی تھی تودوسری جانب اللہ تعالیٰ اپنی جماعت پر افضال و انعام کی بارشیں نازل فرماتا رہا۔ چنانچہ اسی مرکز میں خلافت احمدیہ کے قیام کے دوران جن ترقیات اور انعامات سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو نوازا ان میںسرِِفہرست آج سے سولہ سال قبل 22؍اپریل 2003ء کو نمازِ عشاء کے بعد ‘مسجد فضل’ میںحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام ‘‘وہ بادشاہ آیا’’ کا عظیم الشان رنگ میں پورا ہونا ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے وصال کے بعد حضرت مرزامسرور احمد ایّدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس نے الٰہی نوشتوں کے مطابق جماعت احمدیہ مسلمہ کی قیادت بطور ‘خلیفۃ المسیح الخامس’ سنبھالی اور نہ صرف تاریخ ِاحمدیت بلکہ تاریخِ عالم کے ایک نئے درخشاں باب کا آغاز ہوا۔
اللہ تعالیٰ کا ایک اَور احسان ہجرت کے ساڑھے چار ماہ کے اندر 10؍ ستمبر 1984ء بروز سوموار جماعتِ احمدیہ کے نئے مرکز کے لیے دریائے وے (River Wey)کی دو شاخوں کے سنگم ٹلفورڈ (Tilford) میں 25؍ ایکڑ زمین کی خرید بھی تھا۔ اس کا نام ‘اسلام آباد’ رکھا گیا۔ یاد رہے کہ لندن میں قائم احمدیہ مشن کا ٹیلی گرافک ایڈریس 1921ء میں بھی ‘Islamabad London’ تھا۔ اس وقت مسجد فضل تعمیر نہیں ہوئی تھی اور لندن مشن 63 میلروز روڈ لنڈن SW18 میں قائم تھا۔ (اخبار الفضل قادیان دارالامان 31؍ مارچ 1921ء)۔
اسلام آباد میں 1939ء کے تعمیر شدہ لکڑی کے کچھ گھر اور 60ء کی دہائی میں تعمیر کیا جانے والا ایک بنگلہ موجود تھا۔ جماعتِ احمدیہ کی انتظامیہ ان کو مرمت وغیرہ کر کے انہیں واقفینِ زندگی اور کارکنان کی رہائش کے لیے زیرِ استعمال لاتی رہی اورجیسا کہ حضورِ انور ایّدہ اللہ نے فرمایا کہ اگرچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا اس جگہ نیا مرکزِ احمدیت قائم کرنے کا ارادہ تھا لیکن ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ چنانچہ آج حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ کے بابرکت دور میں یہ ارادہ پورا ہو رہا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
اس مرکز میں گزرنے والے پینتیس سال کی تمام ترقیات کا احاطہ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس دوران جماعت احمدیہ نہایت کامیابی کے ساتھ ‘صدسالہ جوبلی جماعت احمدیہ1989ء’ اور ‘صدسالہ جوبلی خلافتِ احمدیہ2008ء’ کے سنگِ میل سے گزری۔ ایم ٹی اے کی عظیم الشان نعمت جماعت کو اس دور میں نصیب ہوئی۔ وقفِ نَو کی بابرکت تحریک اسی دور کا پھل ہے۔ عالمی جلسوںکا انعقاد بھی اسی دَور میں شروع ہوا کہ پاکستان میں خلیفۂ وقت کی آواز کو دبانے کی کوشش کے جواب میںاللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے کی آواز کو دنیا بھر میں بسنے والے ہر خاص و عام کے گھر تک پہنچا دیا۔
خلیفۂ وقت نے اسیرانِ راہِ مولیٰ اور شہدائے احمدیت کے لواحقین کے لیے ‘سیّدنا بلال فنڈ’ کی تحریک جاری فرمائی اور پھر اُس کی تجدید بھی ہوئی۔ اسی دَور میں مریم شادی فنڈ کا اجراء ہوا اور اسی دَور میں سانحہ مسجد بیت الفتوح کے بعد اس کی تعمیرِ نَو کے لیے دنیا بھر کے احمدیوں کو چندے کی تحریک ہوئی۔ خلافتِ احمدیہ کے لندن منتقل ہونے تک دنیا کے 91؍ ممالک میں جماعت احمدیہ کا نفوذ ہو چکا تھا۔ جلسہ سالانہ 2018ء تک یہ تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 212؍ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کو قرآن پاک شائع کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن اسی مرکز اور مرکز کے دِل خلیفۂ وقت کے وجود کی برکات کے طفیل جماعت احمدیہ مسلمہ کو 75؍ زبانوں میں تراجمِ قرآنِ کریم شائع کی توفیق حاصل ہو چکی ہے۔ پاکستان میں جلسہ سالانہ کے انعقاد پر پابندی عائد کی گئی تو یہ جلسے چند ممالک میں ہوتے تھے، اب ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا کے نوّے کے قریب ممالک میں جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہو رہا ہے۔ تحریکِ جدید، وقفِ جدید، نظامِ وصیّت کے شاملین اور چندوں کے اعداد و شمار کا موازنہ ہو، ملک ملک تعمیر ہونے والی مساجد اور پہلے سے قائم شدہ مساجد میں نمازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر وسعت کا تذکرہ، وقفِ نَو کی بابرکت تحریک کا ثمر آور ہونا ہو یا ایم ٹی اے کی نشریات کا دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی روحانی تسکین کے لیے مختلف زبانوں میں آغاز، ریڈیو اسٹیشنز ہوں یا انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کی تشہیر،کسی بھی لحاظ سے اس دَور کے اختتام پر جماعت احمدیہ کا قدم خلافتِ احمدیہ کی بے مثال قیادت میں حیرت انگیز طور پر کئی منازل آگے دکھائی دیتا ہے۔
نئے مرکز میں ہونے والی تعمیرات
جیسا کہ حضورِ انور نے اپنے خطبہ جمعہ 12؍ اپریل میں بھی فرمایا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسجد فضل کے قریب واقع گھروں میں ضرورت کے تحت دفاتر کو قائم کیا گیا تھا۔ اس نئے مرکز میںخلیفۂ وقت کی رہائش کے ساتھ کارکنان اور واقفین کی رہائش نیز مرکزی دفاتر بھی قائم کیے گئے ہیں۔ اس احاطے کے اندر قائم کیے گئے دفاتر میں پرائیویٹ سیکرٹری آفس، ایڈیشنل وکالت تبشیر، ایڈیشنل وکالت مال، وکالت تعمیل و تنفیذ برائے انڈیا، نیپال و بھوٹان شامل ہیں۔
حضورِ انور کا اسلام آباد ورودِ مسعود
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شام چھے بجے کے قریب مسجد فضل لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئےتھے۔ حضورِ انور کا قافلہ شام 6؍بجکر 48؍ منٹ پر اسلام آباد کے صدر دروازہ سے احاطہ میں داخل ہوا۔ 6؍ بجکر 49؍ منٹ پر حضورِ انور اسلام آباد کی سرزمین پر، قصرِ خلافت کے دروازہ کے سامنے اترے۔اس وقت سینکڑوں احمدی مرد و زَن اور بچوں بچیوں نے حضورِ انور کا استقبال درج ذیل قرآنی دعاؤں کے ورد کے ساتھ کیا:
٭…رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
٭…رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا
حضورِ انور کچھ دیر وہاں رونق افروز رہے۔ اس دوران حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں شیرینی بھی پیش کی گئی۔ اس پُر مسرّت موقع پر حضورِ انور کے پُر وقار چہرے پر کھلتی تبسّم کو دیکھ کر عشّاقانِ خلافت اللہ تعالیٰ کے حضور شکر اور حمد میں اَور بھی زیادہ مصروف ہو جاتے۔ کچھ لمحوں بعد یعنی شام 6؍بجکر51؍ منٹ پر حضورِ انور نے قصرِِ خلافت کے صدر دروازہ کے اندر قدم رکھا۔چیئر مین اسلام آباد ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کمیٹی مکرم مبارک احمد ظفرؔ صاحب نے حضورِ انو رکی خدمتِ اقدس میں ایک باکس پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس میں قصرِِ خلافت کی چابیاں موجود تھیں۔ حضورِ انورشام 6؍بجکر 53؍ منٹ پر قصرِِ خلافت کی عمارت کے اندر تشریف لے گئے۔ گھر کے اندر بعض خواتین نے حضورِ انور کا استقبال عربی اشعار
طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَا مِنْ ثنیات الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُعَلَیْنا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
پڑھ کر نیز حضورِ انور اور حضرت آپا جان سیدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کر کے کیا۔
حضورِ انور کے استقبال کے لیے اسلام آباد پہنچنے والے احبابِ جماعت کے لیے اس خوشی کے موقعے پر شیرینی اور کھانے کا انتظام تھا۔ احباب کھانے سے فارغ ہو کر ‘مسجد مبارک’ میں نماز کی ادائیگی کے لیے پہنچنے لگے۔
حضورِ انور نے سوا آٹھ بجے رات قصرِخلافت سے مسجد مبارک میں تشریف لا کر نمازِ مغرب پڑھائی۔ یہ مسجد مبارک میں پڑھائی جانے والی پہلی نماز تھی۔ اس پہلی نماز سے قبل اذان دینے کی سعادت مکرم محمد سلیم ظفرصاحب (واقفِ زندگی) کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے حصہ میں آئی۔
حضورِ انور کے خطبہ جمعہ کے بعد دنیا بھر سے عشاقانِ خلافتِ احمدیہ حضورِ انور کے استقبال کے لیے لندن اکٹھے ہونا شروع ہو چکے تھے۔ چنانچہ اس روز امریکہ کے علاوہ جرمنی اور یورپ کے کئی ممالک سے احبابِ جماعت جبکہ برطانیہ کی تقریبا تمام جماعتوں سے نمائندگان حضورِ انور کے استقبال کے لیے حاضر تھے۔
اس بابرکت اور پُر مسرّت موقع پر دنیابھر میں بسنے والے احمدی شعراء کو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور خلافت اور احمدیت کے لیے دعاؤں پر مشتمل کلام کہنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ ان میں سے بعض ان شاء اللہ الفضل انٹرنیشنل کی آئندہ اشاعتوں میں شامل کیے جائیں گے۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل اس تاریخی موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ الودود بروح القدس اور دنیا بھر میں بسنے والے تمام احمدیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ دعا ہے کہ ‘‘ اللہ تعالیٰ اسلام آباد سے اسلام کی تبلیغ کے کام کو پہلے سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’صرف مکانیت کی وسعت کا ذریعہ ہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کی تکمیل میں وسعت کا ذریعہ بھی بنے۔… اللہ تعالیٰ اس منصوبے کو اور (خلیفۂ وقت اور مرکزِ احمدیت کے)وہاں منتقل ہونے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ ’’ آمین
٭…٭…٭